#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 1 تا 12
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰسٓ 1
والقراٰن الحکیم 2
انک لمن المرسلین 3
علٰی صراط مستقیم 4 تنزیل
العزیزالرحیم 5 لتنذر قوما ماانذر
اٰباؤھم فھم غٰفلون 6 لقد حق القول علٰی
اکثرھم فھم لایؤمنون 7 انا جعلنا فی اعناقھم
اغلٰلا فھی الی الاذقان فھم مقمحون 8 وجعلنا من بین
ایدیھم سدا و من خلفھم سدا فاغشینٰھم فھم لایبصرون 9
وسواء علیھم ءانذرتھم ام لم تنذرھم لایؤمنون 10 انما تنذر من
اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب فبشره بمغفرة واجر کریم 11 انا
نحن نحی الموتٰی ونکتب ماقدموا واٰثارھم وکل شئی احصینٰه فی
امام مبین 12
اے ہر جان و جہان میں سعادت مند انسان ! آپ ھمارے علمِ قُرآن اور ھماری
حکمتِ قُرآن کے وہ عالم و عامل اور ھمارے رسولوں میں وہ رسُول ہیں جو پہلے
ہی راستی کے اُسی راستے پر ہیں جو راستہ دکھانے کے لیۓ ھم نے آپ پر اپنا
قُرآن نازل کیا ھے تاکہ آپ ھماری اِس روشن کتاب کے روشن علم و حکمت کے دو
روشن دلائل کے ساتھ مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے اُن لوگوں کو ڈرائیں جو
نسل در نسل مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے بیخبر کے بیخبر ہی چلے آرھے ہیں
لیکن اِن لوگوں کے ساتھ زیادہ تر وہ برباد لوگ بھی آباد ہیں جن کو راستی کا
یہ راستہ پہلے بھی دکھایا گیا ھے لیکن وہ اِس راستے پر اِس لیۓ کبھی نہیں
چل سکے کہ اِن کی گردنوں میں جہالت کے وہ بڑے بڑے طوق پڑے ہوۓ ہیں جو اِن
کی ٹھوڑیوں تک چڑھے ہوۓ ہیں جن کی وجہ سے اُن کے سر اپنے فطری محل سے کُچھ
اِس طرح بے محل ہو چکے ہیں کہ وہ آگے بھی نہیں دیکھ سکتے ، پیچھے بھی نہیں
دیکھ سکتے بلکہ کسی طرف بھی نہیں دیکھ سکتے اِس لیۓ اِن لوگوں کو اِن لوگوں
کے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج کے حوالے سے آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا ایک
برابر ھے ، وہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ایمان نہیں لاۓ تھے اور آپ کے آنے کے
بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے ، اِن سب لوگوں میں سے آپ صرف اُن چند سلیم
الطبع لوگوں کو اُن کے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے ڈرا کر راہِ راست پر
لا سکتے ہیں جو اپنی طبعی سلامت روی کی وجہ سے آپ کے حرفِ نصیحت کو قبول
کریں گے اور جو اپنے اَن دیکھے رحمٰن کی اَن دیکھی رحمتوں پر بھی یقین کریں
گے ، اِن میں سے جو لوگ آپ کی بات پر کان دھریں تو آپ اُن کو سعادتِ دارین
کی خوشخبری دیں اور اُن کو اِس اَمر سے بھی آگاہ کردیں کہ ھم اُن کے اُن
اعمال کو بھی ضبطِ تحریر میں لا رھے ہیں جو اعمال وہ اپنی موت سے پہلے نجات
پانے کے لیۓ اپنے آگے بھیج رھے ہیں اور ھم اُن کے اُن اعمال کو بھی ضبطِ
تحریریں میں لا رھے ہیں جن اعمال کو وہ اپنی موت کے بعد اپنی یاد دلانے کے
لیۓ اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رھے ہیں اور اُن کے یہ سارے اعمالِ خیر ھماری
اُس کتابِ محفوظ میں محفوظ ہوتے رہتے ہیں جو ہر وقت ھمارے سامنے کُھلی رہتی
ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَہِ یٰس قُرآنِ کریم کی اُن معروف سُورتوں میں سے ایک معروف سُورت ھے
جس کے بڑے مضامین میں ایک بڑا مضمون اللہ تعالٰی کی توحید کا وہ ایمان و
