یہ حقیقت ہے کہ ہمارا روحانی نظام بگڑ جانے سے ہمارا سب
کچھ بگڑ گیا ۔ مساجد تربیت کے مرکز ہوا کرتی تھیں ،ان کی بنیاد محض نماز کی
گنتی پوری کرنے کےلئے تو نہیں رکھی گئی تھی ،یہ تو معاشرہ کے تمام مسائل کے
حل کا واحد مرکز ہوا کرتی تھیں ، تعلیم و تربیت،عدل و انصاف، اخلاق و
مساوات، معیشت و معاشرت،زکوٰۃ و عشر، علم و ہنر، ملک و ملت کی سلامتی و
بقاء ، ضابطہ و قانون کے تمام فیصلے مساجد میں طے پایا کرتے تھے ۔ مساجد
دین ِ اسلام اور ملت اسلامیہ کا ایک اہم ترین رکن ہوا کرتی تھیں جو ملت کے
ایک عظیم فلاحی مرکز کے طور پر کام کرتی تھیں ۔ آج ہم نے ان کی اس حیثیت
کو ہر مسلمان سے دور کر دیا ہے، ہم نے اللہ عزوجل کے گھروں سے ملت کی تعلیم
و تربیت، علم و ہنر کا اعزار چھین کر سکولوں اور کالجز کو دے دیا ۔ عدل و
انصاف کے امور چھین کر فرسودہ عدالتوں کے دے دیا ۔ سلامتی و بقاء اور قانون
سازی کے امور چھین کر فرسودہ پارلیمنٹ اور سینٹ کو دے دیا ۔ روح کی تربیت
نہ ہونے سے جسم قلاش ہو جاتا ہے ،ہم دین و دنیا سے بے نیاز خود کوبھی
بھلابیٹھے ۔ آج مساجد تربیت کے مراکز نہیں رہیں ، آج مساجد میں قانون
سازی نہیں ہو رہی ۔ آج ملت ِ اسلامیہ کی سلامتی و بقاء کے فیصلے مساجد میں
طے نہیں پاتے ۔ ہم وہاں محض نماز کی گنتی پوری کرنے جاتے ہیں اور پھر خود
اپنے ہاتھوں سے دن بھر کےلئے اللہ عزوجل کے فضل و رحمت کے دروازے بند کر
دیتے ہیں اور پھر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ ! ہم پر مہربانی
فرما ،ہم پر رحم فرما، ہم پر فضل فرما،ہماری مدد فرما ۔ مگر یہ سب کچھ آئے
کہاں سے جبکہ اس کے آمد کے راستے پر تو تالا لگا ہے ؟
آج ملت اسلامیہ کا عظیم فلاحی مرکز بے یارو مددگار ہے ۔ سرکاری سطح پر ان
کا کوئی نظم و نسق نہیں ہو رہا ۔ سرکاری اداروں میں منتخب ہونے کے لئے پبلک
سروس کمیشن، این ٹی ایس ٹیسٹ اور کیا کچھ نہیں ہوتا، مگر اللہ کے دین کے
ستونوں ، محور و مرکز مساجد میں اندھے بہرے لولے لنگڑے بھی چل رہے ہیں ،
جنہیں احکامات دینیہ سے کوئی فہم وادارک ہی نہیں وہ بھی مصلہ امامت پر
براجمند ہیں ۔ ہمارے معاشرہمیں جو قرآن و حدیث پڑھا ہوا ہو، فقہ کا علم
رکھتا ہو وہ محض مولوی ہے اور اس پر بنیاد پرستی کا الزام بھی کہ اسلام کے
بنیاد اصولوں کی بات کرتا ہے اور جو انگریزی پڑھا ہوا، انگریزی میں بول چال
کر سکتا ہو وہ معاشرہ کا ایک پڑھا لکھا اور با شعور فرد ہے ۔ یہ عزت ہے دین
کی ہمارے معاشرہمیں ، یہ قدر ہے قرآن و حدیث کی ہمارے سماج میں ۔ ہم اللہ
کے دین کی اتنی بے قدری کرکے اس سے کیا امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری قدر کرے
گا؟ قوموں کی صفوں میں ہماری شان بڑھائے گا اور دنیا میں سربلندی و وقار
عطا کرے گا؟
آج ملت کے ہر طبقہ نے دین کو بے یار مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ ہمارے تمام
سرکاری ادارے دجالیت پھےلانے کی فیور میں ہیں دین کی نہیں ، وہ کھیل تماشا،
ناچ راگ، شوبز اور فیشن و عریانت کو سپورٹ کرتے ہیں دین کو نہیں ۔ مسجدوں
کے لاؤڈ سپیکروں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ مسجد سے باہر کے لوگ دین کی
باتیں نہ سن سکیں اس کے برعکس دیکھیں تو شادی بیاہ کے موقع پر شادی والوں
نے پورے محلہ کی نیندیں حرام کر رکھی ہوتی ہیں ۔ ساری ساری رات لاؤڈ سپیکر
پر ڈانس،بیہودہ و فحش میوزک کی آواز محلہ بھر میں گونج رہی ہوتی ہے ۔ عرس
و میلہ کی تقریبات پر ٹھیٹھر وغیرہ کی بلند بانگ آوازیں پورے محلہ کو چین
سے نہیں سونے دیتیں ، ان پر کوئی پابندی نہیں ۔ اگر ناچ راگ، مجرے، ڈانس و
بھنگڑے، ڈرامہ ، موسیقی و فلم سازی پر پابندی لگتی تو معاشرہ بے حیائی و
عریانیت کا خاتمہ نہ ہوجاتا؟ یہ رب کو تو ناراض کر سکتے ہیں مگر شیطان کی
ناراضگی مول نہیں لے سکتے ۔ کھیل کے میچ ، کسی ٹرافی، پی ایس ایل یا ورلڈ
کپ کے فائنل ہوں تو ہمارے وزیر اعظم بھی بول اٹھتے ہیں کہ میچ کے دوران
پورے ملک میں بجلی بند نہ کی جائے تاکہ پوری قوم خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے
نیاز ہو کرخوب انجوائے کرے اور شیطان کی خوشی میں بھی کوئی خلل نہ آئے ۔
ہماری فوج کے سپہ سالار بھی بول اٹھتے ہیں کہ فائنل میچ و فیشن شوز کے دفاع
کےلئے کتنی سکیورٹی چاہیے ہمیں بتاؤ ہم حاضر ہیں ۔ کیا کبھی کسی نے ہمارے
