سرفراز شاہد : اِک اور چراغ بُجھ گیا میری نظر کے سامنے

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
صر صر ِ اجل سے اُردو شاعری میں طنزو مزاح کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی ۔ عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی مزاح نگار سرفرازشاہد( سرفراز محمود) نے اتوار۔ چھبیس دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ اُن کی عمر تراسی( 83) سال تھی،اُن کے پس ماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے ہیں ۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جو29۔اکتوبر 1938ء کو گکھڑمنڈی ( گوجرانوالہ ) سے طلوع ہوا وہ چھبیس دسمبر 2021ء کی شام اسلام آباد میں غروب ہو گیا۔ اُردو ،عربی ،فارسی ،انگریزی ،پنجابی ،ہندکو اورسرائیکی زبانوں کے ادب پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے اس عبقری دانش ورکی وفا ت پاکستانی ادب کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے ۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جد و جہد کرنے والا حریت فکر کا مجاہد ہماری بزم وفا سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کی سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اور معاشی حالات کے نشیب و فراز اور ارتعاشات پر شگفتہ انداز میں تنقید کرنے ولا حریت فکر و عمل کا مجاہد اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکے گا۔ غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں رمز، خالص مزاح ،طنز اورتحریف کے ذریعے مسرتو ں کا ماہتاب طلوع کرنے والا مزا ح نگار چل بسا ۔ سے سرفراز شاہد نے اپنے اسلوب کا ایسا جادو جگایاکہ پوری دنیا میں اس کی انفرادیت کی دُھوم مچ گئی ۔پس نو آبادیاتی دور میں اردو شاعری میں طنز و مزاح کو پاکستانی ادبیات میں مروج و مقبول بنانے کے سلسلے میں سر فراز شاہد کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔اُردو زبان و ادب کے ارتقا کے لیے ظریفانہ شاعری نے ایسی فکر ی اساس فراہم کی جس پر اُردو ادب کا قصر ِ عالی شان تعمیر ہوا ۔ اپنی گل افشانیٔ گفتار سے محفل کو کِشتِ زعفران میں بدلنے والے شاعر کی رحلت نے ادبی محفلوں کو رُلا دیا۔ اپنی تیس کے قریب تصانیف سے اُردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والے اس یگانہ ٔ روزگار فاضل کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ راول پنڈی اور اسلام آبادمیں طنز و مزاح کی وہ عظیم الشان جو محفل شفیق الرحمٰن ،سیّد ضمیر جعفری ،کرنل محمد خان،،محمد طحہ ٰ خان،اورنذیر احمد شیخ نے سجائی تھی سرفراز شاہد اُس کی یاد گار تھے ۔اسلام آبادمیں واقع H-8 کے شہر خموشاں کی زمین نے اُردو مزاح نگاری کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپالیا ۔
تعلیم اور ملازمت
سرفراز شاہد نے پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے سال 1953ء میں میٹرک ( سائنس ) کاامتحان پاس کیااس کے بعد سال 1955ء میں ایف ایس سی (F.Sc) کاامتحان پاس کیا۔انھو ں نے سال 1957ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے بی ایس سی (B.Sc)کی ڈگری حاصل کی۔سال 1962ء میں انھوں نے پشاوریو نیورسٹی سے فزیکل کیمسٹری میں ایم ایس سی (M.Sc)کیا۔اس کے بعد وہ محکمہ مو سمیات میں ملازم ہو گئے ۔ انھوں نے موسمی پیشین گوئی کی تربیت رائل میٹرو لو جیکل کالج لندن سے حاصل کی ۔محکمہ مو سمیات کو جدید دور کے تقاضو ں سے ہم آ ہنگ کرنے اور نئے سائنسی طریقوں کو رو بہ عمل لانے اور تحقیق کے سلسلے میں اُنھوں نے یورپ کے کئی ممالک کا دورہ کیا ۔ سرفراز شاہد نے محکمہ موسمیات میں تیس سال خدمات انجا م دیں ۔چھے مارچ 1994ء کو ریٹائرمنٹ کے وقت وہ ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کے عہدے پر فائز تھے۔سرفراز شاہد نے دنیا کے جن ممالک کے مشاعروں میں شرکت کر کے اپنے وطن کی نمائندگی اُن میں سعودی عرب ، امریکہ ،برطانیہ ، کینیڈا،تھائی لینڈ ،نیپال اور سنگاپور شامل ہیں ۔
خدمات
۱۔ڈائریکٹر اکبر الہ آبادی اکیڈمی ،اسلام آباد
۲۔ رکن پاکستان رائٹرز گلڈ
۳۔سیکرٹری جنرل بزمِ اکبر ،اسلام آباد
۴۔جوائنٹ سیکرٹری بزمِ فروغِ ثقافت ،اسلام آباد
۵۔رکن ایوارڈ کمیٹی برائے کتب آزادجموں وکشمیر کونسل سیکرٹریٹ ،اسلام آباد
۶۔مشیرماہ نامہ ظرافت ،کراچی
ایوارڈ :
صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ( 2017) ، پنجاب آرٹ کونسل مری کی جانب سے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا گیا۔ امیر خسرو اکیڈمی لندن کی طرف سے انھیں امیر خسرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔بائیو ٹیکنیکل کمیشن آف پاکستان کی طر ف سے اُنھیں خصوصی ایوارڈ سے نواز ا گیا۔
تصانیف
بلا تکلف ،کچھ تو کہیے ،ہیرا پھیری ،چوکے ،ڈِش انٹینا،گُفتہ شگفتہ ،چوکے چھکے،اُردو مزاحیہ شاعری
سرفراز شاہد پاکستان کے نامور سائنس دان ، ممتاز ماہر مو سمیات اور وسیع المطالعہ ادیب تھے ۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ سردی ،گرمی ،خزاں اور بہارکے آنے اور جانے سے انسانی مزاج پر کوئی اثر نہیں پڑتا بل کہ سب موسموں کا تعلق قلوب کے کِھلنے اور مُرجھانے سے ہوتا ہے ۔ انھوں نے مرزامحمد جعفر زٹلی ،مرزا محمد رفیع سودا ؔ، اکبر الہ آبادی ،رتن ناتھ سرشار ، مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ، منشی سجاد حسین ،حاجی لق لق ،نظیر اکبر آبادی ، پطرس بخاری ،مجید لاہوری، مرزا محمود سر حدی ، چرا غ حسن حسرت ،اسد ملتانی ،سیّد جعفر طاہر ،مجید امجد ،محمد شیر افضل جعفری ،سیّد محمد جعفری ، سیّد ضمیر جعفری ،عنایت علی خان ،سیّد مظفر علی ظفر ،خضر تمیمی،کرنل محمد خان ،صدیق سالک ،شفیق الرحمٰن،جسٹس ایم ۔آر کیانی اور نذیر احمدشیخ کی تحریروں سے بھر پور استفادہ کیا ۔سرفراز شاہد کی مثال میدان ظرافت کے اس شہ سوار کی ہے جو ہرن کے ساتھ ساتھ دوڑتاہے اور اُسے تھکا تھکا کر اپنے قبضے میں لاتاہے ۔بعض طنز نگار اپنے شکار کو قابو کرنے کے لیے اُن کے پیچھے سگانِ تازی لگادیتے ہیں یہی طنزہے جس سے سرفراز شاہد نے اپنے اسلوب کو بالعموم محفوظ رکھا ہے ۔اگر کہیں طنزنا گزیر ہو تو بھی سر فراز شاہداپنے آ نسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں کر لیتاہے اور اپنی گل افشانیٔ گفتار سے ایسا سماں باندھتاہے کہ قارئین اش اش کر اُٹھتے ہیں۔اس کی ظرافت ذوق سلیم اور شائستگی کا ایسا حسین مرقع ہے جس میں مزاح کے عطر بیز پھولوں سے پوری فضامعطر ہو جاتی ہے ۔زبان و بیاں کے کھیل سے اُس نے خالص مزاح کو تحریک دینے کی جو سعی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔دلچسپ اور مسرور کُن لطائف سے اُس نے اپنے شگفتہ اسلوب کو نکھاراہے جن کے مطالعہ سے قاری پر فیض کے متعددنئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں ،نا ہمواریوں ،تضادات اور کجیوں کے بارے میں اُس کا ہمدردانہ شعور جب فن کارانہ انداز میں ظریفانہ اشعار کی صورت میں منصۂ شہود پرآتاہے تو جامد و ساکت پتھروں،بے حِس مجسموں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہامنوا لیتاہے ۔ تاریخ اور اُس کے پیہم روا ں عمل پر سرفراز شاہد کی گہری نظر تھی ۔ جعفر زٹلی کی حق گوئی و بے باکی کو اُس نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔آخری عہد ِ مغلیہ میں جب عیاش بادشاہوں نے شاہی وقار کو خاک میں ملا دیاتو جعفر زٹلی نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار اداکیااور مصلحت کی پروا نہ کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ آخری عہد ِ مغلیہ میں جب فرّخ سیر کا سکہ نہایت دُھوم دھام سے مسکوک ہوا توقصر ِشاہی سے جاری ہونے والے احکامات کے تحت اس پر یہ شعر کندہ کیا گیا :
سکہ زداز فضلِ حق بر سِیم و زر
بادشاہ ِ بحر و بر فرّخ سیر
جعفر زٹلی نے فرّخ سیر کے اس سکہ کے جواب میں یہ شعر لکھ کر اس ظالم و سفاک اور نااہل بادشاہ سے اپنی نفرت کا بر ملا اظہار کیا:
سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہے تسمہ کش فرّ خ سیر
جوں ہی فرّخ سیر نے یہ شعر سنا اُس نے جعفر زٹلی کو دار پر کھنچوا دیا۔
