میں اقبال ہوں


تحریر: ذوالفقار علی بخاری

”آپ آج کل اسکول دیر سے آرہے ہو؟“۔
ماسٹر رحمت اللہ نے سامنے کھڑے طالب علم سے کہا۔
”استادجی۔ہم اقبال ہیں، تب ہی دیر سے آتے ہیں“۔
طالب علم اقبال حسین نے ایک بات کہی تو ماسٹر رحمت اللہ چونک گئے۔
”برخودار!بہت خوب ذرا پاس آئیں“۔
ماسٹر رحمت اللہ نے اقبال حسین کے پاس آتے ہی دائیں کان کو زور سے پکڑا اور کہا:
”جس اقبال ؒ کی نقالی کر رہے ہو نا؟اُس کے نقش قدم پر چل کر دکھاؤ تو بات ہے“۔
ماسٹر رحمت اللہ نے اقبال حسین کے کان کو ابھی چھوڑا ہی تھا کہ وہ بول اُٹھا:
”میں اقبال کا شاہین بن کر دکھاؤ ں گا ماسٹرجی“۔
اقبال حسین نے مسکراہتے ہوئے جب یہ بات کہی تو ماسٹر رحمت اللہ بہت خوش ہو گئے۔
”بہت خوب اقبال حسین!یہی جذبہ رہا تو تم زندگی میں بہت کچھ کر سکو گے؟“۔
ماسٹر رحمت اللہ نے اُس کے جذبے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”انشا اللہ! میں ضرور کرکے دکھاؤں گا“۔
اقبال حسین نے بات مکمل کی اور اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھا، ماسٹر رحمت اللہ نے پڑھنا شرو ع کیا تو سب طالب علم خاموشی سے اُن کو سننے لگے۔
٭٭٭٭٭


”آپ اتنا پیسہ غریبوں پر خرچ کرتے ہیں، اگر آپ نے جمع کیا ہوتا تو آج ارب پتی ہوتے“۔
معروف کاروباری شخصیت شاہ نواز صاحب نے اپنے سامنے بیٹھے شخص سے کہا۔

”میرے لئے پیسہ اہم نہیں ہے؟“۔
سفید لباس میں ملبوس معرز شخص نے جواب دیا۔


”یہی تمہاری باتیں ہیں جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی ہیں“۔
شاہ نواز صاحب بولے۔


”آپ اور میں ایک ہی اسکول میں ایک ہی استاد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کامیاب زندگی جی رہے ہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سوچ بہت الگ ہے“۔
شاہ نواز صاحب کے سامنے بیٹھے شخص نے ایسا جواب دیا کہ فوری جواب نہ پا کر وہ خاموش ہو گئے۔


کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد شاہ نواز صاحب بولے:
”اقبال حسین! کہیں تمہارے ذہن پر ماسٹر رحمت اللہ کی بات تو سر پر سوار نہیں ہوگئی ہے۔ انہوں نے بھری جماعت کے سامنے ایک بار کہا تھا کہ اقبالؒ کی پیروی کرکے دکھاؤ تو تسلیم کروں گا کہ تم بھی اقبال ہو“۔

”شاہ نواز بھائی!آج برسوں بعد آپ کو یہ بات کیسے یاد آگئی ہے۔آپ کی بات درست ہے میری ذات پر اُن کی بات نے گہرا اثر ڈالا ہے۔ میں نے بلبل اورجگنووالی نظم سے یہ سیکھا تھاکہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت اہم ہے اور مجھے اقبالؒ کا شاہین بننا تھا۔اس لئے میں نے دوسروں کی خدمت کرنا شروع کر دی اور آج بے پنا ہ دولت کماکر بھی خالی ہاتھ ہو جاتا ہوں تاہم سکون اورخوشی سے جی رہا ہوں“۔
اقبال حسین نے اپنی بات مکمل کرتے ہی ٹشو پیپر شاہ نواز صاحب کو تھاما دیا۔اُن کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے۔


اُن کا دوست علامہ محمد اقبالؒ کی نظموں کے زیر اثر آکر اپنی زندگی کا حقیقی مقصد پا چکا تھا وہ وہ گمراہی میں چلے گئے اوردولت جمع کرنے کے جنون میں یوں مبتلا ہوئے کہ زندگی کا سکون غارت ہو گیا تھا۔اقبال حسین نے علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کے اسباق کو خود پر یوں طاری کرلیا تھا کہ وہ اقبال ؒ کا شاہین بن چکا تھا۔علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری خود یہ بیان کر دیتی تھی کہ اقبال ؒ،اقبالؒ ہے اورجو اُسے سمجھ جاتا ہے وہ اُن کا شاہین بن جاتا ہے۔


آج شاہ نواز صاحب کو احسا س ہو گیا تھا کہ ماسٹر رحمت اللہ مرحوم نے جو آگ اقبال حسین کے دل میں شاہین بن کر جینے کی جلائی تھی، وہ خوب بھڑک چکی ہے۔اُن کا بہترین دوست دوسروں کے ساتھ بھلائی کرکے نیکیاں کما رہا تھا۔انہوں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب وہ بھی اقبال حسین کی پیروی کریں گے۔


ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
۔ختم شد۔


(یہ کہانی ماہ نامہ پیغام، لاہور کے ”اقبال نمبر“ نومبر 2021کے شمار ے میں شائع ہوئی۔)

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 525434 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More