"رحیمہ! او رحیمہ! " جنت بی بی نے ہاتھوں کا چھجہ بنا کر
اوپر کی طرف دیکھا. سورج سر پر آنے لگا تھا نظریں ٹھہر نہیں رہی تھیں۔
جی اماں! آرہی ہوں دو منٹ بس" رحیمہ نے منڈیر سے جھانک کر آواز لگائی.
" اے نیک بخت! رحیمہ کیا نام رکھ دیا دن بھر اپنا ہوش کیے بغیر اللہ کی
ساری مخلوق پر رحم کھاتی رہتی ہے" جنت بی بی جھنجلاتی ہوئی واپس پلٹیں.
"پر کیا فائدہ ایسی رحم دلی کا جب اپنے آپ پر ہی رحم نہ آوے؟" دادی اماں نے
چاشت کی نماز سے فارغ ہوکر جانماز لپیٹ کر تخت پر رکھی اور سیڑھیاں
پھلانگتی ہوئی رحیمہ کو دیکھ کر شفقت سے مسکرائیں. جو بھاگتی دوڑتی آکر ان
کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی.
"سارا دن چھت پر چڑیوں اور کوؤں کو دانہ ڈالتی رہے گی یا کتے بلیوں کو
کھلاتی رہے گی، کبھی اپنے لیے بھی سوچا کر رحیمہ!" اس کے الجھے ہوئے بالوں
میں دادی اماں کی انگلیاں کنگھی کرنے لگیں
"اماں مجھے کنگھی اور تیل دے دیجئے آج دادی اماں سے سر میں تیل لگواؤں گی."
وہ لاپروائی سے جنت بی بی کو کہہ رہی تھی. جنت بی بی اسے گھورتے ہوئے اندر
چلی گئیں. دادی اماں شفقت سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی رہیں.
"اچھا تو دادی اماں خود پر بھی رحم کھانا ہوتا ہے؟ مگر کیسے؟ میں نے تو
ہمیشہ یہی سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے تب خوش ہوتے ہیں جب ہم دوسروں پر
رحم کھاتے ہیں. نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جنت میں ایسے لوگ
داخل ہوں گے جن کے دل چڑیوں جیسے ہوں گے".(یعنی چڑیوں کی طرح ان کے دل نرم
ہوں گے)" رحیمہ نے ان کے محبت بھرے لمس کی نرمی کو اپنے اندر اتارتے ہوئے
آنکھیں موند لیں. اسی لمحے جنت بی بی ہاتھوں میں تیل اور کنگھی لیے کمرے سے
برآمد ہوئیں.
" ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں بالکل! ساری مخلوق کو کھلا پلا دے گی یہ لڑکی مگر
نہیں ہے تو اپنی فکر نہیں ہے، نہ بالوں میں کنگھی نہ ناشتہ کی فکر. بس دس
بجے اٹھے گی اور سیدھی اوپر چھت پر" جنت بی بی نے خفگی سے اسے گھورا تو
رحیمہ آنکھیں کھول کر لاڈ سے مسکرائی.
"اماں آج ناشتہ میں شامی کباب تل دیں انڈہ نہیں کھانا"
" اچھا نواب زادی صاحبہ!" جنت بی بی اسی طرح مصنوعی خفگی کے ساتھ واپس چلی
گئیں. دادی اماں نے تیل کا ڈبہ دائیں ہاتھ میں لیا اور بائیں ہاتھ کی
ہتھیلی میں ذرا سا نکال کر ڈبہ واپس رکھ دیا. اور رحیمہ کے سر میں آہستہ
آہستہ تیل مالش کرنے لگیں.
" مجھے تو دادی اماں! سب سے اچھا لگتا ہے کہ کوئی پریشان ہو اور میں اس کی
پریشانی دور کرسکوں. اس میں کیا برائی ہے بھلا؟ اللہ تعالیٰ بھی تو پھر
میری پریشانی دور کریں گے نا؟"
"بہت اچھی بات ہے بیٹا انسان کی انسانیت کا ثبوت ہی اس کا احساس والا ہونا
ہے. لیکن میں تو یہ کہتی ہوں کہ بھلا انسان اپنا احساس نہ کرے؟ بے شک اللہ
تعالیٰ تمہاری پریشانی دور کریں گے اگر تم کسی کی پریشانی دور کرو گی. لیکن
اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید اور اس کے جلال کا خوف رکھنا دونوں باتوں کا
حکم دیا ہے. نفلی عبادت میں رحمت کی امید ہے لیکن فرائض ادا نہ کرنے پر اس
کا جلال اپنی جگہ ہے. ایمان کی شرط ہے یہ بھی "
"تو کیا اپنا خیال رکھنا فرض ہے؟ اچھا تو دادی جی! جب میں اپنی کنگھی کرکے
ناشتہ کر لوں گی تو میں اپنے آپ کے لیے بھی رحم کرنے والی کہلاؤں گی؟" اس
کا ذہن جنت بی بی کی بات پر سوچ رہا تھا. دادی اماں کے شفیق انگلیوں کے
ذریعے ناریل کے تیل کی ٹھنڈک اسے بہت سکون پہنچارہی تھی.
