نذیرانبالوی کی آپ بیتی ۔ایک جائزہ


تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ: [email protected]


معروف ادیب اورماہر تعلیم نذیر انبالوی کے نام سے کون واقف نہیں ہے، عمدہ لکھتے ہیں اور ہر کہانی قارئین پر خوب اپنا رنگ چھوڑتی ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی آپ بیتیوں کے مجموعے ”آپ بیتیاں“ میں شامل آپ بیتی پڑھنے والوں کو ایک ایسی دنیا کی سیر کرواتی ہے جو کہ بے حد انوکھی، دل چسپ اورافسانوی سی محسوس ہوتی ہے لیکن جب بیان کیے گئے واقعات کو سمجھا جاتا ہے تو بہت کچھ ایسا نظرآتا ہے جو ہمیں اپنے اردگرد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔




”آپ بیتیاں“ کے مجموعے میں تیس نامور ادیبوں اورمدیران کی آپ بیتیاں شامل ہیں جن میں سے ایک آپ بیتی ”نذیر انبالوی صاحب کی ہے۔
نذیر انبالوی صاحب بچوں کے رسائل میں کیسا لکھتے ہیں یہ تو ان کے قارئین بخوبی جانتے ہیں تاہم اُنہوں نے اپنی زندگی کی روداد کیسی لکھی ہے یہ قارئین کو“ آپ بیتیاں“ پڑھنے کے بعدبخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے وہ کڑوے سچ بھی بیان کر دیئے ہیں جو اکثر ادیب لاکھ پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔




پاکستان میں میرے خیال میں اور کوئی ادب اطفال ادیب اتنی محنت نہیں کر رہا ہے جتنی محترم نذیر انبالوی صاحب مسلسل کئی دہائیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں جس کا واضح ثبوت پانچ ہزار سے زائد طبع زاد کہانیاں ہیں، اتنی مقدار میں طبع زاد کہانیاں لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہ ان کے معیار کو بھی خوب اُجاگر کرتی ہیں کہ اس قدر شاندار لکھتے ہیں کہ مدیران مسلسل شائع کرتے ہیں، یہ کیا معمولی بات ہے کہ کوئی قلم کار مسلسل سوکہانیاں ایک نہیں دو باررسائل میں لکھے اورقارئین سے داد بھی خوب وصول کرے۔
راقم السطور نے جب سے نذیرانبالوی صاحب کی کہانیاں پڑھنا شروع کی ہیں، اُن کے مشاہدے اور مسلسل لکھنے کی صلاحیت متاثر کر رہی ہے۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ وہ ادب اطفال کے بیشتر رسائل کی تحریروں پر خوب نظر رکھنے کے ساتھ پڑھتے بھی ہیں۔ پاکستان میں یہ بچوں کے واحد ادیب ہیں جو پاکستان بھر میں شائع ہونے والے رسائل کا مطالعہ کرتے ہیں اورہر لکھاری کے طرز تحریر سے واقف ہیں اورانفرادیت کے حامل قلمکاروں کے نام تک ذہن نشین رہتے ہیں جو کہ ان کی ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔ادبی رسائل میں بچوں کے ادب کے حوالے سے شائع ہونے والی سرگرمیوں سے بھی خوب واقف رہتے ہیں۔




ادب کی دنیا میں بہت کم ایسا دیکھنے کوملتا ہے کہ کسی ادیب کو زندگی میں ہی سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا جائے،ا س حوالے سے کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ انوکھی کہانیاں کے مدیر اعلیٰ محبوب الہیٰ مخمورصاحب نے جون2021میں ”نذیر انبالوی نمبر“ شائع کیا جو نذیر انبالوی صاحب کی ادبی خدمات کا معمولی سا اعتراف کہا جا سکتا ہے کہ کہانیوں اورعملی طورپر نوجوانوں کی تربیت و کردار سازی کرنا اپنی جگہ ایک بڑا کارنامہ ہے اسی بنا ء پر وہ ہمیشہ ادب اطفال میں یاد رکھے جائیں گے۔




