مستقبل کا پاکستان اور انتخابات کا نظام

پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔!! وہ قوم آزاد و خود مختیار نہیں ہوتی جو سب سے زیادہ اپنے وطن کو اہمیت نہیں دیتی، دنیا میں وہ ملک تباہ و برباد ہوگئے جن کی عوام نے اپنے ملک کی قدر نہ کی اور ذرا سی آزمائش پر اپنے وطن کو خاک میں ملا ڈالا، پر انجام ان کا بھی بھیانک رہا اور وہ دنیا کی ہستی سے مٹ گئے۔۔۔۔۔۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی مسلسل جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی اور اس آزادی کیلئے بہت بڑی قربانی اور لازوال تاریخ رقم ہوئی۔ صرف ایک ہی دن کے فرق سے آزاد ہونے والے ان دو ممالک میں زمین و آسمان کا فرق دیکھنے میں آتا ہے ، بھارت کا شہری چاہے بھوکا ہو یا ننگا وہ ہمیشہ پھر بھی کہے گا جے ہند، جے ہند۔ ۔۔۔ جبکہ پاکستان کا شہری لاکھ نعمتوں ، برکتوں اور خوشحالی کے باوجود پاکستان کے خلاف نہ صرف باتیں کرےگا بلکہ اس کے خلاف عمل میں بھی شامل ہوگا ۔۔۔۔۔یہ وہ حقیقت ہے جسے نہ جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ انکار کیا جاسکتا ہے ، تاریخ اور موجودہ دور کے حالات بھی شاہد ہیں کہ ایسے گروہ سلامتی پاکستان کے دشمن رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم رہی ہے ،یہ اپنے نفسیاتی حربوں، خام خیالی خیالات، شعلہ بیانی، لالچ اور دھوکے کی بناءپر پاکستان کی سیدھی سادھ عوام کو شروع دن سے ہی بہلا پھسلاتے چلے آرہے ہیں۔ یہ بیرون ملک کے آلہ کار بھی ہیں جنھیں بھاری مالی امداد کے تحت استعمال کیا جاتا رہاہے ،ضروری نہیں کہ یہ ہر دور میں ایک ہی شکل میں پائے گئے ہوں ان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی سیاسی، اقتصادی،معاشرتی، مذہبی، علمی اور تحقیق کو بگاڑ نے کے مشن پر ہوتا ہے۔ پاکستان کے ان اندرونِ و بیرونِ دشمنوں سے احتیاط کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی جماعتوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں اس کیلئے ہمیں اپنے سسٹم میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ سب سے پہلے اپنا انتخابی نظام درست کرنا ہے تاکہ حقیقی معنوں میں عوامی انتخابات کا نتیجہ بر آمد حاصل ہو سکے، تا کہ ہر وہ پاکستانی جو اس طن عزیز اور عوام سے مخلص ہے آگے آکر آزادانہ خدمات پیش کرسکے اس کیلئے سب سے پہلے انتخابات کے امیدوار وں کے فارم میں اس کے کریکٹر، تعلیم، صحت، مذہبی رجحانات و خیالات، مقدمہ ( اگر کوئی چلا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔تفصیل)، سیاسی رغبت ( سیاسی پس نامہ جس میں سیاسی اخلاقیات شامل ہوں)، نایاب کارکردگی ( اگر کوئی ملکی سطح پر کی گئی ہو تو اس کی تفصیل) ، فلاح و بہبود ( اگر کوئی ذاتی حیثیت سے معاشرے میں فلاح کا کام کیا ہو اس کی تفصیل)، ایوارڈز ( پاکستان اور قوم کیلئے کوئی بہتر کام کے عوض ایوارڈ حاصل کیا ہو اس کی تفصیل) ، املاک ( اس میں ذاتی و خاندانی املاک کا مکمل تفصیلات درج ہوں ) ، ٹیکس ( اس میں ذاتی و خاندانی ٹیکس کا مکمل تفصیلات درج ہوں) اور اسکے علاوہ دیگر معلومات بھی شامل ہوں۔۔۔ یہ وہ تفصیلات ہیں جن سے الیکشن کمیشن ان کے کردار کو جانچنے میں آسانی پائیں گے۔ ایک منتخب نمائندہ کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا ہے کیونکہ اس کے کاندھوں پر پورے ملک و قوم کے مستقبل کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی لیئے چناﺅ اتنا سخت ہونا چاہئے کہ عوام کو صحیح اور سچے۔۔۔۔ ۔ ایماندار سیاستدان میسر آسکیں تاکہ وہ ملک کی جب باگ ڈور سنبھالیں تو پڑھے لکھے ہونے کے سبب وہ دانشمندی ، حکمت عملی، مساوات اور یکجہتی کو قائم کرتے ہوئے بہتر پاکستان کا مستقبل بناسکیں۔ عوام عرصہ دراز سے بےشمار سیاستدانوں سے صرف اور صرف سنتی چلی آرہی ہے کہ وہ مستقبل کو روشن کر دکھائیں گے البتہ پاکستان کو روشن کرنے کے بجائے اب تو کراچی تا خیبر پختونخوا سب جگہ اندھیرے کا سماں موجود ہے۔۔۔۔ پانی ، کوئلہ و دیگر قدرتی مراعات ہونے کے باوجود از خود لوڈ شیڈنگ کا پیدا کرنا ان کی سیاست کا ایک مہرہ ہے۔کبھی چینی تو کبھی آٹا، کبھی چاول تو کبھی پانی سب کے سب از خود پیدا کردہ مسائل ہیں کیونکہ یہ جماعتیں چاہے ان میں حزب الاختلاف ہوں یا حزب اقتدارسب اکھٹے نورا کشتی کھیلنے میں مصروف ہیں اور سب کے سب اپنا اپنا مال سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں کبھی کبھار ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے پھرتے ہیں کہ عوام ان کی حرکات سے مطمئین رہیں کہ وہ مسائل کے حل تلاش کررہے ہیں جبکہ یہ صرف ایک دھوکہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ یہ سیاستدان پاکستان کی دولت کو باپ کی دولت سمجھ بیٹھے ہیں ، جب کبھی بھی عوام میں اختلافِ جنبش پیدا ہونے لگتی ہے تو یہ ایک دوسرے کو الزامات کی نظر معاملات کو طول دیکر اس کی حیثیت مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور نت نئے انداز سے عوام میں ٹیکس کا اجراءاور مہنگائی میں اضافہ کیئے جاتے ہیں تاکہ جہاں عوام جنبش کریں اسی وقت خزانے میں کمی کا رونہ رو ڈالیں اور اوپر تلے عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں تاکہ عوام کی آواز دب کے رہ جائے، اب تک کی حکومتوں کا حال یہ رہا ہے۔۔۔۔۔ میں نے اپنے اس کالم میں ابتدا میں بتایا کہ الیکشن کمیشن کو مکمل آزادی ملنی چاہئے تاکہ وہ شفاف اور جدید ٹیکنیکل انداز میں انتخابات کا عمل لائے اس کیلئے سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس چوہدری افتخار کو خلوص نیت ،سچائی ،ایمانداری سے مستقبل پاکستان کیلئے میدان میں اترنا پڑےگا تاکہ بگڑے نظام میں بہتری آسکے اور سیاسی دباﺅ کا عمل بے سود ہوجائے۔۔۔۔۱۱۰۲ءکا سال شروع ہوچکا ہے اور اگلا الیکشن ۳۱۰۲ءکو ہونا ہے وقت بہت کم ہے لیکن اگر حکومت ِوقت ، سپریم کورٹ اور الیکشن کمشنر چاہیں تو پاکستان کے مستقبل کو روشن تابناک بناسکتے ہیں ۔ ۔۔انتخابات کے نظام کی درستگی کیلئے ان مراحل میں کام کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔ پہلے مرحلے میں ۔۔۔۔ مارچ ۱۱۰۲ءسے الیکشن کمیشن کمپوٹرائز ڈیٹا تیار کرنا شروع کرے جس میںنادرا سے مدد حاصل کرکے تمام ووٹرز کی اسکینگ ڈیٹا تیار کرے، اس اسکینگ ڈیٹا میں ووٹرز کی آنکھ، چہرہ، انگوٹھا کی اسکینگ ہو ۔۔۔۔۔۔

