ہم کسی ایسے شخص کے پاس مہنگی گاڑی،
پھیلتاہواکاروباراوربلندمعیارزندگی دیکھتے ہیں جس کے ماضی قریب میں ہم
غربت،کم آمدنی اورکسمپرسی جیسے حالات دیکھ چکے ہوتے ہیں ۔توہم کہتے ہیں کل
تک تواس کے پاس سائیکل بھی نہ تھی آج یہ گاڑی لے کرپھررہاہے ۔اس کوکرائے
پرمکان بھی کوئی نہیں دیتاتھا ۔ آج یہ دوکنال کی کوٹھی میں رہ رہاہے۔ کل تک
تویہ چھابڑی لگاتاتھالوگوں کی دکانوں پرصفائی کرتاتھا آج اس کی ایک دکان اس
روڈ پر،ایک دکان اس مارکیٹ میں اورایک دکان اس مارکیٹ میں ہے۔ دراصل ہم
ایسے شخص کے بارے میں یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب اس کی جائزآمدنی میں
نہیں ہوسکتا۔ہم اس کی آمدنی پرشک کررہے ہوتے ہیں۔ہم ایسابھی توسوچ سکتے ہیں
کہ یہ سب کچھ اس نے جائزآمدنی سے بنایاہے ۔یہ سب کچھ اس کواس کے
والدین،بزرگوں اوراساتذہ کی دعاؤں سے ملاہے۔
ہم کسی سڑک پر،کسی چوراہے یاگلی میں کسی لڑکے اورلڑکی کوایک ساتھ
کھڑاہوادیکھتے ہیں توہم سوچنے لگ جاتے ہیں یہ دونوں ایسے ہیں یہ دونوں ویسے
ہیں ۔ہم یہ بھی توسوچ سکتے ہیں کہ یہ دونوں بہن بھائی ہیں ۔یہ دونوں
شوہراوربیوی ہیں۔
ہماری مسجدمیں امام مسجدنمازپڑھاتاہے۔ ہم اس کوپانچ، دس ہزارروپے تنخواہ
دیتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہ مولوی نمازپڑھانے کے پیسے لیتاہے۔وہ
نمازپڑھانے کے نہیں بلکہ وقت دینے کے پیسے لیتاہے۔ہم اسے تنخواہ تودیتے ہیں
لیکن اس کے لیے رہائش کاانتظام نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری
نہیں ہے ایسابھی ہوتاہے ہم اپنے محلہ کی مسجدمیں امام مسجدکوبرائے نام
رہائش تودیتے ہیں لیکن اسے تنخواہ نہیں دیتے ۔ہم امام مسجدکوبرائے نام
رہائش دے کرسوچتے ہیں کہ ہم نے اس کاحق اداکردیاہے۔ یہ اگرکرائے کے مکان
میں رہتاتواسے ۲۰ سے ۲۵ ہزارروپے کرایہ دیناپڑتا۔یہاں اسے کوئی کرایہ نہیں
دینا پڑتا ۔امام مسجدکوبرائے نام رہائش دے کرہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اسے
ماہانہ ۲۰ سے ۲۵ ہزارروپے دے رہے ہیں۔اورخودہم رہائش بھی لے رہے ہوتے ہیں
۔اس کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی،الاؤنسزبھی اوردیگرسہولیات بھی۔شکوہ بھی کررہے
ہوتے ہیں کہ ۵۰ ہزارسے زیادہ تنخواہ ،الاؤنسزاورمراعات میں گزارانہیں ہوتا
۔ہم یہ بھی توسوچ سکتے ہیں کہ اس سب کے ہوتے ہوئے ہماراگزارانہیں ہوتا ۔جس
