|
|
“دوستوں نے کہا کہ میری شکل پری زاد جیسی ہے تو میں نے
یہ ڈرامہ دیکھنا شروع کیا اور میں اتنا متاثر ہوا کہ خود کو پری زاد کے روپ
میں ڈھال لیا“- |
|
یہ الفاظ ہیں لاہور کے رہائشی علی مغل کے جو مشہور ڈرامہ
“پری زاد“ میں احمد علی اکبر کے سانولے سلونے روپ سے متاثر ہو کر بالکل
انہیں کے حلیے میں تصاویر بنوا کر سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں۔ |
|
پری زاد سے ملنا چاہوں
گا |
علی مغل کا کہنا ہے کہ پہلے انھیں اس ڈرامے کے بارے میں
کچھ پتا نہیں تھا لیکن دوستوں کے توجہ دلانے پر انھیں بھی ایسا ہی لگنے لگا
کہ وہ پری زاد جیسے ہیں- اس لئے انھوں نے کپڑے بھی اس جیسے ہی بنوا لئے۔
علی مغل کا کہنا تھا کہ اگر انھیں موقع ملے گا تو وہ پری زاد سے ضرور ملیں
گے۔ |
|
|
|
ڈرامے کی حقیقی کہانی کے مطابق پری زاد جو ایک غریب
نوجوان ہے لیکن اپنی محنت اور ایمانداری سے ورکشاپ میں کام کرتے کرتے ایک
بڑی کاروباری شخصیت بن جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ پری
زاد صرف اپنے آئیڈیل کے حلیے کو ہی نہیں بلکہ اس کی اچھائیوں کو بھی کاپی
کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ |
|
فرہاد کی نقل میں
نوجوان مزار پر بیٹھ گیا |
کچھ مہینوں پہلے ڈرامہ سیریل “خدا اور محبت“ سیزن ٣ کے
فرہاد کے کردار سے متاثر ہوکر ایک نوجوان مزار پر بھی بیٹھنے لگا تھا۔ اس
نوجوان عظیم اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ “میں میٹرک کا طالب علم ہوں اور
محبت کے علاوہ امتحان میں بھی فیل ہوگیا ہوں۔ اگر مجھے میری محبت نہ ملی تو
میں بھی فرہاد کی طرح ساری زندگی مزار پہ گزار دوں گا“ |
|
|
|
بجائے وقت ضائع
کرنے کے ڈراموں سے سبق حاصل کریں |
نوجوانوں کا ڈراموں اور فلموں کے کردار سے
متاثر ہونا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں لیکن جس طرح ظاہری شکل و صورت یا
ناکام عاشق کے کرداروں سے متاثر ہو کر نوجوان اپنی زندگی برباد کرنے لگتے
ہیں۔ اس کے بجائے اگر ڈرامے سے سبق لیں اور کردار کی اچھائیوں اور محنت کی
عادت کو اپنا لیں تو ان کی زندگی سنور بھی سکتی ہے۔ |