آئیں آج دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کر ہی لیں کہ عمران خان
کے بعد کون ملک کو صحیح طریقے سے چلا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے پاکستان کو
چلانے کی سمت کا تعین بھی کرلیں کہ مملکت خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی
سمت کیا ہے؟۔ملک کاسب سے بڑا مسئلہ کرپشن پر بھی بات کریں۔
پاکستان اسلام کے نام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ اس کی احساس
نظریہ اسلام ہے۔ لہذا اس کو اس سمت پر چلنا چاہیے ۔قائد اعظم محمد علی
جناحؒکی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاست دان ایک
اقتدار میں آتے رہے مگر ملک کااسلامی آئین بھی وقت پر نہ بنا سکے۔ اسی پر
ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے فقرہ کسا تھا کہ پاکستان میں
اتنے وزیر اعظم تبدیل ہوتے ہیں جتنی میں دوھتیاں بھی تبدیل نہیں
کرتا!سیاستدانوں نے قائد اعظمؒ کے وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام
حکومت بھی نافذ نہیں کیا۔ بلکہ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے جہاں تک کہہ دیا
کی اس دور میں چودہ سو سالہ پرانا اسلامی نظام ِحکومت قائم نہیں ہو سکتا۔
جبکہ قائد اعظمؒ کی تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان برعظیم کے سامنے
اسلامی نظام حکومت قائم ہونے کی سو سے زیادہ تقریریں ریکارڈ پرموجود ہیں۔
قائد اعظم ؒنے خود پاکستان بننے کے بعد نو مسلم علامہ اسدؒ کو ملک میں
اسلامی آئین بنانے کے لیے اپنی ہاتھ سے بنائے گئے ادارے ریکنسٹرکشن آف
اسلامک تھاٹ(reconstruction of aslamic thought۹) کا سربراہ بنایا۔ اس
ادارے کا کام ملک کے آئین اور نظام کو اسلامی کے مطابق بنانا تھا۔مگر قائد
اعظم کے وفات کے بعد مسلم لیگی حکمرانوں نے علامہ اسدؒ کو اس کام سے ہٹا کر
بیرون ملک سفیر بنا کر بھیج دیا۔ قائد اعظم ؒ نے مولانا سید ابوالاعلیٰ
مودودیؒ کو اس کام پر لگایا کہ وہ حکومت کو بتائیں کے کس طریقے ملک کے نظام
کو اسلامی بنایا جائے ۔ سید مودودیؒ نے اس سلسلے میں ریڈیوپاکستان سے اپنی
نشری تقریوں میں وہ طریقے بتائے جو اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور
کتابی شکل میں موجود ہیں۔ سید مودودی ؒکو بھی اس جرم میں جیل میں بند کر
دیا کیا گیا کہ وہ ملک میں اسلامی نظام حکومت کی کوششیں کرتے ہیں۔
بھٹو نے قائد اعظم ؒ کو وژن سے ہٹ کر اسلامی سوشلزم کا بیانیہ دیا۔ مسلم
لیگ نون کے نواز شریف نے قائداعظم کے دو قومی نظریہ سے ہٹ کر بھارت سے آئے
دانشورں کے اجتماع منعدہ لاہور میں کہا کہ ہم مسلمان اور ہندود ایک قوم
ہیں۔ ایک جیسا کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں۔ صرف ایک لکیر نے ہمیں علیحدہ کیا
ہوا ہے۔ عمران خان نے ساڑھے تیں سال صرف زبانی جمع خرچ کیا۔ مدینہ کی
اسلامی ریاست کی رٹ لگائی مگر عملاً اسلام سے انحراف کیا۔
اب آئیں کرپشن کی طرف۔پاکستان میں کرپشن زروں پر ہے بلکہ ہم اپنی تجزیاتی