اعتقاد ھے جس کے ابلاغ و تبلیغ کے لیۓ اللہ تعالٰی نے قُرآن نازل کیا ھے ،
اِس ورت کے بڑے مضامین میں دُوسرا بڑا مضمون اللہ تعالٰی کے رسُول کا وہ
منصبِ رسالت ھے جو توحید کے ابلاغ و تبلیغ کا واحد ذریعہ ھے اور اِس سُورت
کے بڑے مضامین میں تیسرا بڑا مضمون وہ یَوم قیامت ھے جس یومِ قیامت کے آنے
پر ہر انسان نے اللہ تعالٰی کی عدالتِ انصاف میں حاضر ہو کر اپنے ہر مُثبت
و مَنفی عمل کا حساب دینا ہوتا ھے اور ہر انسان نے اپنے ہر مُثبت و مَنفی
عمل کا ایک مُثبت و مَنفی عمل کا بدلہ بھی لینا ہوتا ھے ، اہلِ روایت نے
اِس سُورت کے انہی تین بڑے مضامین کے حوالے سے اِس سُورت کو مکی سُورت قرار
دیا ھے ، یعنی اُن کے نزدیک اہلِ مکہ کو تو توحید و رسالت اور یومِ آخرت پر
ایمان لانے کی ضرورت تھی لیکن اہلِ مدینہ کو ان پر ایمان لانے کی یا تو
کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اور یا اگر تھی بھی تو اہلِ مکہ کے مقابلے میں
نسبتاً کم تھی ، بہر کیف سُورَہِ یٰس کے یہ تین بڑے مضامین جو اِس سُورت کا
خلاصہِ کلام ہیں یہی تین بڑے مضامین قُرآنِ کریم کا بھی خلاصہِ کلام ہیں
اور یہی تین بڑے مضامین دُنیا و آخرت کے اعمال و جزاۓ اعمال کا بھی خلاصہِ
کلام ہیں اور قُرآن کے یہی تین بڑے مضامین ہیں جن کا ہر زندہ انسان کے لیۓ
پڑھنا اور یاد رکھنا لازم ھے تاکہ اُس کا دُنیا سے نکل کر آخرت میں جانے کا
سفر آسان ہو لیکن اہل روایت نے حسبِ روایت جس طرح قُرآن کی ہر روشنی کو
روایات کی تاریکی میں چُھپانے کی کوشش کی اسی طرح اِس سُورت کی اِس روشنی
کو بھی اُنہوں نے اپنی روایت کے مطابق اپنی روایات کی تاریکی سے مٹانے کی
بھر پُور کوشش کی ھے ، چنانچہ مُفسر ثناء اللہ امرت سری تفسیرِ مظہری میں
لکھتے ہیں کہ { حضرت ابو بکر کی ایک روایت میں اٰیا ھے کہ رسول اللہ نے
فرمایا سُورَہِ یٰسٓ کو توریت میں معمہ کہا گیا ھے کیونکہ یہ اپنے پڑھنے
والے کو دونوں جہان کی بھلائی عموما عطا کرتی اور دُنیا و آخرت دونوں کے
دُکھ دُور کرتی ھے ، اس کا نام دافعہ اور قاضیہ بھی ھے ، یہ اپنے پڑھنے
والے سے ہر برائی کو دفع کرتی اور اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتی ھے ، جو اس
کو پڑھے گا اس کو بیس حج کی برابر ثواب ملے گا اور جو اس کو سنے گا اس کو
راہ خدا میں ہزار دینار صرف کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور جو اِس کو لکھے
گا اس کے سینے کے اندر ہزار دوائیں اور ہزار نور اور ہزار یقین اور ہزار
نیکیاں اور ہزار رحمتیں داخل کر دی جائیں گی اور ہزار کینے اور مرض اس کے
اندر سے نکال دیۓ جائیں گے اور یہ بھی حضرت ابو بکر کی روایت ھے کہ رسول
اللہ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اپنے ماں باپ کی قبروں پر یا دونوں میں
سے ایک کی قبر پر جاکر سورہ یسین پڑھے گا اللہ اس کے ہر حرف کی تعداد کے
برابر اس کے گناہ معاف کر دے گا } اہلِ روایت کے ایک دُوسرے بڑے سر خیل سید
ابوالاعلٰی مودودی مرحوم امام احمد و ابوداؤد ، نسائی و ابن ماجہ اور
طبرانی کے حوالے سے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں معقل بن یسار کی یہ روایت
لاۓ ہیں کہ { نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا سورہ یٰس قلب القرآن ،
یعنی یہ سورہ قرآن کا دل ھے ، یہ اسی طرح کی تشبیہ ھے جس طرح سورہ فاتحہ کو
