گناہ

ایک ایسی کہانی داستان کہ صرف سزا ہی مقدر بنی.....

(زندہ کرداروں پر مشتمل سچ بیانی)
آپ زندگی سے بھلے خوش نا ہوں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ جیسی زندگی جینے کو ترستے ہیں۔بلکہ لاکھوں لوگوں کو ایسی زندگی میسر نہیں ہوتی۔ زندگی میں ایک کلیہ بنا لیں،کچھ بھی بن جائیں مگر بے فیض انسان نہ بنیں۔درخت جب بے فیض ہو جائے تو چولہے میں جھونک دیا جاتا ہے۔رشتے اور شیشے دونوں انسانی غفلت سے ٹوٹتے ہیں مگر شیشے کا متبادل مل جاتا ہے،رشتے کا نہیں۔
"ایک لمحے کا جذباتی فیصلہ کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔دنیا کی زندگی عارضی ہے لیکن اسکی خواہشات لامحدود ہیں,انسان کو زندگی میں طلب جسکی زیادہ ہوتی ہے وہ محبت ہے اور محبت انسانی زندگی کا عظیم پہلو بھی ہے,بے شک میں مانتا ہوں کہ
"محبت امر ہوتی ہیمحبت لازوال ہوتی ہے,اسے مارنے والے دبانے والے خود مر جاتے ہیں,محبت کے سمندر میں غرق انسان محبوب کی خواہش پر تاج محل تک تعمیر کروا دیتا ہے,لیکن یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ خواہش تو پوری ہو جاتی ہے لیکن محبت کے راہی اکثر منزل سے محروم رہتے ہیں۔بلکہ کبھی کبھی تو محبت کے راستے پر چلنے والے نادان مسافر کی ایک خطاء, ایک غلطی گھروں کو قبرستان بنا دیتی ہے.ایک ہستا بستا گھر اسی محبت کی وجہ سے برباد ہو گیا۔
"جی ہاں !!
"چیچہ وطنی سے تین کلو میٹر کی مسافت پر ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے۔یہ گاؤں کی اضافی آبادی ہے,ایک چھوٹی سی فیملی رہتی تھی,نواز اور مسز نواز اپنے تین بچوں کے ساتھ جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔,
"اللہ کی عطا کردہ زندگی گزار رہے تھے,نواز صاحب کا دال چاول کا چھوٹا سا ہوٹل تھا جو مرکزی روڑ پر بڑا مشہور تھا,رات دن سفید چاول اور دال ملتی تھی,دن کو نواز ہوٹل پر ہوتا اور رات کو اسکا بیٹا زاہد۔۔,
''صبع آزان کے وقت روزانہ انکے گھر میں چولہا جلنا شروع ہو جاتا اور مسسز نواز دال چاول تیار کر کے دیتی تاکہ نواز صاحب ہوٹل پر لے جائیں,صبح کے ناشتے سے روزانہ ان کے ہوٹل کی ابتدا ہوتی تھی,غریب گھرانہ تھا,لیکن شرم و حیا کا پیکر تھا, کبھی انکی کوئی بیٹی دروازے تک آئی نہ دیکھی۔دونوں میاں بیوی دن رات اپنے گھر کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں تھے,بچے جوان ہو رہے تھے,گھر کی تعمیر,بچوں کی تعلیم,گھر کے اخراجات ساتھ ساتھ چل رہے تھے, زاہد پڑھنا چھوڑ چکا تھا لیکن دونوں بیٹیاں سکول جاتیں تھی,بڑی کلاس ہشتم میں اور چھوٹی کلاس پنجم میں پڑھتی تھی,دونوں میاں بیوی کی محنت,آپس کی محبت کی وجہ سے محلے کا خوشحال گھرانہ تھا,ان کے گھر تقریباً محلے کی ہر عورت جاتی آتی تھی ان سے خوش تھے سب۔وہ سب کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔,