نذیر انبالوی صاحب کے حوالے سے معروف ادیب نوشا د عادل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
”لکھاری تو اور بھی بہت سے اچھے بھی ہیں، مگر نذیر انبالوی ایک ادیب سے زیادہ اچھے، بردبار، رکھ رکھاؤ والے، نستعلیق انسان بھی ہیں۔ یہ خوبیاں اچھے ادیب سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔“۔




جاوید بسام صاحب کے بقول”نذیر انبالوی صاحب بچوں کے ادب کا ہمالیہ ہیں“۔




آپ بیتیاں کے مجموعے میں شامل نذیر انبالوی صاحب کی آپ بیتی کے کئی واقعات آپ کو حیرت زدہ کر تے ہیں ابھی یہی واقعہ دیکھ لیں کہ جب اُن کی اولین کہانی شائع ہوئی تو اُن کا ردعمل کیا تھا اورآج کے کئی نئے لکھنے والوں کو یہ پڑھ کر احساس ہوگا کہ واقعی لکھنے والوں کے خوشی اورغم کے جذبات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

”سارے دن کی محنت کے بعد ایک کہانی”محنت کا پھل“(کہانی کا نام شاید یہی تھا‘کبھی یاد پڑتا ہے کہانی کا نام ”نیکی کا صلہ تھا“)لکھی اگلے ہی دن کہانی اطہر ہاشمی صاحب کی میز پر تھی۔انہوں نے کہانی پڑھی۔حوصلہ افزائی کی اور مسلسل لکھنے اور پڑھنے کی تلقین کی۔یہ کہانی 15 جولائی 1981ء کو ”پھول اورکلیاں“میں شائع ہوئی۔ اپنی پہلی کہانی کی اشاعت پر جو خوشی ملی اب اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔سب کو اپنی کہانی دکھائی۔کسی نے کہانی پسند کی اور کسی نے ناپسند یوں میرے ادبی سفر کا آغاز ہوگیا“۔




آج کے دور میں کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لئے لکھنے والوں کو بھرپور معاوضہ نہیں ملتا ہے تاہم اس کے باوجود جو بھی ملتا ہے وہ جس قدرخوشی دیتا ہے وہ ایک قلم کار سے زیادہ کوئی نہیں جا ن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اعزازیہ ملنے پر بھی حیرت ہوتی ہے جو کہ بہت ہی دل چسپ بات ہے۔بچوں کی کردار سازی کرنے والوں کو جب خطیر معاوضہ نہیں دیں گے تو پھر یہ بتائیں کہ اچھے لکھنے والوں کس طرح سے قلم سے رشتہ جوڑ سکیں گے۔بچوں کے ادیبوں کو معاوضہ ملنا چاہیے کہ وہ جب ملتا ہے تو لکھاری خوب مسرت محسوس کرتا ہے۔آپ کو اگر یقین نہیں آتا ہے تو آپ نذیر انبالوی صاحب کی آپ بیتی میں شامل اس جملے کو دل کی گہرائی سے محسوس کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج بھی ایک قلم کار اعزازیہ کی خوشی کو کچھ یوں ہی محسوس کرتا ہے۔
”بچوں کا ڈائجسٹ“سے پہلی مرتبہ ایک کہانی ”اچھے ناموں سے پکارو“پر پچاس روپے کا اعزاز یہ ملا تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔گھر آتے ہوئے راستے بھر کئی مرتبہ جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر دیکھا“۔




نوشاد عادل کے حوالے سے نذیر انبالوی صاحب کچھ یوں اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں۔
ؔؔنوشاد عادل نے میرے لکھنے کی رفتار دیکھ کر مجھے ”جن رائٹر“کا خطاب دیا“۔




