#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ فاطر ، اٰیت 42 تا 45
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اقسموا
باللہ جھد ایما
نھم لئن جاءھم نذیر
لیکونن اھدٰی من احد الامم
فلما جاءھم نذیر مازادھم الّا نفورا
42 استکبارا فی الارض ومکر السیئی
ولایحیق المکر السئی الّا باھلهٖ فھل ینظرون
الّا سنت الاولین فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن
تجد لسنت اللہ تحویلا 43 اولم یسیروا فی الارض
فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلھم وکانوااشد
منھم قوة وماکان اللہ لیعجزهٗ من شئی فی السمٰوٰت و
لافی الارض انه کان علیما قدیرا 44 ولویؤاخذ اللہ الناس
بماکسبوا ماترک علٰی ظھرھا من دابة ولٰکن یؤخرھم الٰی اجل
مسمی فاذاجاء اجلھم فان اللہ کان بعبادهٖ بصیرا 45
اے ھمارے رسُول ! اِس وقت جو لوگ آپ کے پیش کیۓ ہوۓ نظامِ توحید و اتحاد کی
پُوری شدت کے ساتھ مخالفت کر رھے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اِس نظامِ اتحاد کے
آنے سے پہلے اپنے سیدھے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور اپنے سیدھے ہاتھوں کی
شہادت کی اُنگلیاں فضا میں لہرا لہرا کر اِس بات پر اللہ کی قسمیں کھایا
کرتے تھے کہ اگر اِن کے پاس حق کا کوئی ایسا داعی آیا جس نے اِن کو خیر کا
راستہ دکھایا تو وہ ہر پہلی اُمت سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اُس کے دکھاۓ ہوۓ اُس
راستے پر چلیں گے لیکن جب اُن کے پاس وہ حق اور حق کا وہ داعی آگیا تو حق
کے ساتھ اُن کی نفرت و بیزاری میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا ھے اور
اُنہوں نے زمین میں اپنے شخصی تکبر و نسلی غرور کے مطابق وہی پرانی بَد
خُوئی اور فتنہ جُوئی شروع کردی ھے جو اِن سے پہلے لوگ کیا کرتے تھے ، یہ
لوگ ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ اِن کی اِس بَد خُوئی اور فتنہ جُوئی کا یہ
عمل اِن کے گلے کا پھندہ بن کر اِن کو اسی طرح ہرباد کر دے گا جس طرح اِس
نے اِن سے پہلے لوگوں کو برباد کیا تھا اور یہ لوگ یہ بات بھی نہیں جانتے
تھے کہ ہر بُرے عمل کا بُرا نتیجہ ظاہر ہونا اللہ کا وہ دائمی قانُون ھے جس
کو پہلے بھی کسی انسان نے تبدیلی ہوتے نہیں دیکھا ھے اور آئندہ بھی کوئی
انسان تبدیل ہوتے نہیں دیکھے گا لیکن کیا یہ لوگ زمین میں نہیں رہتے ہیں ،
اگر یہ لوگ زمین میں رہتے ہیں تو کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں
اور اگر یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے بھی ہیں تو کیا اِن لوگوں نے زمین میں
گھوم پھر کر اُن پہلی قوموں کی تباہی کے بکھرے ہوۓ آثار نہیں دیکھے ہیں جو
زمین میں اِن سے زیادہ طاقت ور تھے اور کیا یہ لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ
اللہ کے اِس نظام کو زمین کی کوئی قوم زمین میں اور آسمان کی کوئی قوم
آسمان میں کبھی بھی شکست نہیں دے سکی ھے بلکہ اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ زمین و
آسمان کی ہر ایک قوم جس نے ھمارے نظام سے بغاوت کی ھے وہ ایک ایک کر کے
اپنے اَنجام کو پُہنچ چکی ھے اور آپ کے زمانے کے جو لوگ پہلے لوگوں کی طرح
اپنے بُرے اَنجام کے لیۓ بُری طرح مچل رھے ہیں تو اُن کو بتا دیا جاۓ کہ
اللہ کے اِس نظام میں جس قوم کے عمل اور نتیجہِ عمل کی جو ایک مقررہ مُدت
ھے اُس قوم کی اُس مقررہ مُدت سے ایک ساعت پہلے بھی گرفت نہیں کی جاتی اور
