لاک ڈاؤن کے دوران مرزا غالب سے ایک ملاقات

ہر طرف بھائیں بھائیں کرتا سناٹا____ہو کا عالم_____ایسی گہری خموشی کہ اپنی سانسوں کی سائیں،سائیں اور دل کی دھڑکنیں صاف،صاف سنائی پڑ رہی تھیں۔میں اپنی ذات سے ملنے کے ان لمحوں میں کھوئی ہوئی دیوانِ غالب پڑھنے لگی۔شعور کے نہاں خانوں میں کہیں ایک سوال بار بار کچوکے لگا رہا تھا کہ آج کورونا جیسی آدم کُش وبا میں چھُٹ بھیّے اور تُک بند شعرا کے اشعار بھی کام آنے لگے ہیں تو کیا غالب جیسے لازوال اور سرمدی شاعر کا دیوان اس آشوب میں صم بکم عمی ہوگا؟ اسی ڈپریشن زدہ کیفیت میں مَیں نے نجانے کب اور کیسے خود کو حویلی کالے خاں، گلی قاسم جان، محلہ بلی ماران، پرانی دلی میں پایا،جہاں مرزا غالب بنفسِ نفیس موجود تھے۔مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ یہ سب کیا تھا؟ میرا واہمہ، میرا خواب، میری وجدانی کیفیت، میرا مراقباتی لمحہ یا واقعی ایک حقیقت؟ ____خیر! میں اس الجھن میں ابھی پڑنا بھی نہیں چاہتی۔اصل بات یہ ہوئی کہ میں نے غالب سے فرطِ شوق میں ڈھیر ساری باتیں کرنا شروع کردیں۔اب وہ ساری باتیں تو یاد نہیں، لیکن جو کچھ دھندلا دھندلا یاد آرہا ہے، وہ آپ کو سناتی ہوں۔
لیکن پہلے آپ کو ایک بات اور بتاتی چلوں کہ دورانِ گفتگو میرے مختلف تیز، تند، دھاردار، معصوم اور جستجو آمیز سوالات پر مرزا غالب کی جو کیفیت ہوتی تھی، یہاں میں نے طوالت کے خوف سے انھیں حذف کردیا ہے۔ ورنہ وہ کبھی کسی سوال پر مسکراتے، کبھی قہقہے بلند کرتے، کبھی جھلا جاتے، کبھی چہکنے لگتے، کبھی اداس و ملول ہوجاتے، کبھی کھو سے جاتے، کبھی جوش میں آجاتے، کبھی جذبات میں ابل پڑتے اور کبھی نمدیدہ ہوجاتے____ خیر! لیجیے! یہاں صرف تلخیص ملاحظہ فرمائیں:
فوزیہ رباب: حضور! ساری دنیا ابھی قید میں ہے لیکن آپ تو اتنی بڑی حویلی کالے خاں میں خوب آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں؟
غالب: کیسا لطف؟ پہلے گوروں کی قید میں تھا اب ’’کالے‘‘ کی قید میں ہوں۔
فوزیہ رباب: آہاہاہاہ کیا کہنے! لفظ ’’کالے‘‘ کا لطف دوبالا ہوگیا۔لیکن یہ بتائیں کہ ابھی ہر طرف وبا پھیلی ہوئی ہے تو ایسے میں آپ کو کچھ جان کا خوف محسوس نہیں ہوتا؟
غالب: میں غالب ہوں غالب۔ جینے میں بھی منفرد اور مرنے میں بھی انفرادیت پسند۔مجھے وبائے عام میں موت نہیں آسکتی۔
فوزیہ رباب: واہ، سبحان اﷲ! مریں آپ کے دشمن۔ لیکن مرزا صاحب! آپ تو ابھی تک نثر میں کلام فرما رہے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ اب آپ میرے ہر سوال کا جواب اپنے کسی شعر سے عطا فرمائیں۔
غالب:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
فوزیہ رباب: حضور! آپ کو یہ بھیانک تنہائی کیسی محسوس ہورہی ہے؟
غالب:
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
فوزیہ رباب : آج کل ہر طرف نصیحتوں کا ایک شور بپا ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک میں کورونا کے حوالے سیپند و نصائح کے انبار نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب:
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا
فوزیہ رباب : ہر طرف احتیاط،احتیاط کا کہرام مچا ہوا ہے۔ہر پل موت کا کھٹکا لگا ہوا ہے۔
غالب:
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
فوزیہ رباب : آپ ان دنوں حویلی میں بند ہیں۔لیکن اس زمانے میں موبائل ہے تو گویا مٹھی میں دنیا ہے۔ آپ کے احباب کے مسیجز آتے ہوں گے تو اس سے وحشت میں کچھ کمی تو آتی ہوگی؟
غالب:
احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