''نواز کے دال چاول ہوٹل سے سارا نظام زندگی چلانا مشکل تھا لہذا نواز کی بیوی اور ان کی بڑی بیٹی کپڑے سلائی کرتیں تھی,اسی لیے پورے محلے کی عورتیں ان سے کپڑے سلائی کرواتے تھیں,وقت گزرتا گیا,دن سے رات اور رات سے صبع روشن ہوتیں گی۔یہ صبح شام دن اور دن ہفتے بن گے۔۔۔
"ہفتے مہینوں میں ڈھلے اور سال بن گئے,اب ان کے گھر کے حالات پہلے سے بدل گے۔اب وہاں آسودگی تھی۔بڑی بیٹی میڑک کر چکی تھی اور اب اس کی شادی کی تیاری ہو رہی تھی,بڑے بیٹے کی شادی کی بات اس کے ماموں کی بیٹی سے چل رہی تھی۔
"تقدیر ان کے منصوبوں پر ہنس رہی تھی۔
مقدر قہقے لگا رہا تھا۔ایک وہ غلطی جو اس گھر کے ایک فرد نے لاشعوری میں کی تھی,اس کی وجہ سے تباہی نے گھر کے دروازے پر دستک دے دی۔
"ہوا کچھ یوں کہ اس ہستے بستے گھر میں ایک مہمان لڑکا جو نواز کی بیوی کے بھائی کا بیٹا تھا مہمان آیا۔زاہد کا ماموں زاد۔مہمان گھر کے لیے رحمت ہوتا ہے,لیکن چند مہمان اپنے کرتوت کی بدولت زحمت بن جاتے ہیں,اس لڑکے کاشف کی دوستی نواز کے لڑکے زاہد سے زیادہ ہو گئی,زاہد جو رات کو والد کے ہوٹل پر ڈیوٹی دیتا اور دن کو گھر پر سوتا تھا اب اسکا معمول آوارہ گردی تھا۔دونوں رات بھر ہوٹل میں ہوتے اور دن بھر گلیوں میں۔دونوں ملے تو ایسے راستے ملتے چلے گے۔,جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ نواز کا گھر ایسا تھا محلے کی خواتیں بلا جھجھک آتی جاتی تھیں۔
"انہی میں سے بہادر علی کی بیٹی سے نہ جانے کب کاشف کی دوستی ہو گی۔
جنہیں خدا نہیں چاہیئے ہوتا انہیں پھر ہر بری سوچ، شخص اور چیز ڈھونڈھ لیتی ہے۔
"دنیا کی چند روزہ زندگی کے مصائب کو خود پہ اتنا سوار نہ کریں کہ آخرت کی دائمی حیات کو گرہن لگ جائے,کیونکہ دنیا کی تکلیف کیسی ہی کیوں نہ ہوئی آخر ختم ہو جائے گی مگر موت کے بعد آپ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
''انسان بھول جاتا ہے کہ اللہ سے محبت واحد تجارت ہے جس کا خسارہ بھی نفع دیتا ہے، جس کا نقصان بھی سنوار دیتا ہے، جس میں کمی بھی پورا کر دیتی ہے، جس میں قلت بھی کثرت بن جاتی ہے، جس میں گراوٹ بھی بلند کر دیتی ہے، جس میں کھوٹے سکے بھی دینار بن جاتے ہیں، جس میں تاجر آپ بکتا ہے اور انمول ہو جاتا ہے۔
"زاہد بھی بھول گیا کہ ‏نگاہ کا ”عادل“ وہ ہے جسے دوسرے کی بیٹی میں اپنی بیٹی نظر آئے -ہر انسان اپنی "انا" کا قیدی ہے.