امام مسجدکوہم نے رہائش نہیں دے رکھی اوراسے تنخواہ اتنی دے رہے ہیں کہ
مکان کاکرایہ بھی اس سے زیادہ ہے۔اس کاگزاراکیسے ہوگا۔اورجس امام مسجدکوہم
نے صرف رہائش دی ہوئی ہے اورتنخواہ وغیرہ نہیں دے رہے۔اس کا گزارا کیسے
ہوگا۔اس میں ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ امام مسجدکے کون سے خرچے ہیں۔ ہم یہ سوچ
لیتے ہیں ہمارے خرچے زیادہ ہیں پچاس سے ۷۰ ہزارروپے ماہانہ سے ہمارے
اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہماراپچاس سے ۷۰ ہزارروپے میں
گزارانہیں ہوتا امام مسجدپانچ سے دس ہزارروپے میں کیسے گزارا ہوگا۔
ہم سوچتے ہیں کہ گھرہمارے کاروبارسے،ہماری دکان سے،ہماری تنخواہ سے،ہماری
آمدنی اورپیسوں سے چلتاہے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا روزگار
،ہماراکاروبار،ہماری دکان ،ہماری تنخواہ، آمدنی اورپیسے گھرمیں
موجودماں،بہنوں،بیوی اوربچوں کی وجہ سے مل رہے ہیں۔ہماری آمدنی اوراس میں
اضافہ ہمارے والدین کی دعاؤں اوربیوی،بچوں کے نصیب کی وجہ مل رہاہے۔
ہم بچوں کامستقبل سنوارنے کاسوچتے ہیں۔ہم ان کامعیارزندگی اچھابنانے
کاسوچتے ہیں۔ہم ان کی زیادہ سے زیادہ آمدنی ممکن بنانے کاسوچتے ہیں ۔ہم
بچوں کی آخرت سنوارنے کانہیں سوچتے۔ہم ان کے اخلاق سنوارنے کانہیں سوچتے۔
ہم ہرکام میں، ہرمرحلہ میں،ہرلائحہ عمل میں اپنافائدہ سوچتے ہیں ۔ہم یہ
نہیں سوچتے جس میں ہمارافائدہ ہے اس میں کسی اورکاکتنانقصان ہے۔ ہم اپنا
فائدہ سوچتے ہیں دوسروں کانہیں۔
ہم جوسوچتے ہیں، جیساسوچتے ہیں ،جس کے بارے میں سوچتے ہیں ،وہی درست ہے
،ٹھیک ہے اورکوئی ہماری سوچ کے الٹ سوچتاہے ہماری سوچ سے مختلف سوچتاہے
تواس کی سوچ درست نہیں ہے۔
کہاجاتاہے سوچنے پرپابندی نہیں ہے۔ کسی کی سوچ پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی
توکیاکسی کی سوچ کوتبدیل کیاجاسکتاہے۔ کیاکسی کوسوچنے پر مجبور کیا جا
سکتاہے۔
ہمیں اپنے والدین سے،علماء کرام سے، اساتذہ کرام سے، بزرگوں سے سیکھناچاہیے
کہ ہمیں کب اورکیاسوچناچاہیے ۔کس کے بارے میں سوچناہے اورکس کے بارے میں
نہیں سوچناہے۔کون کون سے کام کرنے سے پہلے سوچناچاہیے اورکون کون سے کام
کرنے سے پہلے نہیں سوچناچاہیے۔
ہمیں تنہائی میں،بیٹھ کر،کھڑے ہوکر،لیٹ کر،چل پھرکرسوچناچاہیے کہ ہم شادی
کیاسوچ کرکرتے ہیں۔ ہم دوست کیاسوچ کربناتے ہیں۔ ہم کسی کے ساتھ تعاون کرتے
ہیں توکیاسوچتے ہیں۔ ہم کسی کے ساتھ تعلق بناتے ہوئے اورکسی سے تعلق ختم