فوزیہ رباب : غالب صاحب! لوگ کورونا کے خوف سے ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگے ہیں۔آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟
غالب :
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
فوزیہ رباب : اﷲ کی پناہ! کورونا زدہ مریض اگر مر جائے تو کوئی اس کو ہاتھ تک نہیں لگاتا، نہ غسل، نہ کفن، نہ کاندھا،نہ جنازہ.ان بے کفن لاشوں کی ایسی ہولناکی پر کیا کہیں گے آپ؟
غالب:
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
فوزیہ رباب : اب تو آپ صبح شام واکنگ کے لیے بھی نہیں نکلتے ہوں گے۔ ظاہر ہے ہر طرف انفکشن کا خطرہ ہے۔جب کہ آپ کو باغوں کی سیر بہت پسند تھی؟
غالب:
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
فوزیہ رباب : جی بالکل! اب تو کوئی چھینک بھی دے تو اس کے اثر سے دوسرا شخص لقمۂ اجل ہوجاتا ہے۔

غالب:
صَرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا وگرنہ میں
طْعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا
(طْعمہ : لقمہ)
فوزیہ رباب : اب تو ہر طرف موت منڈلارہی ہے۔ جدھر دیکھیے موت ہی کی خبر آرہی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں میں موت کی خبریں گویا لائیو چل رہی ہیں۔
غالب:
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
فوزیہ رباب : لیکن مرزا صاحب کیا آپ ایسے حالات سے مایوس ہیں؟
غالب:
اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا
فوزیہ رباب : دیکھیے حضور! آئسولیشن یا قرنطینہ سے امیروں کو تو کچھ خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے، بلکہ ہمارے بڑے بڑے امرا کو تو گویا اور زیادہ عیش کا موقع فراہم ہوگیا ہے، لیکن بے چارے غریبوں کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔
غالب:
واں خودآرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
فوزیہ رباب: جی بالکل عوام و خواص کے درمیان بہت تضاد ہے۔ ابھی چند روز قبل ایسے ابتر حالات میں بھی پارلیمنٹ کی محفل سجتی رہی اور ایک گلو کارہ کنکا کپور کا جشن بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ جاری رہا۔
غالب:
یاں نفس کرتا تھا روشن شمعِ بزمِ بے خودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
فوزیہ رباب : جنابِ والا! آپ کے نزدیک کورونا کے اس قدر تیزی سے پھیلنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

غالب:
ناگہاں اس رنگ سے خونابہ ٹپکانے لگا
دل کے ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
فوزیہ رباب : حضور! ابھی صورتِ حال یہ ہے کہ جب لوگ آئسولیشن میں چلے گئے تو کسی کو کسی کی پروا نہیں رہی۔ جب کہ پہلے وہی لوگ مہر و وفا کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔
غالب:
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
فوزیہ رباب : وبائی موت نہایت دردناک ہے۔لیکن اس میں کچھ ہماری بے احتیاطی اور آزادانہ گھومنے پھرنے کا بھی دخل ہے۔
غالب:
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادہ ٔ ہوائے سرِ رہگزار تھا
فوزیہ رباب : ابھی صورتِ حال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بہت بدنظمی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ بغیر کسی منصوبے کے لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کردیے گیے۔اب جب کہ بہت نقصان ہوچکا ہے تو کہیں جاکر وزیراعظم نے معافی طلب کی ہے اور کچھ حکومتی اعلانات ہوئے ہیں۔
غالب :
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