وزرائے اعظم اور سرکاری افسروں کی زبان سے یہ بھی سناکہ گرمیوں میں نماز کے
اوقات میں بجلی بند نہ کی جائے لوگ وضو کےلئے پانی اور ٹھنڈی ہوا سے محروم
ہوتے ہیں ؟ کیا کبھی کسی نے ہمارے فوج کے سپہ سالاروں کی زبان سے یہ بھی
سنا کہ ملک میں انعقاد ہونے والی اسلامی آگاہی، اصلاح و بیداری امت
کانفرنسز کی سکیورٹی کےلئے کیا درکار ہے ہمیں بتاؤ ہم مہیا کریں گے؟کھیل
تماشا، ناچ راگ، فیشن کو فروغ دینا اور مقابلے کروانا ہوں ، قوم کو خدا و
رسول ﷺ سے غافل کر کے شیطان کو خوش کرنا ہو تو سرکاری سطح پر اس کا کس قدر
اہتمام اور معاونت کی جاتی ہے ۔
پاکستان سپر لیگ PSL ہوئی ، سرکاری سطح پر کس قدر اہتمام ، شاہ خرچ اور
معاونت کی گئی ، گراؤنڈ کی سیکورٹی کےلئے آپس پاس کی مساجد تین روز کےلئے
بند کر دی گئیں ۔ نماز کےلئے طواف کعبہ رک سکتا ہے مگر ہمارے ہاں نماز
کےلئے کھیل نہیں رک سکتا ۔ کھیل کےلئے اللہ کی مسجدیں بند ہو سکتی ہیں مگر
مسجدوں کےلئے کھیل بند نہیں ہو سکتا ۔ کھیل کےلئے نماز روکی جا سکتی ہے مگر
نماز کےلئے کھیل نہیں رک سکتا ۔ کھیل کےلئے مسجدیں ویران کی جا سکتی ہیں
مگر مسجد کیلئے کھیل کے میدان ویران نہیں ہو سکتے ۔ ہماری فوج ، ہماری سپاہ
گراؤنڈ کو تو سکیورٹی دے سکتے ہیں مگر مسجدوں کو نہیں ۔ گراؤنڈ پر سکیورٹی
لگ سکتی تھی تو آس پاس کی مساجد پر کیوں نہیں ۔ آس پاس کی مساجد ایک دفعہ
کلیئر کر کے اس پر سکیورٹی لگا دیتے بند کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ انہیں ڈر
صرف اللہ کی مسجدوں سے ہی تھا، آس پاس شیطان کے گھر میوزک سنٹر، سینما ،
فیشن سنٹر سب کھلے رہے ۔ شیطان کی طرف جانے والے تمام راستے کھلے تھے اور
اللہ کی طرف جانے کے راستے بند کر دئیے گئے کہ اگر کسی کو یہاں اللہ کی یاد
آئے اور وہ نماز کےلئے مسجد جانا چاہیے تو نہ جا سکے ۔ یہ معاملہ حشر میں
رب کی عدالت میں پیش ہوگا،یہ مردود قہار کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے ۔
یہ دین کو پھیلانے ، فروغ دینے اور اس کے نفاذ میں کتنے معاون اور سہولت
کار ہیں ؟ عوام میں کھیل ، PSLاور ورلڈ کپ کےلئے جس قدر جوش و جذبہ ہوتا ہے
، بیداری امت کےلئے بھی ایسا جوش و خروش اور جذبہ کسی میں دیکھنے کو ملتا
ہے؟کھیل تماشا کے اربوں کے ٹکٹ اس قدر فروخت ہوئے جیسے رب کی جنت میں پیشگی
گھر خرید جا رہے ہوں مگر دینی آگاہی، بیداری کانفرنس کے ٹکٹ کوئی مفت میں
لینے کو تیار نہیں ۔ ہر گلی بازار، محلہ، دفتر، سکول و کالج میں اس پر بحث
اور تبصرے گویا پوری قوم کا رجحان کھیل تماشا کی طرف ہے خدا کے دین کی طرف
نہیں ، سب شیطان کو خوش دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں خدا کو نہیں ۔ دنیا کے
منظرنامے پر امت مسلمہ مجموعی طور پر زوال کاشکار ہے۔ہر طرف مظلوم اور نہتے
مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں اس موضوع پر قوم میں کسی قسم کی کوئی بحث
و تبصرہ سننے کو نہیں ملتا۔ پوری قوم مجموعی طور پر لعو و لعب، کھیل کود
میں کامیابی کےلئے تو رب کی بارگاہمیں گڑ گڑا کر آہ و زاری، دعائیں و
التجائیں تو پیش کرتی ہے مگر قوموں کی صفوں میں کامیابی کےلئے رب سے کوئی
آہ و زاری اور فریاد نہیں کرتی اور نہ کوئی ایسی لگن ہے نہ کوئی احساس ۔
جب مجموعی طور پر قوم میں کوئی لگن نہیں قوموں کی صفوں میں سربلندی ، عزت و
وقار پانے کےلئے تو رب کو کیا پڑی کہ وہ امت کے حالات بدل دے، وہ اسی قوم
کے حالات بدلنے میں مدد فرماتا ہے جس میں اس کی لگن دیکھے ۔ خدا کا قانون
ہے کہ جیسی عوام ہو ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کر دیتا ہے ۔ اگر عوام
کارجحان دجالیت کی طرف ہو تو حکمران بھی دجالی ان پر مسلط ہوں گے ۔ اگر
عوام مکار و دغا باز، عیار و سرکش اور عیش پرست ہو ں گے تو حکمران ان سے
بڑھ کر نکلیں گے ۔ جب عوام مغرب زدہ ہوں گے تو حکمران مغرب کو خدا ماننے
والے آئیں گے ۔ جب عوام کی لگن شیطانیت کے ساتھ ہوگی تو حکمران اس کے فروغ
اور دفاع کرنے والے نکلیں گے ۔ جب عوام کا رجحان، عوام کی لگن دین کی طرف
ہو گی تو حکمران بھی دیندار آنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔
آج ہمارے حکمران، ہمارے سپہ سالار شیطانیت پھیلانے کے سہولت کار اور اس کے
دفاع کے محافظ ہیں دین کے نہیں ۔ ہمارے ملک میں سزا و جزاء کے قانون میں
بھی کوئی دین کو نہیں پوچھتا، کوئی عدالت قرآن و سنت کو نہیں دیکھتی کہ ان
