دستک

ایک منفرد کہانی, عشق کی پہچان عشق سے ہی ہوتی ہے لیکن!


"گاؤں کا ایک ہنستا مسکراتا ,لمبا قد, سیدھی مانگ نکالتا,گورا چٹا رنگ,لمبی ناک پر دائیں جانب تل کا نشان,خوش اخلاق اپنے گھر کا بڑا لڑکا جو اپنی زندگی خوش باش گزرا رہا تھا,میڑک پاس کرکے شہر کالج میں داخلہ لے چکا تھا,اور اب کالج سے بڑے شہر کی طرف گامزن تھا, بڑی ڈگری کے لئے, متوسط گھرانے کا چشم ؤ چراغ تھا جس سے گھر والوں کو امیدیں تھی کہ ہمارا نام روش کرے گا,ہر ضرورت پوری ہوتی تھی وہ نہیں جانتا کہ وفا,بے وفائی,اعتبار ؤ بے اعتباری ,خاموشی,اداسی,خوشی,عشق, پیار,محبت,دکھ بھی کسی چیز کا نام ہے,وہ اپنی زندگی سے,اپنی ذات میں خوش رہنے والا تھا۔
میڑک کے بعد کالج تک کا تعلیمی سفر جاری تھا,
کالج کے نئے دوستوں کے ساتھ مل جل کے زندگی کے رنگ انجواۓ کر رہا تھا,گھر سے کالج,کالج سے گھر ,شام کو گاؤں کے سکول میں فٹ بال کھیلتا زندگی کے تلخ غموں کے مفہوم تک سے بھی ناواقف زندگی بسر کر رہا تھا۔
گھریلو حالات ایسے کہ کبھی نہ کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی اور نہ پریشانی کہ یہ نہیں ملا,وہ نہیں ملا,اسکا زمیندار باپ اپنے بچوں کی تمام تر ضروریات کا خاص خیال بھی رکھتا تھا اور بچوں کی خواہش کے اعتبار سے ہر سہولت دینے کی کوشش بھی کرتا تھا,لہذا وہ نوجوان بے خبر تھا کہ زندگی میں کبھی دکھ بھی ملتے ہیں,کبھی خوشی دل کے دروازے پر دستک دے کر لوٹ جاتی ہے,جو انسان کو خاموش کر جاتے ہیں ,اداس کر جاتے ہیں, وہ ہنستا مسکراتا ,چھوٹے ,بڑوں کے ساتھ کھیلتا سفر حیات کی منازل کی جانب گامزن تھا۔
کالج کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوتے ہی اب یونیورسٹی کا رخ کیا,لیکن کیا خبر تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے,اسے کیا معلوم کہ تعلیم کے نئے میدان میں ,نئے ہم راہی ملیں گے ,نئے دوست ملیں گے,نئے ستم گر ملیں گے ,وفادار نظر آنے والے بے وفائی کرجانے والے ملیں گے ,جو اسکی ہنستی مسکراتی زندگی کو داغ دار کر دیں گے۔
پھر اس کی زندگی میں خزاں کا جھونکا آیا جو اسکو بہار کا جھونکا لگتا تھا ۔وہ ہواؤں میں اڑنے لگا ۔نئے ماحول کے رنگ نرالے نظر آنے لگے ,دوستوں سے بے نیاز ہونے لگا, بہت سارے خواب آنکھوں میں سجا کر خوش تھا لیکن خوف کا سایہ ہر پل اسکے سر پر چھاؤں کیے ہوۓ تھا کہ اس کے گھر والے یا دوست اس راز سے آشنا نہ ہو جائیں ,دل کے بھید سے واقف نہ ہو جائیں, اس دل میں بسے مہمان کو نہ دیکھ لیں, اسکی آنکھوں میں محبت کا عکس نہ دیکھ لیں۔
لیکن اس کی یہ خوشی زیادہ دن قائم نہ رہی,اسکو کیا معلوم تھا ‏" تعلقات کے آغاز میں ، احساسات ظاہر ہوتے ہیں ، لوگ ملتے ہیں, اعتبار بنتے ہیں,اور ان کے آخر میں اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔"
وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی خوشی ہو یا غمی, اس کے ساتھ شئیر کرتا۔ وہ اٹھتا کب ہے, ببھٹا کب ہے ,کھایا کیا ہے, لیا کیا ہے, دیا کیا ہے, پسند کیا ہے, ناپسند کیا ہے غرض ہر بات بتانا فرض سمجھتا ۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ آغاز محبت میں سب اچھا لگتا ہے, وہ بھی پہلے اس کی ذات میں دلچسپی لیتی تھی, ہر بات پوچھتی تھی, بات بات پے تعریف کرنا,مشورہ کرنا, داد دینا عام تھا, تم میرے لیے بہت خاص ہو, میرے دل کی دھڑکن ہو تم, میرے خوابوں کے شہزادے ہو,
لیکن گھر کا راجہ, ماں,باپ کا شہزادہ کب عشق کی منزل کا مسافر ہوا اس کو پتہ ہی نہ چلا,
وہ بھول گیا کہ سب اس کی مثال دیتے ہیں کہ خاندان میں اس جیسا دوسرا نہیں۔خاندان کی لڑکیاں ,لڑکے اس کو دیکھ کہ رشک کرتے ہیں ۔استاد ,خوش, والدین مطمین۔ لیکن کبھی کبھی وہ سوچتا کہ وہ دھوکہ تو نہیں کر رہا گھر والوں سے۔مگر پھر محبت کے خیالوں میں کھو جاتا۔یہ محبت کی نہ ملنے والی جنت انسان کو جکڑ ہی لیتی ہے,وہ ہمیشہ اسکو ساتھ رکھتا,کبھی ملاقات نہ ہوتی تو بے تاب ہوجاتا,دل ؤ روح بے چین ہو جاتے, یہ راز اپنے سینے میں رکھ لیا کسی کو کچھ نہ بتاتے ہوۓ جیتے جا رہا تھا ,
لیکن یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سوچ لو .........