فوزیہ رباب : جتنی برق رفتاری کے ساتھ وبا پھیل رہی ہے،اتنی ہی سست رفتاری کے ساتھ اس کی روک تھام کی کوششیں ہورہی ہیں۔
غالب:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
فوزیہ رباب : لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں۔ بھیڑ میں اندھادھند چلے جارہے ہیں۔ جیسے خود ہی موت کی ساری تیاری کرچکے ہوں۔
غالب:
آج واں تیغ وکفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
فوزیہ رباب : اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو یہ آئسولیشن کیسا محسوس ہورہا ہے؟یہاں سے نکل بھاگنے کا جی نہیں چاہتا؟ گھبراہٹ نہیں ہوتی؟

غالب :
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
فوزیہ رباب : ابھی سب سے بڑا مسئلہ غذائی عدم دستیابی کا ہے۔ایسی صورتِ حال میں تو آدمی غمِ عشق بھی بھول جائے۔
غالب:
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا
فوزیہ رباب : لیکن کچھ حکومتی اعلانات اور یقین دہانیاں بھی کرائی جارہی ہیں۔
غالب:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
فوزیہ رباب : سب سے زیادہ الرجی اس بات پر ہوتی ہے کہ اب ہر شخص ناصح بنا پھرتا ہے۔باہر مت جایا کرو، ہاتھ دھوتے رہو، ماسک لگایا کرو_____کوئی دوست ایسا نہیں جو غم گساری اور چارہ سازی کرے۔
غالب:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
فوزیہ رباب : کورونا کی وبا تو اپنی جگہ۔اس کی سنگینی بھی اپنی جگہ۔لیکن اس کے تعلق سے جو سنسنی خیزی پیدا کی جارہی ہے اور جو خوف پھیلایا جارہا ہے،وہ تو آدمی کو ہرلمحے بے موت مار رہا ہے۔
غالب:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
فوزیہ رباب : کچھ نادان لوگ سوشل ڈسٹینسنگ ( Social Distancing) کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب:
فائدہ کیا؟ سوچ آخر! تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے ، جی کا زیاں ہوجائے گا
فوزیہ رباب : اگر کوئی آپ کو ان حالات میں بھی سیر و تفریح کی دعوت دے تو آپ انھیں کیا کہیں گے؟
غالب:
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بیجا کا
فوزیہ رباب : حضور والا! چاروں طرف عجیب ہو کا عالم ہے۔آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟

غالب :
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
فوزیہ رباب : مرزا صاحب! یہ وبا بھی عجیب ہے۔امیر، غریب، ہندو، مسلمان کسی کا امتیاز نہیں کرتی ہے۔
غالب:
برروئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
فوزیہ رباب : مجھے بار بار یہی خیال آتا ہے کہ آپ جیسا یار باش اور آزادہ رو شخص کیا ایک جگہ بند رہ کر گھٹن محسوس نہیں کرتا ہوگا؟
غالب:
میں اور اک آفت کا ٹکڑا، وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
فوزیہ رباب : جب آپ کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے تو آپ کس طرح اس کیفیت کو جھٹکتے ہیں؟
غالب:
رات دن گردش میں ہے سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
فوزیہ رباب : عوام کو بار بار احتیاط برتنے کے لیے متنبہ کیا جارہا ہے، لیکن وہ سنی ان سنی کررہی ہے۔ ایسے میں انتظامیہ کو کیا کرنا چاہیے؟
غالب:
بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
فوزیہ رباب : آج کل سوشل میڈیا میں کورونا جیسی مہلک وبا کے حوالے سے مذہبی اور مسلکی بحثیں چل رہی ہیں۔اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غالب:
نہ لڑ ناصح سے غالب کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