"بیٹا! بات یہ ہے کہ تمہاری امی کی بات بھی ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا بھی
ضروری ہے لیکن یہ اس بات سے مختلف ہے جو میں کہہ رہی تھی" دادی اماں اسی
نرمی سے کہنے لگیں
"اچھا تو آپ اپنی بات بھی سمجها دیجئے" وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے لیٹی رہی
"یہ بتاؤ" دادی اماں نے سوچتے ہوئے قدرے توقف سے کہنا شروع کیا" جب تم صبح
اٹھتی ہو تو سب سے پہلے کیا کرتی ہو؟ یعنی کوئی عبادت؟"
رحیمہ نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر انھیں دیکھا.
"چھت پر جاتی ہوں." وہ اپنے کانوں میں ان کوؤں اور چیلوں کی آوازیں سن رہی
تھی گویا جو اسے دیکھتے ہی منڈیر پر آکر بیٹھ جاتے اور شور مچا کر روٹی
مانگتے ہیں.
"ہماری استانی کہتی تھیں کہ صبح اپنے گھر کی چھت پر برتنوں میں دانہ پانی
رکھا کریں تاکہ چرند پرند آپ کے گھر سے کھائیں اور آپ کو دعائیں ملیں. یہ
بھی تو عبادت ہے نا؟ "
وہ اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی
"ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے لیکن بیٹا یہ تو نفلی عبادت ہوئی نا؟ میں تو
دراصل فرض نماز کا پوچھ رہی ہوں" دادی اماں اب دھیرے دھیرے اس کے بال سلجھا
رہی تھیں. وہ خاموش رہی سچ تو یہ تھا کہ وہ کبھی بھی باقاعدہ نماز نہیں
پڑھتی تھی اور فجر، عصر اور عشاء تو اسے ہمیشہ مشکل لگتیں. فجر میں تو کسی
صورت آنکھ ہی نہیں کھلتی. کیونکہ رات کے دو ڈھائی بجے تک وہ اپنی ایک نئی
کلاس فیلو کو سکول کا پچھلا کام کرواتی تھی.
"دادی اماں میں سب کا بہت خیال کرتی ہوں سب کی مدد کرتی ہوں یہ بھی تو
عبادت ہی ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا"
اس سے یہ ہی جواب بن پڑا جو اس کے خیال میں بہت مدلل جواب تھا.
"پھر وہی بات کہ یہ سب کچھ نفلی عبادت ہے." دادی اماں نے سامنے ناشتے کی
سجی سجائی ٹرے ہاتھ میں لیے صحن کی طرف آتی جنت بی بی کی جانب تاسف سے
دیکھا. (کاش جنت بی بی! تم نے رحیمہ کو خود پر رحم کرنے کا صحیح مطلب
سمجھایا ہوتا..بلکہ کاش تمہں بھی یہ سب کچھ سکھایا گیا ہوتا!)
"اور جو خود پر رحم نه کرے؟ جب تک آپ اپنے فرائض مکمل اور صحیح طور پر
انجام نہیں دیتے آپ خود پر بڑا ہی ظلم کرتے ہیں" دادی اماں، رحیمہ کی چٹیا
گوندھتے ہوئے اس کے متحرک دماغ کو سوچ کا ایک نیا رنگ دے چکی تھیں. اس
دوران رحیمہ سوچتے ذہن کے ساتھ جنت بی بی سے ناشتے کی ٹرے تھام کر سامنے
رکھ چکی تھی.
---------***------
رحیمہ نے کال منقطع کی اور گھڑی پر نظر ڈالی تو 4 بج رہے تھے.
رحیمہ نویں جماعت کی طالبہ تھی. اس کا سکول 12 بجے لگتا تھا. وہ شام کی
کلاسز لیتی تھی. ان ہی دنوں اس کی کلاس میں سال کے درمیان میں کسی دوسرے
شہر سے ثمرہ نامی لڑکی داخل ہو گئی. سکول میں رحیمہ کا ریکارڈ ہمیشہ سے
شاندار تھا. وہ ایک فرمانبردار اور ذمہ دار طالبہ ہونے کے ساتھ ایک معاون
اور احساس رکھنے والی لڑکی تھی. اسی لئے سکول کے سب اساتذہ بھی اس کو کوئی
بھی کام سب سے پہلے کہتے تھے. جب ثمرہ سکول میں آئی تب بھی مس نازش نے اسے
بلا کر پچھلا سب کام مکمل کروانے کی ذمہ داری دے دی اور وہ ہمیشہ کی طرح
سمعنا واطعنا کی تصویر بن گئی.
