ادبی ساکھ، کتاب اورلکھاری


ازقلم: ذوالفقار علی بخاری

’’ کتاب بکتی نہیں ہے‘‘ ۔
’’ کتب بینی کا رجحان کم ہو گیا ہے‘‘۔

یہ سب تو بیشتر قارئین سنتے رہتے ہونگے شاید بہت سے احباب نے جناب سعود عثمانی کا شعر بھی سن رکھا ہوگا:
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

فرانس کے انقلابی دانشور والٹیر نے کہا تھا: ’’انسانی تاریخ میں چند وحشی و غیر مہذب قوموں کو چھوڑ کر لوگوں پر صرف کتابوں کی حکومت ہے‘‘۔

ہمارے ہاں مطالعے کا شو ق بے حد کم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے آج کے دور میں کتابیں خریدنے کا رجحان اگرچہ کم ہو اہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کتاب سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔آج بھی کئی لوگ اچھے ناول اوربہترین کتب کو تلاش کرتے نظرآتے ہیں ۔جہاں عمدہ ناول اورکتاب نظرآئے وہ خرید لیتے ہیں یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ قارئین کی آج بھی اولین ترجیح بہترین ادب کی تلاش ہے جو بہت کم ہی معیاری دکھائی دیتا ہے۔

اس معیار کے گرنے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بہت سے ایسے ادبا و شعراسامنے آچکے ہیں جن کی تخلیقات میں دم نہیں ہوتا ہے تاہم وہ محض اپنے حلقہ احباب کی پُرزور فرمائش پر صاحب کتاب بننے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کثیر تعدادمیں غیر معیاری کتب قارئین تک پہنچتی ہیں اوروہ پھر اپنے بچوں کو بھی یہ سوچ کر مطالعے سے دور کرتے ہیں کہ اس سے اُن کا اخلاق مزید بگڑ جائے گا۔ اسی وجہ سے آج کے بچوں کا رجحان جدید آلات کی جانب زیادہ ہو چکا ہے اوروہ اب کہانیاں پڑھنے کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے ہیں۔ بچوں کے رسائل کی فروخت پر بھی بہت اثر پڑ چکا ہے ان کی فروخت کم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے رسالہ شائع کرنے کے لئے قیمت بڑھانی پڑتی ہے ۔اس صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم اس کی بڑی وجہ یہ بھی کہلائی جا سکتی ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق رسائل میں بچوں کی دلچسپی کا مواد شائع نہیں کیا جا ر ہاہے ۔
اسی طرح سے آپ کتب کی بھی مثال سامنے رکھ لیجئے کہ آج بھی کم کتب ایسی ہیں جن کو والدین بچوں کو آزادی سے پڑھنے کا کہہ سکتے ہیں کہ کچھ کتب میں ایسا مواد ہے جو اُن کے اخلاق پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔اس میں قصور اُن افراد کا ہے جو ایسے مواد کو شائع کروا کر اپنی ساکھ خراب کر رہے ہیں اورقارئین کو بھی مطالعے سے بددل کر رہے ہیں۔اگرآج کے بچوں میں مطالعے کا شوق ختم ہو گیا تو پھر کون کتب خریدے گا یہ ایک بڑا اہم سوال ہے؟

بچوں میں کتب بینی کے فروغ کو یقینی بنانے کے لئے یہ بھی ضرور ی ہے کہ کسی اورطرح( پی ڈی ایف وغیرہ) کی بجائے کتاب سے پڑھنے کی تلقین کی جائے ، صاحب کتاب بھی اپنی کتب کو پی ڈی ایف کی صورت میں تقسیم نہ کریں تاکہ کتاب کی اہمیت اُجاگر ہو سکے ۔

ایسے شعراء اورلکھاری جن کی ادبی ساکھ اس معیار کی نہیں ہے کہ ان کی کتب بڑی تعداد میں فروخت ہو سکیں وہ اس بات کا شور مچاتے ہیں کہ آج کے دور میں چوں کہ کوئی کتاب پڑھنے کو راضی نہیں ہے۔ اس لئے ان کی جانب سے سامنے لائی گئی کتاب بھرپورفروخت نہیں ہو رہی ہے اور پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کتب کو مفت میں تقسیم کرواتے ہیں ۔جب ایسی کتب کو پڑھا جاتا ہے وہ قاری کو مطالعے سے بدظن کرتی ہے اور وہ مزید کسی کی بہترین تخلیقات کو بھی پڑھنے سے کتراتا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

راقم السطور اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ کسی بھی لکھاری یا شاعر کو سب سے پہلے اپنی ادبی ساکھ بنانے کا سوچنا چاہیے کیوں کہ جب وہ بن جائے گی تو پھر بڑی تعداد میں لوگ اُ س کی کتب کو خریدنے کی خواہش ظاہر کریں گے۔اگرچہ عمدہ تشہیری حربوں سے کتب فروخت کی جا سکتی ہیں تاہم اس حوالے سے خریدنے والوں کی رائے دیگر قارئین کو پڑھنے یا خریدنے سے جہاں باز رکھتی ہے وہیں بھرپورفروخت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
غیر معیاری کتب کی اشاعت کے حوالے سے ناشران بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو کہ غیر معیاری کتب کو شائع کرکے ادب کو برباد کر رہے ہیں ۔اُن کی وجہ سے جن کا شوق مطالعہ ہے وہ بھی کتب خریدنے سے گھبراتے ہیں۔ اگرچہ تمام ناشران ایک جیسے نہیں ہے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ معیار پر سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں جس کی بدولت بہترین مواد پڑھنے کو مل رہا ہے تاہم غیر معیاری کتب کی بھرمار اب زیادہ ہو چکی ہے۔ جس بھی لکھاری یا شاعرکے پاس رقم ہے وہ کتاب شائع کروا کر صاحب کتاب بن رہا ہے اور ادبی تقریبات میں نہ صرف شرکت کرتا ہے بلکہ نام نہاد تنظیمیں ایسے افراد کو ایوارڈز تک دے دیتی ہیں جس کی وجہ سے آج ایوارڈز کی تقسیم بھی اپنی وقعت کھو رہی ہے۔