جسے وہ سب کچھ سمجھتا تھا وقت کی رفتار جیسے اسکا رویہ بدل گیا,مسیج کرنا ,کال کرنا ,حال چال پوچھنا بند ہو گیا,
مجازی عشق انسان کی عقل مار دیتا ہے!! اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن وہ کیا جانے کہ ‏یکطرفہ محبت صرف اللہ کر سکتا ہے ,انسانوں میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ یکطرفہ محبت تمام عمر نبھاتے چلے جائیں,
وہ بہت پریشان ہوا اس کی روح جیسے نکل رہی ہو,اب وہ اس سے بھیک مانگتا کہ چند لمحے بات کر لیا کرو ۔لیکن وہ توجہ نہ دیتا,اسکے ہر سوال کو بے جواب ٹال دیتا,وہ یہ بے مروتی برداشت نہیں کر سکتا تھا,
وقت نے ایک اور کروٹ لی اور پھر ایک دن اس نے بتا دیا کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور اس سے تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ وہ اسے صرف دوست مانتی تھی, اسکے علاوہ کچھ نہیں سمجھتی,اس نے بتایا, سمجھایا بہت کہ وہ اسکی دوستی کو پیار ؤ عشق بنا چکا اب خدا کے لیے مجھ پر یہ ستم نہ کرو,مگر وہ بضد تھی کہ تم بھول جاؤ۔
دوستی سے پیار, پیار سے عشق کی منازل کا سفر کیسے ہوگیا اسے خبر تک نہ ہوئی ,وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بے خبر عشق وہ مقام ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے ۔
اس کے ساتھ دھوکہ ہوا یا بے وفائی, وہ ناسمجھ پایا عدم برداشت صدمے نے اس کو بیڈ سے لگا گیا۔
وقت گزرتا گیا,زندگی کا سورج طلوع و غروب ہوتا گیا چند مخلص دوستوں نے اسکے راز کو راز رکھتے ہوۓ مشورہ دیا کہ وہ خود کو سنبھال لیں ورنہ اپنی فیملی کے لیے بربادی کا یہ جھونکا بن جاۓ گا,
اس کا دل اسکے اختیار میں نہ تھا,اب نہ پڑھائی پہلے والی نہ طبیعت ہنسی مسکراتی غرض سب یک دم بدل گیا,وہ جو خزاں کا جھونکا آیا تھا جسکو بہار کا جھونکا سمجھا تھا,وہ خزاں بن کے چل چکا تھا,اسکی ہنستی مسکراتی زندگی خزاں بنا چکی تھی ۔
وہ ہر وقت مسکرانے والا لڑکا جو بات بات پے ہنستا تھا۔ اب چپ سی لگ گئ اس کو۔ وہ نہ ہنستا,نہ بولتا,بلکہ ایک عجیب سی چپ سی کیفیت میں قید تھا,
وہ بھول گیا تھا کہ ‏وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا مزاج اور پسند نا پسند تبدیل ہوتی رہتی ہے ,‏-" سالوں کا تعلق ہو، غضب کی محبت ہو یا بلا کا عشق ھو جن لوگوں کیلئے آپ بیکار ہو جائیں وہ لاتعلقی ظاہر کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے"
جو اسے سمجھانے کی کوشش کرتا وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھتا۔وہ زندہ لاش بن چکا تھا,ایسا محسوس ہوتا جیسے احساسات مر گۓ ہیں۔زندگی کے سب رنگ ماند پڑ گۓ ہیں,ساری خوشیاں دفن ہو چکی ہیں, گھنٹوں ایک جگہ بیٹھ کے سوچوں میں گم ہو ,موبائل میں مسیج لکھ کہ مٹا دیتا۔لیکن سینڈ کرنے کی ہمت نہ تھی۔
وہ اپنے بے خبر عشق سے بے خبر تھا اسے کیا پتہ ‏عاشق کا دل آگ کی طرح جلتا ہے۔جب محبت کسی دل میں جگہ بناتی ہے تو وہ ہر چیز کو، بلکہ خود کو بھی جلا ڈالتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب محبوب ہو یا عاشق دونوں کو فنا کر سکتی ہے ۔
سچا عاشق یا محبوب ہی جان سکتا ہے کہ اس وقت دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے جب اس کا محبوب کسی اور سے محبت کرنے لگتا ہے__
اسے اب سمجھ آئی کہ ‏جس طرح ادھوری چیزیں،ادھوری یادیں اور ادھوری محبت اچھی نہیں لگتی اسی طرح ادھورا اعتماد بھی اچھا نہیں لگتا انسان اپنی ہی نظروں میں گِر جاتا ہے__
وہ سوچتا تھا کہ اسکا قصوار کیا تھا جس کی سزا وہ کاٹ رہا تھا,جانے والا تو جا چکا تھا,اب اسے سمجھ آچکی تھی کہ عقل کامل ہو تو کلام نرم ہو جاتا ہے اور چوٹ دل کھانے کے بعد عقل کامل ہو ہی جاتی ہے,زندگی کا سکون خاموش محبت میں ہے, قدر میں ہے.
‏۔وہ جان چکا تھا ‏جب ہم آہستہ آہستہ زندگی کو سمجھنا شروع کرتے ہیں تو سوچ کے پنچھی ہمارے چہروں پہ عیاں ہونے لگتے ہیں ہم کب ہنسی مزاق سے سنجیدگی کی جانب بڑھ جاتے ہیں پتا ہی نہیں چلتا تب تک ہم وقت کے دھکے کھا کر بہت مضبوط ہو چکے ہوتے ہیں__
‏‎اور سوچوں کی لکیریں چہرے پہ عیاں ہونے لگتی ہیں!
اور سوچتاکہ کاش جانے والا اپنا غم بھی ساتھ لے جاتا,وہ جو زندگی عشقی رنگوں سے ناآشنا تھا اب وہ اداس شاموں میں بیٹھا رہتا اور سوچتا کہ اس کا قصور کیا تھا۔ شاید کوئی نہیں ,زور دار قہقہہ مارتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ صرف میرے خواب دیکھنے کا قصور تھا,
وہ اکثر ڈھلتے سورج کو دیکھ کہ سوچتا کہ اس کی خوشیوں کا سورج بھی اسی طرح ڈھل گیا ہے۔۔۔
وہ واپس اپنے گھر لوٹ چکا تھا اسکی روزانہ کی بے تابی کو محسوس کرتے ہوئے اسکی والدہ نے پوچھا لیا بیٹا کیا درد ہے تیرے سینے میں جو فراخ ہوتا جا رہا ہے اور تیری بہار جیسی جوانی خزاں کا لباس نظر آتی ہے,میرے گھر کے روشن چراغ مجھے بتا کیا دکھ ہے؟کل تیرے ابا مجھ سے تیری خاموشی کا سبب پوچھ رہے تھے-
ماں کی گود میں سر رکھتے ہی اندر سے ریزہ ریزہ اور باہر سے مضبوط بیٹا موم کی طرح بہنے لگا,لیکن اسکی بے خبر محبت یہ پیغام دے گئ ہے کہ ‏رشتوں میں توازن رکھنا بے حد ضروری ہے, ہر چیز اپنی حد میں اچھی لگتی ہے پھر چاھے وہ محبت ہو یا نفرت, زیادہ کی ہمیشہ ناقدری کی جاتی ہے__
یہ لوگ ربّ کے بنائے ہوئے دلوں کو توڑ کر کہتے ہیں کہ سکون نہیں,سکون ہوگا بھی کیسے ,سکون چھیننے والوں کے حصوں میں کبھی سکون نہیں آتے جلد یا بدیر خٌدا کی لاٹھی آواز مار کر رہتی ہے -
وہ خود سنھبلا تو سمجھا گیا دل نہ توڑیں, تلخی نہ بکھیریں 'ان شاءاللہ' دائمی سکون میسر ھوگا__
‏کبھی کبھی زندگی کی حقیقتوں کو قبول کرنے کے لیے مضبوط نہیں بے حس ہونا پڑتا ہے,
ایک شام علی تھک ہار کر گھر واپس آیا تو کچھ دیر آرام کی غرض سے آنکھیں بند کر کے صوفے سے ٹیک لگا لی, علی من میں باتیں کرتے ہوۓ سوچ رہا تھا کہ زندگی کتنی عجیب ہے, خواہشات کا سفر کتنا طویل ہے,ل
انسان اپنے مقام سے گر کر اپنے ہی خالق کی نافرمانی پر کمربستہ ہے,انسان ہی انسان کا دشمن ہے, وہ سوچ رہا تھا کہ کتنا بے خبر ہے انسان جو غور ہی نہیں کرتا !