ادب و اخلاق بھی وراثت ہی ہوتا ہے,جو اس وراثت سے دور ہو وہ ذلت کی دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے,اس نے اس کی دوستی کا بھر پور ساتھ دیا۔دونوں کے ملنے میں راستے بنائے۔ایک کا پیغام دوسرے تک پہنچایا۔
"زاہد کی مدد سے یا غیر مدد سے,لیکن اس کے کزن کاشف نے رانی کو بھاگا کر فرار ہو گیا۔ان کی دوستی کب ہوئی کب یہ محبت مین بدلی اب اسے محبت کہنا بھی چاہیے یا نہیں۔لیکن ہمارے ٹی وی،فلمیں اور لوک کہانیوں میں اسے محبت ہی کہا جاتا ہے۔,
یہ وہ عمل تھا جس کی وجہ سے با شرم و حیا گھرانے کے دروازے پر ذلت ؤ رسوائی نے دستک دی۔,
"شور برپا ہو گیا,ہجوم انسان میں کس نے کیا کہا نواز کو یہ اس وقت کا منظر آسمانی جانتا ہے,‏جُملوں کے ”دانت“ نہیں ہوتے مگر یہ ”کاٹ“ لیتے ہیں-‏کچھ لوگ بس دوسروں کی غلطیاں نکالنے کے شوقین ہوتے ہیں,لیکن مہمان کے عمل سے نواز اور اسکی بیوی بے خبر تھے,لیکن با خبر اسکا بیٹا اپنے گھر کی تباہی اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا
"کاشف بے شک لڑکی کو اسکی مرضی سے لے گیا,لیکن قیامت ٹوٹ گئی نواز کے گھر پر,پنچایت ہوئی,‏دانائی کا تعلق بَالوں کی سَفیدی سے نہیں عقل کی پُختگی اور تجرُبے سے ہے -اَب جب دِل ہی سِیاہ ہو تو داڑھی کے سفید بالوں کی کیا وُقعت -کیونکہ لوگوں کے دل ہی سیاہ ہیں,‏کہنے اور کرنے کی حجت تمام کر چکیں تو اپنا معاملہ اپنی اذیت اور اپنی تکلیف اللہ پہ چھوڑ دینی چاہئیے کیونکہ درد کا حقیقی تدارک، زیادتی کا اصل بدلہ اور دل کا ابدی سکون صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔مگر دوسروں پر انگلی اٹھانے والے دلی سکون کی لذت سے ناآشنا ہوتے ہیں-
"نواز کو طعنے سننا پڑے, لوگوں تلخ سوالوں کے جوابات نہ تھے, لڑکی کی برادری نے یہاں تک کہا کہ
”ہم تیری بیٹی کو اٹھا لیں گے۔“
نواز پنچایت سے تو واپس آ گیا,لیکن خاموش تھا,
"زاہد کی طرف لاچار نظروں سے دیکھتا رہا۔ اپنی شرم و حیا والی بیٹیاں سامنے روتی دکھائی دیتی۔کاشف کو اس کا اب احساس ہو رہا تھا لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔,کچھ اعتراف کشتیِ جاں پر بوجھ کی مانند ہوتے ہیں,انہیں بروقت اظہار کر کے اتار دینا چاہیے,تا کہ موت کے کنارے کا سفر آسان ہو جائے۔
سسکتی ہوئی سانسوں اور سلگتی ہوئی جھاڑیوں میں کوئی شور تو نہیں ہوتامگر چھیڑنے اور جھنجھوڑنے پر جو لاوہ نکلتاہے سب جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔زاہد گم سم تھا۔اس کے اختیار میں اب کچھ نہیں تھا۔پنچایت کا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔
'نواز کی بیوی،زاہد کی ماں نے لوگوں کے سامنے قرآن اٹھا کر کہا کہ اسے اور نواز کو کاشف اور رانی کے بارے کچھ پتہ نہیں,وہ ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں,لیکن لڑکی کے خاندان والے بہادر علی اور اس کے بھائی بھی لوگوں کی باتوں سے تنگ تھے یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔آخر وہ ان کا مہمان تھا۔مہمان کے ہر عمل کے وہی جواب دہ تھے۔
"آخر کار پنچایت سے ملنے والے دو دن کی مہلت کو غنیمت سمجھتے ہوئے نواز نے سیدھی سادی بیوی سے کہا
بھلی مانس اب ہم یہاں نہیں جی سکتے۔ہمیں اپنی بچیوں کو یہاں سے لے کر جانا ہوگا۔ان بچیوں کو اس آگ کا ایندھن نہیں بننے دوں گا۔ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔لیکن ہم کہان جائیں گے۔بیوی نے بے قرار ہو کر پوچھا۔ہم نہیں صرف تم جاو گی۔مجھے یہاں رکنا ہوگا۔مجھے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنا ہوگی۔ورنہ یہ آگ وہاں پہنچ جائے گی جائیں ہم جائیں گے!جب پیدا ھوئے سب نے محبت و شفقت کی اور جب مر جائیں گے پھر یہ سب محبت و شفقت کا اظہار کریں گے,لیکن زندگی ایام کی یہ جو درمیانی مدت ہے اس میں پیار کا یا شفقت کا نظام آپ کو خود چلانا ھے.