یارب! نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
فوزیہ رباب : کیا آپ کو یہ طویل تنہائی ڈستی نہیں ہے؟اس احساس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
غالب:
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
فوزیہ رباب : سچ تو یہ ہے کہ ابھی اس وبا کے ہولناک انجام سے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔ ابھی بھی وہ بے فکری کے ساتھ اپنے آپ میں مست ہیں۔
غالب:
تو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
فوزیہ رباب : ان ناسازگار حالات میں ایک اچھی خبر یہ سننے کو مل رہی ہے کہ کچھ بڑے ڈاکٹروں نے علاج ڈھونڈ نکالنے اور دوا تیار کرلینے کی امید ظاہر کی ہے۔آپ کا کیا تاثر ہے؟
غالب:
آہ کو چاہے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
فوزیہ رباب : ایک اچھی بات یہ ہے کہ کورونا ازخود کسی کو نہیں ہوتا بلکہ جب کوئی کورونا وائرس کو چھوئے گا تبھی وہ اس تک منتقل ہوگا۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
غالب:
دھول دھپّہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کربیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
فوزیہ رباب : لیکن اس کے باوجود یہ کسی قیامت سے کم نہیں۔
غالب:
ترے سروِ قامت سے اک قدِّ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
فوزیہ رباب : مرزا صاحب! ایک پیچیدہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کرونا کے بارے میں جتنے منہ،اتنی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔مثلاً کوئی کہتا ہے کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیباریٹری میں تیار کردہ ہے، جس کا تجربہ آبادی کم کرنے کے لیے خود چین نے کیا۔ کوئی کہتا ہے امریکہ نے چین کی معاشی کمر توڑنے کے لیے یہ سازش کی۔کوئی کہتا ہے کہ کورونا ہَوا میں نہیں ہوتا ہے، کسی چیز میں ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہَوا میں بھی ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ زیادہ تیز درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے،کوئی کہتا ہے کہ درجۂ حرارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اب اتنی متضاد باتیں سن سن کر اچھا خاصا آدمی پاگل ہوجائے گا۔آخر کس کی بات تسلیم کرے اور کس کو قبول نہ کرے؟
غالب:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فوزیہ رباب : کچھ دنوں قبل پورے ملک میں کورونا بھگانے کے لیے تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے کی حماقت بھی کی گئی۔لیکن کورونا سے مقابلے کے لیے نہ وینٹیلیٹر،نہ ماسک، نہ شفاخانے_____آخر یہ سب کیا ہے؟
غالب :
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
فوزیہ رباب : کیا اس مرض کی دوا ممکن ہے؟
غالب: پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
فوزیہ رباب : کچھ بے وقوف لوگ Social Distancing کے قائل نہیں ہیں۔آپ ان کو کیا کہیں گے؟
غالب:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
فوزیہ رباب : اس وبائے عام سے محفوظ رہنے کے لیے آپ کی کیا تجویز ہے؟
غالب: (مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کل وبائی وائرس سے بچنے کی میری تجویز وائرل ہوگئی ہے)
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
فوزیہ رباب : جناب عالی! ایک افسوس ناک سانحہ یہ بھی ہے کہ اس وبا کے چلتے تمام محفلیں اجڑ گئی ہیں۔نہ مشاعرے، نہ سمینار، نہ جلسے،نہ جشنِ شادی، نہ جشنِ سال گرہ...
