حیات بالخیر اور موت مع الخیر

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 22 تا 32 {{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ومالی
لا اعبدالذی
فطرنی والیه
ترجعون 22 ءاتخذ من
دونهٖ اٰلھة ان یردن الرحمٰن بضر
لاتغن عنی شفاعتہم شیئا ولا ینقذون 23
انی اذا لفی ضلٰل مبین 24 انی اٰمنت بربکم فاستمعون
25 قیل ادخل الجنة قال یٰلیت قومی یعلمون 26 بما غفرلی ربی
وجعلنی من المکرمین 27 وماانزلنا علٰی قومهٖ من بعدهٖ من جند من السماء
وما کنا منزلین 28 ان کانت الّا صیحة واحدة فاذاھم خٰمدون 29 یٰحسرة علی العباد
مایاتیھم من رسول الّا کانوابه یستھزءون 30 الم یروا کم اھلکنا قبلھم من القرون انھم الیہم
لایرجعون 31 وان کل لما جمیع لدینا محضرون 32
اور میں بھی کیوں نہ اپنے اُسی آقا کی غلامی قبول کر لوں جس نے مُجھے پیدا کیا ھے اور مرنے کے بعد میں نے اور تُم سب نے بھی اُسی کے پاس جانا ھے ، آخر تُم یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہو کہ میں اِن نبیوں کا پیغام سُننے کے بعد اپنے اُس مہربان آقا کی غلامی چھوڑ کر تُمہارے اُن خیالی خداؤں کی اطاعت قبول کر لوں گا جن کی حقیقت یہ ھے کہ اگر میرا مہربان آقا مُجھے کوئی سزا دینے کا حُکم صادر کر دے تو وہ مُجھے اُس کی سزا سے بھی نہیں بچاسکتے اور وہ مُجھے کوئی فائدہ بھی نہیں پُہنچا سکتے جب کہ حق کی یہ حقیقت مُجھ پر واضح ہوجانے کے بعد میرے لیۓ کوئی بھی وجہ نہیں ھے کہ میں سابقہ گُم راہی پر قائم رہوں اور اگر میری بات مانو تو تُم بھی حق کی وہی ھدایت قبول کرلو جو میں نے قبول کی ھے ، اُس ایمان دار انسان کے اِس بیان کے بعد ھم نے اُس ایمان دار انسان سے کہدیا کہ اَب تُو سیدھا ھماری اِس جنت میں داخل ہو جا جس پر وہ بولا کاش کہ میری قوم بھی میرے ایمان کے اِس انعام کو جان جاۓ اور میری قوم بھی اُس حق کو قبول کر کے اللہ کا وہی انعام حاصل کر لے جو میں نے حاصل کیا ھے ، اُس ایمان دار انسان کی اُس شہادتِ حق اور اُس سرکش قوم کی اُس بغاوتِ ناحق کے بعد ھم نے اُس قوم کی اُس زمین پر آسمان کی رحمتیں لانے والی کوئی جماعت مامور نہیں کی کیونکہ جس وقت جس زمین کی بربادی کا فیصلہ ہوتا ھے تو اُس فیصلے پر اُسی وقت عمل بھی ہو جاتا ھے اور اُس وقت ھمارا فیصلہ ھماری اُس غضبناک آواز میں صادر ہوا تھا جس نے اُس قوم کو ایک ہی لَمحے میں مٹی بنا کر مٹی میں ملا دیا تھا ، حیف ھے اللہ کے اُن بندوں کے حال پر جن کے پاس اللہ کے نبی آۓ ہیں اور اُن بد مزاج و بد تمیز بندوں نے اُن کی بے قدری کی ھے ، کیا مُنکرین حق نے ھماری زمین میں اُن مُنکر اقوام کی تباہی کے وہ آثار کبھی نہیں دیکھے جو قومیں زمین میں ھمارے دَستِ قُدرت سے اِس طرح برباد ہوئی ہیں کہ دوبارہ کبھی بھی آباد نہیں ہوسکیں لیکن اِن میں سے ہر ایک قوم نے اپنی آخری سزا سننے کے لیۓ بہر حال ھماری ہی عدالت میں آنا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
یہ واقعہ کسی قیامتِ رَفتہ کا وہ واقعہِ رَفتہ ھے جو قُرآنِ کریم نے زمین کے اُن تمام اہلِ زمین کے لیۓ بیان کیا ھے جن تمام اہلِ زمین نے اپنے اپنے وقت پر اپنے اُوپر آنے والی ایک قیامت کا سامنا کرنا ھے اور اُس قیامت کے لیۓ تمام اہلِ زمین نے وہ تیاری کرنی ھے جو تیاری قیامت برپا ہونے سے پہلے اور قیامت برپا ہونے کے بعد اُن تمام اہلِ زمین کے کام آۓ گی جو اُس وقت زمین پر موجُود ہوں گے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کا پہلا حرف"واؤ"حرفِ عطف ھے جس