روبرو ہے ادیب: علیشہ چوہدری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر وملاقات: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
برقی پتہ: [email protected]
ہمارے ہاں مثبت سوچ کے حامل اوربااعتماد افراد کی کمی نہیں ہے اگرچہ ایسے افراد کی تعداد کم نظرآتی ہے لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو محدود وسائل کے ساتھ بھی تبدیلی کے لئے اپنی جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک علیشہ چوہدری بھی ہیں جو کہ قلم کے ذریعے جہاد کر رہی ہیں۔
ایک وقت تھا جب یہ کھیل کے میدان سے بھی وابستہ تھیں اورخوب اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی تھی پھر جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے کہ ان کو نامساعد حالات کی وجہ سے خود کو کھیل کے میدان سے دور کرنا پڑا۔علیشہ چوہدری کی سوچ مثبت ہے انہوں نے پردے کو کمزوری نہیں بنایا ہے اوراپنی ذات کو منوانے کے لئے عملی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی جہدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔۔
علیشہ چوہدری نے کرکٹ کے کھیل میں ضلعی سطح تک نمائندگی کی ہوئی ہے اوران کی اس کھیل سے دلچسپی ادب سے رشتہ جڑنے کے بعد بھی قائم ہے۔ علیشہ چوہدری کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جو کہ اپنی جنگ اکیلے بھی لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، صاف کھری اور سچی باتیں کرنے سے گھبرانا پسند نہیں کرتی ہیں اسی وجہ سے دوستوں کا حلقہ بھی محدود رکھتی ہیں۔ ہمارے ہاں نئے قلم کاروں کو نامور ادیبوں کی جانب سے سراہنے کی روایت قائم ہے اوریہی وجہ ہے کہ جب اُن کو خوب پذیرائی ملتی ہے تو اُن میں مزید بہترین کرنے کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔
اسی حوالے سے ماہ نامہ انوکھی کہانیاں کے مدیر اعلیٰ جناب محبوب الہی مخمور صاحب نے علیشہ چوہدری کو کچھ ان الفاظ میں سراہتے ہوئے داد ی تھی۔ ”بچوں کے ادب میں علیشہ چوہدری، جام پور ایک اچھا اضافہ ہیں گذشتہ دنوں ان کی چند تحریریں نظر سے گزری ہیں ان کا انداز تحریر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ تھوڑی سی اور محنت کریں گی تو اچھا لکھنے لگیں گی۔ ان میں مطالعہ اور لکھنے کی لگن یہ ظاہرکرتی ہے کہ علیشہ چوہدری ادب اطفال کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور یہ مضمون(نامور ادیبوں کی انوکھی آپ بیتیاں) بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ میں انھیں اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں“۔
انہی سے حال ہی میں ایک ملاقات کی گئی ہے جس میں مختلف معاملات پر بات چیت کی گئی ہے جس کی روداد ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
سوال: آپ کو کب محسوس ہوا کہ آپ لفظوں میں اپنی سوچ کو بیان کرسکتی ہیں؟ جواب: مجھے بچپن سے ہی شوق تھا کچھ کرنے کا میں اکثر کچھ نہ کچھ لگی رہتی تھی۔ دوستوں نے اور فیملی نے کہا آپ اچھا لکھ سکتی ہو لکھو۔ اس کے بعد میں لکھنا شروع کیا لیکن شائع کروانے کے لئے کوئی طریقہ نہیں معلوم تھا کیسے ہوگا کس سے کہا جائے، کچھ لوگوں سے بات لیکن وہ پیسے ہی بہت مانگتے تھے، اس طرح کی کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: بچپن کی حسین یاد کونسی ہے؟ جواب: میرا حسین بچپن بہت ہی یاد گار رہا ہے۔ہمارا شمار اُن بچوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مٹی اور ریت کے گھر بنائے۔میرا سارا بچپن گاؤں میں گزار ہے۔ قدرت کے حسین نظارے دیکھتے ہوئے اور شاندار گزرا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال:آپ کے خیال میں نوجوان شعرا / لکھاریوں کو بھرپورحوصلہ افزائی مل رہی ہے؟ جواب: ہاں جی۔ نوجوان نسل کی بہت حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور لکھنے کے بعد اْس کو شائع کروانے کے لیے بھی بہت آسانی ہوگئی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال:آپ کے گھروالوں نے کبھی لکھنے پراعتراض کیا؟ جواب: شروع شروع میں ابو کی طرف سے تھوڑا سا اعتراض ہوا تھا۔