کالموں میں ہم لکھتے رہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ بانی پاکستان
کی وفات اورنواب زادہ لیاقت علی خان شہید ملت پہلے وزیر اعظم پاکستان کی
شہادت کے بعد سیاست دانوں نے سیاست کو انڈسٹری کی شکل دے دی ہے۔ ایک کروڑ
لگاؤ، الیکشن جیتنے کے بعد اربوں کی کرپشن کرو۔ جب پکڑے جانے کا خدشہ ہو تو
اقتدار رہتے ہوئے کرپشن کا ریکارڈ ہی جلوا ڈالو جلا ڈالو۔نہ رہے بانس اور
بجے بانسری۔ جیسے نیب کے سربراہ نے آصف علی زرداری کے میگا کرپشن کے مقدمے
یہ کہہ کر داخل دفتر کر دیے تھے کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چل سکتا؟۔ کیا
ریکاڑد جلوانے کی تحقیق بھی نہیں ہونی چاہیے تھی؟۔کیا زرداری مسٹر ٹین
پرسنٹ مشہور نہیں ہیں؟۔کیا ان پر منی لئنڈرنگ کے مقدمے نہیں چل رہے۔ نواز
شریف سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے اثاثے آپ کی آمدنی سے زیادہ ہیں
۔جواب دیا کہ آپ کو اس سے کیا کہ میرے اثاثے آمدنی سے زیادہ ہیں؟۔ایک دفعہ
یہ بھی کہیں کہا تھا کہ جو کرپشن کرتا ہے وہ ریکارڈ نہیں چھوڑتا۔کیا نواز
شریف کو منی ٹرائیل نہ پیش کر سکنے پر کرپشن میں سزا نہیں ملی؟بے نظیر
صاحبہ نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بیان دیا تھا کہ لوگ پاکستان سے باہر اثاثے
اس لیے رکھتے ہیں کہ جہاں اثاثے محفوظ نہیں رہتے؟ ۔کیا وزیر اعظم کایہ کام
نہیں ہوتا کہ وہ اپنے عوام کے اثاثوں کو اپنے ملک میں محفوظ بنائیں؟ یہ تو
چند واقعات مرکزی سیاست دانوں کے بیان کیے اس سے نیچے کے سیاستدانوں کے
کرپشن حالات عوام کو معلوم ہیں۔ان حالات میں اب جب عمران خان سے بھی لوگ
تنگ آچکے ہیں۔ مہنگاہی نے عوام کوا جینا دوپھر کر دیا ہے ۔ اب وزیر خزانہ
کا بیان کہ آئی ایم ایف کی ساری شرائط منظورر کر لی جائیں گے۔ اس سے
مہنگاہی کا مذید طوفان اُٹھے گا جو عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔
صاحبو!تو کیا پھر سے آزمائے ہوئی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو اقتدار میں
پھر سے آنا چاہیے؟۔ کیا ملک کو اسلامی وژن سے ہٹانے ، کرپش کرنے اور ملک
میں مہنگاہی پیدا کرنے میں
ان تینوں پارٹیوں کا دخل نہیں؟ تو پھر کون سے پارٹی جو ملک گھیر بھی ہو۔
پاکستان کو قائد اعظمؒ کے وژن پر چلانے کا عزم بھی رکھتی ہو۔ بلکہ اس کے
لیے پہلے ملک میں اسلامی دستوری مہم چلا کرملک کے ۱۹۷۳ء کے اسلامی متفقہ
آئین بنانے میں اس کے لیڈر پروفیسرغفور احمد نے لیڈرانہ کردار بھی ادا کیا
ہو۔ جو اپنے وجود سے لے اب تک ملک میں اسلامی نظام حکومت کے لیے کوشاں رہی
ہو۔ جس کے پاس اسلامی نظام حکومت چلانے کے لیے کرپشن فری تربیت یافہ ٹیم
بھی موجود ہو۔ جس کے کارکن پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ جس پر
کبھی بھی کرپشن کا الزام نہ لگا ہو۔جو سیاست کو عبادت سمجھتے ہوں اور یہ
ثابت بھی کر چکے ہوں۔جن کے پاکستان میں سب سے بڑے ویلفیئر ادارے کام کر رے
ہوں۔ جو پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے اور اس کی حفاظت کے لیے مشرقی پاکستان