نے موجُودہ اٰیات کے اِس مضمون کو گزشتہ اٰیات کے اُس مضمون کے ساتھ ملایا ھے جس مضمون میں اُس"قریة" کا ذکر آیا ھے جو زمین کی طرح کا وہ لفظ ھے جو اہلِ زمین کے زمین پر آباد کیۓ ہوۓ اُس رقبہِ زمین کے لیۓ بولا جاتا ھے جو رقبہ زمین کے چھوٹے حصے کی طرح چھوٹا ، بڑے حصے کی طرح بڑا ، آدھے حصے کی طرح آدھا اور زمین کے پُورے حصے کی طرح پُورا حصہ بھی ہو سکتا ھے ، قُرآنِ کریم کی گزشتہ اٰیات میں اُس خاص قریۓ کا اِس خاص حوالے سے ذکر کیا گیا تھا کہ اُس قریۓ کے خاص حالات کے تحت اللہ تعالٰی نے ایک ہی وقت میں حق کی ایک ہی دعوت کے لیۓ اُس قریۓ میں اپنے دو رسول مامور فرماۓ تھے اور پھر جب اُس قریۓ کے اُن مُجرمین نے اُس قریۓ کے اُن مُرسلین کو جُھٹلا دیا تھا تو اللہ تعالٰی نے اُن دونوں رسولوں کی تصدیق و تائید کے لیۓ ایک تیسرا رسول بھی وہاں پر بھیج دیا تھا لیکن اُن لوگوں نے پہلے دو رسولوں کی طرح اُس تیسرے رسول کو بھی جُھٹلا دیا تھا جس کے بعد ایک معزز شہری نے اُس زمانے کے اُن مُنکرینِ توحید و رسالت کے پاس آکر کہا تھا کہ اللہ تعالٰی کے جو رسُول تُم کو اللہ تعالٰی کی توحید اور اپنی رسالت کی دعوت دے رھے ہیں وہ حق پر ہیں اور اُن کے حق پر ہونے کی دلیل یہ ھے کہ وہ تُم کو حق کی جو تعلیم دینے کے لیۓ اپنا جو وقت اور اپنی جو توانائی صرف کرتے ہیں اُس کا تُم سے کوئی طلبانہ بھی طلب نہیں کرتے ، اگر تُم سمجھنا چاہو تو اسی ایک بات سے سمجھ جاؤ کہ اُن کی روز و شب کی یہ بلا معاوضہ مشقت بذاتِ خود اِس بات کی ایک مُعتبر دلیل ھے کہ وہ اللہ تعالٰی کے وہ سَچے رسول ہیں جو اللہ تعالٰی کے حُکم سے تُمہارے پاس آۓ ہیں تاکہ تُم اُن پر ایمان لاؤ اور تُم آنے والے زمانے کے اُس خطرے کے اُس نقصان سے بچ جاؤ جس خطرے اور نقصان کی اللہ تعالٰی کے یہ رسول نشان دہی کر چکے ہیں ، گزشتہ اٰیات کی اُس تفصیل کے بعد اَب موجُودہ اٰیات میں اُس قوم اور اُن کے درمیان میں آنے والے اُس معزز شہری کے اُس بیان کی وہ تفصیل بیان کی گئی ھے جس تفصیل کے مطابق سب سے پہلے تو وہ شخص بذاتِ خود اللہ تعالٰی کے اُن رسولوں کی دعوتِ حق پر ایمان لایا تھا اور اُس کے بعد وہ اللہ تعالٰی کے اُن رسولوں کے شانوں سے شانہ ملا کر خود بھی اُن لوگوں کو حق کی وہی دعوت دینے لگا تھا جس دعوت پر وہ خود ایمان لایا تھا ، قُرآن کے الفاظ میں تو یہ تصریح موجُود نہیں ھے کہ اُن لوگوں نے اُس ایمان دار انسان کو اُسی وقت قتل کر دیا تھا اور یہ تصریح بھی موجُود نہیں ھے کہ اللہ تعالٰی کے اُن مرسلین کے ساتھ اُنہوں نے کیا سلوک کیا تھا لیکن اِن اٰیات کے اِس مضمون کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ھے کہ شاید اُس ایمان دار انسان کو اور شاید اُن انبیاء و رُسل کو بھی اُن لوگوں نے قتل کر دیا تھا اور اُس ایمان دار انسان کو موت کا ذائقہ چکھتے ہی اللہ تعالٰی نے فرما دیا تھا کہ اَب تُم میری اُس جنت میں داخل ہوجاؤ جو تُمہارے اِس فوری ایمان کا ایک فوری انعام ھے اور اُس ایمان دار انسان نے حلقہِ حیات سے نکل کر دائرہِ موت میں جانے کے اُن نازک لمحات میں بھی یہ آرزُو کی تھی کہ کاش میری قوم کے لوگ بھی میرے ایمان و انعامِ ایمان کو جان لیں اور میری قوم کے لوگ بھی میری طرح ہی حق کو قبول کرلیں اور میری طرح ہی اللہ تعالٰی کی اِس جنت میں پُہنچ کر اسی طرح خوش ہو جائیں جس طرح کہ میں خوش ہوں ، اللہ تعالٰی نے اِس مضمون کا خاتمہِ کلام اس طرح کیا ھے کہ اِس واقعے کے بعد ھم نے اُن لوگوں کو اپنی ایک غضبناک