میں کیا حکم ہے ۔ ہمارے ہاں سرکاری اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سزا ہے،
ہمارے ملک کے آئین و دستور کی خلاف ورزی پر سزاہے،ہمارے خود ساختہ بنائے
گئے ، خود غرض سیاستدانوں کے کم فہم ذہنوں سے گھڑے گئے قوانین کی خلاف ورزی
پر سزا ہے مگر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بنائے گئے قوانین کی
خلاف ورزی پر کوئی سزا نہیں ۔ قرآن و حدیث کے احکامات کی خلاف ورزی پر
کوئی سزا نہیں ۔ لوگ اعلانیہ نماز نہ پڑھیں ، روزے نہ رکھیں ، زکوٰۃ نہ دیں
، حق العباد کا لحاظ نہ رکھیں کوئی سزا نہیں ، لوگ قرآن و حدیث کے احکامات
کے خلاف چلیں ، ان کا مذاق اڑائیں ، دین کی پرکھیاں بکھیریں تو وہ مجرم
نہیں ملک کے معزز شہری ہیں مگر جب کسی حکمران، عدالتی حکم یا آئین و دستور
کو رد کریں تو مجرم ہیں گویا ہمارے ملکی قوانین اور دستور قرآن سے بالا
ہوئے نا؟ خود ساختہ قوانین اور دستور کو جھٹلانے پر بڑے بڑے ادارے حرکت میں
آ جاتے ہیں مگر قرآن کو جھٹلانے پر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی ۔
امت کو اس تباہی سے دوچار کرنے میں علماء ، مشائخ ، صوفی اور پیر حضرات کے
ساتھ ساتھ نا اہل حکمران طبقہ بھی برابر کا ملوث ہے ۔ امت کے چار طبقات
ایسے ہیں جو تمامی افراد امت اور پوری ملت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ اپنی
بات، اپنے فلسفے، اپنے نظریات، اپنے عمل و تصور اور کردار کو پوری قوم سے
منوا سکتے ہیں اور پوری قوم کو اس پر جمع کر سکتے ہیں ، پوری قوم سے وہ عمل
کروا سکتے ہیں جس پر وہ خودعمل پیرا ہیں ، پوری قوم کو اس راہ پر استوار کر
سکتے ہیں جس کے وہ خود مسافر ہیں ۔ پوری قوم کو وہ یقین دلوا سکتے ہیں جس
پر وہ خود یقین رکھتے ہیں ۔ وہ چار طبقات کونسے ہیں ؟
1 ۔ علماء ، امام و خطیب حضرات اور ادبی حلقہ
2 ۔ پیر و مشائخ اور صوفیاء
3 ۔ حکمران و سیاست دان
4 ۔ امراء و مخیر حضرات
مگر بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان چاروں طبقات کا کردار ایسا ہے جو
امت کو مزید پستیوں کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ ملت کے یہ چاروں طبقات غفلت، خود
غرضی ، مفاد پرستی کی بہت گہری آغوش میں ہیں ، حسد ، کینہ، تعصب ، نفرت و
عداوت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔ کسی ایک طبقہ میں بھی بیداری امت،
اصلاح امت کی فکر و سوچ نہیں پائی جاتی ۔ آج اصلاح امت علماء کا موضوع
نہیں ، امت کی اخلاقیات اور کردار کی درستگی ان کا مشن نہیں ، امت کی تربیت
اور فلاح و سرفرازی سے ان کو غرض نہیں ۔ امت کو گمراہی و ضلالت کے اندھیروں
سے نکالنا ، امت کو تہذیب سیکھانا ، امت کو سختی سے اسلامی اصول و روایات
اور صحابہ کرام کے کردار کا پابند کرنا اور معاشرتی برائیوں کے سامنے ڈٹ
جانا ان کی راہ شوق و منزل ہی نہیں ۔ علماء نے امت کو فرقوں میں بانٹ کر
رکھ دیا ہے اور بات یہاں رکی نہیں ، امت کی مزید تقسیم در تقسیم کا سلسلہ
جاری ہے ۔ امت واحد فرقوں میں بٹی، فرقے جماعتوں میں ، جماعتیں تنظیموں میں
، اور تنظیمیں بھی کئی کئی گروہوں میں بٹتی چلی جا رہی ہیں ۔ ان کی تحریریں
، ان کی تقریریں ، ان کے واعظ،ان کے جوش، ان کے ولولے ، ان کی تمام تر
توانائیاں اختلافی امور و مسائل کو ہوا دینے پر صرف ہورہی ہیں نہ کہ امت کی
بیداری، اور نہ ان میں محبت والفت و رواداری پیدا کرنے میں ۔ ان کے مدرسوں
، ان کی مساجد سے ایک دوسرے سے نفرت کی بو آتی ہے ۔ انہوں نے مدرسوں اور
مسجدوں کوتعصب، عداوت، نفرت، تنگ نظری، شر اور شدت پسندی کی اماجگاہ بنا
دیا ہے ان میں ایک دوسرے سے نفرت کا درس ملتا ہے باہمی محبت و الفت اور
بھائی چارہ کا نہیں ۔ حقیقت میں ہمارے علماء ہی امت کو رسوائی ، ذلت و پستی
اور تباہی و بربادی کے طرف لے جارہے ہیں ۔
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریخ میں قوموں کا مدار
چشم عالم سے چھپا تے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہمارا ادبی حلقہ ہے تو وہ بھی بس دنیاداری ہی میں مگن ہے ۔ یہ حلقہ قوم کو
ادب اور تہذیب تو سیکھانا چاہتا ہے مگر وہ بھی دنیا داری سے، دین و مذہب سے
نہیں ۔ اس حلقہ کی توجہ قوم کو ادب سیکھانے کےلئے من گھڑت قصے کہانیاں ،
جھوٹے افسانے، ناول و ڈاءجسٹ لکھنے کی طرف ہے ۔ ڈرامے لکھنا، اس پر سٹوری