جبکہ اللہ کریم قران پاک میں فرماتا ہے۔
کہ اے انسان غور و فکر کر "
لیکن انسان خود غرضی کے سفر میں ہی ہے,
وہ غور ہی نہیں کرتا کہ,چھوٹی سڑک جب بڑی سڑک سے ملتی ہے تو ہائی وے وجود آتا ہے۔ چھوٹی سڑک اپنا مقام کھو دیتی ہے, نہر جب دریا سے ملتی ہے تو اپنا وجود کھو دیتی ہے, دریا سمندر سے ملتا ہے تو اپنا مقام کھو دیتا ہے, اور انسان ہے کہ خالق کائنات کے قانون کے خلاف سفر کرتا ہے ۔۔
ابھی دل سے یہ باتیں جاری تھی کہ علی کی امی جان نے آواز دی
" پتر رمضان آ رہا ہے, نیکی کا سمندر بہنےوالا ہے۔ تیاری کر لو۔"گھر میں راشن وغیرہ لے آؤ,
علی نے فوراً سے پہلے آنکھیں کھول دی, اور شکر ادا کیا کہ مجھے اپنے من کے الجھاؤ کا جواب مل گیا,
علی سمجھ گیا کہ جب زندگی کھٹن ہے, خواہشوں کا سلسلہ لامحدود ہے۔اور ہونا وہی ہے جو اللہ کی مرضی ہے۔ ہونا وہی ہے جو روز ازل لکھا جاچکا ہے۔
کہانی کے کردار اور انجام طے شدہ ہیں ہم نے تو بس اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اور چلے جانا ہے۔ تو کیوں نا خواہشات کے دریا کو کو رمضان کے سمندر میں ضم کر کے داورمحشر کے حضور اپنا مقام و کردار کسی حد تک بہتر کرنے کی سعی کی جائے۔
علی بھاگا اور ماں کی گود میں سر رکھا اور ایک سوال کیا کہ !
"ماں اللہ کریم انسان کی مغفرت کے لیے یہ رمضان لایا ہے اور ہم غافل ہیں,
"ماں نے علی کے بالوں میں انگلی پھرتے ہوۓ کہا کہ پتر انسان غافل ہے لیکن اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں,
پتر اللہ کریم اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ
پیار کرتا ہے تبھی تو رمضان مخلوق کے لیے رحمت, مغفرت اور بخشش کا مہینہ ہے, تاکہ گناہ گار اپنی توبہ کی التجا کریں, ندامت کے آنسو بہائیں, اور اللہ کے سامنے جھک جائیں,
چنانچہ پتر وقت آ رہا ہے رمضان کی صورت میں۔۔۔,تہہ دل سےتوبہ کر لیں, لوٹ آئیں اپنے رب کائنات کی طرف, فنا کر دیں اپنےنفس کو, مٹا دیں اپنی ہستی کو ۔۔۔۔دنیا کی طلب کو۔۔۔ اور آخرت کی فکر میں لگ جائیں تاکہ اللہ کریم کی رضا حاصل ہو, کیونکہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر بھی اللہ ہی دے گا,
کیونکہ پتر رمضان کی مثال مہینوں میں ایسے جیسے یوسف علیہ السلام کی
مثال بھائیوں میں, پتر جی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ
امام ابنِ جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ماہِ رمضان مہینوں میں ایسے ہے جس طرح یعقوب علیہ السلام کو اپنی اولاد میں یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ پیارے تھے ,
اسی طرح اللہ عالم الغیب کو مہینوں میں رمضان سب سے محبوب ہے .
جیسے یوسف علیہ السلام کا حِلم اور درگزر بھائیوں کی زیادتی پر حاوی تھا جب انہوں نے کہا: (لَا تَثْرِيب عَلَيْكُم الْيَوْم!) آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اسی طرح رمضان میں بھی اللہ کی طرف سے رحمتوں برکتوں نعمتوں، جہنم سے آزادی اور مغفرت کا وہ سامان ہے جو تمام مہینوں میں ہمارے کیے گئے گناہوں اور کوتاہیوں پر غالب آ جاتا ہے ..
جس طرح برادرانِ یوسف علیہ السلام غلطی کرنے کے بعد یوسف علیہ السلام کی طرف ہی فریاد رسی کو آئے، اور یوسف علیہ السلام نے ان کو خوش آمدید کہا، مدد کی، خواہشات پوری کیں، کھانا کھلایا اور ان کی سواریوں پر سامان لدوایا تو گویا اس ایک بھائی نے گیارہ بھائیوں کے مسئلے کو حل کیا ,اسی طرح یہ رمضان کا مہینہ ہے، ہم گیارہ ماہ ہر قسم کا گناہ ,فریب, دھوکا, لالچ, جھوٹ, چوری, حسد ,والدین کی نافرمانی, زکوتہ ادا کرنا, خیرات نہ کرنا, ایک دوسرے کا حق مارانا, جیسی کوتاہیاں کرتے ہیں مگر رمضان میں اس کی تلافی کی امید کے ساتھ غلطیوں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں"-
اس لیے پتر ہم سب مسلمانوں کو رمضان میں خاص اہتمام کے ساتھ عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہیے اور ہوتے بھی ہیں لیکن رمضان کے بعد کیوں کمزوری کرتے ہیں, پتہ نہیں پتر اگلہ سال ہماری زندگی میں دوبارہ آۓ یا نہ آۓ,
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ کسی کو عظمت کا مقام سے,
یہ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے, اب جو شخص اللہ کو عظیم سمجھے وہ موحد ہے اور جو آدمی کسی اور چیز کو عظیم سمجھ لے وہ مشرک ہے.
حضرت ابراھیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں بیت المقدس میں تھا ان دنوں کا واقعہ ھے کہ ایک رات جب ھم لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ھوئے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو کچھ رات بیتنے کے بعد آسمان سے دو فرشتے اترے اور مسجد کی محراب کے پاس آ کر ٹھہر گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے کسی انسان کی خوشبو آ رھی ھے - دوسرے نے کہا کہ ھاں ! یہ ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ علیہ) ہیں ۔ پہلے نے پوچھا ،
" ابراہیم بن ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) بلخ کے رھنے والے ہیں؟ دوسرے نے کہا ،
"ھاں! وھی"
پہلے نے کہا:
"افسوس ! انہوں نے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے بڑی مشقتیں برداشت کیں ، مصیبتوں اور مشکلوں کے باوجود صبر سے کام لیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مرتبہ ولایت عطا کر دیا لیکن صرف ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے انہوں نے وہ مرتبہ کھو دیا"
دوسرے نے پوچھا:
"ان سے کیا غلطی سرزد ھوئی ھے؟"
پہلے فرشتے نے کہا:
"جب وہ بصرہ میں تھے تو ایک بار انہوں نے ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور کھجوریں لیکر جب وہ واپس پلٹنے لگے تو دیکھا کہ زمین پر کھجور کا ایک دانہ گرا پڑا تھا -
انہوں نے سمجھا شاید یہ ان کے ھاتھ سے گرا ھے۔ لہٰذا انہوں نے اسے اٹھایا ، صاف کیا اور کھا لیا ۔ دراصل کھجور کا دانہ ان کے ھاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ کھجور کے ٹوکرے سے گرا تھا اور جونہی وہ کھجور ان کے پیٹ میں پہنچی ان سے مرتبہ ولایت واپس لے لیا گیا"ک
حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد کے دروازے کی اوٹ سے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو روتے ھوئے مسجد سے باھر نکلے اور اس پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بیت المقدس سے بصرہ کی طرف روانہ ھو گئے۔ وھاں جا کر ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور پھر اس کھجور فروش کے پاس گئے جس سے پہلے کھجوریں خریدی تھیں ، اسے کھجور واپس کی اور ساتھ ھی سارا واقعہ بیان کیا اور آخر میں اس سے معافی بھی مانگی کہ غلطی سے تمہاری ایک کھجور کھالی تھی لہٰذا مجھے معاف کر دینا۔ اس کھجور فروش نے اسے کھلے دل سے معاف کر دیا اور پھر رو پڑا کہ حضرت کو ایک کھجور کی وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم بن آدھم رحمۃ اللہ علیہ بصرہ سے پھر بیت المقدس روانہ ھو گئے اور بیت المقدس پہنچ کر رات کے وقت اس مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔
جب رات کافی بیت گئی تو آپ نے دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اترے ، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے انسان کی خوشبو آ رھی ھے- دوسرے فرشتے نے کہا کہ ھاں یہاں ابراہیم بن آدھم موجود ہیں جو ولایت کے مرتبے سے گر گئے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم کے صدقے پھر وھی مقام و مرتبہ عطا فرما دیا۔
کبھی سوچا ھے کہ ہم انجانے میں اور جان بوجھ کر لوگوں کا کتنا حق کھا جاتے ہیں اور اس بات کی پرواہ ھی نہیں کرتے کہ روز محشر اسکا حساب دینا پڑے گا-
انسان اللہ کا نائب ہے, اللہ کی صفت ہے رحم کرنا, کرم کرنا, اور اللہ کا نائب ہونے کے ناطے انسان میں بھی صفت محبت ہونا آس کی معراج کا سفر ہے,
‏“ محبت کیا ہے “ خود میں محبوب ، محبوب سے خود تک اور کائنات تک پاکیزگی کا سفر ہے “محبت” زمانے کو بُرا نہیں کہتی سراب سے واسطہ پڑے بھی تو اُسے درپردہ عطاء مانتی ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو شدت کیسے منکشف ہوتی..