آواز سنا کر اُن کے جسموں کے پُرزے اُڑا دیۓ تھے اور اِس کے بعد ھم نے اپنے اُن آسمانی لشکروں کو آسمان میں ہی روک دیا تھا جو زمین پر اُتر کر ھماری ھدایت دیا کرتے اور ھماری رحمت و روزی تقسیم کیا کرتے تھے ، یعنی اُس وقت ھم نے زمین پر ایسا کوئی متنفس زندہ نہیں رہنے دیا تھا جس کو زمین پر ھماری ھدایت اور ھماری رحمت و روزی کی ضروت ہوتی ، اسی بنا پر ھم قُرآن کے دیگر بہت سے بیانات کی طرح قُرآن کے اِس بیان کو بھی ماضی کی قیامتِ رَفتہ کا ایک بیانِ عبرت و موعظت سمجھتے ہیں ، اہلِ روایت اگرچہ زمین پر زمین کی آخری قیامت آنے سے پہلے کسی قیامت کے آنے کے قائل تو نہیں ہیں لیکن وہ واقعہ معراج کے واقعات میں زبانِ نبوی سے اہلِ جہنم کو دی جانے والی طرح طرح کی سزاؤں کے چشم دید اَحوال کُھلے دل سے بیان کرتے ہیں لیکن سوال یہ ھے کہ اگر معراجِ نبوی سے پہلے زمین پر کوئی قیامت نہیں آئی تھی اور کسی انسان کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہوا تھا تو اللہ تعالٰی کی عدالتِ انصاف قائم ہونے سے پہلے کن لوگوں کو یہ سزائیں دی جا رہی تھیں اور کیوں دی جا رہی تھیں جن کا نبی علیہ السلام کو شبِ معراج میں مشاھدہ کرایا گیا تھا ، اہلِ روایت چونکہ آخری قیامت سے پہلے کسی اور قیامت کو نہیں مانتے اِس لیۓ وہ قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کی جو طرح طرح کی تاویلات کرتے ہیں اُن تاویلات میں سے ایک دل چسپ تاویل وہ ھے جو مولانا مرحوم نے کُچھ اِس طرح کی ھے کہ { یہ اٰیت بھی منجملہ ان آیات کے ھے جن سے حیات برزخ کا صریح ثبوت ملتا ھے ، اس سے معلوم ہوتا ھے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا نیستی کا زمانہ نہیں ھے جیساکہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ھے ، کلام کرتی اور کلام سنتی ھے ، جذبات و احساسات رکھتی ھے ، خوشی اور غم محسوس کرتی ھے اور اہلِ دُنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں ، اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لیۓ یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اِس کے انجامِ نیک سے باخبر ہو جائے } اگر اِس تاویل کو درست تسلیم کر لیا جاۓ تو پھر قُرآنِ کریم کے { اموات غیر احیاء ومایشعرون ایان یبعثون } کا سارا بیانیہ ہی غتر بُود ہو جاتا ھے اور مزید یہ کہ اگر یہ برزخ کا اَحوال ھے تو برزخ کا تو مفہوم ہی وہ پردہ ھے جس پردے سے مرے ہوۓ لوگ زندہ لوگوں کو اور زندہ لوگ مرے ہوۓ لوگوں کو کسی طرح دیکھ بھی نہیں سکتے اور کسی طرح کا کوئی نظری و زبانی رابطہ بھی نہیں کر سکتے ، جہاں تک مُحوّلہ بالا اٰیت میں بیان کیۓ گۓ اُس مردِ مومن کے بیان کا تعلق ھے تو وہ ایک نزعی بیان ھے جو نزعِ موت کے اُن لمحات میں دیا گیا ھے جن نزعی لمحات میں انسان کے کُچھ حواس بیدار ہوتے ہیں اور اگر اِس بیان کو مرنے کے بعد ہی مرنے والے کا بیان مان لیا جاۓ تو یہ بھی اُس اللہ تعالٰی کا بیان ھے جو مرے ہوۓ انسانوں کے دلی اَحوال پڑھ سکتا اور زندہ انسانوں کو پڑھ کر سنا سکتا ھے ، آخر قُرآن میں یہ کہاں لکھا ھے کہ مرنے والے نے مرنے کے بعد جب یہ بیان دیا تھا تو زندہ انسانوں نے بھی اُس کا بیان بذاتِ خود سنا تھا ، یہ تو اللہ تعالٰی کا اپنا بیان ھے جو اُس نے مرنے والے سے سنا ھے اور زندہ انسانوں کی عبرت و موعظت کے لیۓ اپنی کتاب میں بیان کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462595 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More