#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَهِ یٰسٓ ، اٰیت 33 تا
40**** اختر کاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واٰیة
لھم الارض
المیتة احیینہا و
اخرجنا منہا حبا فمنه
یاکلون 33 وجعلنا فیہا
جنٰت من نخیل واعناب وفجرنا
فیہا من العیون 34 لیاکلوامن ثمرهٖ و
ما عملته ایدیھم افلا یشکرون 35 سبحٰن
الذی خلق الازواج کلھامماتنبت الارض ومن
انفسھم ومما لایعلمون 36 واٰیة لھم الیل نسلخ
منه النہار فاذاھم مظلمون 37 والشمس تجری لمستقر
لھا ذٰلک تقدیرالعزیزالعلیم 38 والقمر قدرنٰه منازل حتٰی عاد
کالعرجون القدیم 39 لاالشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولاالیل
سابق النھار وکل فی فلک یسبحون 40
اٰیاتِ رَفتہ و اٰیاتِ رَواں میں جن بافرمان و نافرمان اہلِ زمین کا یہ
ذکرِ خیر و شر ہو رہا ھے اُن اہلِ زمین کے سامنے ھمارے تعارف کی منجُملہ
نشانیوں میں سے ایک نشانی اُن کی وہ مُردہ زمین ھے جس کو ھم پہلے زندہ کرتے
ہیں اور پھر اُس میں اَنواع و اقسام کے وہ اناج اُگاتے ہیں جن کو اہلِ زمین
اپنی خوراک بناتے ہیں اور ھم نے اس زمین میں جابجا کھجُور کے وہ باغات بھی
لگاۓ ہوۓ اور پانی کے وہ چشمے بھی بہاۓ ہوۓ ہیں جو اِن زمینوں اور باغوں کو
ثمربار بناتے ہیں اور اہلِ زمین اُن کا اناج اور اُن کا پَھل کھاتے ہیں ،
اگر یہ سب کُچھ انسان کی اپنی دستکاری نہیں ھے بلکہ صرف ھماری ہنرکاری ھے
تو پھر کیا وجہ ھے کہ انسان ھمارا شکر ادا نہیں کرتے حالانکہ خالقِ عالَم
کی ذات ہی وہ واحد ذات ھے جس نے جُملہ اَشیاۓ عالم میں وہ جوڑے بناۓ ہیں جن
جوڑوں میں زمین سے اُگنے والی چیزوں کے علاوہ انسانی جانوں اور اُن چیزوں
کے جوڑے بھی شامل ہیں جن میں سے کُچھ چیزوں کے جوڑوں کو انسان کُچھ کُچھ
جانتے ہیں اور کُچھ چیزوں کے جوڑوں کے بارے میں ابھی کُچھ نہیں جانتے اور
اہلِ زمین کے لیۓ رات بھی ھمارے تعارف کی منجُملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی
ھے جس سے ھم دن کو نکال دیتے ہیں تو وہ اچانک ہی زمین و اہلِ زمین پر تاریک
ہوجاتی ھے اور سُورج کے لیۓ عالَم کے اُس عالِم نے حرکت و عمل کی جو ایک
راہ ایک بار ہی مُعین کردی ھے وہ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اُسی ایک راہ پر چل
ر ہا ھے اور چاند کے چڑھنے ڈھلنے کے جو اوقات اُس نے مُتعن کیۓ ہوۓ ہیں وہ
بھی اُن اوقات کے مطابق اِس طرح چل رہا ھے کہ اپنے اُترنے اور اُبھرنے کے
آخری لَمحات میں انسانی نگاہ کو کھجُور کی پرانی شاخ کے ایک نشان کی طرح
نظر آتا ھے ، خالق کے اِس خود کار نظام میں چلنے والے آفتاب میں یہ تاب
نہیں ھے کہ وہ ماہتاب کو پکڑ سکے اور اُس کی رات کی بھی مجال نہیں ھے کہ وہ
دن سے کُچھ آگے چلی جاۓ یا کُچھ پیچھے ہوجاۓ کیونکہ دن اور رات کے رُوپوش و
رُونما ہونے کے سارے لَمحات اَوجِ فلک کے اُن سیارات کے ساتھ جُڑے ہوۓ ہیں
جو اپنے اپنے مقررہ فلکی دائروں میں اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چل رھے
ہیں اور اُن کے طلوع و غروب کے ساتھ روز و شب طلوع اور غروب ہوتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
نقاشِ عالَم کا یہ نقشِ عالَم اگرچہ بذاتِ خود ہی اپنے خالق کا سب سے بڑا
تعارف ھے لیکن عالَم تمام چونکہ انسان کے حلقہِ دام میں نہیں آسکتا اِس لیۓ
قُرآن انسان کے ایک مُعلّم کے طور پر انسان کی توجہ جابجا اُن اَجزاۓ عالَم
کی طرف مبذول کراتارہتا ھے جن اَجزاۓ عالَم میں سے کُچھ اَجزاۓ عالَم انسان
کے حلقہِ دام سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ انسان اُن کو اپنے دام میں لاتے
لاتے خود ہی اُن کے دام میں چلا جاتا ھے اور خالق کی اِن تخلیقات میں سے
کسی تخلیق کے دام میں آنا حلقہِ توحید سے نکلنے اور حلقہِ شرک میں داخل
ہونے کا وہ پہلا قدم ہوتا ھے جو کبھی کبھی آخری قدم بھی بن جاتا ھے لیکن
انسان اگر قُرآن کی مطلوبہ تعلیم کے مطابق اِن چیزوں کی ماہیت پر مطلوبہ