گزشتہ شام علی گھر داخل ہوا اور جا کر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر رونے لگا, وہ گھر میں بڑا تھا اس سے چھوٹے دو یعنی ایک بہن اور ایک بھائی تھا,
علی کو روتا دیکھ کر گویا گھر میں قیامت ٹوٹ گئ ,
علی کو خلاف معمول آج کیا ہوا یہ تو بڑا ہنس مکھ ,خوش اخلاق, نرم کلام, درد دل رکھنے والا جوان تھا,
ماں اسکے باپ کی طرف دیکھتی ہے اور بیٹے کے سر پر پیار کرتے ہوۓ, روتے ہوۓ بیٹے کو دلاسہ دیتی ہے اور پوچھتی ہے کہ میرے بہادر لال کو کیا ہوا, کس نے کیا کہا ہے ,تم کیوں روتے ہو ؟
علی کا باپ پاس آ کر پیار کرتے ہوۓ پوچھتا ہے کہ بیٹا کیا ہوا ہے, کچھ بتاو یا ہمیں پریشان کرتے رہو گۓ ؟
علی ماں کی گود میں لیٹے ہوۓ باپ کی جانب دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ابا جان آج آپکے علی کو کچھ ہو گیا ہے,
اباجان تیرے علی کو زندگی کے مقصد کی سمجھ آ گئ ہے,ماں جی آج تیرا علی لگتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہو جاۓ گا,
چھوٹی بہن علی کی بات سن دوڑتی ہوئی بھائی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے کہ ویر جی ایسا نہیں کہتے,
علی ایک لمبا سانس لیتا ہے, آنسو صاف کرتا ہوا ماں کی گود سے سر اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ماں جی آج جب میں گھر واپس آ رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہر کے کنارے ایک بزرگ کہہ رہا تھا کہ زندگی فانی ہے, یہ مہلت عارضی ہے, ابدی سفر کی تیاری کر لو, زندگی کے مقصد کو سمجھ لو, زندگی اللہ کی امانت ہے جو واپس کرنی ہو گئ,
میں اسکی آواز سن کر رک گیا,
اباجان میں نے ان سے پوچھا بابا جی کیا ہے زندگی ,کیا ہے اسکا مقصد میں جاننا چاہتا ہوں ,
اباجان اس نے مجھے پاس بلایا, پیار سے تپکی دی اور کہنے لگا,
پترجی سکون انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے جس کی تلاش میں انسان شب و روز ہلکان ہوئے پھرتے ہیں لیکن وہ موجود پیہم رب کی یاد میں ہے,
لیکن انسان بھول جاتا ہے کہ اسے موت بھی اچھی لگنی چاہیے اس لئے کہ موت بھی تو وہی دے گا, جس نے زندگی دی تھی،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اچھا تحفہ دینے کے بعد کوئی دوسرا تحفہ برا دے"
پتر جی ‏جب انسان قرآن کا علم حاصل کرتاہے تو پھر اس کے اندر سے حسد، بغض، کینہ اور نفرت جیسی چیزیں نکل کر محبت، پیار اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے ,پھر وہ ذاتی مفادات سے ہٹ کر بھی لوگوں کیلئے حلیم بن جاتاہے__
پتر جی اللہ قران کریم میں فرماتا ہے کہ
‏زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اِیمان لائیں، اور نیک عمل کریں، اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔(سورۃ العصر)
علی روتے ہوۓ دوبارہ ماں کی گود میں سر رکھتا ہے ,
ماں جی پھر بابا جی کہنے لگے ‏کچھ لوگوں کے حالات ان کی گہرائیوں میں دفن ہوتے ہیں اگر ان کو نہیں جانتے تو اچھی سوچ کے ساتھ ان کا احترام کیا کرو,
پتر جی ‏جن رشتوں سے ہم کو پیار، ہمدردی اور توجہ چاہیے ہوتی ہے، بدلے میں جب ان سے طنز اور نفرت ملے تو انسان انجانے میں اچھے برے کا فرق بھول کر ہر اس انسان سے تعلق بنا لیتا ہے جو توجہ اور پیار دے اس لیے پتر جی اللہ کی مخلوق کا احترام کیا کرو,
علی یہاں ایک پل کے لیے خاموش ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اباجی وہ اللہ والا میرا نام تک جانتا تھا, ماں جی پھر اس نے کہا پتر علی ‏مرنے والے انسان کو نہیں معلوم کہ آپ نے اس کے لئے کتنے آنسو بہائے لیکن زندہ انسان کو مرتے دم تک یاد رہے گا کہ آپ کی وجہ سے اس نے کتنے آنسو بہائے،جو رشتے آپ کے پاس ہیں ان کی قدر کیجئے انہیں احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لئے کتنے اہم ہیں اور آپ کو ان کی کتنی ضرورت ہے ان سے کتنی محبت ہے,
علی پتر دنیا پیار سے قائم ہے اور ‏پیار اندھا ہوتا ہے,
پتر علی ‏بعض اوقات ہم ایک ہی وقت میں کسی کیلئے بہت اچھے اور کسی کے لئے بہت برے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ زندگی ہے لیکن پتر جی آپ کبھی بھی کسی کی نظروں میں بہت اچھے نہیں ہو سکتے بعض اوقات ہمیں اچھا بننے کی کوششیں دوسروں کی نظر میں بُرا بنا دیتی ہے, لوگوں کی پرواہ کیئے بغیر خود مثبت رہتے ہوۓ زندگی بسر کرو وقت بہت کم ہے,
‏اباجی وہ کہتے ہیں کہ پتر جی اللہ کی تلاش کے لیے اسکی مخلوق سے ‏علیحدگی کی صورت میں انکے رازوں کو دفن کرنا اصول بناؤ, ‏کسی تعلق کو بچانے کے لئے سو دلیلیں دینے سے بہتر ہے کہ دل پہ پتھر رکھ کے جانے والے کو خوشی خوشی رخصت کر دیا جائے...!!