میں اکیلی!!اس کی سانس اوپر کی اوپر رہ گی,ہاں تجھے بچیوں کو لے کر جانا ہوگا۔یوں تنکہ تنکہ جوڑ کر بنائے گھر کو نواز نے اپنے ہاتھوں سے برباد کرنے کی ٹھان لی۔وہ مجبور تھا کیا کر سکتا تھا۔اس نئے آباد گھر کو رات کی تاریکی میں ویران کر دیا اور خاموشی سے اپنے بچوں کو لے کر عارضی طور دوسرے شہر ہجرت کروا دی,اور خود نا کردہ گناہ کی سزا کے لیے رک گیا۔
٭٭٭
نواز کی بیوی بچوں کو لے کر محفوظ مقام پر چلی گئی۔یہ دور کے رشتے دار تھے لیکن مخلص تھے۔انہوں نے پناہ دے دی۔اسے وہاں آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے۔اس کا دل نواز میں اٹکا ہوا تھا۔گھر سے بے دخل,لوگوں کی باتیں,عزت کو ذلت میں بدلتا دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھی,،اسے ہارٹیک ہوا اور اس کی وجہ سے موت ہو گی۔وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی جان سے گزر گی۔دونوں بیٹیاں رو رو کر پاگل ہو گئیں۔اب ماں کا سہارا بھی نہ رہا تھا۔باپ پنچایت کی وجہ سے آبائی گاوں رکا ہوا تھا۔آخر اس تک پیغام پہنچا۔ نواز نے بیوی کی وفات پر حوصلے سے اللہ کی آزمائش کو برداشت کیا,بیوی کو دفنایا۔
"زاہد ماں کی موت,بہن ؤ بھائی کے بے گھر,باپ کی عزت خاک ہوتے دیکھ کر سکتہ میں جاچکا تھا۔وہ گم سم سب کو دیکھتا رہتا,نا کچھ بولتا اور نہ کہیں جاتا,بس خاموش رہتا,دیکھتا رہتا کہ کیا ہو رہا ہے, کوئی کھانا دے دیتا تو کھا لیتا ورنہ جہاں بیھٹا ہوتا بس وہاں ہی لیٹ جاتا,
نواز تین دن وہاں رکنے کے بعد واپس گاوں آ گیا۔اس سے جس نے پوچھا اس نے یہ ہی بتایا کہ لڑکی کی تلاش میں گیا تھا۔اپنے بیوی بچوں کے بارے میں چپ سادھ لی۔وہاں سب کو بتانے کے بعد وہ لڑکی اور کاشف کی تلاش میں نکل گیا۔
ایک ہفتہ کے بعد وہ واپس آیا۔ہاتھ جوڑ کر لڑکی والوں سے معذرت کی گھر کو اونے پونے فروخت کیا اور دکھی دل سے خود بھی رات کی تاریکی میں ہجرت کر گیا۔
"‏‎لاریب، بس اللہ ہی اوّل و آخر سہارا ہے,خاموشی کے پیچھے چھپی صدا کو بھی اگر کوئی سنتا ہے تو وہ ہمارا رب ہے.‏بہادر محبت کو عزت جبکہ بزدل تہمت بنا دیتا ہے۔یہ ایک مہمان کی غلطی سے,دنیاوی محبت سے پیدا ہونے والی صورت حال جو خطرناک کہانی کا رخ اختیار کر گی۔
"دوسری طرف لڑکی کے خاندان کو حب صبح نواز کے بھی غائب ہونے کی اطلاع ملی لڑکی کا باپ جس کا نام بہادر علی تھا اپنی برادری کے بڑوں کے پاس گیا اور کہا کہ میری مدد کرو!
