آٸس کریم

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بس جو کم نکلے، وہ ہماری جیب میں پیسے کم نکلے

جی جناب۔۔۔ ہمارے بچپن کا زمانہ کچھ ایسا ہی تھا ۔ اکثر تو چیزوں کو دیکھ کر ہی دل بہلا لیا کرتے تھے ۔ جب کبھی کچھ روپے ہاتھ آ جاتے تو یہی سوچتے رہتے کہ ۔
یہ جو تھوڑے سے ہیں پیسے
خرچ ان کو کریں ہم کیسے

اور پھرجب فیصلہ کر کہ کچھ لے ہی لیتے تو اگلا دن اسی پچھتاوے میں گزر جاتا کہ یہ کیوں لیا وہ کیوں نہ لیا۔ اور ”ہم“ کے رکن تھے میں اور میری خالہ زاد بہن۔۔ اقصیٰ ۔ خیر آج ذکر اس دن کا ہے جب اس افسوس سے ہم بال بال بچے تھے۔

تو جناب معمول کی طرح ایک دن ننھے ماموں (میرے سب سے چھوٹے ماموں، نام تو ان کا طلعت محمود تھا پر پورا خاندان انہیں ننھے ماموں/چچا ہی کہتا تھا ) کا دیا گیا کام نمٹایا ۔ مجھے اور اقصیٰ کو مبلغ پانچ پانچ روپہ انعام یا مزدوری کے عوض ملے ۔ بس پھر کیا تھا ہم دونوں ذرا بھی وقت ضاٸع کٸے بغیر جا پہنچے پیکری پر ۔۔۔ پر وہاں جا کر پھر وہی مصلحہ درپیش کہ کس کا انتخاب کریں اور کس کس کو رد کر دیا جاۓ
کمال انتخاب ہے ہمارا، جسے دیکھو گے
کہتے پاٶ گے ہمیں چن لو۔ ہمیں چن لو

آہ۔۔۔ شاید یہ فیصلہ کرنا کہ آج کیا پکاٸیں اتنا دشوار نہ ہوتا ہوگا جتنا ہم دونوں کے لٸے کسی ایک چیز پر متفق ہونا ۔۔۔پھر کچھ تکرار کے بعد اللہ اللہ کر کہ یہ طے پایا کہ آج پیسٹری کو شرف بخشا جاٸے۔ خوشی خوشی دس روپے دکاندار کو تھماۓ اور ایک ایک پیسٹری ہاتھ میں لٸے بیکری سے باہر نکلے۔ میں نے چلتے چلتے پیسٹری کا لقمہ بھرا اور اقصیٰ کی جانب دیکھا مگر وہ تو پیچھیے ساقط کھڑی کسی اور ہی جانب دیکھ رہی تھی۔ تو چناچہ میں نے بھی اپنی نظر اسی جانب دوڑاٸی۔۔۔ اور نظر جہاں رکی وہاں ایک نہایت ہی میلا کچیلا سا بچہ آٸیس کریم سٹک مزے سے کھاتا جا رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جھٹ سے میرے لبوں نے ہولی جٸی ”آٸیس کریم“ کہا اور دل تھاں سے مر گیا۔

اب کیا تھا لگے ہم دونوں ایک دوسرے پر جلد بازی کا الزام لگانے۔ الحمد لله، میں شروع ہی سے وقت کو ملال میں ضاٸع کرنے کے بجاٸے مثلہ حل کرنے کی قاٸل تھی اور اللہ کے کرم و فضل سے دماغ بھی کسی ریس کے گھوڑے سے کم نہ تھا۔ چند لمحے کی سوچ بچار کے بعد چٹکی بجا کر اقصیٰ کو حل کی آمد کا اشارہ دیا اور خود زمین پر پاٶں کے بھار بیٹھ گی۔ اقصیٰ ویسے تو میری صلاحیتوں سے خوب واقف تھی مگر خدا نے صبر نام کی چیز اسے عطا ہی نہ کی تھی۔ بے چینی سے بولی” صاٸمہ، کیا زمین سے آیس کریم نکالو گی؟“۔۔۔ زمین سے چونٹیاں چنتے ہوۓ میں نے ”نہیں“ کہا اور ہم دونوں آنکھیں ملا کر مسکراۓ ۔

چند منٹ بعد ہم ایک بار پھر بیکری پر موجود تھے اور دکاندار سے بحث کر رہے تھے کہ اس نے چونٹیوں والی پیسٹریاں ہم بیچ دیں۔۔۔ وہ بیچارہ پریشان ہمیں آہستہ بولنے کو کہہ رہا تھا۔ آخر طے یہ پایا کہ یا تو ہم پیسے واپس لے لیں یا ان پیسوں کے عوض کچھ اور خرید لیں۔ اپنی فاتحانہ ہنسی کو دباتے ہوے ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چند لمحے سوچنے کی شاندار ادکاری کی اور پھر دونوں ہم آواز ہو کر بولے، ” چلیں پھر، اٸیس کریم سٹک لے لیتے ہیں!“

Saima Qureshi
About the Author: Saima Qureshi Read More Articles by Saima Qureshi: 17 Articles with 12613 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.