کرتے ہوئے کیاسوچتے ہیں۔ ہمیں فائدہ ہوجائے تو کیا سوچتے ہیں۔ ہمیں نقصان
ہوجائے توکیاسوچتے ہیں۔ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے تواس کے بارے میں کیاسوچتے
ہیں اورہمیں کوئی نقصان پہنچائے تواس کے بارے میں کیاسوچتے ہیں۔ ہمیں کوئی
کسی کام کرنے کامشورہ دے اس وقت ہم کیاسوچتے ہیں اورکوئی ہمیں کسی کام سے
روکے اس وقت ہم کیاسوچتے ہیں۔ کسی اورسے ہمارانقصان ہوجائے توہم کیاسوچتے
ہیں اورخود ہم سے اپنانقصان ہوجائے توہم کیاسوچتے ہیں۔ہم کیاسوچ کرکسی کی
بات کاجواب نہیں دیتے اورکوئی ہماری بات کاجواب نہ دے توہم کیاسوچتے ہیں۔ہم
کسی کونصیحت کرتے ہوئے کیاسوچتے ہیں اورکوئی ہماری اصلاح کرنے کی کوشش
کررہاہوتوہم کیاسوچتے ہیں ۔ہم سے کوئی گناہ ہوجائے،کوئی خطاہوجائے ،کوئی
غلطی ہوجائے توکیاسوچتے ہیں ۔کسی اورسے کوئی گناہ، کوئی خطا،کوئی غلطی
ہوجائے توہم کیاسوچتے ہیں۔ہمیں کوئی چھوڑ کرچلاجاجائے توکیاسوچتے ہیں اورہم
کسی کوچھوڑ کرچلے جائیں توہم کیاسوچتے ہیں۔ہمیں کوئی اہمیت دے، ہماری عزت
کرے اس وقت ہم کیاسوچتے ہیں اورہم کسی کواہمیت دیتے ہیں ،کسی کی عزت کرتے
ہیں توکیاسوچتے ہیں۔ ہم کیاسوچ کرکسی کونظراندازکرتے ہیں اورہمیں کوئی
نظراندازکرے توتب ہم کیا سوچتے ہیں۔دوسروں کے عیب اچھالتے ہوئے ہم کیاسوچتے
ہیں اورکوئی ہمارے عیب اچھالے توہم کیاسوچتے ہیں۔ ہم کسی کے عیبوں کی پردہ
پوشی کریں تو کیا سوچتے ہیں اورکوئی ہمارے عیبوں کوچھپائے توہم کیاسوچتے
ہیں۔ہم کیاسوچ کرکسی کوآئینہ دکھاتے ہیں اورکوئی ہمیں آئینہ دکھادے توہم
کیاسوچتے ہیں۔ہم کسی کی موبائل کیاسوچ کرکسی کی کال وصول نہیں کرتے، ہم
کیاسوچ کرکسی کی کال، میسج، واٹس ایپ کاجواب نہیں دیتے اورکوئی ہماری کال
وصول نہ کرے، اس کا جواب نہ دے، ہمارے میسج اورواٹس ایپ کابھی جواب نہ دے
توہم کیاسوچتے ہیں۔کوئی ہماری دکان کے ساتھ یاسامنے وہی دکان بنالے توہم
کیاسوچتے ہیں ۔ اورہم کیاسوچ کرکسی کی دکان کے ساتھ یاسامنے وہی دکان بناتے
ہیں۔ہم کسی کاقرض کیاسوچ کرواپس نہیں کرتے اورکوئی ہماراقرض واپس نہ کرے
توہم کیاسوچتے ہیں۔ہم جوکام کریں تب ہم کیاسوچتے ہیں اوروہی کام کوئی
اورکرے تواس وقت ہم کیاسوچتے رہیں۔ آپ اسی طرح سوچتے رہیں اور(مزیدپڑھنے کے
لیے انتظارکریں)
نوٹ : پہلے حصہ میں عنوان ’’ایک لفظ ایک کہانی‘‘لکھاگیاہے اسے ’’ایک لفظ
ایک جائزہ ‘‘پڑھاجائے۔
|