"بہادر کی ساری برادری جمع ہو کر چوہدری ذکاءاللہ کے پاس پہنچ گی۔اسے سارا ماجرا سنایا,ہاتھ جوڑے,مدد کی درخواست کی۔چوہدری ذکاءاللہ نوجوان تھا,باپ کی وفات کے بعد گاؤں والوں نے پڑھا لکھا ہونے کے ناطے اور وکالت پاس کرنے کی وجہ سے گاؤں کی نمبرداری اس کے حوالے کر دی تھی,وہ صرف نمبر دار ہی نہیں تھا۔اور بھی بہت کچھ تھا۔ رب نواز قد آور, خوب صورت,اور غصے والے نوجوان تھا, خاص طور پر عزت و غیرت کے معاملات پر وہ اکثر خود پر قابو نہ رکھ سکتا تھا,گھر کا بڑا,برداری کی پگ بھی اسی کے سر پر تھی,علاقے میں مشہور ہو چکا تھا کہ چوہدری ذکاءاللہ اپنے گاؤں کا مسئلہ تھانے تک نہیں جانے دیتا بلکہ خود ہی حل کرواتا ہے۔صلح پسند اور امن کا داعی ہے,
"چوہدری ذکاءاللہ نے جب سارا قصہ سنا تو اپنے بندوں کی نواز کی تلاش کے حکم دیا۔اس نے اپنے سب سے خاص آدمی فلک شیر سے کہا۔
”چوہدری ذکاءاللہ اپنے وفادار ملازم کالو اور ماجھے کو حکم دیا کہ جاؤ ارد گرد کا چپہ چپہ چھان ماریں۔ان کے جاننے والوں سے ان کا پتہ کریں۔جہاں سے بھی ممکن ہے نواز کو ڈھونڈ کر لائیں۔“
اس کے بعد اس نے بہادر علی سے کہا۔
”تم تین دن بعد آنا۔اس وقت تک ہم نواز کو تلاش کر لیتے ہیں۔ان شا اللہ اس کی موجودگی میں پنچایت ہو گی۔“
پنچایت سے فارغ ہو کر چوہدری ذکاءاللہ گھر واپس گیا تو اسکی دادی اماں نے اپنے پاس بلایا۔چودھری بچپن سے ہی اپنی دادی کا ہر حکم مانتا تھا۔بلکہ وہ اکثراس سے مشورہ بھی کیا کرتا تھا۔اس معاملہ سے بھی اس کی دادی اچھی طرح واقف تھی۔اب جب اسے بہادر کی آمد کا علم ہوا تو اس نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔
پتر عدل اللہ کی صفت ہے, انسان اللہ کا نائب ہے,انسان میں اللہ کی صفت کا ہونا انسان کی انسانیت کی طرف پہلا قدم ہے۔ایک انسان کو بہترین انسان بناتا ہی اسلام ہے۔
اچھے مسلمان کا مطلب ہی اچھا انسان ہے لیکن اچھے انسان ہونے کی حتمی نشانی یہ ہے کہ آپ عمدہ مسلمان ہوں اور آپ کا خاتمہ بالایمان ہوا ہو ورنہ کفر کی زندگی اور موت بظاہر کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو اللہ کے نزدیک آپ بدترین انسان ہیں کیونکہ آپ اللہ کے بندے نہ بن سکے۔حالات جیسے بھی ہوں اپنے بچوں کی پرورش دین اسلام کی روشنی میں کریں تاکہ آپکے بچوں کی ایک غلطی ایک خطاء کسی کے گھر کی بربادی کا باعث نہ بن جائے۔یاد رکھو کہ شدید دکھ اور انتہائی خوشی یہ دو حالتیں بڑی دھوکہ باز ہیں مگر ان کے لئے جو اللہ کی حکمتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں کیونکہ دل کی حالت تو بدل جاتی ہے لیکن دل کی حقیقت نہیں بدلتی۔لیکن دونوں حالتوں میں صبر اور شکر ڈھال ہیں۔بری عادتوں میں سے ایک بری عادت ہے کہ اپنے مطلب کی بات دماغ میں بٹھا کر، دماغ کو تالا لگا کر چابی نگل لیتے ہیں اور کچھ بھی سمجھنے سے عاری ہو جاتے ہیں۔جس طرح قلی کا سامان کسی اور کا سامان ہوتا ہے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کسی کی ملکیت نہیں۔۔۔!!دادی اماں خاموش ہو گی اور تھپکی دے کر چوہدری ذکاءاللہ سے رخصت ہو گی, دادی اماں چلی جا رہی ہے اور کہتی جا رہی ہے کہ نواز کی تلاش کرو اور عزت کا فیصلہ کرو لیکن ایک کی غلطی کی سزا دوسرے کو نہ ہونے پائے۔اپنی دادی کی بات کو اس نے پلے باندھ لیا۔
"چودھری ذکاءاللہ کے آدمی،بہادر علی کے رشتے دار،نواز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
تین دن کب گزر گۓ پتہ ہی نہ چلا, لیکن چوہدری ذکاءاللہ اور اس کے آدمی نواز کو تلاش کرنے میں ناکام ہو گۓ,پنچایت کا وقت آ گیا,بہادر علی اور اس کے رشتے دار وقت مقررہ پر چوہدری ذکاءاللہ کے ڈیرے پر پہنچ گۓ,
چوہدری صاحب بہادر علی کا خاندان آ گیا ہے,آجائیں,کالو نے سلام کرنے کے بعد کہا!