سائنسی بابو ڈاکٹر طارق ریاض خان کے بارے میں نذیر انبالوی نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ اس کو پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ قلمکاروں کو آپ بیتی لکھنی چاہیے کہ اس سے آپ وہ سب کہہ سکتے ہیں جو ہماری ذات تک یا پھر چند افراد تک محدود رہتا ہے جب آپ ایسی باتوں کو جن کے اثرات دور رس ہوتے ہیں ان کو بیان کرتے ہیں تو بہت کچھ تبدیل بھی ہوتا ہے اورکسی کوحوصلہ بھی ملتا ہے۔ یہاں بڑے حوصلے کے ساتھ نذیر انبالوی صاحب نے یہ بتایا ہے کہ انہوں نے کس طرح ایک آئیڈیا دیا اورکسی کی زندگی میں انقلا ب برپا کر دیا۔یہاں ایک سبق ہے کہ ہر بار انفرادیت اپنی بجائے کسی اورکے لئے بھی سوچی جائے تو وہ بھی ایک اعزاز ہوتی ہے جس کی خوشی ویسی ہی ہوتی ہے جیسے ہم اپنی کامیابی کے حصول پر محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح سے ایک مدیر کی ذمہ داریوں کو بھی خوب بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجئے۔
”تعلیم و تربیت میں ڈاکٹر طارق ریاض خان (سائنسی بابو) حقیقت میں اس وقت سائنسی بابو بنے جب ان کو ”بچوں کا انسائیکلو پیڈ یا کا آئیڈیا دیا۔یہ سلسلہ پہلی قسط ہی سے بچوں میں مقبول ہوگیا۔گذشتہ پانچ سال سے یہ سلسلہ تعلیم و تربیت میں چھپ رہا ہے جو اس کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔میں نے ساڑھے تین سال تک اپنے تخلیقی کام کو پس پشت ڈال کر صرف ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا اور رسالے کے معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کی۔دن رات مسلسل کام کیا جس سے میری صحت بھی متاثر ہوئی۔رسالے کو بر وقت لانے کے لیے تن تنہا کام کرنا پڑتا تھا۔ادارت کے ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ او رآرٹ کے امور کو بھی مجھے دیکھنا ہوتا تھا“۔




آپ کے علم میں ہوگا کہ دوسروں کو سراہنا معمولی بات نہیں ہے یہ وہی کر سکتے ہیں جو کہ اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں۔ نذیر ابنالوی صاحب نے ماہ نامہ انوکھی کہانیاں اورمحبوب الہی مخمور صاحب کا ذکر کچھ یوں اپنی آپ بیتی میں کرکے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
”انوکھی کہانیاں“بچوں کے لیے گزشتہ تین عشروں سے شائع ہونے والا رسالہ ہے۔محبوب الٰہی مخمور بہت محنتی اور قابل ایڈیٹر ہیں۔ذاتی حیثیت سے اتنے عرصہ تک رسالے کی اشاعت کو جاری رکھنا قابل ستائش کام ہے اور اب اس رسالے پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا رہا ہے جوادب اطفال میں کسی بھی رسالے لے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے اور جون 2021 ء میں انوکھی کہانیاں نے نذیر انبالوی نمبر شایع کیا، جس کا میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتاہوں۔ واقعی انوکھی کہانیاں ادب اطفال میں انوکھی روایت کا امین ہے“۔




نذیر انبالوی صاحب نے اپنی آپ بیتی میں واقعی دل کو کھول کر بیان کیا ہے، جہاں اُن کو کچھ کہنا تھا اُنہوں نے کھل کر بیان کیا ہے جیسے علی اکمل تصور صاحب کے بارے میں انہوں نے بنا خوف کے تذکرہ کیا ہے، وہیں اپنے ایک انٹرویو کے حوالے سے بھی بات بیان کی جس کی اشاعت نے اُن کو سیخ پا کر دیا تھا۔اُنہوں نے تب بھی جرات کا مظاہرہ کرکے حق گوئی کی اورغلطی کو تسلیم کروایا۔اسی حوالے سے کچھ یوں اپنی آپ بیتی میں تذکرہ کرتے ہیں۔
”ہمارے ہاں عام طور پرکسی غلطی کی نشان د ہی کو تنقید تصور کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں تنقید سے اصلاح او ربہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔میں نے بارہا شعبہ بچوں کا ادب کے حوالے سے اپنی گزار شات کیں مگر ان پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا“۔