لیکن اب نہیں ہے ایسا کچھ۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کی زندگی کی آج تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟ جواب: میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی جب میری تحریر پہلی بار شائع ہوئی۔کیونکہ مجھے شروعات میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کے خیال میں خواتین قلمکاروں کو بھرپو رپذیرائی دی جارہی ہے؟ جواب: ہاں جی۔ خواتین کو بھر پور پذیرائی دی جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کے خیال میں آج کی عورت کا آزادی کا نعرہ درست ہے؟ جواب: نہیں!یہ درست نہیں ہے۔ ہمارا دین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے۔میں اس کی چھوٹی سی مثال پیش کرتی ہوں۔ ایک شخص کے پاس بہت ساری بکریاں تھیں۔وہ شخص ہر وقت ان کو باندھ کر رکھتا تھا۔ اْس کے گھر کے کچھ فاصلے پر ہی ایک ہرا بھرا جنگل تھا جس کو بکریاں دیکھتی اور وہاں جانے کی کوشش کرتیں مگر بندھے ہونے کی وجہ سے جا نہیں سکتی تھیں۔ایک دن سب نے مل کر رکاوٹ توڑ کر جنگل میں جانے کا ارادہ کیا اور جب وہ شخص نہیں تھا تو وہ جنگل کی طرف چلی گئیں۔جنگل میں بھیڑیے نے ان کو پکڑ لیا اور کھانا شروع کر دیا اب ان کے پاس جان بچانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔یہی حال ہمارے نوجوان نسل کا ہے۔ان کو بھی ہرا بھرا جنگل نظر آتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: بچوں کی اچھی تربیت کیسے کی جا سکتی ہے؟ جواب: اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس مقام تک پہنچنا ضروری ہے۔ویسے میرے خیال میں ماں باپ میں اتفاق ہونا چاہیے۔ ایک کسی بات سے منع کرتا ہے تو دوسرا اجازت دیتا ہے ایسا نہ ہو اور بے جا روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے، اس سے بچوں میں بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کی اب تک کتنی تحریریں شائع ہو چکی ہیں؟ جواب: اب تک میرے چالیس کالم اور کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: کیا آپ خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کی حمایت کرتی ہیں؟ جواب:جی بالکل کیوں نہیں خواتین کسی سے کم نہیں ہیں ان کو ضرور کھیلوں میں حصہ لینا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کو کرکٹ کے کھیل سے کیسے دلچسپی ہوئی تھی؟ جواب: کرکٹ کھیلنے کا شوق بچپن سے ہی تھا میرے ابو جان بھی آفس سے واپس آ کر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے بس ان کو دیکھ کر مجھے میں اس کا شوق پیدا ہوا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں؟ جواب: لکھنا، کوکنک کرنا،باغ بانی کرنا،ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے میں لگی رہتی ہوں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: کیا ادبی دنیا میں اپنا نام بنانے کیلئے انفرادیت ضروری ہے؟ جی ہاں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: آپ کن موضوعات پر لکھنا پسند کرتی ہیں، یہ بھی بتائیں کہ ادبی دنیا میں آخر کیسا محسوس ہوا ہے؟ جواب: مجھے ہر موضوع پر لکھنا پسند ہے وہ لکھاری ہی کیا جو صرف گنے چنے موضوعات پر قلم اٹھائے۔ ادبی دنیا میں شامل ہو کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال:ادبی دنیا میں کن اقدامات کو ناپسندیدہ قرار دیتی ہیں؟ جواب:ناپسندیدہ اقدامات میں ایک تو اگر کسی لکھاری کی تحریر شائع ہو جائے تو ادارہ اْس کو آگاہ نہیں کرتا اور میگزین والے کم از کم لکھاری کو ایک میگزین یا رسالہ جس میں اْس کی کہانی یا نظم شائع ہوئی ہو بطور انعام دیاجائے لیکن بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی نئی لکھاری کی، سو میں سے دو چار لوگ ہیں جو حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کو آگے لے کر آتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی؟ جواب: بغیر کسی کو جانے اْس کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور اگر تبدیلی چاہتے ہیں اپنے معاشرے میں تو سب سے پہلے خود کو تبدیل کریں۔
۔ختم شد۔ |