ام القرآن فرمایا گیا ھے ، فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ھے کہ
اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آگیا ھے اور یٰس کو قرآن کا
دھڑکتا ہوا دل اس لیۓ فرمایا گیا ھے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پرزور
طریقے سے پیش کرتی ھے جس سے جمود ٹوٹتا اور رُوح میں حرکت پیدا ہوتی ھے ،
انہی معقل بن یسار سے امام احمد ، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی
نقل کی ھے کہ حضور نے فرمایا : اقراءوا سورة یٰس علٰی موتاکم ، اپنے مرنے
والوں پر سورہِ یٰس پڑھا کرو ، اس کی مصلحت یہ ھے کہ مرتے وقت مسلمان کے
ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں ، بلکہ خصوصیت کے
ساتھ اُس کے سامنے عالمِ آخرت کا پورا نقشہ بھی آجاۓ اور وہ جان لے کہ حیات
دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کی منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ھے ،
اس مصلحت کی تکمیل کے لیۓ مناسب معلوم ہوتا ھے کہ غیر عربی داں آدمی کو
سورہ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جاۓ تاکہ تذکیر کا حق پوری
طرح ادا ہو جاۓ } ایک طرف تو قُرآنی اٰیات کے حوالے سے سُورہِ یٰس کا وہ
مُختصر پس منظر ھے جس سے توحید و رسالت اور عالَمِ آخرت کے بارے میں قُرآنی
اٰیات کو سمجھ کر پڑھنے اور یاد رکھنے کی وہ تاکید ھے جس کا ھم نے آغازِ
کلام میں ذکر کیا ھے اور دُوسری طرف اہل روایت کی یہ روایات ہیں جن سے
معلوم ہوتا ھے کہ قُرآن کو اپنی نجات کے لیۓ سمجھ کر پڑھنا اور عمل کرنا
انسان پر لازم نہیں ھے بلکہ بیس حج کرنے ، ایک ہزار دینار خیرات کرنے ،
ہزار دوائیں ، ہزار نُور و ہزار یقین ، ہزار نیکیاں اپنے جسم میں داخل کرنے
اور ہزار مرض و ہزار کینے اپنے جسم سے نکالنے کے لیۓ ایک سُورَہِ یٰس کا
پڑھ لینا ہی کافی ھے اور اگر پھر بھی کسی کے دل میں کسی کی نجات کے بارے
میں کوئی شک شبہ باقی رہ جاۓ تو موت کے وقت اُس کے پاس بیٹھ کر سُورَہ یٰس
پڑھ لینا مناسب ھے اور اگر ترجمے کے ساتھ پڑھ لی جاۓ تو نُور علٰی نُور ھے
، اٰیاتِ بالا کے نفسِ مضمون میں جس بڑی حق شناس اور حق گریز قوم کا ذکر
کیا گیا ھے اُس سے اہلِ کتاب کی وہ بڑی جماعت مُراد ھے جو پہلے انبیاۓ کرام
کی دعوت و تعلیم کا انکار کرتی آئی تھی اور اَب بھی اُس نے سیدنا محمد علیہ
السلام کی دعوت کا انکار ہی کرنا تھا اِس لیۓ سیدنا محمد علیہ السلام کو
آگاہ کیا گیا ھے کہ اِس جماعت کے انکار و گریز سے پریشان ہونے کی زیادہ
ضرورت نہیں ھے اور ساتھ ہی آپ کو یہ بشارت بھی دی گئی ھے کہ اِس جماعت کے
چند سلیم الطبع لوگ آپ کے زمانے میں بھی آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے
بعد بھی آپ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لاتے رہیں گے ، اہلِ کتاب اور
دُوسرے بگڑے تگڑے افراد کی یہ وہ پتھر دل جماعت ھے جس کا اللہ تعالٰی نے
قُرآنِ کریم کے آغازِ کلام میں آنے والی سُورَةُ البقرة کی چَھٹی اٰیت میں
ہی ذکر کر دیا تھا اور اِس سُورت کے اِس مقام پر بھی اُس کے اُسی ذکر کا
اعادہ کیا گیا ھے اور جہاں تک اٰیاتِ بالا میں آنے والے دیگر امور کا تعلق
ھے تو اُن امور کو ھم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ہی اِس حد تک واضح
کر دیا ھے کہ اَب اُن امور پر مزید گفتگو کی کُچھ زیادہ ضرورت نہیں ھے !!
|