بنا اور اس میں ادب و تہذیب کے کردار واضح کرنا کہ قوم اس سے کوئی درس لے ۔
ہمارے مضمون نویس اور کالم کار ہیں تو انہیں بھی سیاست اور کھیل و تماشہ پر
لکھنے سے فرصت ہی نہیں کہ وہ بیداری امت، امت اصلاح کا سوچیں اور اتنے
جاندار مضامین لکھیں کہ وہ قوم کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر سیدھا کر دے ۔
دوسرا طبقہ امت کے رہبر، پیر و مشاءخ اور خانقاہوں والے ہیں تو سو وہ مخدوم
ہیں ۔ (حقیقی رہبر و سادات اور پیران عظام سے معذرت کے ساتھ جو اپنی حقیقی
ذمہ داری پوری طرح نبھا رہے ہیں اور ان کے ارادتمندوں کی مہار ان کے ہاتھوں
میں ہے وہ انہیں اس پر فتن دور میں کسی طرح بھی بہکنے نہیں دے رہے، خیر
اتنا کنٹرول تو اس وقت کہیں نظر نہیں آرہا بہرحال وہ ہمارے سر کا تاج ہیں
وہ گستاخی نہ سمجھیں اور اس پر غور کریں ، میں یہاں جنرل بات کرنے لگا ہوں
اجتماعی طور پر جو اس وقت ہو رہا ہے معاشرہ میں ) مخدوم ہیں یعنی صرف ان کی
خدمت کرنا جائز ہے، بس ان کی خدمت کرتے رہو اور دعائیں لیتے رہو ۔ اس خدمت
نے انہیں اتنا تن آسان بنا دیا ہے کہ بس نرم و نازک بستر ہو، تکیہ لگا
ہو،خادموں کی ایک جماعت موجود ہو خدمت گذاری کےلئے،یہ مسند پہ بیٹھے ہوں
لوگ آ رہے ہوں ، ہاتھ چومتے ، نذرانہ دیتے جا رہے ہوں بس ان کی ڈیوٹی ختم
۔ یہ امت کی راہنمائی ہو رہی ہے اور فیض بانٹا جا رہا ہے امت میں بے عملی
کا کہ ہماری غلامی میں آ گئے ہو اب کوئی فکر نہیں تمہیں جنت کی وہ تو
ہماری خاندانی وراثت ہے ۔ انہیں امت کی بدخلقی، گمراہی، ضلالت، فسق و فجور
نظر ہی نہیں آتے ۔ انہیں امت کا زمانے میں پستی و رسوائی کا احساس ہی نہیں
اور نہ ان میں امت کو تاریکیوں سے نکالنے کی فکر و سوچ ۔ ان کے عشق و مستی
کے دعوے دیکھو تو عرش کو چھو رہے ہیں ایسے عشق کو خود رسول اللہ ﷺ تمہارے
منہ پر دے ماریں گے حشر میں یہ کہہ کر کہ میرے عشق کے کھوکھلے دعوے لے کر
آگئے میری امت کو گمراہی و ضلالت، فسق و فجور کے اندھیروں میں چھوڑ کر ۔
تو نے دنیا میں رہ کر میری امت کےلئے کیا کیا؟ میری امت کےلئے کیا
سوچا،میری امت کی اصلاح و کامرانی کےلئے کیا کارنامے سرانجام دئیے؟
کیا کوئی اللہ کریم سے عشق و محبت کا دعویٰ کرے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر ،
تو کیا اللہ کریم اسے قبول فرما لیں گے؟ اس پر تو بڑی زور دار تقریریں آتی
ہیں علماء و مشائخ کو ۔ مگر کیا کوئی رسول اللہ ﷺ سے تو عشق و جانثاری کا
دعویٰ کرے آپ ﷺ کی امت کو چھوڑ کر تو کیا رسول اللہ ﷺ اسے سینے سے لگا لیں
گے؟ یہ ان کی بھول ہے رسول اللہ ﷺ کو امت پہلے ہے یہ بعد میں ۔ جو رسول
اللہ ﷺ کی امت کا نہیں سوچتا، جسے امت کا حال دیکھ کے رونا نہیں آتا، جسے
امت کا درد نہیں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ان کے نزدیک خواہ کوئی پیر ہے یا
مسجد کا ملاں یاحکمران و سیاستدان ۔ رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ امت کی فکر رہی،
غاروں میں ، سجدوں میں ، رات کی تاریکیوں میں ، سفر و حضر میں ، جنگ و جدل
میں ، غزوہ و جہاد میں ، وہ ہر جگہ امت کےلئے روئے اور یہ امت کی فکر سے
مستثنیٰ ۔ انہیں عشق مصطفی ﷺ میں تو رونا آتا ہے پر امت کے حال پر نہیں ۔
بد خلق، بے عمل قوم انہیں نذرانے ہی اتنے پیش کر رہی ہے، مقبروں ، خانقاہوں
،مزارات پر چڑھاؤے ہی اتنے چڑھا رہی ہے کہ ان کے سمیٹنے اور محفوظ کرنے اور
کہاں تصرف کرنے سے ان کی توجہ ہی نہیں ہٹتی ۔ مجبور ہیں بیچارے! نذرانے
سمیٹنے، مال و زر اکٹھا کرنے سے ان کی توجہ ہٹے تو امت کی فکر کریں ۔ انہیں
مال و زر، عیش و عشرت، برتنے کو ہر طرح کی دنیاوی آشائش وافر مقدار میں مل
رہی ہے تو انہیں کیا فکر امت کے اصلاح احوال کی؟ یہ نذرانے نہیں سود ہے
پیرانِ حرم کا ۔ دانائے راز، ترجمان حقیت حضرت اقبال علیہ الرحمہ نے ایسے
نذرانے سود سے تعبیر کیے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں۔
قوم کو تو میسّر نہیں مٹّی کے دِیے بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دیہاتی ہو مسلمان ہیں سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں ، سُود ہے یہ پیرانِ حرم کا
ہر خرقِ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن
تیسرا طبقہ حکمران و سیاستدان ہیں تو خود غرض ۔ انہیں بس دنیا اور کرسی سے
غرض ہے جس کےلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں ۔ یہ سب دنیا چاہنے