علی بات کرتے ہوۓ پھر زور زور سے روتا ہے, علی کی والدہ پیار کرتی ہے, حوصلہ دیتی ہے اور ایک عجب سی کیفیت محسوس کرتی ہے لیکن اپنے آنسو اپنے پتر علی کے رخساروں پر گرنے نہیں دیتی,
علی حوصلہ کرتے ہوۓ باباجی کی بات کو جاری رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اباجان باباجی کہتے ہیں.
بے شک اللہ تعالی نے ہر چیز کو انسان کے لیے فائدہ مند بنایا ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر سب پر برتری دی ہے لیکن موجودہ دور کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ انسان دن بدن اپنی عظمت کو کھو رہا ہے اللہ تعالی ہم انسانوں کو ہدایت دے تاکہ ہم سیدھے راستے پر چلیں.....
‏‎حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مصر کے گورنر کی طرف سے ایک گدھا تحفہ دیا گیا تھا جس کا نام یعفور تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد غم میں نڈھال ہو کے مر گیا تھا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمیں جانوروں سے محبت کرنے کا سبق سکھاتی ہے
‏گدھے ,خچر, گھوڑوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ انہیں راستے بڑی اچھی طرح یاد رہتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی نہ بھی ہو پھر بھی یہ 5 کلومیٹر کی دُوری سے پانی لا سکتے ہیں۔ صرف ایک طرف پانی بھرکر ان کی پیٹھ پر لادنے اور دوسری طرف اُتارنے والا ہونا چاہئے...
‏‎اس لئے ہماری سیاہ ست دان ذیادہ ذہین ہیں ۔۔۔
‏‎دیہات میں گدھے آج بھی سامان لے جانے کے لیے اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے، دو ،تین مرتبہ ایک راستہ پر چلا دیتے ہیں اور اسکے بعد خود ہی جاتی ہے، جہاں راستہ بند ہو جاتا ہے وہی کھڑی ہوتی ہے اور کسی کو نقصان نھیں پہنچاتی۔
‏‎یہاں تھوڑا اختلاف ہے گھوڑے تو تاریخ میں سیکڑوں میل اپنے گھر پیغام لاتے رہے یہ گدھے سے افضل جانور ہے....
لیکن اگر عقل کی عینک لگا کر ایک پل کے لیے غور کریں تو پاکستان کی سیاست میں افضل ہی ہیں.....
یہاں معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ ،وہ ذہین نہیں ہوتے صرف روٹین ورک کر سکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو نیزہ بازی،ڈانس اور جنگوں میں ان کو استعمال کیا گیا ہوتا۔
حقیقت کچھ اور ہے لیکن کم ہی اہل علم سمجھیں گے....
اور کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ‏‎گہرے مشاھدے کی بات۔۔۔اور ایسا ہی ہے ......
‏‎بے شک پانی لانے میں گدھا یقیناً زیادہ ذہین ہو گا لیکن میدان جنگ میں بہادری، مالک سے وفا داری اور طاقت میں گدھا کبھی بھی گھوڑے کے برابر نہیں ہو سکتا... گدھا ایک محکوم سا جانور ہے لیکن گھوڑا ایک پر وقار جانور ہے، گدھا ذہین زیادہ ہو گا لیکن عقلمند گھوڑا زیادہ ہے....
‏‎اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خاصیت ضرور ہے ہر چیز کو اللہ نے کسی مقصد کے لیے بنایا.....
‏یقین اوروہ بھی کامل ہمارااس ذات پاک پر ہےجسکی رضا سےجیتےمرتےہیں پھر شیطان(کرونا)خوف بنکردلوں میں کیوں بیٹھ گیا ہےہم آج میں جیتےہیں کل کی کسےخبراحتیاط کریں مگربہادری سے. مسکرائیں,زندگی کی اس دین پراللہ کا شکرادا کریں فطرت کےحسن کامزالیں اورموت سےپہلےنہ مریں بیشک وہ سب سےبڑا ہے..
‏‎لیکن بے شک احتیاط بہت ضروری اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے....
‏‎بے شک جن لوگوں کا اللہ پاک سے تعلق مضبوط ہے وہ موت سے نہیں ڈرتے ۔۔ اپنے اعمال پر ان کی نظر رہتی ہے،خوف خدا انکے دلوں میں جاں گزیں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ بھی ان کو اپنی امان میں رکھتا ہے جو اللہ سے رجوع نہیں کرتے تو ان کیلیے دنیا اورآخرت میں بھی پریشان کن حالات ہیں...
یاد رکھنا کہ ‏‎زندگی کا مزہ تب لیا جا سکتا ہے جب سب لوگ احتیاط کریں..... ورنہ فطرت کے حسن دیکھنے کے نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے...
‏‎اور یہ بھی یاد کرو کہ جب
رسولِ کریمﷺ نے ایک جنگ مدینہ میں ٹھہر کر لڑی; دشمن شہر کے اردگرد للکارتا رہا- کیا انکے دل میں خوف تھا؟ بیشک نہیں-حکمت مومن کی میراث ہے- سیدناﷺ کی واضح احادیث جنکا مفہوم ہے کہ بیمار کو صحت مند کے ساتھ نہ کرو-
‏‎کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے ، اللہ تعالٰی نے انہیں فرمایا مر جاؤ ، پھر انہیں زندہ کر دیا بیشک اللہ تعالٰی لوگوں پر بڑا فضل والا ہے ، لیکن اکثر لوگ ناشُکرے ہیں ۔
علی تم کچھ دنوں سے بے چین ہو کیوں ؟اکثر خاموش بیٹھتے ہو, کیوں ؟
علی کہتا ہے اماں جان,
یہ سچ ہے کہ تنہا, اکیلے. نا جانے کن سوچوں نے میرے ذہن کے ساتھ ساتھ میرے پورے وجود پر قبضہ کر لیا تھا.
میں پریشان تھا کہ آخر یہ کیا ہے.
اباجان میں بہت ہنس مکھ اور باتونی تھا. اچانک خاموش رہنے کو دل کرتا ہے . علی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے. وہ اپنے چھوٹے بھائی, چھوٹی بہن سے کہہ رہا تھا کہ تم لوگ ابھی سفر زندگی سے ناآشنا ہو ,تم لوگ سمجھتے ہو کہ یہ مادی چیزیں مکان,گاڑی, روپیہ پیسہ, فون, کمپیوٹر, اے سی,فریج ,بنک بیلنس, ظاہری ترقی, وغیرہ ہی اصل زندگی اور خوشی ہیں,
لیکن ماں جب یہ زندگی کے مقصد سے آشنا ہوجائیں گے تو پھر جانیں گے کہ ماں باپ, بہن بھائی, رشتے ناتے کیا ہوتے ہیں.
آج دیکھ لو کہ تم دونوں سے بڑا یہ جو تمہارا بھائی ہے نا یہ سفر زندگی سے باخبر ہوچکا ہے , مقصد زندگی سے آشنا ہو چکا ہے. تم دونوں ابھی ناآشنا ہو اور انسانوں سے محبت کی نہ صلاحیت رکھتے ہو اور نہ اظہار کر سکتے ہو,
لیکن اباجان آپکا بڑا بیٹا علی جو ماں کی گود میں لیٹا ہے.
محبت انسان سے آشنا ہوچکا ہے.
باباجی کہتے ہیں بچہ سب سے پہلے جس جذبے سے روشناس ہوتا ہے ,وہ محبت ہی ہے. وہ محبت کو محسوس کرتا ہے ,مسکرا کر محبت کا اظہار کرتا ہے. بچہ معصوم ہوتا ہے,اس کی محبت سچی ہوتی ہے. اس کی محبت میں ایک وارفتگی ہوتی ہے.