دوسرے مرحلہ میں ۔۔۔۔۔جو دنیا سے چلے گئے ہیں ان کو خارج فہرست کردیا جائے اور نئے اٹھارہ سال تک کے ووٹرز کا اجراءکیا جائے ۔۔۔۔تیسرے مرحلے میں ۔۔۔۔ جب الیکشن کا انعقاد ہو اس وقت ہر پولنگ اسٹیشن پر کمپیوٹرائز سسٹم لگایا جائے جس میں اس حلقہ کے امیدوار کا انتخابی نشان، تصویر کے ساتھ موجود ہو اور سامنے کلک کا نشان دیا گیا ہو تا کہ ووٹر اپنی اسکینگ کے بعد صرف ایک بار ہی ووٹ دے سکے اس اسکینگ سے بوگس ووٹ نہیں پڑیں گے بلکہ منتخب خانے استعمال ہونگے۔۔۔اس سسٹم کو الیکشن کمیشن ایک ماہ پہلے ،مختلف سینٹرز بناکر ووٹنگ کی مشق کرائے اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ سے بھی روشناس کرایا جائے تاکہ ہر ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ آجائے۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نظام سے تمام سیاسی پارٹیاں متفق ضرور ہونگی کیونکہ تمام پارٹیوں کو الیکشن میں دھاندلی کا خدشہ رہتا ہے ، اس نظام میں کہیں کوئی بظاہر لچک تو نظرنہیں آرہی ہے پھر بھی سسٹم اینالسٹ یعنی کمپیوٹر کے ماہرین اس کو اعلیٰ شکل میں تیار کردیں گے اور پھر انشاءللہ پاکستان کو سنوارنے کیلئے اچھے سیاستدانوں کا عمل شروع ہوجائے گا ۔۔۔ پھر سیاسی اختلافات کے معاملے بھی ختم ہوجائیں گے اور سب ملکر وطن عزیز پاکستان اور پاکستان کی عوام کی بہتری کیلئے یکجا ہوکر بہتر کام کرسکیں گے۔اس کے ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں کو سر ڈویژن میں منتقل کردیا جائے ہر ڈویژن کو خود مختار بناکر اس میں سٹی حکومت بنائی جائے جو اس ڈویژن میں سٹی سطح پر کام کرے۔۔۔۔ سٹی حکومت کے تابع محکمہ پولیس، محکمہ جوڈیشل، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ خزانہ، محکمہ ترقیات، محکمہ لائیو اور میونسپل کمیٹیاں دے دی جائیں، ان سٹی حکومت کی سرپرستی ڈویژن حکومت کرے تاکہ یہ دونوں اپنے ڈویژن میں بہتر سے بہتر کام کرسکیں، ڈویژن کے تحت بڑے محکمے عائد کیئے جائیں جن میں انڈسٹریز، زراعت، بزنس وکامرس، امپورٹ و ایکسپورٹ وغیرہ شامل ہوں۔اس طرح پورے پاکستان میں ڈویژن سسٹم ہونے کی بناءپر کسی کی اجارہ داری نہیں رہے گی اور یہ سب فیڈرل کے تابع ہونگیں، فیڈرل ان پر نظر رکھے گی اور ضرورت کے وقت مالی و دیگر تعاون بھی کرتی رہے گے۔اس طرح ہر ڈویژن میں ترقی کا ایک رجحان پیدا ہوگا اور پورا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔۔۔۔ ہر ڈویژن اپنے محکموں کو مکمل کمپیوٹرائز کرکے تمام ڈیٹا اور کام کو آسان ہی نہیں بلکہ سب کیلئے مفید تر بنائے گا، محکمہ پولیس اور جوڈیشل کے سسٹم کو بھی جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے تمام کیسوں کو کمپیوٹرائز کے ذریعے نیٹ ورک پر رکھے گا تاکہ کہیں بھی اور کسی بھی جگہ اپنا کیس دیکھ سکے اور سمجھ سکے۔ اسی طرح مارکیٹوں ، تھوک مال بازاروں میں اشیاءکی قیمتوں کو بھی کمپوٹرائز کر کے بڑی اسکرین کے ذریعے بازاروں میں آویزاں کی جائے گی تاکہ گاہک خرید سے پہلے خود قیمت دیکھ سکے۔۔۔ فیڈرل حکومت کے ذمہ افواج پاکستان، فوجی ہتھیار، ایٹمی پلانٹ، منرل اینڈ مائنز کی تلاش اور آخری پروڈکٹ تک، شپ انڈسٹریز، ایئر انڈسٹریز، اسٹیل انڈسٹریز، ریلوے انڈسٹریز، ٹرانسپورٹ انڈسٹریز ، ڈیم، آبپاشی وغیرہ شامل ہونگی۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے اس طر ح یا اس سے بہتر عوامل کو اپنائیں گے کہ نہیں ۔۔۔۔اللہ پاکستان کو نظر بد اور دشمنانان پاکستان کے شر سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔!!!
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 247677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.