سرفراز شاہد کے اسلوب میں جو حُسن بیان پایا جاتاہے قاری اُس سے بہت متاثر ہوتاہے ۔ایک ذہین تخلیق کار کی حیثیت سے سر فراز شاہد نے مزاح نگاری کو ایک سماجی فعالیت کا درجہ دیا ۔اس کی نظموں میں نظری مباحث کے بجائے فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کی گئی ہے ۔سرفراز شاہد کی ظریفانہ نظموں میں افراد کی داخلی اور خارجی زندگی کے متعدد حقائق اور عمرانی حوالے سمٹ آئے ہیں۔اپنی ظریفانہ شاعری میں سرفرازشاہد نے جہاں معاشرتی زندگی کے متعدد خارجی حقائق کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے اِن میں اقتضائے وقت کے مطابقتغیر و تبدل کے بارے میں سوچاہے وہاں یہ کوشش بھی کی ہے کہ انسانی نفسیات کی وہ اقدار جنھیں با لعموم لائق اعتنانہیں سمجھا جاتا انھیں بھی رو بہ عمل لایا جائے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں حرص ،ہوس ،خود غرضی اور بے حسی نے معاشرتی زندگی کو جس انتشار اور پژمردگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے شگفتہ شاعری نے اس کے اندمال کی سعی کی ہے ۔انسانی فطرت کے نشیب و فراز ، فکر و خیا ل ،افعال و روّیے اور باہمی ربط میں پائے جانے والے تضادات کو سرفراز شاہد نے نہایت مہارت سے اپنی شگفتہ شاعری کے لیے درکار مواد کے طور پر استعما ل کیا ہے ۔ مثال کے طور پر اپنی نظموں ’’ جشن ِ آزادی ‘‘ ، ’’ ڈر لگا ہوا ‘‘ ،لُنڈ بازار ‘‘ ،’’ جنریشن گیپ ‘‘، اور ’’ ایک جیسے ہیں ‘‘میں سر فرا زشاہد نے چور محل میں پروان چڑھنے والے اور چو ر درواز ے سے گھس کر وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے مکر کا پردہ فاش کیا ہے۔سرفراز شاہد کا شگفتہ ا سلوب غیر شخصی نوعیت کا ہے اس لیے اس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔عصر ی آگہی سے لبریز سرفراز شاہد کا اسلوب جدید دور کے واقعات ،عصری رجحانات اور معاشرتی حالات کی صحیح ترجمانی کرتاہے ۔معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں اور افراد کی کج روی کے بارے میں وہ کسی مصلحت کے قائل نہیں بل کہ انھوں نے نہایت واضح اور دو ٹوک انداز میں بے ہنگم،کیفیات پر گرفت کی ہے ۔پیروڈی میں انھوں نے بالعموم معاشرے کے معمولات پر نظر رکھی ہے تاہم جہاں کہیں کسی فرد کا بیان ہوتاہے وہاں بھی مجموعی صورت حال دل کش انداز میں قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ مزاحیہ کردار ’ ’سلطان ‘‘ ہو یا ’’ سلطانہ ‘‘ ہر جگہ اِن مزاحیہ کرداروں کے مجنونانہ افعال عبرت کا تازیانہ بن جاتے ہیں ۔اس قسم کی شگفتہ تحریروں کا موضوع اگرچہ محدود نو عیت کا ہے مگر اِس کی ہمہ گیر افادیت سے شپرانہ چشم پوشی کرنا بعید از قیاس ہے ۔ ایک سنجیدہ اور رنجیدہ مزاح نگار کی حیثیت سے سرفراز شاہد نے جذباتی استحصال کا نشانہ بننے والے مظلوم انسانوں کے دِل ِ شکستہ کی لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔ اردو شعرا کی شاعری میں سلطانہ،ریحانہ ، شمسہ ،سموں ،صباحت ،شگوفہ ،مصبہا بنو ،لال کنور ،زہر کنجڑن اور ادھم بائی تو علامت ہیں جنھیں ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھنا چاہیے جس کے معجز نمااثر سے لاشعور کی تاب و تواں کو متشکل کیا جا سکتاہے ۔ جس طر ح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور جب کہ چبانے کے اور ہوتے ہیں اسی طرح کواکب کے بارے میں ہر شخص جانتاہے کہ یہ جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے ۔اپنی شگفتہ شاعری میں سر فراز شاہد نے جن موضوعات کا انتخاب کیاہے وہ اُن کے ذوق ِ سلیم کی عمدہ مثال ہے ۔ سرفراز شاہد نے اکبر الہ آبادی کی طرح اردو کی ظریفانہ شاعری کے ساتھ جو بے تکلفی اپنائی ہے وہ قارئین کے لیے مسرت کا ایک لازوال خزینہ ہے ۔ کسی بھی صنف ِادب میں ایک تخلیق کار کے لیے کردار نگاری ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔ اپنی ظریفانہ شاعری میں سرفراز شاہدنے وسعت نظر ،باریک بینی ،تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اس مرحلے کو خوش اسلوبی سے طے کیا ہے ۔ مثال کے طور پر سلطانہ کاکردار قاری کے لیے ندرت او رجدت کا حسین امتزاج ہے ۔اس کردار کے تضادات قاری کو ایک ایسے ماحول میں لے جاتے ہیں جہاں مخلوط تعلیم میں نوجوان لڑکیاں روزانہ کئی مشکل اسباق ازبر کر لیتی ہیں مگر دِل بُرا نہیں کرتیں۔ اظہار و ابلاغ کی کامیابی کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ قاری چشمِ تصور سے کالج کی شہزادی سلطانہ کو کالج میں بے باکانہ انداز میں آتے اور مردانہ مضامین پڑھتے دیکھ لیتاہے ۔نئے دور میں مخلوط تعلیمی اداروں کایہ کلچر قارئین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔
جہاں سُلطانہ پڑھتی تھی
( اختر شیرانی کی رو ح سے معذرت کے ساتھ )
وہ اِس کالج کی شہزادی تھی اَور شاہانہ پڑھتی تھی
وہ بے باکانہ آتی تھی اور بے باکانہ پڑھتی تھی
بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
جماعت میں ہمیشہ دیر سے وہ آیا کرتی تھی !