قلم کار کس طرح سے اپنی سوچ کو لفظوں کا روپ دے کر سامنے لاتے ہیں اس حوالے سے بھی انہوں نے آپ بیتی میں تذکرہ کیا ہے جس کامختصر احوال ذیل میں بیان ضرور کرنا چاہوں گا۔
”ادیبوں کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ اپنے موڈ اور خاص ماحول میں لکھنے کے عادی ہوتے ہیں جب ان کو من پسند ماحول میسر آتا ہے تو وہ بہتر اور اچھا ادب تخلیق کرپاتے ہیں۔میں اپنے حوالے سے یہ کہوں گا کہ جب کسی موضوع پر لکھنا ہوتا ہے تو اس پر خوب غور کرتا ہوں‘اس کا خاکہ بناتا ہوں‘اہم نکات لکھتا ہوں۔کہانی کے کرداروں کے ناموں کا فیصلہ کرتا ہوں‘یہ سب کرنے کے بعد لکھنے کا مرحلہ آتا ہے۔اب سوچے ہوئے خیال کو صفحات پر کس جگہ جاکر منتقل کیا جائے“۔


”جس دن کہانی لکھنا ہو تی ہے اس دن میں ہوتا ہوں اور میری کہانی میرے ساتھ ہوتی ہے۔اس پر کام عموماً ایک دو دن پہلے شروع کرتا ہوں او رمیری کوشش ہوتی ہے کہ کہانی ایک ہی نشست میں لکھو ں۔نثر نگاری یکسوئی مانگتی ہے اس کے لیے دیگر کاموں کو وقتی طور پر چھوڑنا پڑتا ہے۔ایک نشست میں تحریر مکمل نہ ہو تو خیالات کے منتشر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ایسا مختصر کہانی میں ہوتا ہے۔طویل ناول وقفہ دے کر لکھے جاسکتے ہیں۔کہانی لکھنے سے پہلے ابتدائی خاکہ بنانے سے بہتر کہانی لکھی جاسکتی ہے“۔




پھول بڑا مقبول یہ سب جانتے ہیں لیکن یہاں جو راقم السطور آپ بیتی میں شامل ایک انکشاف بیان کر رہا ہے وہ شاید ہی کسی کے علم میں ہو۔
”بہت کم لوگوں کو اس بابت کا علم ہے کہ ”پھول“1992ء میں 21دن تک سب ایڈیٹر رہا ہوں۔ان 21دنوں میں مجھے محسوس ہوا کہ نذیر انبالوی اسی رسالے تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔لہٰذا ایک دوپہر کھانے کا وقفہ ہوا اور میں واپس ”بچوں کے ادب“میں آگیا۔پھر تین سال تک بے روزگاری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔مگر بچوں کے ادب سے محبت میں ذرہ برابر بھی کمی نہ ہوئی۔میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں اتنا ہی کم ہے کہ میری تحریر وں کو قارئین اپنی پسندیدگی کی سند عطا کرتے ہیں“۔




نئے لکھنے والوں کے بارے میں بھی نذیر انبالوی صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اوراپنے محسنوں کا بھی خوب شکریہ ادا کیا ہے جو کہ اُن کے بڑے انسان ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے۔


”میں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی بھرپور رہنمائی کی ہے۔”ادیب کورس“کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے لکھنے والے ہر وقت میرے رابطے میں رہے ہیں۔ان میں نمایاں نام محمد فہیم عالم‘محمد علی ادیب‘محمد نادر کھوکھر‘نعیم امین اورغلام مصطفےٰ قادری کے ہیں۔ محمد فہیم عالم اب بچوں کے ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں‘ وزارت مذہبی امور سے متعدد مرتبہ اور یو بی ایل ادبی ایوارڈ ایک مرتبہ اور تین مرتبہ دعوۃ اکیڈمی شعبے بچوں کا ادب سے ایوارڈ لے چکے ہیں۔ان کی ترقی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں ان کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتا ہوں۔محمد علی ادیب ابھرتے ہوئے ادیب ہیں“۔