غور و فکر کرتا رھے تو وہ جلد یا بدیر اِن چیزوں کے دام سے نکل کر اِن میں
سے بیشتر چیزوں کو اپنے دام میں لا سکتا ھے اِس لیۓ قُرآن نے انسان کے فکری
و نظری اور عقلی و عملی جمود کو توڑنے کے لیۓ اٰیاتِ بالا میں انسان کو اِس
عالَمِ فکر و نظر کی جن سات چیزوں کی طرف متوجہ کیا ھے اُن میں پہلی چیز
اُس کے پیروں میں بچھی ہوئی یہ زمین ھے جس کو دن بھر وہ دیکھتا ھے اور جس
پر دن بھر وہ چلتا پھرتا رہتا ھے ، دُوسری چیز جس کی طرف قُرآن نے انسان کو
متوجہ کیا ھے وہ زمین کے ہر دن کے سر پر آنے والی وہ رات ھے جس کی تاریکی
زمین پر آتی ھے تو انسان کے دیکھنے اور چلنےکی قوت مفلوج ہو کر رہ جاتی ھے
، زمین اور زمین کے شب و روز کے اِس ماحول سے مانوس کرنے کے بعد قُرآن نے
انسان کو عالَم کے اُفق پر جگمگانے والے اُس سُورج کی طرف متوجہ کیا ھے جو
رُونما ہوتا ھے تو زمین پر وہ روشنی چھا جاتی ھے جس روشنی میں انسان وہ
سارے کام کر سکتا جو کام وہ کرنا چاہتا ھے اور سُورج کی اِس پُوری روشنی کے
بعد قُرآن نے انسان کو چاند کی اُس اَدھوری روشنی کی طرف بھی متوجہ کیا ھے
تاکہ اُس کے جو کام سُورج کی پُوری روشنی میں پُورے نہیں ہوسکے وہ اَدھورے
کام وہ چاند کی روشنی میں پُورے کرنے کی کوشش کر سکے ، زمین و اشیاۓ زمین
کی افادیت ، سُورج و چاند کے چڑھنے ڈھلنے اور لیل و نہار کے آنے اور جانے
کے اعمال کے بعد قُرآن نے عطارد و مریخ ، زُہرہ و مُشتری اور زُحل نام کے
اُن سیاروں کا بھی ذکر کیا ھے جن سیاروں کی قدیم زمانے کا انسان پرستش کرتا
تھا اور جن سیاروں کے سعد و نحس ہونے کا یقین رکھتے ہوۓ انسان نے اپنے دنوں
کے نام بھی saturday ، sunday ، monday ، Tuesday ، wednesdah ، Thursday
اور Friday وغیرہ رکھے تھے جو آج تک سیارہ پرستی کے اُسی قدیم حوالے سے
زندہ ہیں اور قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کے آخری حصے میں اِن سیاروں کا جو
ذکر کیا ھے وہ اِن کی اسی پرستش کے حوالے سے ذکر کیا ھے ، اگر قُرآن کا
مقصد اِن سیاروں کی تعداد بیان کرنا ہوتا تو وہ یورانس کا ذکر بھی کرتا جو
1781 ء میں دریافت ہوا ھے اور اُن سیاروں کا ذکر بھی ضرور کرتا جو یُورانس
کے بعد دریافت ہوۓ ہیں اور ابھی تک ہو رھے ہیں لیکن قُرآن کا مقصد چونکہ
شرک کا قلع قمع کرنا تھا اِس لیۓ اِس نے صرف اُن سیاروں کا ذکر کیا ھے جن
کی انسان پرستش کرتا تھا اور قُرآن نے اِن کی تعداد کو { کل فی فلک } کے
سات حروف کے سات اعداد سے ظاہر کیا ھے اور سات حروف کے اِس سہ رُکنی کلام {
کل فی فلک } میں خاص بات یہ ھے کہ اِس کو اَوّل سے آخر اور آخر سے اَوّل کی
طرف جس جہت سے بھی پڑھا جاۓ تو یہ اپنی ہر جہت سے { کل فی فلک } ہی پڑھا
جاۓ گا جو اِن سیاروں کے اُس دائرے orbit میں ہونے کی دلیل ھے جو دائرہ
اپنے حلقے کے کسی گوشے سے کُھلا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اپنے دائرے کی ہر روش
سے ایک بند دائرہ ہوتا ھے اور اِس کے بعد قُرآن نے { یسبحون } کا لفظ کہہ
کر یہ اَمر بھی واضح کردیا ھے کہ یہ سارے سیارے اپنے اُس حلقےکے وہ اسیر
ہیں جو اُس حلقے کی فضا میں اِس طرح تیر رھے ہیں جس طرح مچھلیاں پانی میں
تیر رہی ہوتی ہیں ، مقصد یہ ھے کہ یہ سارے سیارے اپنی یا کسی اور کی سعادت
و نحوست کے خالق نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے اُس خالق کے فرماں بردار غلام ہیں
جس کے حُکم پر یہ اپنے یومِ تخلیق سے لے کر آج تک اپنے مدار کے اُسی دائرے
میں رہ کر حرکت کر رھے ہیں جس مدار کے دائرے میں اِن کو اِن کی تَخلیق کی
پہلی ساعت میں حرکت کرنے کا حُکم دیا گیا تھا ، اِن میں سے کوئی سیارہ اپنی
غلامی اور اپنے کارِ غلامی کے سوا کسی کی خوش بختی یا بدبختی کی کوئی خبر
نہیں دے سکتا ، حضرتِ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا تھا کہ
؏
ستارہ کیا تِری تقدیر کی خبر دے گا
جو خود فراخیِ افلاک میں ھے خوار و زبوں
|