کتابوں کے تلے فلمی رسالے لایا کرتی تھی!
وہ جب دورانِ لیکچر بور سی ہو جایا کرتی تھی !
تو چُپکے سے کوئی تازہ ترین افسانہ پڑھتی تھی !
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
کتابیں دیکھ کر کُڑھتی تھی محوِ یاس ہوتی تھی
بقول اُس کے کتابوں میں نِری بکواس ہوتی تھی
تعجب ہے کہ وہ ہر سال کیسے پاس ہوتی تھی
جو ’’ عِلّم ‘‘ عِلم کو ،مولانا کو ’’ مُلوانہ ‘‘ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
بڑی مشہور تھی کالج میں چرچا عام تھا اُس کا
جوانوں کے دِلوں سے کھیلنابس کام تھا اُس کا
یہاں کالج میں پڑھنا تو برائے نام تھا اُس کا
کہ وہ آزاد لڑکی تھی وہ آزادانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ سُلطانہ مگر پہلے سی سُلطانہ نہیں یارو
سُنا ہے کوئی بھی اَب اُس کا دیوانہ نہیں یارو
کوئی اُس شمع ِ خاکستر کا پروانہ نہیں یارو
خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی !
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
مہ جبیں حسیناؤں کی ظاہری چکا چوند اور مصروفیات دیکھنے والوں کو سرابوں کے عذابوں سے دو چار کر دیتی ہیں ۔سرفراز شاہد نے سلطانہ اور سلطان کے مزاحیہ کرداروں کے ذریعے یہ واضح کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی مصروفیات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے بعد ایک زیرک تخلیق کار طلوع صبحِ بہاراں کے بارے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اپنے شگفتہ اسلوب میں سر فراز شاہد نے جو طریقے اپنائے ہیں ان میں تقابل،اظہار و ابلاغ کے دلچسپ انداز ،مضحکہ خیز کیفیات ،مزاحیہ کردار اور تحریف نگاری بہت اہم ہیں ۔یہاں ضروری ہے کہ مزاحیہ کردار اور مسخرے میں پائے جانے والے فرق کی وضاحت کر دی جائے ۔مسخرا عجیب مخلوق ہے جوکردار ،وقار اور اعتبار سے یکسر عاری ہوتاہے ۔اس کے بر عکس مزاحیہ کردار ایک ایسا بونا ہے جو اپنے تئین باون گزا ثابت کرنے پر تُل جاتاہے ۔ تصنع اور جعل سازی کو وتیرہ بنانے والابزدل اور عیارمزاحیہ کردار اپنے تئیں عوج بن عنق ظاہر کرتاہے مگر کسی بھی آزمائش کی گھڑی میں دُم دبا کر بھاگ نکلتاہے ۔ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کرنا مزاحیہ کردار کی فطرت ہے ۔پے در پے مہلک غلطیوں کا ارتکاب کرنے کے باوجود وہ نہایت ڈھٹائی سے اپنے غلط موقف پر ڈٹ جاتاہے اور ہر بار منھ کی کھاتاہے ۔ اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں نمود و نمائش کے لیے استعمال ہونے والے اوچھے ہتھکنڈے مزاحیہ کردار کو سب لوگوں کی نگاہ میں تماشا بن بنادیتے ہیں۔ اردو ادب میں امتیاز علی تاج کا کردار چچا چھکن ،پنڈت رتن ناتھ سرشار کا کردار خوجی،ایم اسلم کا کردار مرزا جی،نذیر احمد کا کردار ظاہر دار بیگ اور سجاد حسین کا کردار حاجی بغلول مزاحیہ کردار کی مثالیں ہیں ۔سرفراز شاہد جسے بھی اپنے مزاح کا ہدف بناتے ہیں اس میں ہمدردانہ شعور کا غلبہ ہوتاہے جس کے معجز نما اثر سے رو نما ہونے والی بہار و کیف کی فضا قاری کو افکار ِ تازہ کی مشعل تھا م کر جہان ِ تازہ میں پہنچنے پر مائل کرتی ہے ۔ سرفرا زشاہد نے اپنی ظریفانہ شاعری میں طنز و مزاح کے مختلف طریقوں کا جس فنی مہارت سے استعمال کیا ہے وہ اُن کی انفردیت کی دلیل ہے ذوق ِ سلیم سے متمتع قارئین مزاح نگاری کی اس پُھل جھڑی کے بارے میں سُنتے ہیں اور سر دُھنتے ہیں۔
جب سے عینک لگی نظر والی
زہر لگتی ہے مُجھ کو گھر والی
ڈائٹنگ
آہ بھرتی ہوئی آ ئی ہو سلمنگ سینٹر
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
ڈائٹنگ کھیل نہیں چند دنوں کا بیگم
اِک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک
تھرڈ ورلڈ