”عہد حاضر کے سینئر بچوں کے ادیبوں میں مسعود احمد برکاتی‘اشتیاق احمد‘ضیاء الحسن ضیا‘امان اللہ نیئر شوکت‘عبدالعلی‘حفیظ الرحمن احسن‘ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر‘کلیم چغتائی‘محمد علی چراغ‘افق دہلوی‘امتیاز عارف‘مجیب ظفر انواری حمیدی‘اسلام نشتراوراحمد حاطب صدیقی‘اور اپنے ہم عصروں میں محمد شعیب مرزا‘حافظ مظفر محسن‘محمد عارف عثمان‘محبو ب الٰہی مخمور‘اختر عباس‘محمد نعیم بلوچ‘اشفاق احمد خاں‘حاجی لطیف کھوکھر‘جدون ادیب‘عبدا لرشید فاروقی‘محمد فاروق دانش‘غلام حسین میمن‘نوشاد عادل(جس کے اُکسانے‘ڈرانے اور باربار اصرار پر یہ آپ بیتی لکھ پایا ہوں)علی اکمل تصور‘ڈاکٹر عمران مشتاق‘وسیم خان‘محمد طارق سمرا‘غلام محی الدین ترک‘ضیا ء اللہ محسن‘ آصف مجید‘کاشف بشیر کاشف‘ٖمحمد ندیم اختر، راشد علی نواب شاہی‘انسپکٹر احمد عدنان طارق‘الطاف حسین‘ علی حسن ساجد‘خواجہ مظہر نواز صدیقی‘محمد عادل منہاج‘ ڈاکٹر طارق ریاض خان‘عبدالصمد مظفر‘رانا محمد شاہد اورمحمد ادریس قریشی سے مثالی او ردوستانہ مراسم ہیں۔یہ سب لوگ بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنے اپنے انداز میں مصروف کار ہیں“۔
میری نظر میں نذیر انبالوی صاحب کی آپ بیتی کسی بھی کم حوصلہ، ناکام اورزندگی سے پریشان انسان کو ضرورپڑھنی چاہیے کہ اس میں وہ سب کچھ ہے جو اُس کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔اگرآپ دوسروں کو بنا مطلب کے کامیابی کی راہ پر گامزن کرانا چاہتے تب بھی آپ کو نذیر انبالوی صاحب کی آپ بیتی کو پڑھنا چاہیے۔اگرآپ نذیر انبالوی صاحب کا ظاہر وباطن سمجھنا چاہتے ہیں تو بھی آپ کو یہ آپ بیتی مکمل معلومات فراہم کرتی ہے کہ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں سب کچھ عیاں کر دیا ہے۔




”آپ بیتیاں“ کتاب میں شامل نامور ادیبوں کی آپ بیتاں آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں کہ کامیاب افراد نے کیسے کامیابی حاصل کی ہے، اگر آپ نے یہ جان لیا تو آپ بھی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔اس لئے بے مثال اورتاریخی اہمیت کی حامل کتاب کا ضرور مطالعہ کیجئے۔یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے جو کہ ادیبوں کو آنے والے وقت میں بھی متعارف کرواتا رہے گا۔




اپنے من پسند ادیبوں کے حالات زندگی پر شائع ہونے والے مجموعے کو ضرور خرید کر اپنے کتب خانے کی زینت بنائیں۔یہ آپ کی ادب سے محبت کا بہترین ثبوت ہوگا۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ دوسروں کی زندگی ہمارے لئے ایک سبق بھی ہوتی ہے ہم ان کی زندگی سے سیکھ کر خود بھی کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، آپ کے سامنے ایک مثال نذیر انبالوی صاحب کی ہے، دیگر انتیس مدیران اورادیبوں کے حالات زندگی آپ میں وہ جوش اورولولہ پیدا کرسکتے ہیں کہ آپ بھی کامیابی کے حصول تک چین سے نہ بیٹھیں۔




ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔اس کتاب کے مدیران میں محبوب الہی مخمور اورنوشاد عادل جبکہ راقم السطور (ذوالفقار علی بخاری) معاون مدیر ہیں۔
"آپ بیتیاں " حصہ دوم 704 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 120 صفحات پر ادیبوں اور مدیران کی نایاب تصاویر شامل ہیں۔
الہٰی پبلی کیشنز
واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372
95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان
ای میل: [email protected]
۔ختم شد۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523048 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More