غالب: (ایک سرد آہ بھرتے ہوئے)

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس کہ لذتِ بادِ سحر گئی
فوزیہ رباب : آج کل تو اضطراب ایسا ہے کہ راتوں کو نیند بھی نہیں آتی۔
غالب :
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
فوزیہ رباب : کچھ دنوں قبل ایک گلو کارہ کنکا کپور نے درجنوں مشاہیر، وزرا اور اعلا پائے کی کارپوریٹ برادری کے ساتھ جشن بپا کیا تھا۔جب کہ وہ کورونا پازیٹو تھی۔اب ان مشاہیر کا کیا ہوگا؟
غالب:
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالب
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
فوزیہ رباب : کہا جاتا ہے دنیا بھر میں یہ مرض چین اور دیگر ممالک کی بے اعتدالیوں اور بد احتیاطیوں کے سبب اس قدر بحران کا سبب بنی. آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب :
بے اعتدالیوں سے سْبْک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے، اتنے ہی کم ہوئے
فوزیہ رباب : چین بڑی تیزی سے سب سے بڑی عالمی طاقت بننے جارہا تھا،لیکن خود ان کے اپنے ہی ایک شہر او?ہان کے کورونا وائرس نے ان کو شکار کرلیا.
غالب:
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوگئے
فوزیہ رباب : حضور! ایک المیہ یہ بھی ہے کہ شادیوں کی تاریخیں ملتوی کی جارہی ہیں.
غالب:
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی
فوزیہ رباب : بڑی حد تک بھیڑ قابو میں ہے۔لیکن عبادت گاہوں میں اب بھی کہیں کہیں لوگ بھیڑ جمع کرنے سے نہیں مان رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوگ مذہب کی اصل روح یعنی ’’تحفظِ انسانیت‘‘ سے نابلد ہیں۔
غالب:
نہیں کچھ سبحہ و زنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب : ابھی ہندوستان میں کورونا کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے۔ آگے مزید آزمائش ہے۔
غالب:
رگ وپے میں جب اترے زہرِ غم تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیِ کام ودہن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب : خدا نخواستہ یہ وبا کمیونٹی لیول سے آگے بڑھ کر گھروں کے اندر نہ آجائے۔
غالب:
وہ آویں گے میرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالب
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب : سوشل میڈیا میں چند جاہل ملاؤں نے اس وبا کے حوالے سے اتنی واہیات قسم کی کٹھ حجتیاں شروع کر رکھی ہیں کہ اﷲ کی پناہ! ان سے تو بات بھی نہیں کی جاسکتی۔(واضح رہے کہ متبحر علمائے کرام اس سے مستثنیٰ ہیں۔میں ان کا دل سے احترام کرتی ہوں اور خود اسی خانوادے سے تعلق رکھتی ہوں۔)
غالب :
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
فوزیہ رباب : مرزا صاحب! کیسی اندوہناک صورتِ حال ہے؟ایسی بیماری جو لادوا ہے۔ کاش حضرت مسیح ابھی ہی نازل ہوجاتے۔
غالب:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
فوزیہ رباب : حضور آج ان حالات میں کیا مْلّا، کیا پنڈت، کیا نیتا، کیا قائدینِ ملت _____ان کی اکثریت سے لوگوں میں ایک مایوسی ہی پیدا ہوگئی ہے۔اب آدمی کس پر بھروسہ کرے؟اور جائے تو کہاں جائے؟
غالب :
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
فوزیہ رباب : ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں ماسک اور وینٹیلیٹر کی سخت قلت ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے یہ چیزیں کچھ دنوں قبل دوسرے ملکوں کو برآمد کردی ہیں۔اب کیا کہا جائے؟
غالب:
تمھاری طرزِ روش جانتے ہیں ہم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
فوزیہ رباب : ہمارے ملک پر جب کوئی آفتِ ناگہانی آتی ہے تو ہم عالمی برادری کی طرف التفات طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں،لیکن آج بھلا کس سے توقع کی جائے کہ پوری دنیا ہی اس آشوب کی شکار ہے۔
غالب:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