گِھری رہتی ہے جو افلاس کے بحران میں ساری
صدی اکیسویں اُن پر نہ ہو جائے کہیں بھاری
خدایا تیسری دنیا کی یہ قومیں کِدھر جائیں
جو آدھی ایڈ پر زندہ ہیں ،آدھی ایڈ کی ماری
اُردو کی ظریفانہ شاعری کو جدید دور کے تقاضو ں سے ہم آ ہنگ کرنے اور اُسے عوامی مزاج سے آشنا کرنے کے سلسلے میں سرفراز شاہد کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔اُن کے انٹرویوز قومی ذرائع ابلاغ سے پیش کیے جا چکے ہیں ۔اپنی ظریفانہ شاعری میں سرفراز شاہد نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر اپنے گریۂ پیہم کو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں کرنے کی جو سعی کی ہے اس کے اعجاز سے اُن کی شگفتہ بیانی کا لطف د و بالا ہو گیا ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں اِس خطے کے باشندوں کو جن صبر آزماحالات کا سامنا کرنا پڑا اُن کی دلچسپ انداز میں لفظی مرقع نگاری کرنا سرفرا زشاہد کے منفرد اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتاہے ۔طنز و مزاح کا عصا تھام کر انسان دشمن درندو ں اور زہریلے ناگو ں پر وار کرنا سرفراز شاہد کا شیوہ تھا۔ یہ جری تخلیق کار زندگی بھر فصیل ِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کا عزم لیے پرورش ِ لوح و قلم میں مصرو ف رہا۔
قربتیں اور فا صلے
مزا آنے لگاہے اِک دوسرے سے کٹ کے جینے میں
تعجب ہے کہ یہ جذبہ بھی انسانوں میں دیکھا ہے
بہو بیڈ رُوم میں،مطبخ میں ماں ،اسٹور میں ابا
گھرو ں میں اہلِ خانہ کو کئی خانوں میں دیکھا ہے
اوپر کی کمائی
جس کیس میں امکاں ہو اُوپر کی کمائی کا
اُس کام میں یہ بابو کرتے نہیں کو تاہی
اب چھین کے لیتے ہیں سائل سے وہ ’ ’ نذرانہ ‘‘
’’اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی ‘‘
سرفرازشاہدکی شگفتہ بیانی نے ان کے اسلوب کو ندرت ،تنوع اور انفرادیت عطا کی ہے ۔سیاست کے نشیب و فراز اُن کا پسندیدہ موضوع رہا ہے ۔موجودہ دور میں خود غرض سیاست دانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر معاشرتی زندگی کو بے مقصدیت اور لا یعنیت کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔وفاداریاں تبدیل کرنا اور پارٹیاں بدلنا خود غرض ،موقع پرست اور مہم جُوسیاست دانوں کا وتیرہ بن چکاہے ۔اپنے قطعہ ’’ لوٹے ‘‘ میں سر فراز شاہد نے حرف صداقت سے اپنا تعلق واضح کیا ہے ۔ سیاست میں لوٹوں اور لُٹیروں کے قبیح کردار کے بارے میں جان کر قاری نہ صرف لطف اندوز ہوتاہے بل کہ یہ چشم کشا صداقتیں اُسے اپنے من میں ڈُوب کر سراغ زندگی پانے پر بھی مائل کرتی ہیں۔ملک کے سیاسی حالات سے کامل آ گہی رکھنے والے اس مزاح نگارنے لوٹوں کوخوب آ ئینہ دکھایا ہے ۔
لوٹے
کئی ایسے بھی ہیں غوطہ خور بحرِ سیاست کے
پتا جن کا نہیں چلتاکدھر ڈُوبے کِدھر نِکلے
کہا اقبالؔ نے شایدانہی لوٹوں کے بارے میں
اِدھر ڈُوبے ،اُدھر نِکلے ،اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے
اس خطے کے باشندوں کا المیہ یہ ہے کہ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ایک مستقل نو عیت کے احسا س کم تری نے یہاں کے مکینوں کر اپنی گرفت میں لے لیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں بھی اس خطے کے باشندے ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے ۔جس سے گلو خلاصی کے امکانات آج کے دور میں بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں۔جدیددور میں بھی میکالے کے نظام تعلیم نے یہاں تعلیمی زندگی کی سب رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔باطنِ ایام پر گہری نظر رکھنے والے اس جری مزاح نگار نے نصاب ِ تعلیم اور نصابی کتب کے بارے میں جوحقائق بیان کیے ہیں وہ چشم کشا صداقتوں کی عمدہ مثال ہے ۔ اپنے تیکھے اور موثر اندا زمیں سرفراز شاہد نے نصابی کتب کے انبار کو طومار اغلاط قرار یاہے ۔ اپنی نظم ’’ منے کا بستہ ‘‘ میں سرفراز شاہد نے نصاب تعلیم اور کتب کی بھر مار پر طنز کیاہے ۔