یہ اس کی پرانی عادت تھی کہ کسی کو بھی مدد چاہیے ہوتی تو رحیمہ سب سے آگے
بڑھ کر مدد کرنے والی ہوتی، ایسے میں اسے دن رات کا ہوش نہیں ہوتا تھا.
آج تو ثمرہ کو سب کام کرواتے کرواتے رات کے 4 بجے تک جاگنا پڑا اب اسے شدید
پیاس لگی تو وہ چیزیں سمیٹ کر کچن کی طرف جانے لگی. پرانی طرز پر بنے گھر
میں کچن جانے کے لیے صحن سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا. چودھویں کی رات تھی چاند
پورے جوبن پر آسمان کی زینت بنا آب و تاب سے دمک رہا تھا. رحیمہ جانتی تھی
کہ دادی اماں اس پہر تہجد میں مصروف ہوں گی. اس نے سوچا ان سے بھی پانی کا
پوچھ لے. اسی ارادے سے وہ صحن میں بچھے تخت کی طرف پلٹی تھی.دبے پاؤں چلتے
ہوئے وہ تخت کے نزدیک آ کر رک گئی.
دادی اماں کے ہچکولے کھاتے وجود اور سسکیوں کو سن کر وہ رک گئی اور خاموشی
سے ان کے متوجہ ہونے کا انتظار کرنے لگی.
"رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا
لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ
الْغٰفِرِیْنَ. وَاكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی
الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ"
ایک کے بعد ایک رحم اور مغفرت کی دعا آنسوؤں میں بھیگی ہوئی دادی اماں کے
لبوں سے پھسلتی ہوئی نکل رہی تھی۔ تسبیح کے دانے ایک ردھم سے نیچے گرتے
جارہے تھے. رحیمہ جیسے گنگ ہوکر ایک عجیب سی کیفیت کو محسوس کر رہی تھی۔
تقریباً بیس منٹ تک وہ دونوں اپنی اپنی جگہ اسی طرح بیٹھی رہیں جب دادی
اماں نے اپنے دونوں ہاتھ بھیگے ہوئے چہرے پر پھیرے تب رحیمہ نے بھی گہری
سانس لی لیکن وہ کیفیت جو اس لمحے اس پر طاری تھی اس میں سے نکلنا اسے بہت
مشکل لگ رہا تھا۔
"دادی اماں! آپ تو اتنی اچھی ہیں ہر وقت نمازیں پڑھنے والی روزے رکھنے والی
اللہ تعالیٰ تو آپ سے بہت خوش ہوں گے بھلا آپ کیوں رحم مانگتی ہیں؟" رحیمہ
کے سوال پر دادی اماں چونک گئیں انھیں اب احساس ہوا کہ کوئی اور بھی یہاں
موجود ہے۔ انھوں نے ہاتھوں میں پکڑی تسبیح ایک طرف رکھی اور ہاتھ کے اشارے
سے رحیمہ کو اپنے پاس بلایا وہ ان کے نزدیک گئی تو کہنے لگیں
"کیونکہ مجھے خود سے بہت محبت ہے اور میں سب سے زیادہ رحم خود پر کرنا
چاہتی ہوں اور میں سب سے زیادہ اپنے لیے اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھتی
ہوں" ان کی بات پر رحیمہ تعجب سے انھیں دیکھنے لگی لیکن خاموش رہی۔
"تمہیں معلوم ہے رحیمہ! انسان کی جان کا اس پر سب سے بڑا حق ہے. اللہ تعالی
نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا
أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۔۔۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا
ایندھن انسان اور پتھر ہیں" انھوں نے ایک لمحے کا توقف کیا پھر تسلسل جوڑا
"تو سوچو کہ وہ کیسی آگ ہوگی کہ جس میں انسان ایندھن بنیں گے؟"
"اس آگ میں کون لوگ ڈالے جائیں گے؟" رحیمہ نے گویا دہشت سے کانپ کر پوچھا
تھا
"اس کا بھی حوالہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب جنت والے جہنم والوں سے
پوچھیں گے کہ مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَر( کس چیز نے تمہیں آگ میں ڈالا؟)
قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے
تھے)وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں
کھلاتے تھے)
"دیکھیں پھر جو مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں وہ تو بچ جائیں گے؟" رحیمہ نے
گویا جتا کر کہا