والے ہیں دین نہیں ، یہ دنیا کےلئے لڑتے ہیں ، ہوس اقتدار، ہوس زرومال
کےلئے لڑتے ہیں دین کےلئے نہیں ۔ یہ قرآن وسنت کے باغی ہیں اور لادین
جمہوریت کے فدائی ۔ جھوٹ بولنا ان کی عادت، بدخلقی ان کا وطیرہ ۔ دین سے
انحراف پر مبنی نظام جمہوریت پر یہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں مگر
دین کےلئے ان کی زبانیں فالج زدہ ہیں کہ کچھ بول ہی نہیں سکتیں ۔ دین کا
پرچار ان کا مشن نہیں ۔ دین کی بالادستی اور دینی اصولوں کا راءج کرنا ان
کا منشور نہیں ۔ یہ خدا کو تو مانتے ہیں کہ موجود ہے ، اس کے رسول ﷺ پر بھی
ایمان رکھتے ہیں مگر جب خدا کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے نفاذ کی
بات آتی ہے تو یہ اس سے بیزار اور اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں ، یہ نہیں
چاہتے کہ ملک میں قرآن و سنت کا نفاذ ہو ۔ ایسے کھوکھلے ایمان و یقین کی
حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ کوئی کہے یا اللہ میں تجھے تو مانتا ہوں پر
تیرے دین کا عملی نفاذ نہیں چاہتا، تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے سب احکامات کو
تو مانتا ہوں کہ حق ہیں مگر انہیں عملی طور پر اپنے اوپر اور ملک میں نافذ
کرنے اور کروانے سے معذرت خواہ ہوں اور نہ اس کے لئے کوشش کر سکتا ہوں ، نہ
اس کے لئے لڑ سکتا ہوں نہ جان دے سکتا ہوں ۔ ایسا ایمان و یقین تو ظاہری و
کھلی منافقت سے بھی بد تر ہے ۔ خدا کے دین سے انحراف پر مبنی کفر جمہوریت
کےلئے ان کا سب کچھ حاضر اور اس پر قربان ہے، یہ چاہتے ہیں کہ دین رہے نہ
رہے پر جمہوریت رہے اور یہ اس پر فدا ہو کر کفرِ جمہوریت کے شہید کہلاتے
رہیں ۔
یہ پہلے بھی دین کے نام پر اسلامیان بر صغیر سے غداری کر چکے ہیں ۔ قیام
پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ نظریہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی کہ پاکستان میں
قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا، قرآن پاکستان کا آئین ہو گا ۔ یہ
حکمران و سیاستدان تو نظریہ پاکستان کے بھی غدار نکلے، قیام پاکستان کے
مقصد سے غداری کی ۔ قرآن و سنت کے ساتھ غداری کی، قیام پاکستان کے وقت جو
لوگوں کا خون بہا انہوں نے اس خون سے بے وفائی کی، لوگوں نے اپنی جانیں ان
کی حکمرانی قائم کرنے کےلئے تو نہیں دی تھیں انہوں نے قرآن و سنت کے نفاذ
کے عظیم مقصد کےلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔ اس وقت لوگوں نے
اپنی جانیں پاکستان میں قرآن و سنت کے نظام کی خاطر قربان کی تھیں اور
ہمارے محترم قائد محمد علی جناح کا وژن بھی یہی تھاکہ پاکستان میں قرآن و
سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے 15نومبر 1942ء کو
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان
کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت
آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا ۔
الحمد للہ! قرآن کریم ہماری رہنمائی کےلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود
رہے گا ۔ ‘‘
یہ لادین جمہوری مداری قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے اور اپنی خود غرضی
اور مفاد پرستی پر اتر آئے ۔ آئین پاکستان قرآن کی بجائے اپنی غرض اور
مفاد کو مدنظر رکھتے ترتیب دیا ۔ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کی مکمل ذمہ
داری خود پاکستان کے معماروں پر عائد ہوتی ہے ۔ ان معماروں نے اسلام کے نام
پر پاکستان تو حاصل کر لیا مگر اسلام کے اوامر و نواہی اور احکامات دینیہ
پر عمل کرنے کا کوئی سامان نہ کیا ۔ آج کے حکمران و سیاستدان بتائیں کتنی
قرآن و سنت سے راہنمائی لی گئی ریاست اسلامیہ پاکستان کے قوانین ترتیب
دیتے ہوئے؟ یہ سب دنیاوی تماشا کرنے والے مداری ہیں ۔ ہر طرف تماشا بپا ہے
معاشرہ میں کوئی مداری کہیں لوگوں کو جمع کر کے اپنے نعرے لگوا رہا ہے تو
کوئی کہیں ۔ کوئی نیا پاکستا ن بنا رہاہے تو کوئی لوٹنے کے نت نئے طریقے
ایجاد کر رہاہے ، امت کو نیا رنگ دے کر صاحب اخلاق بنانے ، تقویٰ و
پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے اور دنیا میں عزت ووقار عطا کرنے کا کوئی نہیں
سوچ رہا ۔ امت کو دنیا میں کامرانی و سرفرازی دلانا کسی کا نعرہ نہیں ۔
کہیں جئے بھٹو اور زر خواری کے نعرے ہیں تو کہیں شریف لٹیروں کے ، کہیں خان