مُنے کا بستہ
مُنے پر ہے اِتنا بوجھ کتابوں کا
بے چارے کو چلنے میں دشواری ہے
اُس کا بستہ دیکھ کے ایسا لگتاہے
پی ایچ ۔ڈی سے آگے کی تیاری ہے
معاشرتی زندگی کے مسائل پر سرفراز شاہدکی گہری نظر ہے،اُن کاخیال ہے کہ اخلاقی اقدار پر عمل کیے بغیر فلاحی معاشرے کا قیام نا ممکن ہے ۔آج کے دور میں غریب والدین کے اعلا تعلیم یافتہ بچے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی اُن کا پرسان ِحال نہیں۔سرفرازشاہدکو اس بات کا قلق ہے کہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں اور سفارش یارشوت کے بل بوتے پر موقع پرست لوگ اپنا ا ُلو سیدھاکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میرٹ پر آنے و الے نوجوان توجو تیاں چٹخاتے پھرتے ہیں مگر مقتدر حلقے اپنے آدمیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں اصل میرٹ یہی ہے کہ نوکریاں اندھے کی ریوڑیوں کی طرح صر ف اپنوں ہی میں بٹ رہی ہیں۔
اصل میرٹ
بی ۔اے میں فرسٹ آیا تھا میرٹ کے زور پر
انٹرویو میں جا کے جو ہارا ہے آدمی
نا اہل ہو گیا مگر’’ سلیکٹ‘‘ اس لیے
اُوپر سے فون آیا ہمارا ہے آدمی
نوے بر س کی غلامی کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں سمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں نو آزادممالک کے ہر شہرِ سنگ دِل میں چغد ،کرگس ،شپر، اجلاف و ارذال اور سفہا نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ قلعۂ فراموشی کے بے چراغ گھروندوں کے مکینوں کے گرد موجود بے حسی،بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے برکتی ،بے حیائی ،بے توفیقی اور نحوست کی چٹانوں کی پوشیدہ مچانوں اور پناہ گاہوں میں عیاری کے نیزے ،مکاری کے بھالے ،غداری کی تلواریں ،محسن کُشی کے گُرز،حرص و ہوس کے تِیر ،جنسی جنون کے لٹھ ،سادیت پسندی کے کلہاڑے اور خود غرضی کے کرپان دھنسے ہیں۔ان غیر یقینی حالات میں فکر و خیا ل کا منظر نامہ دُھندلانے لگاہے ،بونے باون گزے بن بیٹھے ہیں اور کور مغزمسخرے بھی عوج بن عنق ہونے کے داعی ہیں ۔ سرفراز شاہد کی شگفتہ شاعری میں تشبیہات ،تراکیب،تلمیحات اور استعارات کا ایک منفر رنگ ہے جو قاری کو خوش کر دیتاہے ۔
ڈر لگا ہوا
ہے یوں بشر کے ساتھ مقدر لگا ہوا
کُتے کے پیچھے جیسے ہو پتھر لگا ہوا
وہ شخص ہے کوئی بڑا افسر لگا ہوا
مکھن ہے جس کو پورا کنستر لگا ہوا
اُس نے مُجھے خدائے مجازی نہیں کہا
روزِ ازل سے جس کا ہوں شوہر لگا ہوا
کالج میں لیکچرر ہے تو بے کار شخص ہے
’’ چونگی ‘‘ میں ہے کلرک تو بہتر لگا ہوا
ایٹم کی جنگ چھیڑ نہ دیں سُپر طاقتیں
آدم کو آج کل ہے یہی ڈر لگا ہوا
چیزوں کی قیمتیں ہیں برابر چڑھی ہوئی
’’ بازار جمعہ‘‘ بھی ہے برابر لگا ہوا
سینے سے یوں لگائے ہوئے ہوں کسی کی یاد
جیسے پُرانے کوٹ میں استر لگا ہوا
واعظ تری جبیں پہ جو کالا نشان ہے
ویسا نشان ہے مرے دِل پر لگا ہو ا
یو ں صاحبوہمارے تعاقب میں ہے خزاں
دارا کے پیچھے جیسے سکندر لگا ہوا
بنگلہ نہیں ،پلاٹ نہیں کار بھی نہیں