لیکن نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے جاتے ہیں, ہم محبت کے جذبے سے ناآشنا ہو جاتے ہیں. ہم شاید دنیا اور اس مادی اشیاء اور اس کی خواہشوں میں اس قدر الجھتے چلے جاتے ہیں کہ پھر کبھی سلجھ ہی نہیں پاتے یا پھر یوں کہہ لیتے کہ اس دنیا کی بھول بھلیوں میں محبت کی راہوں سے کہیں دور نکل جاتے ہیں اور اس دوری کی وجہ سے ہمارے جذبات خود غرضی ,لالچ, مفاد پرستی, انا پرستی کے سرد خانوں میں پہنچ کر منجمد ہو جاتے ہیں.
اماں جان باباجی کہتے ہیں کہ زندگی سدا ایک سی نہیں رہتی یہ بدلتی رہتی ہے, اس کا بدلنا ہی اس کا حسن ہے اگر زندگی میں تبدیلی رونما نہ ہو تو انسان زندگی جیسی نعمت کو زحمت سمجھے .
خالق نے ہمیں زندگی دی ہے ,مالک نے ہماری دلچسپی اور جینے کی خواہش کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی کو ہزار ہا تغیرات عطا کیے ہیں. اسی لیے تو انسان ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے, کبھی مرنا,نہیں چاہتا. وہ نہ تو بیمار ہونا چاہتا ہے , نہ ہی بوڑھا ہونا چاہتا ہے. خواہش کی تکمیل میں مقصد زندگی کو بھول جاتا ہے,
علی روتے ہوۓ کہتا ہے کہ اباجی وہ مٹی سے کیھلنے والے بابا جی کہتے ہیں کہ علی پتر انسان کی اس نادانی پر قدرت مسکراتی ہے اور کہتی ہے ارے نادان,
اے غافل انسان ! اے جلد باز انسان,
اے خواہش کے سمندر میں غرق انسان,
اے لالچ ؤ مفاد کے تختہ پر حکمرانی کرنے والے انسان, کیا تو نہیں جانتا جسکو زندگی ملتی ہے اسے موت کا ذائقہ بھی چکھنا ہے, جو بنتا ہے وہ ٹوٹتا بھی ہے ,جو پھول کھلتے ہیں وہ مرجھاتے ہیں, جن باغوں میں بہار آتی ہے وہاں خزاں بھی ڈیرہ ڈالتی ہے.
اس لیے میرے بچے ان سب باتوں پہ غور کرو,سوچو, سمجھو, اپنے جسم کے ساتھ اپنے دل کو بھی زندہ رکھو,اپنی روح کو منور رکھو. دل ہمیشہ رشتوں, جذبوں کے احساس سے زندہ رہتا ہے. رشتوں ,احساس, ایثار کے جذبوں کی زندگی محبت انسان اور صرف محبت انسان سے ہے.
علی ماں کی گود میں روتے ہوۓ کہتا ہے کہ اماں جان, ابا جان وہ بابا کہتے ہیں علی پتر یاد رکھنا,
ماں باپ بچے کو کمزور اور بے بس بچے خود پالتے ہیں, پرورش ,نگہداشت ؤ حفاظت کرتے ہیں. خدانخواستہ اگر بچہ بیمار ہو سب چھوڑ چھاڑ کر , بھول بھال کر اس کے علاج معالجہ کرواتے ہیں, صحت و تندرستی کے لیے دوا ؤ دعا دونوں کرتے ہیں. اپنا کھانا پینا, اوڑھنا بچھونا سب کچھ بھول جاتے ہیں.بس ایک ہی غرض ؤ عرض, ایک ہی دعا ؤ مدعا کہ ان کا بچہ آللہ کے کرم و فضل سے صحتیاب ہو جائے. بچے کی بیماری دور ہو جائے. یہاں تک کہ وہ دعا کرتے ہیں کہ ان کے بچے کی بیماری ان کو لگ جائے اور ان کی عمر ان کے بچے کو لگ جائے.
وقت کی رفتار, برف کے پانی ہوتی حالت جیسی بدلنے والی زندگی پھر بدلتی ہے ,بچے جوان ہو جاتے ہیں. بااختیار ہوجاتے ہیں اور ماں باپ بوڑھے ,کمزور ہو جاتے ہیں. بچوں کے پاس کرنے کو بہت سے کام لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے پاس بیٹھیں,باتیں کریں ان کی دلچسپی کا کچھ سامان کریں. ان دونوں میں سے کوئی بیمار ہو تو ان کا بھر پور علاج کروائیں,تیمارداری کریں,دعا لیں ,ان کی صحتیابی کے لیے پوری توجہ سے, تڑپ سے دعائیں کریں جیسے تڑپ کر ان کے ماں باپ نے کبھی کی تھیں.
بابا جی باتیں کرتے کرتے کچھ دیر رکا,آنسو صاف کیے اور بولا ہاں مگر کچھ ایسے بھی جوش نصیب, ہوتے ہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں,خیال رکھتے ہیں. انھیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں .ان سے محبت کرتے ہیں جیسے کہ بچپن میں والدین نے ان سے کی تھی. سب اختیار رکھتے ہوئے اپنے ماں باپ کے سامنے جھکے رہتے ہیں اور والدین کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے بچے ہیں. آپ کے خدمت گذار ہیں.
ہاں ایسا بھی ہوتا ہے مگر صرف اور صرف احساس انسانیت میں, مقصد زندگی میں, محبت انسانیت کے باعث دلوں میں محبت کا جذبہ بیدار رہتا ہے.
ان کو اپنوں سے پیار اور ان کا دل اپنوں کے لیے بے قرار رہتا ہے.
یہ سب کس طرح مکمن ہے کہ ہم رب کے حضور پاک, صاف اور نیک نیتی کے ساتھ پیش ہوں ؟میں سوال کیا!
وہ فرمانے لگے کہ عمل کی بنیاد نیت ہے, نیت میں اخلاص پیدا کرو, تاکہ رب کی محبت پا سکو!
یہ اخلاص کیا ہوتا ہے ؟میں نے پھر پوچھا!
انسان دنیا میں اشرف مخلوق ہے, اسکے اشرف و افضل ہونے کا باعث اللہ کا نائب ہونا ہے, اللہ کے عطا کردہ علم نے اسکو اعلی کیا جسکی بنیاد پر فرشتوں کو حکم ربی ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ہے, خالق کائنات کی تعریف اور تعارف میں صرف اہل علم کے لیے سورہ اخلاص کی پہچان ہی کافی ہے اگر سمجھیں تو! کیونکہ دنیا میں انسان کے ذمے اللہ کی اخلاص کے ساتھ اطاعت کرنا فرض ہے,
حضرت جنید بغدادیؒ رحمتہ اللہ تذکرۃ اولیاء میں فرماتے ہیں کہ اخلاص کی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے بہترین اعمال کو قبول تصور نہ کرتے ہوئے نفس کو فنا کر ڈالے....
اخلاص کے لغوی معنی پاک صاف ہونے ,خالص ہونے کے ہیں۔ امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ اخلاص کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الاخلاص التَبَرِّی عَن کُلِّ مادُون اﷲ تعالی.