میں اپنے دس لاکھ کارکنوں اور درجنوں مرکزی لیڈروں کی قربانی دے چکے ہوں۔
جو دنیا مین کہیں بھی مسلمانوں پر مشکل آئے تو سب سے پہلے ان کی مدد کو
پہنچنے والے ہوں۔ جو ملک میں زلزلہ یا سیلاب کی تباہ کاریوں سے پاکستانی
عوام کو محفوظ رکھنے اور ان کے آباد کاری میں پیش پیش ہوں۔ صوبہ سندھ تھر
میں صحت اور پانی کے انتظامات میں سب سے آگے آگے ہوں۔ جو جہاد کشمیر، جہاد
افغانستان ،چیچینا، بوسنیا، برما اور جہاں بھی دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو
وہاں سب سے پہلے پہنچے ہوں۔ ان ساری اور بہت سے سی قابلیتیوں کے ساتھ جماعت
اسلامی پاکستان اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ الیکشن میں حصہ
لیتی ہے۔ کیا عوام کو ملک کانظام درست کرنے ، قائد اعظمؒ کے اسلامی وژن کے
مطابق چلانے اور کرپشن فری بنانے کے لیے فرشتوں کا انتظار ہے؟ ۔ نہیں نہیں!
اس دنیا میں تو اﷲ تعالیٰ نے اصلاح کا کام انسانوں ہی سے لینا۔ اور اس وقت
پاکستان میں جماعت اسلامی ہی اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ لہذا اب پاکستان
میں جماعت اسلامی کی باری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں
۔عوام بھی اس پر غور کریں اور غور کرنے والے امریکا اور مغربی دنیا کے سحر
سے نکلیں۔خاص کر پاکستان کا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بھی اپنی سمت درست
کرے۔ جماعت اسلامی کو اپنے نصب العین اور دعوت کو ملک میں آگے آنے سے روکنے
سے اجتناب کریں۔جماعت اسلامی نے اپنی وجود میں آتے ہی عوام کے سامنے جماعت
اسلامی کا نصب العین اور دعوت رکھی تھی، جو یہ ہے۔
جماعت اسلامی کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامت
دین ( حکومت الہیا کاقیام یا اسلامی نظام زندگی کاقیام) اور حقیقتاً رضائے
الہیٰ اور فلاح اُخروی کا حصول ہے ہمار دعوت اپنی پوری زندگی میں اﷲ کی
بندگی اور انبیاؑ کی پروی اختیار کرو۔ دورنگی اور منافقت چھوڑ دو۔ اور اﷲ
کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیاں جمع نہ کرو۔خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کودنیا
کی رہنمائی اور فرمانبروای کے منصب سے ہٹا دو۔ اور زمام کار مومنین، صالحین
کے ہاتھ میں دو۔ تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھیک اﷲ کی بندگی کے راستے پر چل
سکے۔ جو اس وعوت کو حق سمجھے وہ اس میں ہمارا ساتھ دے اور جو روڑے اٹکائے
وہ خدا کے ہاں اپنا جواب سوچ لے۔
اس دعوت کے ساتھ جماعت اسلامی شروع دن سے عوام کر درمیان موجود ہے۔ اب یہ
عوام کا کام ہے کہ صحیح اور درست فیصلہ کرے ۔ بار بار آزمائے جانے والوں کو
پھر سے نہ آزمائے۔ جماعت اسلامی کو اس کے انقلابی منشور کے ساتھ آگے
لائے۔جب ہم اﷲ کے بندے بنیں گے تو پھر اس ملک ِپاکستان پر اﷲ آسمان سے رزق
نازل کرے گا اور زمین اپنی خزانے اُغل دے گی۔مہنگاہی ختم ہو جائے گی۔
نوکریاں ملیں گے۔عوام کو عزت و وقارملے گا۔ملک میں امن و امان ہو گا۔ء اﷲ
کرے ایسا ہی ہو آمین۔
|