کہنے کو سرفرا ز ؔ ہے افسر لگا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں آبادیوں اور شہروں کے بارے میں تمام حالات پر سرفراز شاہد کی گہری نظر ہے وہ اس خطے کے سماجی اور معاشرتی حالات کے بارے میں مکمل آ گہی رکھتاہے ۔ اُس کے قلبِ حزیں سے جو بات نکلتی ہے وہ پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے ۔ ذوق سلیم کی مظہر اُس کی شگفتہ شاعری کے اعجاز سے نہ صرف اُردو زبان و ادب کی ثروت میں گرا ں قدر اضافہ ہوا بل کہ اس خطے کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کے نمو کی قابل رشک صور ت سامنے آ ئی۔ اُس کی دلی تمنا ہے کہ ار ض ِ وطن پر ایسی فصلِ گُل اُترے جو اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہواور یہاں انصاف ، امن و امان ،ایثار و محبت ،خلوص و مروّت اور وفا کا زمزم سدا روا ں دواں رہے ۔اُسے اس بات کا قلق ہے کہیہاں کاماحول بھی عجیب ہو رہا ہے جہاں ہر شہر رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہاہے ۔ سرفرا زشاہد ایک حساس تخلیق کار ہے وہ نہ صرف معاشرتی زندگی کی موجودہ بے اعتدالیوں پر اپنے رنج و غم کا اظہا ر کرتا ہے بل کہ وہ چشم تصور سے اُن تضادات کو بھی دیکھ لیتاہے جو مستقبل قریب میں یہاں رونما ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں اکثر لوگ اپنی دُھن میں مگن اپنی ہی فضامیں مست و بے خود نظر آتے ہیں اور مظلوم انسانوں کی دیدۂ گریاں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اپنی شعوری کاوش سے اپنے جذبۂ دِل کو جب وہ اپنے ظریفانہ اشعار میں سمیٹتے ہیں تو قاری کو تخلیق کار کے اس تجربے سے راحت اور مُسرت کی نوید ملتی ہے ۔اُن کاانداز بیاں اس قدرپر لطف اور مسحور کُن ہے کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتاہے ۔
ایک جیسے ہیں
منافع مشترک ہے اور خسارے ایک جیسے ہیں
کہ ہم دونوں کی قسمت کے ستارے ایک جیسے ہیں
میں اِک چھوٹا سا افسر ہوں ،وہ اِک موٹا سا مِل اونر
مگر دنوں کے ’’ اِنکم گوشوار ے‘‘ ایک جیسے ہیں
اِسے ضعف ِ بصیرت ہے ،اُسے ضعفِ بصارت ہے
ہمارے دیدہ ور سارے کے سارے ایک جیسے ہیں
مٹن اور دال کی قیمت برابر ہو گئی جب سے
یقیں آیا کہ دونوں میں حرارے ایک جیسے ہیں
جہاں بھر کے سیاسی دنگلوں میں ہم نے دیکھا ہے
’’ انوکی ‘‘ اِک سے اِک اُونچا ہے ’’ جھارے ‘‘ ایک جیسے ہیں
وہ تھانہ ہو، شفاخانہ یا پھر ڈاک خانہ ہو
رفاہِ عام کے سارے ادارے ایک جیسے ہیں
بَلا کا فرق ہے لندن کی گوری اور کالی میں
مگر دونو ں کی آ نکھوں میں اشارے ایک جیسے ہیں
ہر اِک بیگم اگرچہ منفرد ہے اپنی سج دھج میں
مگر جتنے بھی شوہر ہیں بِچارے ایک جیسے ہیں
گُماں ہوتاہے شاہد ؔ ریڈیو پر سُن کے موسیقی
کہ پکے راگ اور نمکیں غرارے ایک جیسے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کا المیہ یہ ہے کہ منزلوں پر اُن موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو شریک ِ سفر ہی نہ تھے ۔ سرفراز شاہد کی جمالیاتی حِس اُن کی گل افشانیٔ گفتار میں نمایاں ہے ۔اُن کے اسلوب میں پُر لطف حُسنِ بیان کی تفہیم اور جمالیاتی سوز و سرور کے سوتے اُن کی جمالیاتی حِس ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ اُن کی شاعری کے مقبولیت کابنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔وہ اپنے سوزِ دروں کوبروئے کار لاتے ہوئے ہر قسم کے تضادات اور نا ہمواریوں کے خلاف کُھل کر لکھتے ہیں۔اُن کی ظریفانہ شاعری میں دِل و جگر اور ذہن و ذکاوت کی تپش حقیقی اندازمیں جلوہ گر ہوتی ہے ۔وہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہیں اورکسی مصلحت کی پروانہیں کرتے ۔ معاشرتی زندگی کے تضادات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ وقت کے اس لرزہ خیزاور اعصاب شکن سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ کم ظرف ،جاہل اور کندۂ ناتراش بھی اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں کامیاب ہو گئے ۔ حِس مزاح کو تحریک دینے والے موضوعات پر سرفراز شاہد کو جو خلاقانہ دستر س حاصل ہے وہ انھیں معاصر مزاح نگاروں میں ممتازمقام عطا کرتی ہے ۔