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے۔‘‘
(المفردات القرآن : 155)
اخلاص کا صحيح مفہوم یہ ہے کہ انسان زندگی میں جو بھی عمل کرے اور جس سطح کی اور جس شکل کی بھی عبادت کرے اس کا دل اس عبادت اور عمل میں صرف اور صرف اس بات پر مطمئن ہو کہ میں یہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کر رہا ہوں۔
اپنے دل کو ہر قسم کی نفسانی، ظاہری و باطنی خواہشات سے پاک کرنے اور اپنی بندگی کو دنیا کے مفاد حتیٰ کہ اپنے ہر عمل و عبادت کو اپنی حرکات و سکنات کو بلکہ اپنی زندگی کی ساری جہتوں کو ہر طرف سے ہٹا کر صرف اللہ کی رضا میں خود کو گم کر دینا اخلاص کہلاتا ہے۔
اخلاص کی تعریف یہ بھی ہے کہ جس طرح لوگ اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح اپنی نیکی کو بھی اپنے من میں دفن کر لیا کریں.
امام ابن قیم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اخلاص اور تعریف کی خواہش ایک ساتھ دل میں جمع نہیں ہو سکتی.اخلاص کا معیار یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو.
مفتی محمد زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ
اخلاص کی تین نشانیاں ہیں!
1-جب الگ عبادات اور لوگوں کے سامنے عبادات ایک جیسے ہوں تو یہ اخلاص ہے,
2-جب اپنے اعمال کی تعریف پسند نہ ہو تو یہ اخلاص ہے,
3- جب دوسروں کی عظمت بیان کرنا اچھا لگے تو یہ اخلاص ھے,
یاد رکھیں کہ اِخلاص کے ساتھ کیا گیا تھوڑا عمل بھی کافی ہ امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھا .

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ؓ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ: حِيْنَ بَعَثَهُ إِلیٰ الْيَمَنِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! أَوْصِنِيْ. قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ:
أَخْلِصْ دِيْنَکَ، يَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ.
(طبرانی، مسند الشاميين، 1: 353، الرقم: 612)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! مجھے خصوصی نصیحت فرمائیں۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا:
دین میں اِخلاص پیدا کرو تو تھوڑا عمل بھی تمہارے لئے کافی ہوگا۔(متفق علیہ)
انسان کی کامیاب منزل اللہ کا قرب ہے اور اللہ کا قرب امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ واہل بیت و ازواج وسلم کے قرب میں ہے, اور امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قرب کے راستے میں اہل بیت رضی اللہ, اصحابہ رضی اللہ کے قرب کی منازل ہیں .....
انسان کسی کو کہہ کر اپنے لئیے مخلص نہیں کر سکتے ،
اخلاص تو ایک دلی احساس ہے بلکہ خالق کی عطا ہے ،
یہ پیدا ہو جاۓ تو ٹھیک ، ورنہ ساری باتیں رائیگاں اور بیکار ھیں,اسی طرح خالق کی اطاعت کا اخلاص پیدا ہونا بھی بے شک خالق کی عطا ہے لیکن کوشش پہلے انسان کو کرنا پڑتی ہے تب ہی خالق اخلاص عطا کرتا ہے,
دنیا اسباب کی ہے, یہاں انسان کے ‏اندر کی بے پناہ خواہشات نے زندگی کو الجھن کا شکار بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے.
‏دنیا امتحان گاہ ہے اور ہم نے ممتحن کی بجائے پرچوں سے دل لگا رکھا ہے، ‏‎پرچوں کی تیاری سے بے خبر امتحان گاہ کی رنگینیوں میں کھو کر خوش ہیں....
‏اس کائنات میں
” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ سے بڑھ کر کوئی تعلق نہیں، کوئی پرکھ نہیں اور کوئی میزان نہیں یہ وہ کلمہ ہے کہ مل جائے تو لاکھوں میل دور بیٹھا انسان بنا رنگ، نسل اور قوم قبیلے کے اپنا دکھائی دیتا ہے اور نہ ملے تو ساتھ رہنے والا خون کا رشتہ بھی اجنبی نظر آتا ہے۔
اسی طرح خالق کی عبادت کا اخلاص مل جاۓ تو دو دو وقت کی بھوک بھی گھر میں ہو تو بھی ناشکری اور گلہ زبان پر نہیں آتا, لیکن دل اخلاص سے خالی ہے تو بے شک زمانے کے خزانے موجود ہوں مگر راحت ایمان نہیں ملتی کیونکہ یاد رکھیں ‏شکر بھی اخلاص کی ابتدا ہے اور قرض ہے جتنا جلدی ہو ادا کرتے رہنے کی عادت ڈال لیں...
ہم بھول چکے ہیں ,‏اسلام کے احکامات اور شریعتِ خداوندی ہمارے نفس کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں ہے یہ اللہ کا حکم ماننے اور نبیﷺکی اتباع کا نام ہے جس میں نفس کبھی خوش نہیں ہوتا، سجدہ شکر کے حوالے سے جواب وہی ہو گا جو حکم الہی ہے، اب اپنے آپ کو خوش ؤ اطمینان کی غرض سے بے شک دین میں گنجائش نکالتے رہیں وہ آپکی بربادی کا باعث تو ہے لیکن نجات کا ذریعہ نہیں !
سید قطب شہید رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ
‏جو استعمار کی کھینچی ہوئی لکیروں پر ایمان رکھتا ہے وہ اسلام کی بات نہ کرے۔ ہم وہ امت ہیں جس میں ابو بکر عربی، بلال حبشی، سلمان فارسی اور صہیب رومی ہیں۔
(رضوان اللہ علیھم اجمعین)
جمال عبدالناصر کا ايک نمائندہ قطب شہيد رحمتہ اللہ کے پاس معافی نامے کے ساتھ آيا، جس کے جواب ميں قطب شہيد رحمتہ اللہ نے کہا:” مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو مظلوم کو ظالم سے معافی مانگنے پر ابھارتے ہيں ۔ قسم بخدا اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے نجات بھی دے سکتے ہوں تو ميں تب بھی يہ الفاظ کہنے پر آمادہ نہ ہوں گا۔ ميں اسی حال ميں اپنے رب کے سامنے پيش ہونا پسند کروں گا کہ وہ مجھ سے راضی ہو اور ميں اس سے راضی ہوں ۔
سیّدقطب رحمتہ اللہ نے اپنی سزائے موت سنتے ہی بڑے باوقار انداز سے ججوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
مجھے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ اس مرتبہ حکومت میرے سر کی طالب ہے۔ مجھے نہ اس پر افسوس ہے اور نہ اپنی موت کا رنج، بلکہ میں خوش ہوں کہ اپنے مقصد کے لیے جان دے رہا ہوں ۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا کہ ہم راہ راست پر تھے یا کہ حکومت؟
‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے“۔
(جامع ترمذی، ۲۸۱۹)
‏اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول (ﷺ)کی مخالفت کرے، اور مؤمنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
﴿سورۃ النساء ، ۱۱۵﴾
‏اللہ وہی تو ہے جو اپنے بندے پر کھلی کھلی آیتیں نازل فرماتا ہے، تاکہ تمہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ اور یقین جانو اللہ تم پر بہت شفیق، بہت مہربان ہے۔
﴿سورۃ الحدید، ۹﴾
‏آقاﷺنے فرمایا!
جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ایک آدمی نے کہا کہ انسان چاہتا ہے کہ اسکے کپڑے اچھے ہوں اور اسکے جوتے اچھے ہوں-آپﷺنے فرمایا’’ اللہ خود جمیل ہے ، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیرسمجھنا ہے۔{ مسلم۔۲۶۵}
‏جو لوگ اپنے مال دن رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثوا ب پائیں گے، اور نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا، نہ کوئی غم پہنچے گا۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 274)
‏یہ ایک گُمراہ کن سوچ ہے کہ میرا ظاہر جو بھی ہے میری نیت تو ٹھیک ہے کیونکہ اسلام اخلاص کے علاوہ ایک مضبوط image code کا تقاضا بھی کرتا ہے لہذا آپ کتنے برے یا اچھے ہیں بہرحال اپنے ”شخصی تاثر“ کی پروا ضرور کریں کیونکہ شخصی تاثر کھلی نیکی یا برائی کی مانند ہوتا ہے۔
اسکی وجہ دین سے دوری ہے جسکی وجہ سے ہم اپنی ابدی منزل کا پتہ اور راستہ بھول چکے ہیں کیونکہ منزل کا پتہ ہو تو سفر آسان ہوتا ہے
خالق کی مخلوق کو تکلیف دے خالق سے رحمت کی امید رکھتے ہیں اس بات سے بے خبر کہ ‏معافیاں بھی تکلیف کا خسارہ ادا نہی کر سکتی ۔۔۔
اگر ہم اپنی تنہائیاں پاک رکھیں,اللہ کی رضا پر راضی رہنا سیکھ لیں, ملنے والی چھوٹی بڑی نعمت پر شکر ادا کریں تو اخلاص کی مٹھاس نصیب ہو گئ, تو اللہ کی رحمت سایہ کرتی ہے..... دعا قبول ہوتی ہے,
‏حضرت ام علاء انصاریہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا جبکہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟‘‘ رواہ البخاری ۔
جو اللہ کے قریب ہیں وہ ہی ‏بڑے ہیں اور بڑے لوگوں کے بڑے ظرف ہوتے ہیں ,انکے دکھ، امتحان، آزمائشیں اور فیصلے بھی بڑے ہوتے ہیں, کیونکہ اللہ کے ہاں انکے انعام و اکرام بھی بڑے ہوتے ہیں،
آپ بھی بڑے بننے کی کوشش ضرور کریں کچھ اور نہیں تو بڑوں کے اطراف میں ہی رہیں پھر اگر بڑے نہ بن سکے تو آپ چھوٹے بھی نہ رہیں گے۔دعا کریں نماز کے بعد کہ
اللہ کریم ایسے اخلاص ؤ عاجزی اور اس اخفاء سے بچاۓ جو ریاکاری سے جا ملے،
‏اللہ کے کام اللہ خود چلاتا ہے...... آپ نے تو بس اخلاص سے شروعات کی کوشش کرتے رہیں.
انسان کے حصہ کی زمین صرف اتنی جتنی اس کی قبر!
یاد رکھیں اللہ کی زمین پر انسان کی ملکیت شرک کے زمرے میں آتی ہے,
انسان کہاں سے رقبے لے کر آیا تھا ؟
اس لیے جتنی جلدی ہو واپس پلٹ آئیں کیونکہ ‏سب سے بہترین ہجرت گناہوں سے نیکی کی طرف ہے.
دنیا اور دنیا اسباب کے سہاروں سے لاتعلق ہو جائیں، جو آپ کو ہمیشہ کمزور اور خوف زدہ رکھنے کے خواہاں ہوں۔
‏اپنی حقیقت کو سمجھیں انسان کا وجود تو اس کی اپنی ذات ہے..... باقی جو اس کے اندر ہوتا ہے وہ اس کی صفات ہیں....... ہر وہ چیز جو نظر آتی ہے وہ ذات کا حصہ ہے جبکہ اس کی صفات اس کے کردار پر منحصر ہے کہ کس طرح کا مزاج اور اخلاق رکھتا ہے۔
لیکن ‏یاد رہے مومن باغی نہیں ہوا کرتا ۔وہ اپنے گناہ پر نادم اور پریشان ہوجاتا ہے اور اسکا مداوا کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔گناہ پر دوام اور ہمیشگی شیطان کا عمل ہے مسلمان کا نہیں ۔۔
انسان مقام و مرتبہ رجوع الی اللہ ہے اور استغفار انسان کا ہی وصف ہے شیطان کا نہیں..
‏"اگر آپ گناہ نہیں چھوڑ سکتے تو استغفار کرنا نہ چھوڑیے، کیونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ بخشش طلب کرنے والی قوم کو عذاب نہیں دیتا!"(سورہ الأنفال : ٣٣)
جناب ابوبکر عیاشؒ رحمۃ اللہ علیہ(حلية الأولياء (8/303) میں فرماتے ہیں کہ
‏کسی کا ایک درہم گم ہو جاتا ہے تو وہ سارا دن کہتا رہتا ہے: انا للہ میرا درہم ضائع ہو گیا۔ جب کہ اس کی عمر گزرتی جاتی ہے لیکن اس پر کبھی نہیں کہتا: آہ ! عمر گزر گئی!
اس لیے زندگی ایام کو مسافر کا قیام مانتے ہوۓ فانی زندگی میں ابدی منزل کی تیاری اخلاص و یقین کے ساتھ کرلیں ‏.....ورنہ روز آخرت محشر کے میدان میں خالق کائنات کے سامنے شرمندہ ہونا مقدر ہو گا........ جہاں سر جھکے وہ مقام خدا ہے,جہاں دل جھکے وہ مقام محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم........
اباجان باباجی یہ کہتے ہوۓ چلے گۓ لیکن میرے اندر ایک طوفان برپا کر گۓ, مجھے خود پر کنڑول ہی نہیں ہے تب سے,
اماں جان میں کمزور ہوں مجھے معاف کر دینا ہو سکتا ہے میں آپکے حقوق ادا نہیں کر سکا,
علی کی اماں اور ابا جان علی کو پیار کرتے ہوئے,آنسو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علی بیٹا والدین اسی واسطے اپنی اولاد کو سمجھانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ ہمارے بچوں اپنے اندر نرمی رکھو , سخت زمینوں میں فصلیں نہیں اگتیں, سخت دلوں میں محبت کے پھول نہیں کھلتے.اپنے دل کو ہمیشہ ملنساری کے پانی سے سیراب رکھو, پھل جھکے ہوۓ درخت پر ہی لگتا ہے, پھر دیکھو زندگی کتنی حسین اور آسان ہو جائے گی.
یہ ساری باتیں کرتے وقت والدین کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے, لیکن علی کی آنکھوں کے آنسو خشک ہوگئے تھے. اس کی طبیعت بھی پہلے سے بہت پر سکون نظر آ رہی تھی.
اسے شاید یقین ہو گیا تھا کہ اس نے بابا جی کی طرف سے ملنے والے جذبوں کی امانت کو بحفاظت ان کے حقیقی وارثوں تک پہنچا دیا ہے,
فانی زندگی میں والدین کی آخری باتیں سنتے ہوۓ زندگی کا مقصد پورا ہوا, سبق زندگی تکمیل ہو چکا , گھر کا لاڈلہ چھوٹوں کو پیغام زندگی, پیغام انسانیت دے چکا, مقصد انسانیت سمجھا چکا, علی اطمینان کی نیند سو گیا, پرسکون آفاقی نیند کہ جو ماں کی آغوش میں آچکی تھی, روح خالق کائنات سے جا ملی لیکن جاتے ہوئے مقصد زندگی اور مقام انسانیت سمجھا گیا ,ماں روتے ہوۓ بیٹے کا ماتھا چومتی ہے,اور کہتی ہے ہاۓ میرے گھر کا چراغ گل ہو گیا!
گھر میں ماتم کا سماں ہے,

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458138 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More