ہے تو کہیں فضول مولانا ۔ اور ان کے سیاسی متوالے ان کے گرد بھنگڑے ڈالے
ہیں سیاسی خاندانی قیدی و غلام ۔ کیا تم ان کی خاندانی غلامی کےلئے پیدا
کیے گئے ہو؟ آج یہ ہیں کل ان کی اولاد ہو گی تمہارے نعروں میں خواہ وہ عقل
و فہم اورشعور سے خالی ہو اور دین سے بیزار ۔ حقیقت میں ان کی مت ہی ماری
گئی ہے ، ان کی عقلیں کام ہی نہیں کرتیں ، بہرے، گونگے اندھے جانور ۔
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ
بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ
بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں
ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے
کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں
جو غفلت میں پڑے ہیں ۔
(الاعراف179;58;7)
خدا نے عقل دی سوچنے اور سمجھنے کو، ایک نہیں دو آنکھیں دیں دیکھنے اور
پرکھنے کو، ایک نہیں دو کان دئیے سننے اور راہ کا تعین کرنے کو ۔ کیا خدا
نے تمہیں ان کے ہر الٹے سیدھے کاموں پر تالیاں بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کے
لئے پیدا کیا ہے کہ سیاسی پیر جو مرضی کرتے پھیریں ، خواہ جھوٹ بولیں ،
غیبت کریں ، قوم کی دولت لوٹیں ، اخلاقیات کی پرکھیاں اڑائیں ،دین کو نظر
انداز کریں تم نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر کے ان کے نعرے ہی لگانے ہیں
؟ ان کے روحانی سیاسی پیروں کے مجمع میں اللہ و رسول ﷺ کا نعرہ ہی نہیں
لگتا، صرف ایک دوسرے پر طنز، غیبت، چغلیاں ، بہتان، طعنہ و تشنیع اورقوم سے
جھوٹے وعدے، جھوٹی امیدیں ، جھوٹی امنگیں کبھی نہ پورے ہونے والی ۔ اور لوگ
بھی اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر ان کے ترانوں پر رشک و بھنگڑے ڈالنے میں مست
ہوتے ہیں تو خدا کا غضب اور قہر نازل نہ ہو امت پر ۔ کیا ان کی تخلیق کا
مقصد یہ تھا؟ کیا ان کی تخلیق کا مقصد لادین، گھٹیا صفت، خائن لوگوں کے
نعرے لگاناہے اکٹھے ہو کر یا ا للہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کا پرچار کرنا؟
ہمارا چوتھا طبقہ امراء ،جاگیرداروں اور دولت مندوں کا ہے سو وہ دنیا دار
ہیں اور لادین حکمرانوں کے خوشامدی، بے دین خاندانی جمہوری نظام ، خاندانی
آمریت کے سہولت کار ۔ یہ صرف دنیا داری اور کاروبار کی ترقی چاہتے ہیں ،
انہیں ملت کی ترقی سے سروکار ہی نہیں ۔ دین کی ترقی کےلئے ان کی دولت پہ
زہریلا سانپ بیٹھا ہے جو دین کے نام پر اٹھانے سے ان کو ڈس لے گا اور یہ
دنیا سے بھی جائیں گے ۔ عیش و عشرت اور حکمرانوں کی خوشامد پر جتنا اڑا ئیں
کوئی پروا نہیں مگر دین پر ایک سو لگانا بھی کروڑ نظر آتاہے ۔ ہم دیکھتے
ہیں کہ جب کوئی جمہوری مداری کسی شہر میں آتا ہے تو شہر بھر کی گلیاں ،
محلے، بازار اس کے پتلوں کے فلیکس و بینرز سے بھر دی جاتی ہیں اور شہر کا
اس سے منسلک ہر صاحب ثروت اس کار خیر میں حصہ دار ہوتا ہے ۔ کیا کبھی کسی
نے یہ سوچا کہ ایک لادین جمہوری مداری کو خوش کرنے کےلئے کتنا فضول خرچ ہو
رہا ہے؟ اگر یہ سارا خرچ جمع کیا جائے جس کی مدت ہی دو چار روز ہے ، اس سے
سال بھر کےلئے پورے شہر کے غربا کو لباس مہیا کیا جا سکتا ہے مگر وہ انہیں
گوارا نہیں ۔ شہر بھر کے غربا کو خوش دیکھنے سے زیادہ ان کو ایک جمہوری
مداری کی خوشی عزیز ہے ۔
امت کے دولت مند عرب ہیں سو ان کی سوچ و فکر بس یہاں تک رہ گئی ہے ۔ انا
ابغی امارہ جدید، سیارہ جدید، حرمہ احسن و جدید ۔ یعنی نت نئی امارت ہو، نت
نئی گاڑی ہو، نت نئی اورحسین و جمیل عورت ہو ۔ یہ وہ عرب نہیں رہے جو خالی
ہاتھ اونٹوں کی ننگی پشتوں پر بیٹھ کر جہاد کے ترانے پڑھا کرتے تھے اور ملت
کے کسی ایک مظلوم کی پکار پر ظالم کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دیا کرتے تھے ۔
آج ان کے پاس سب کچھ ہے مگر ان کے ترانے بدل گئے ہیں ۔ ان کی سوچ، ان کے
جذبے زر کے غلام بن گئے ہیں ، دولت ان کا دین بن گیا ہے ۔ آج عرب دولت کے
پجاری ہیں دین کے نہیں بشمول ہمارے سب عجموں کے ۔ آج سب کا دین دولت ہے ،
آج سب ایک دوسرے سے بڑھ کر دولت سمیٹنے اور جائیدادیں بڑھانے کے چکر میں
ہیں ، دین اور اس کے فروغ کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ، اور خدا و رسول ﷺ
سے بے یقینی کی سی کیفیت پورے عالم میں ۔ آج ملت پر چار سو بے یقینی کی