فوزیہ رباب : لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کے بڑے بڑے ارب پتی،کھرب پتی کاروباری طبقے کو اس آسیب کے چنگل سے ملک کو نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
غالب :
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب ادھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
فوزیہ رباب : لیکن اگر اس کے باوجود ان کی جانب سے بے حسی کا مظاہرہ ہو رہا ہو تو؟
غالب:
بے گانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
فوزیہ رباب : اچھا غالب صاحب! یہ بتائیے کہ آخر قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کا فائدہ کیا ہے؟
غالب :
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
فوزیہ رباب : اچھا صاحب!ایک بات ذرا سچ بتائیے گا کہ کیا واقعی اس سخت بندش اور احتیاط میں آپ کا دم نہیں گھٹتا ہے؟
غالب :
پھر وضعِ احتیاط سے گُھٹنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
فوزیہ رباب : غالب صاحب! ہائے کیا دل دوز منظر ہے۔تمام محفلیں اجڑ گئیں، اب وہ رونقیں اور وہ رعنائیاں کہاں؟
غالب :
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
فوزیہ رباب : ابھی لاک ڈاؤن کے سبب گھر سے باہر نکلتے ہوئے پولیس کا خوف طاری رہتا ہے۔نہ کوئی وہاں سے یہاں آتا ہے،نہ کوئی یہاں سے وہاں جاتا ہے۔
غالب:
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جاسکے یاں کا
فوزیہ رباب : جب اگر کوئی شخص کسی بیرونی ملک سے آتا ہے تو سرکاری عملہ اور عام لوگوں میں دہشت پیدا ہوجاتی ہے۔
غالب :
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا
فوزیہ رباب : مرزا صاحب! ابھی نفسی نفسی کا عالم ہے۔ ہر طرف دکانوں اور بازاروں میں تالا لگا ہوا ہے۔آدمی کھانے پینے تک کو محتاج ہوگیا ہے۔
غالب:
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
فوزیہ رباب : آج کل وبا سے حفاظت کے لیے کہیں اذانیں بلند کی جارہی ہیں اور کہیں ناقوس پھونکنے کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایسے میں آپ کون سی مذہبی رسم پسند کریں گے؟
غالب :
کعبے میں جابجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام
فوزیہ رباب : پولیس کی سختی اور رسوا کُن کاروائی کے باوجود کچھ لوگ باہر گھومنے اور ٹہلنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔آپ کے نزدیک اس کی وجہ؟
غالب :
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
فوزیہ رباب : ابھی کورونا وائرس کا قہر یقینی طور پر بہت خطرناک ہے۔لیکن کچھ غیرضروری وہم اور نفسیاتی خوف بھی تو ہے لوگوں میں؟
غالب :
باغ پاکر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گل، اَفعی نظر آتا ہے مجھے
فوزیہ رباب : کورونا کے مریضوں کی حالت پر آپ کیا کہیں گے؟
غالب :
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظّارے سے پرہیز ہے
فوزیہ رباب : ابھی تواس بلا سے نجات کے لیے بس یہی ایک حل دکھائی دیتا ہے کہ ہر حال میں شادی، جشن اور محفلوں سے گریز ہی بہتر ہے۔
غالب:
شادی سے گذر کہ غم نہ ہووے
اْردی جو نہ ہو تو دَے نہیں ہے
(اْردی: بہار کا مہینہ،دَے: خزاں کا مہینہ)
فوزیہ رباب : کورونا کے مریضوں کا اکا دکا واقعہ یہ بھی سننے کو ملا کہ انھوں نے مایوس ہوکر خودکشی کرلی۔
غالب :
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
فوزیہ رباب : لاک ڈاؤن کی شدت یہ ہے کہ پورے ملک میں ٹرانسپورٹ سسٹم بلاک کردیا گیا ہے۔نہ فلائٹ ، نہ ریلوے اور نہ بسیں____ وسائلِ نقل حمل کی اس بندش پر آپ کا کوئی شعر؟
غالب :
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے
فوزیہ رباب : اچھا غالب صاحب! ذرا تصور کیجئے کہ خدا نخواستہ کسی کو کورونا کا سخت آتشیں بخار ہوجائے تو سوچیے کہ خود ان کے اپنے لوگ کس طرح اس سے بھاگیں گے؟
غالب :
سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
فوزیہ رباب : مرزا صاحب! بتایا جاتا ہے کہ بار بار ہاتھ دھوتے رہنے سے انفکشن کا اندیشہ کم ہوجاتا ہے۔کیا فرماتے ہیں آپ؟
غالب :
ہاتھ دھو دل سے، یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے
فوزیہ رباب : غالب صاحب! یہ سوچ سوچ کر کلیجے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اس بلائے ناگہانی نے کتنی جانوں کو لقمۂ تر بنالیا؟ آپ کا کیا احساس ہے؟
غالب :
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی مجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہائے ہائے
فوزیہ رباب : اتنا بڑا فتنہ بپا ہے۔ لیکن کچھ نادان لوگ اس کے در سے اب بھی اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ایسے میں آپ کیا کہیں گے؟
غالب :
اس فتنہ جُو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
فوزیہ رباب : شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عوام الناس کو ابھی اس وبا کی شدت اور ہولناک انجام کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔کیا خیال ہے آپ کا؟
غالب :
ابھی ہم قتل گہہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جُوئے خوں میں تیرے تَوسَن کو
(شناور :تیراک، توسن:گھوڑا)
فوزیہ رباب : ابھی احتیاطی تدبیر کے طور پر جب کوئی کورونا کا مریض دریافت ہوتا ہے تو پھر اس کے رابطے میں آنے والے تمام لوگوں کی تفتیش کی جاتی ہے۔اس صورت حال پر آپ کا کوئی شعر؟
غالب :
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
فوزیہ رباب : پوری دنیا کورونا کا علاج ڈھونڈ رہی ہے، لیکن ہنوز ناکام ہے۔بطور خاص اٹلی جیسے طبی میدان میں ترقی یافتہ ملک نے بھی مایوس ہوکر ہاتھ کھڑے کرلیے۔ اس کیفیت پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غالب :
تھک تھک کے ہر مقام پر دوچار رہ گیے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
فوزیہ رباب : کچھ دنوں قبل ایک اڑتی سی خبر یہ آرہی تھی کہ چین کے بعض علاقوں میں کورونا کے مریضوں کو ہلاک بھی کیا گیا۔ لیکن ہندوستان میں ماشاء اﷲ ایسی کوئی بری خبر نہیں ہے۔ یہاں کورونا کے مشکوک مریضوں کو ان کے گھروں میں ہی بند کیا جارہا ہے۔اس صورتِ حال پر آپ کیا فرماتے ہیں؟
غالب :
سبدِ گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں
مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں
(سبدِ گل : پھولوں کی ٹوکری)
فوزیہ رباب : آج کل کچھ واقعات ایسے بھی سوشل میڈیا میں گردش کررہے ہیں کہ کچھ لٹیرے سرکاری عملے کے بھیس میں سینیٹائزر کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں کو بے ہوشی کی دوا دے دیتے ہیں اورلوٹ مچارہے ہیں۔وہ آتے ہیں مسیحا اور ہمدرد بن کر، لیکن دھوکا دے کر چوری کرتے ہیں۔ایک اور بات چل رہی ہے کہ یوپی کے بعض علاقوں میں سرکاری لوگ کورونا کے بہانے مسلم گھرانوں میں این پی آر رپورٹ بنارہے ہیں۔اس مکروفریب پر آپ کا تاثر؟
غالب :
مجھ تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
فوزیہ رباب : کورونا وائرس کے سبب مریض کی علامت اور کیفیت پر بھی کچھ روشنی ڈالیے۔
غالب :
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

ضعف سے گِریہ مُبَدّل بدمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
غالب کے ساتھ میں محوِ گفتگو ہی تھی کہ ایک چیخ میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں چونک اٹھی۔ دیکھا کہ میں گوا کے سحر آفریں جزیرے کے ایک گھر میں نیم دراز تھی اور میرے ہاتھوں میں دیوانِ غالب تھا۔سامنے ننھی شہزادی سارہ کھڑی چاکلیٹ کے لیے احتجاج کررہی تھی۔



٭٭٭

 

Foziya Rabab
About the Author: Foziya Rabab Read More Articles by Foziya Rabab: 2 Articles with 1215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.