ایک کھڑی بعد میں بھی گرفت نہیں کی جاتی بلکہ اُس کے مقررہ وقت پر ہی اُس
کی گرفت جاتی ھے ، اگر اللہ ہر انسان کے ہر جُرم کی فوری سزا دیتا تو اِس
وقت زمین پر کوئی ایک انسان بھی زندہ موجُود نہ ہوتا اور اللہ کا یہ نظام
جو لَمحہ بہ لَمحہ ایک ترتیب سے چل رہا ھے تو وہ اسی بنا پر چل رہا ھے کہ
اللہ زمین کے ایک ایک انسان کے ایک ایک عمل کو بذاتِ خود دیکھ رہا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے اِفتتاحِ کلام میں اِس سُورت کے موضوعِ سُخن کے طور پر اللہ
تعالٰی کی توحید کی وہ مُطلق اہمیت بیان کی گئی تھی جس مُطلق اہمیت کا
مُجرد اعتقاد یہ ھے کہ اللہ تعالٰی اِس عالَم کا وہ خالق ھے جو اپنی ذات
میں ایک وحدهٗ لاشریک ہستی ھے اور اُس وحدهٗ لاشریک ہستی نے اپنے اِس عالم
کو کسی سابقہ نمونے اور نقشے کے بغیر اپنے علم و ارادے کی عملی قُوت و
قُدرت سے بنایا ھے اور اَب اِس سُورت کے اِختتامِ کلام پر توحید کی یہ
مقصدیت بیان کی گئی ھے کہ توحید کا یہ ایمان و اعتقاد محض ایک علمی و
رُوحانی نظریۓ کا اقرار نہیں ھے بلکہ یہ اُس قلبی و فکری اور وجدانی و
رُوحانی نظامِ عمل کا اقرار ھے جو نظامِ عمل اللہ تعالٰی نے اِس عالَم اور
اِس عالَم کی مخلوق کے لیۓ بنایا ھے اور زمان و مکان میں اِس نظامِ عمل کو
ایک عملی صورت میں مُتشکل کرنے کے لیۓ انسان کو اِس اَمر کا پابند بنایا ھے
کہ وہ علمی و عملی طور پر زمین میں توحید کے اِس اعتقاد کو قابلِ عمل بناۓ
کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات میں خود بھی ایک ھے اُس کا یہ نظامِ حیات بھی ایک
ھے اور اِس ایک اللہ تعالٰی کے اِس ایک نظام کا تقاضا بھی یہی ایک ھے کہ
انسان زمین پر نظریہِ توحید کی بنیاد پر اُس وقت تک وحدتِ انسان اور وحدتِ
اَدیان کی تدبیر کرتا رھے جب تک زمین پر وحدتِ انسان اور وحدتِ اَدیان کا
خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہوجاۓ ، اٰیاتِ بالا میں انسان کو اِس عمل کی اَنجام
دہی کے لیۓ سب سے پہلے یہ اَمر یاد دلایا گیا ھے کہ انسان جو اپنی اُفتادِ
طبع کے اعتبار سے ایک ایساجلد باز واقع ہوا ھے جو جتنی جلدی ارادے باندھتا
ھے وہ اتنی ہی جلدی ارادے توڑ بھی دیتا ھے جس کی تازہ ترین دلیل کے لیۓ
تازہ ترین مثال یہ ھے کہ جو قوم قُرآن کی پہلی مخاطب قوم ھے وہ قوم نزُولِ
قُرآن سے پہلے قُرآن کے اِس نظام کے انتظار میں رہتے تھی اور اللہ تعالٰی
کی قسمیں کھا کھا کر ایک دُوسرے کو اِس اَمر کا یقین بھی دلاتی رہتی تھی کہ
اگر اُس کے زمانے میں اُس کی اِس زمین پر اللہ تعالٰی کا کوئی رسُول اُس کا
پیغامِ ھدایت لے کر آیا تو وہ پہلی اُمتوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر اللہ تعالٰی
کے اُس رسُول کی تائید و حمایت کرے گی لیکن جب وہ رسُولِ برحق ایک پیغامِ
بر حق لے کر اُس قوم کے پاس آگیا تو اُس قوم کے اُن لوگوں نے بھی پہلی
قوموں کے پہلے لوگوں کی طرح اُس پیغامِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا اِس
لیۓ کہ نزولِ قُرآن کے زمانے کے یہ لوگ بھی اُن پہلے لوگوں کی طرح جلد باز
تھے ، اِن جلد باز لوگوں کے ساتھ ایک دُوسرا المیہ یہ ہوا تھا کہ اِن کی
اِس جلد بازی سے فائدہ اُٹھا کر اِن کے اندر اور باہر کے شیطان نے اِن کے
دلوں میں شک کا وہ بیج بھی بو دیا تھا جس شک کے بیج نے اِن لوگوں کو یہودی
کاہنوں سے ، مُشرک نجومیوں سے اور مشرکوں کے اُن بتوں سے منتیں اور مُرادیں