کیفیت طاری ہے کسی میں خدا کی مدد پر یقین اور کامل بھروسہ نظر نہیں آتا ۔
میں یہاں بات زیادہ لمبی نہیں حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے
ایک مصرعہ میں ملت کو پیغام دینا چاہوں گا کہ
سن اے تہذیب حاضر کے غلام
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی
یہی وہ چار طبقات تھے علماء، پیر و مشاءخ، اور حکمران و سیاستدان اور ملت
کا مخیر طبقہ، جو معاشرہ پر اثرانداز ہو سکتے تھے اور امت کی ڈوبتی نیہا
کنارے لگا سکتے تھے سو چاروں غفلت اور بے یقینی کی تاریکیوں میں ڈوبے بہت
گہری نیند سو رہے ہیں ۔ اگر انہیں کچھ یقین ہوتا، ان کا ضمیر اگر زندہ
ہوتا، اگر انہیں کوئی احساس اور فکر ہوتی رسول اللہ ﷺ کی امت کی تو کچھ تو
ہوتا نظر آتا دنیا میں دین و ملت کی سر بلندی و سرفرازی کا، عزت و وقار کی
بحالی کا، دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا ۔ کوئی رہروِ منزل ہی نہیں
رہا ۔ ہم کمزور لوگ دین کا درد لے کر جائیں تو کہاں جائیں ؟
حکمرانوں اور سیاستدانوں کی تمام تر توجہ اپنی سیاست چمکانے اور عوامی
پروجیکٹس پر اپنی بڑھ چڑھ کر نود و نمائش اور خود نمائی پر مرکوز ہے، انہیں
دین و ملت سے کوئی غرض ہی نہیں ۔ وہ دین و ملت کے ساتھ ہونے والی ہر نیکی
بدی سے اپنے آپ کو بری الذمہ اور مستثناء سمجھتے ہیں ۔ دین کے ساتھ ان کی
وابستگی و محبت کا ثبوت نماز کے اوقات میں مساجد اور گھروں میں بجلی کا نہ
ہونا ۔ لوگوں کا وضو کےلئے پانی اور گرمیوں میں نماز کے وقت ہواکو ترسنا
اوررمضان المبارک میں سحری و افطاری کے اوقات بجلی کا بند ہونا عیاں کرتا
ہے کہ ان خود غرض و خود نما حکمرانوں کو اپنے دین سے کوئی لگن اور وابستگی
نہیں ۔ لاچار عوام اور غریب لوگوں کے ساتھ ان کی رغبت و قربت پانچ سال بعد
بڑھتی ہے جب ووٹوں کا لالچ اور خودغرضی ہوپھر پانچ سال تک لوگوں کے مسائل
حل کرنا تو درکنار، کسی کے احوال پوچھنا اور رسماً سلام لینا تک بھی گوارا
نہیں کرتے ۔ ملک کے غرباء پر امراء ، زمینداروں اور با اختیار لوگوں کے غےظ
و غضب اور ظلم و زیادتی پر قوم کے غرباء کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم و با
اختیار لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ان کا وطیرہ ہے اس لیے کہ انہیں قوم کے غرباء
سے کوئی غرض ہی نہیں ، پانچ سال بعد انہیں جو غرض پڑتی وہ امراء غرباء کو
دبا کر، رعب جما کر، حکم عدولی کی صورت میں اپنی زمینوں اور جائیدادوں میں
قدم نہ رکھنے سے دھمکا کر پوری کر دیتے ہیں اس لیے انہیں غرباء سے کیا
واسطہ بھوکے مریں یا پیاسے؟ حضرت سیدنا امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ
عنہ دریا کنارے کسی کتے یا بکری کے بچے کے پیاسے مر جانے پر رب کی
بارگاہمیں جوابدہ ہیں مگر یہ بے گناہ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور بے
درےغ ناحق قتل پر یہ رب کے سامنے کوئی جوابدہ نہیں ۔ بلکہ ہمارے ایک معروف
وزیر برائے پانی و بجلی نے بیان دغا کہ ا گر سخت گرمیوں میں پانی و بجلی نہ
ملنے کی صورت میں اگر کوئی حبس و گٹھن سے مر جائے تو ہم اس کے جواب دہ نہیں
۔ لگتا ہے یہ انوکھی مخلوق خداوند کریم سے احتساب و پوچھ گچھ کی چھوٹ لے کے
آئے ہوئے ہیں دنیا میں ۔
خود غرض، خود نماحکمران بتائیں کہ لوگوں کو نماز، زکوٰۃ کا پابند بنانے
کےلئے کتنی قانون سازی کی ؟ کتنے طور طریقے اپنائے؟ کون سے لائحہ عمل
اختیار کیے؟کتنی میٹنگز اور غور و غوض کیں کہ مسلم معاشرہ نماز زکوٰۃ کا
پابند ہو جائے ؟کیا یہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ؟ کیا
اسلامی شعار کی پاسداری کروانا، اسلامی اقدار و روایات کو فروغ دینا مسلم
حکمرانوں کی ذمہ داری سے باہر ہے؟کیا حکمران اس سے خود کو بری الذمہ سمجھتے
ہیں کہ آخرت میں رب کی عدالت میں ان سے اس مسئلہ پر کوئی پوچھ گچھ نہیں
ہوگی؟حالانکہ اگر حکومت چاہے تو اسلامی شعار اور اصولوں پر سختی اور قانون
سازی سے عمل کروا سکتی ہے ۔ کوئی بھی اسلامی حکومت معاشرہمیں قرآن و سنت
کے احکامات کے تنفیذ کی نگراں اور ذمہ دار ہوتی ہے ۔ لوگ قرآن کو پڑھ کر
اتنا نہیں سدھر سکتے جتنا ایک اسلام پسند اور سیرت طیبہ پر کاربند حکومت
لوگوں کو سدھار اور راہ راست پر لا سکتی اور فسق و فجور سے باز رکھ سکتی ہے
۔ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے
کہ
واللہ ما یزع اللہ بالسلطان اعظم مما یزع بالقرآن ۔