ایسی بے سروپا باتیں جو طومار اغلاط ہوں اُنھیں وہ کبھی برداشت نہیں کرتے اور اُن پر گرفت کر کے اُنھیں لائق استرداد ٹھہراتے ہیں۔انھوں نے انسانی فطرت کی اُن خامیوں اور عیوب کی جانب توجہ دلائی جن کے باعث کسی شخصیت کے استحکام میں خلل پڑنے کا امکان ہے ۔پس نوآبادیاتی دور میں اس خطے کے باشندوں کے کردار میں جو خامیاں پیدا ہوئیں سرفراز شاہدنے انھیں ہدفِ تنقید بنایا ہے اور تمام لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔مرغان ِ باد نما کی ریاکاری ،خود غرضی ،بے بصری اور کو ر مغزی نہ صر ف تکلیف دہ ہے بل کہ یہ اہانت آ میزبھی ہے۔اس کی وجہ سے صبح آزادی کا اُجالاداغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو گئی ۔ یہاں کے باشندوں کے بے بصری اور کو ر مغزی کے نتیجے میں ہر طرف بے حسی کاعفریت منڈلانے لگااور جس آزادی کی صبح درخشاں کی توقع تھی مفاد پرست درندے سد سکندری بن کر اُس کی ضیا پاشیوں کی راہ میں حائل ہو گئے۔
جشنِ آزادی
کام جو رشوت سے بن جائے بنا نا چاہیے
چور بازاری سے کالا دھن کما نا چاہیے
دودھ میں پانی بہ آزادی ملا نا چاہیے
جس سے ہو مطلب ہو اسے مکھن لگا نا چاہیے
دوستو ! یوں جشنِ آزادی منانا چاہیے
چاول اور گندم ،نہ کچھ فولا د پیدا کیجیے
نصف درجن کم سے کم اولاد پیدا کیجیے
مسئلے پھر آپ لا تعداد پیدا کیجیے
ماہرِ منصوبہ بندی کو بھگانا چاہیے
دوستو ! یوں جشنِ آزادی منانا چاہیے
جی میں جو آئے کیے جاؤ کہ تم آزاد ہو
لاریاں تیزی سے دوڑاؤ کہ تم آزاد ہو
حادثہ کر کے کِھسک جاؤ کہ تم آزاد ہو
دھر لیے جاؤ تو فوراً مُک مُکانہ چاہیے
دوستو ! یوں جشنِ آزادی منانا چاہیے
قدرت ِ کاملہ کی طرف سے سرفراز شاہد کو منفرد مزاج اور شخصیت سے نواز ا گیا تھا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ معاشرتی زندگی کے تضادات کو دیکھتا اور اُن کے مضمرات کے بارے میں سوچتاتھا،یوں اُس نے اپنی جانِ ناتواں پر دوہرے ستم برداشت کیے ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کو مطمح نظر بنانے والے اس شگفتہ مزاج ادیب نے سدا حریت ِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے پر اصرارکیا اور فکر انسانی کو ایک ایسے کُھلے ہوئے امکان سے تعبیرکیا جو ستارو ں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت سے متتمع ہے ۔عملی زندگی میں سرفراز شاہدنے معاشرتی زندگی میں بڑھتے ہوئے تضادات ،بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کا شخصی اور اجتماعی سطح پرمشاہدہ کیا ۔ اس مشاہدے سے انھوں جو اثرات قبول کیے انھیں انھیں اپنی شگفتہ شاعری میں زیب قرطاس کیا۔اُن کی شگفتہ شاعری کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے پس نوآبادیاتی دور کے حالات کے بارے میں نہایت خلوص ،وقار ،دردمندی اور شان دل ربائی کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ان کی ظریفانہ شاعری جو اُن کی داخلی کیفیات کی امین ہے معاشرتی زندگی کے تمام حقائق کی عکاسی کرتی ہے ۔ یہ شاعری گلشنِ ادب میں کِھلنے والے ایک ایسے سدا بہارگلاب کی سی ہے جس کی تازگی اور شگفتگی سے قارئین کا قریۂ جاں معطر ہو گیا ہے ۔ حیف صدحیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُردو شاعر ی میں طنز ومزا ح کایہ رُباب توڑ دیا لیکن اس سے جو مسرور کُن گیت اور نغمے گلشنِ ادب میں گونجے وہ تا ابدسنائی دیتے رہیں گے اور مستقبل میں شگفتہ شاعری میں طبع آزمائی کرنے والوں کے ولولوں کو مہمیزکرتے رہیں گے اورہر دور کی ظریفانہ شاعری میں سرفراز شاہد کی شاعری کے آثارملیں گے۔ ۔

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 607237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.