" ان شاء اللہ ضرور بچ جائیں گے۔ لیکن قرآن میں لکھی ترتیب بھی بہت اہم
ہوتی ہے یعنی پہلے تو نماز نہ پڑھنے پر ہی پکڑے جائیں گے پھر بات آگے بڑھے
گی ناَ؟ پہلا سوال نماز کا ہوگا جب اس کا ہی جواب صحیح نہ دے سکیں گے تو
آگے کیسے چلیں گے؟" دادی اماں کا لہجہ پرشفیق لیکن انتہائی سنجیدہ تھا
"آپ کہنا چاہتی ہیں کہ نفلی عبادات اور صدقات کی کوئی اہمیت ہی نہیں؟ جب کہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سے سناآپ فرماتے تھے:
رحمت سوائے بدبخت کے کسی سے نہیں چھینی جا سکتی۔
توایساشخص.. اسکی قسمت ہی پھوٹی ہوئی ہے کہ جس کے دل میں دوسروں کے لئے رحم
ہمدردی نہیں۔"
"نہیں میں یہ نہیں کہہ رہی بلکہ عبادات کی ترتیب کی اہمیت بتا رہی ہوں۔ رحم
سب سے پہلے اپنی جان پر کرنا ہے. اس دن کے لیے اپنی فکر کرنا ہے جب اللہ
تعالیٰ کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا. سب سے پہلے نماز کے بارے میں
سوال کیا جائے گا کیا کہیں گے رب عرش عظیم کے سامنے کہ تیری رحمت کی امید
میں تیرے سامنے کھڑے ہونے کی تیاری ہی نہیں کی؟ سب سے پہلے فرض نماز ہے اس
کے بعد باقی سب عبادات۔ نجات کے لیے فرض نماز ضروری ہے نفلی عبادات تو
مراتب بڑھانے کے لیے ہیں" دادی اماں نے تسبیح ایک طرف رکھی پھر لمحے بھر رک
کر کچھ سوچا پھر کہنے لگیں
"ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک صحابی تشریف لائے ۔ اور فرائض سنتوں اور
نوافل کی تفصیل پوچھی۔ آپ ﷺ نے سب تفصیل سمجھا دی پھر وہ جانے لگے تو کہا"
یا رسول اللہ ﷺ میں صرف فرض کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہوں نوافل جب پڑھ سکا
پڑھوں گا خود پر لازم نہیں کروں گا پڑھنا" جب وہ چلے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا
"یہ شخص جنتی ہے۔ جس شخص نے یوں کہا : میں اﷲ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین
ہونے پر اور محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوں اور پھر اس نے
کبھی فرض نماز نہ چھوڑی اس کیلئے جنت واجب ہوگئی .'' دادی اماں نرم آواز
میں کہتی جارہی تھیں اور رحیمہ سر جھکائے سن رہی تھی
"یعنی سب سے پہلے رحم کا مستحق انسان کا اپنا وجود ہے اور رحم یہ کہ اپنی
جان کو پھر اپنے گھروالوں کو آگ سے بچایا جائے۔ ہم وہ کمزور لوگ ہیں جو
روٹی پکاتے ہوئے بھاپ لگنے پر آنسو نکال لیتے ہیں اگر آبلہ بن جائے تو دو
تین دن اسے مرہم لگاتے رہتے ہیں تو جسے ہم برداشت کرنے کا سوچ بھی نہیں
سکتے ہیں کہ اس آگ کی گرمی کو محسوس کرنا پڑ جائے تو کیا حشر ہو گا؟" دادی
کی آواز میں پھر سے آنسوؤں کی نمی شامل ہوگئی ان کی انگلیاں پھر سے تسبیح
کے دانوں پر گھومنے لگی تھیں۔ دور کہیں سے اذانوں کی آوازیں آرہی تھیں
رحیمہ نے سر اٹھا کر دادی اماں کو دیکھا اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا
"میں سمجھ گئی دادی اماں آج آپ نے اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانے کی جو
کوشش کی ہے اسے میں ضرور کامیاب بناؤں گی اور پہل میری جان کو آگ سے بچانے
کی دعا سے کروں گی۔ " اسی وقت قریبی مسجد سے آذان شروع ہوگئی ۔ "میں آپ کے
لیے پانی لاؤں دادی جان؟ پھر ہم دونوں مل کر نماز پڑھیں گے اور یہ میری
پہلی نماز ہوگی جو میں اپنی ذات پر رحم کرتے ہوئے پڑھوں گی اب میں اللہ
تعالیٰ کی تمام مخلوق پر جو رحم کروں گی اس میں پہلا حصہ میرا ہوگا اب میری
کوئی بھی فرض نماز قضا نہیں ہوگی ان شاء اللہ " رحیمہ اٹھ کھڑی ہوئی تو
دادی سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے رو پڑٰیں۔
|