’’ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ حکومت کے ذریعے سے برائیوں کا جو سدباب کرتا
ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو قرآن کے ذریعے سے کرتا ہے ۔ (کنز العمال)
حکومت سخت قوانین کا نفاذ کر کے لوگوں کو ہر طرح کی گمراہی و ضلالت ، فسق و
فجور اور براہیوں سے باز رکھ سکتی ہے ۔ اگر لوگ نماز روزہ کی پابندی نہیں
کرتے تو حکومت سختی سے کروا سکتی ہے ۔ لوگ زکوٰۃ و عشر نہیں ادا کرتے تو
حکومت قانون سازی سے لے سکتی ہے اور سود خوری سے باز رکھ سکتی ہے ۔ امیر
المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض لوگ حضور ﷺ
کے بعد زکوٰۃ کے انکاری ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ ان سے جنگ کرنے پر اتر
آئے فرمایا ۔
’’ اللہ کی قسم! اگرلوگ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں جو وہ رسول
اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں زکوۃ کے طور پر دیا کرتے تھے تو میں ان کے خلاف
جنگ کا اعلان کرو ں گا ۔ ‘‘
اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو ٹوکا اور فرمایا ۔ ’’
آپ ان لوگوں کے خلاف کیونکر جنگ کریں گے جو کلمہ گو ہیں ؟
یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ۔
واللہ ! لا قاتلن من فرق بین الصلوۃ و الزکوۃ o
’’اللہ کی قسم ! جو لوگ نماز اور زکوۃ میں تفریق کرتے ہیں میں ان کے خلاف
لازما ً جنگ کروں گا ۔ ‘‘
کیا وہ اسلامی ریاست کے حکمران نہیں تھے جو اسلامی شعار کی عدم ادائیگی میں
جنگ پر اتر آتے تھے؟ کسی بھی اسلامی معاشرہ کو جانچے کے دو پیمانے ہیں
نماز اور زکوٰۃ ۔ اگر کسی معاشرہمیں یہ دونوں پیمانے اپنی پوری روح سے
موجود نہیں ۔ تو اس پر اسلامی معاشرہ کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا ۔ کیا یہ
دونوں پیمانے ہمارے ملک میں اپنی پوری روح کے ساتھ موجود ہیں ؟ کیا کسی نے
اس پے کبھی سوچ و بچار کی اور میٹنگز بلوائیں اور کوئی ضابطہ اور دستور طے
کیا؟ان پر جو رب کے غضب کا کوڑا برسنا ہے اس کا شاید انہیں اندازہ ہی نہیں
۔ اگر کسی باشعور ،ذی عقل شخص کو پتہ چل جائے حکمرانوں کا آخرت میں رب کی
عدالت میں حساب کیساہے تو وہ خیرات میں ملی حکمرانی بھی قبول نہ کرے یہ جس
کےلیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ یہ اس بات کی دلےل ہے کہ انہیں رب کے سامنے
کھڑے ہونے کا کوئی ڈر اور خوف ہی نہیں ، یا یہ یوم حساب کا یقین ہی نہیں
رکھتے ۔
یہ نا اہل جاہل ، کرپٹ طبقے نماز زکوٰۃ کی پابندی تو کیا کرواتے انہوں نے
مل کر اسلام کے اس اہم اور پورے کے پورے جزو، دین کے ایک اعلیٰ ستون کو بھی
قومی نظامت سے الگ کرکے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔ مساجد اسلام کی تربیت
گاہ، اور عدل و انصاف کازینہ ہوا کرتی تھیں ہم نے ان سے وہ نظام چھین کر
سکولوں اور فرسودہ عدالتوں کو دے دیا ۔ اگر امت کی اصلاح کرنی ہے تو مساجد
کوقومی دھارے میں شامل کر کے ایک اہم قومی ادارے اور فلاحی مرکز کا درجہ دے
کر وہ مقام ، وہ مرتبہ پھرسے دینا ہو گا جو اسلام نے انہیں ابتداء سے ہی
عطا کیا تھا ۔
مساجد کو قومی دھارے میں شامل کرکے تمام مساجد کی رجسٹریشن کی جائے، سکول
کی طرح قومی ادارے کا درجہ دیا ہے اور اس میں سند یافتہ اعلیٰ تعلیم، متقی
و پرہیزگار شخصیات کا تقرر کیا جائے جو اپنے علاقہ ، اپنی حددو کے مکینوں
کے لئے جج، عادل، مفتی اور قاضی کے فراءض بھی سر انجام دیں اور لوگوں کو
گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں تاکہ لوگوں کو فرسودہ عدالتوں ، رشوت و
بھتہ خوری کے گڑھ تھانے کچہریوں (جہاں غریبوں کی کوئی شنوائی بھی نہیں )کے
چکر کاٹنے کی بجائے گھر بیٹھے انصاف ملے ۔ مساجد کو عوامی فلاحی مرکز بنایا
جائے جو صبح تہجد کے وقت سے لیکر عشاء کے بعد تک لوگوں کے مسائل و تنازعات
کے حل اور تعلیم و تربیت کےلئے کھلے رہیں تاکہ لوگوں کو بغیر کسی خواری اور
خرچ کے گھر بیٹھے انصاف اور تربیت ملے ۔
(مساجد سے کام لینے اور حکومت بنانے کا لاءحہ عمل میں نے ’’ حقیقی عالمی
اسلامی فلاحی نظام حکومت ‘‘ کے عنوان میں لکھ دیا ہے جسے نافذ کرنے کی پوری
سہی کی جائے گی انشاء اللہ عزوجل اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اس کے بغیر
امت کی اصلاح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ ) |