آج بے شمار ادیب ایوارڈز کی تقربیات میں جانے سے بھی گریزاں ہیں کہ وہاں پر ادبی ساکھ کو دیکھے بنا ہی ایوارڈز دیے جا رہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ایوارڈز کی شہرت کی بناء پر شائع کی جانے والی کتب قارئین میں بڑی مقبولیت حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جب تک انفرادیت کا حامل کام سامنے نہیں لایا جائے گا تو بڑی تعداد میں آپ کو قارئین نہیں سراہیں گے، اگرکوئی کتاب سامنے لانا چاہتا ہے تو کم سے کم چند سال ضرور اپنے کام کو پہلے ادبی حلقوں میں پیش کرے تاکہ اُسے اندازہ ہو سکے کہ کس پائے کا ہے۔


جب تک شعرا ء وادبا ء کی جانب سے چند سالوں کی خوب محنت کے بعد کتب سامنے لانے کارجحان نہیں بنتا ہے تب تک یوں ہی ادب کی زبوں حالی دیکھنے کو ملتی رہے گی۔ جو ادبا ء وشعراء اپنی کتب سامنے لانے کے خواہاں ہیں وہ سب سے پہلے اپنی ادبی ساکھ بنائیں تاکہ قارئین خوب کتابیں خرید سکیں یا کم سے کم ایسا مواد پیش کریں جو قاری کے دل کو چھو لے۔ ہمارے ہاں کتاب نہ خریدنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ احبا ب اپنے شائع شدہ مواد کو کتابی صورت میں پیش کرتے ہیں تو وہ قارئین کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا ہے اگرچہ جن کی ادبی ساکھ متعین ہو چکی ہے ان کی تحریریں پڑھنے کے لئے آج بھی خوب کتب خریدی جاتی ہیں تاہم نئے ادباء و شعرا اس معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں جس کے بعد وہ اپنی کتب کی تشہیر بھی خود کرتے ہیں اوربسااوقات وہ اپنے رویے سے بھی کچھ ایسی اپنی ساکھ بنا لیتے ہیں کہ قاری کتاب لینے سے ہی توبہ کرلیتا ہے ۔ایسے صاحب کتاب افراد کے چند دوست احباب مروت میں کتاب حاصل کرلیتے ہیں تاکہ باہمی تعلقات خراب نہ ہوں ۔یہاں دل چسپ صورت حال یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ اپنی کتب کے فروخت کے لئے چند ادیب مل کر ایک حلقہ بناتے ہیں اورپھر سب باری باری کتب شائع کرکے تقسیم کرواتے ہیں اس کا معیار ایک مخصوص حلقہ جانتا ہے کیوں کہ وہ ایک مخصوص حلقے میں ہی تقسیم یا خریدی جا رہی ہوتی ہے۔




یا درکھیں کہ اگرآپ کی پہلی کتاب ساکھ متعین نہیں کرے گی تو پھر دوسری کتاب کون خریدے گا اورہر بار آپ دوستی کے نام پر کتب فروخت نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لئے اپنے معیار کو بلند کرنا اور اپنی ساکھ کو بنانا بے حد ضروری ہے۔ اس لئے اولین کتاب کو سوچ سمجھ کر سامنے لائیں تاکہ آپ کی بطور ادیب شناخت قائم کر سکے۔ اگر آپ نے اولین کتاب سے اپنی ساکھ بنا لی تو پھرآپ کی اگلی کتب کی فروخت کے لئے معمولی سی تشہیر بھی بے حد منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔




راقم السطور ایسے کئی نئے قلمکاروں اورشعراکو جانتا ہے جن کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی نہیں دی گئی تھی تاہم بعدازں وہ اپنی قابلیت اورانفرادیت کے بل بوتے پر خوب نام کما گئے اوراُن کی اولین کتب بھی خوب فروخت ہوئیں لہذا ثابت ہوا کہ کتاب شائع کروانے سے قبل اپنی تخلیق کے کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کس قدر معیاری اورانفرادیت کی حامل ہے تاکہ کسی بھی شاعر یا قلمکار کو منتیں کرکے کتب فروخت کرانے کی نوبت نہ پیش آسکے۔اگرکتاب میں پیش کیا گیا مواد ایسا ہے جو قارئین کے دل کو چھو سکتا ہے تو پھر آپ بے فکر ہو کرصاحب کتاب بن سکتے ہیں تاہم زیادہ خود اعتمادی کا مظاہر ہ کرنے سے گریز کریں اوراپنی ادبی ساکھ کو پہلے ضرور جانچ لیں تاکہ بعد ازں پشیمانی سے بچ سکیں تاہم اگرآپ قابلیت اوربہترین تخلیق کے ساتھ سامنے آرہے ہیں تو پھرآپ کی اولین کتاب آپ کی جو ساکھ قائم کرے گی وہ آپ کو بہترین ادیب ثابت کر دے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523138 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More