مانگنے کی راہ پر لگادیا تھا اور یہ لوگ شرک و بت پرستی کے اِن راستوں پر
چلنے کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ اِن کو شرک کے اِس راستے سے ہٹانا اور
توحید کے راستے پر لانا چند دنوں کا کام کوئی قلیل کام نہیں تھا بلکہ کئی
برسوں کا ایک طویل کام تھا ، ہر چند کہ اللہ تعالٰی کے جو انبیاء و رُسل
بار بار دُنیا میں تشریف لاتے رھے تھے اور بار بار اِن لوگوں کو حق کا
راستہ دکھاتے رھے تھے لیکن کم کم لوگ ہی اُن پر ایمان لاتے رھے تھے اور اُن
کم کم لوگوں میں سے بھی زیادہ تر لوگ حق سے مُنحرف ہو جاتے تھے جس کی وجہ
سے نزولِ قُرآن کے زمانے میں زمین پر اُن سلیم الطبع لوگوں کی تعداد بہت کم
ہو چکی تھی جو قُرآن کے پیغامِ حق پر ایمان لاۓ تھے اور اُن لوگوں کی تعداد
بہت زیادہ تھی جو زیادہ لوگوں کے پیچھے چلنے کے زیادہ عادی ہونے کی وجہ سے
زیادہ لوگوں کے ساتھ ہی چلتے تھے ، اِس لاینحل معاملے کا فوری حل تو بظاہر
وہی تھا جو اُس زمانے کے مُتکبر و مُنکر اور مُشرک لوگ پیش کیا کرتے تھے کہ
ھمارے انکارِ حق کے نتیجے میں ھم پر جس عذاب نے کل آنا ھے وہ آج ہی آجاۓ
تاکہ حق و باطل کا یہ فیصلہ اسی وقت ختم ہو جاۓ لیکن یہ حل اللہ تعالٰی کے
اُس آزمائشی منصوبے کے خلاف تھا جس آزمائشی منصوبے کی تکمیل کے لیۓ اللہ
تعالٰی نے انسان کو زمین میں مامُور کیا تھا اور جس آزمائشی منصوبے کی
تمہید اور تکمیل کی ایک مقررہ مُدت بھی مقرر کردی تھی اِس لیۓ قُرآنِ کریم
نے اِن اٰیات میں اِن لوگوں کو یہ بتایا اور سمجھایا ھے کہ اللہ تعالٰی ایک
حلیم آقا ھے جو جلد باز لوگوں کی جلد بازی میں فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ
اُن کو سوچنے سمجھنے کا ایک مناسب موقع دیتا ھے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر حق کو
قبول کریں اور پھر اُس حق پر ثابت قدم رہیں ، اگر اللہ تعالٰی بھی اپنی اِس
جلد باز مخلوق کو اِس کے اِس عاجلانہ مطالبے پر عاجلانہ سزا دیتا رہتا تو
اِس وقت زمین پر ایک بھی انسان زندہ نہ رہتا کیونکہ ہر انسان غلطی بھی کرتا
رہتا ھے اور اپنی غلطی سے رجوع بھی کرتا رہتا ھے اور چونکہ اللہ تعالٰی
انسان کو غلطی سے رجوع کا موقع دینا چاہتا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا کے اسی
مضمون میں اہلِ ایمان کو یہ تاکید کی گئی ھے کہ وہ عاجلانہ عادات و اقدامات
سے حتی الامکان خود بھی بچیں اور دُوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں اور
زمین پر جس وقت تک زندہ ہیں اُس وقت تک اللہ تعالٰی کے اِس نظام کو قائم
کرنے کے لیۓ اپنی علمی و عملی کوششیں بھی جاری رکھیں ، اِس مضمون کی مِن
جُملہ باتوں میں سے سب سے اھم بات جو اٰیت 44 کے مضمون میں بیان کی گئی ھے
وہ یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کی کسی زمین کی اور اللہ تعالٰی کے کسی آسمان کی
کوئی بھی مخلوق کسی بھی زمین یا آسمان میں اللہ تعالٰی کے نظامِ عمل کو
اپنے کسی بھی سرکش عمل سے کبھی بھی شکست نہیں دے سکی ھے اور کبھی بھی شکست
نہیں دے سکے گی ، اِس اٰیت کا یہ مضمون اِس بات کی ایک قوی دلیل ھے کہ جس
طرح ھماری زمین پر انسان موجُود ہیں اسی طرح اللہ تعالٰی کی دُوسری زمینوں
اور دُوسرے آسمانوں میں بھی زمینی انسانوں جیسے انسان موجُود ہیں اِس سے
بات سے قطع نظر اُن زمینوں اور اُن آسمانوں کے زمینی و آسمانی ماحول کے
مطابق اُن کی شکلیں اور صورتیں ھماری زمین کے انسانوں سے کتنی مشابہ ہیں یا
کتنی مُختلف ہیں !!
|