ہاں!کالو تم جاؤ اور پانی چاۓ کا بندوبست کرو میں دادی اماں کو سلام کر کے آتا ہوں,چوہدری ذکاءاللہ سیدھا دادی اماں کے کمرے کی جانب چلا گیا,
السلام علیکم و رحمتہ اللہ!دادی اماں.
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ!جیتے رہو پتر آؤ بیھٹو,
نہیں دادی اماں آج پنچایت ہے میں دعا کے لیے آیا ہوں,
تو کیا ذکاءاللہ وہ خاندان مل گیا؟
نہیں دادی جان ہر جگہ تلاش کیا لیکن کچھ خبر نہیں وہ کہاں ہیں!
اس میں بھی مالک کی مرضی ہو گئ پتر پریشان نہیں ہونا جاؤ اور سچ کہہ دو.
چوہدری ذکاءاللہ نے سر جھکا دیا اور پیار لے کر سلام کرتے ہوۓ رخصت ہو گیا!
"پنچایت شروع ہوئی,چوہدری صاحب کدھر ہے وہ عزت کا چور نواز؟بہادر علی نے کھڑے ہو پوچھا!
اپنے الفاظ اور لہجے پر غور کرو بہادر علی! کالو نے غصے سے کہا!
کہنے دو کالو, ہمارے مہمان ہیں,چوہدری ذکاءاللہ نے کہا!
کسی اور نے کچھ کہنا یا میں جواب دوں,چوہدری صاحب نے گرج دار انداز میں کہا!
بہادر کی برداری کے بزرگ نے کھڑے ہو کر معذرت کرتے ہوۓ بہادر کے لہجے کی کہا کہ نہیں چوہدری صاحب آپ حکم فرمائیں-
چوہدری ذکاءاللہ نے گرج دار آواز میں کھڑے ہو کر کہا!تو سنو میں نے اپنے بندوں کے ساتھ ملکر بہت کوشش کی لیکن نواز کو تلاش کرنے میں ناکام رہا اس کے لیے میں شرمندہ ہوں, لیکن یاد رکھیں کہ ‏بیٹیوں کی تربیت ایسے کریں کہ جیسے وہ کسی محل میں رہ رہی ہیں اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ محل کی شہزادیاں باحیا لباس اور با ادب تربیت کی مالک ہوتیں ہیں,انہیں نامحرموں کے سامنے اٹھنے بیٹھنے کی تمیز سکھائیں،انہیں بتائیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیسے اپنے آپ کو ڈھانپ کے رکھتی تھیں۔‏اگر آپ کے گھر میں حیا داری اور دین داری ہے تو سمجھ لیں آپ پر اللہ کا کرم ہے,دنیا کا سب سے خوبصورت اور پرکشش دھوکہ نامحرم کی محبت ہے۔
بہادر علی! ‏یاد رکھنا -
مٹی کا مٹکا اور رشتے کی قیمت صرف بنانے والے کو ہی پتہ ہوتی ہے توڑنے والے کو نہیں۔‏ہر درد سبق دیتا ہیں اور ہر سبق انسان کو بدل دیتا ہے,لہذا جا کر باقی بچیوں کی تربیت کرو,اور میں نواز کی تلاش میں رہوں گا جس دن مل گیا تیری چوکھٹ پر خود لے کر آؤں گا!آپ سب لوگ کھانا کھا کر جانا,کالو ان کے کھانے کا بندوبست کرو, اور چوہدری ذکاءاللہ چلا گیا!
--------------
"دوسری طرف نواز دو بیٹیوں اور ذہنی معذور بیٹے کو لے کر لاہور میں مقیم ہو گیاتھا۔؛لاہور انسانوں کا سمندر ہے۔اس میں کسی کو تلاش کرنا آسان نہیں۔اس کی ایک وجہ یہ رااز داری بھی تھی۔نواز نے اپنے یہاں ہونے کا اپنے سائے کو بھی نہیں بتایا تھا۔اب اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔غم نے بال سفید کر دیے تھے-اس نے ایک ریڑھی خرید کر دو چار قریبی محلوں میں بچوں کے لیے کھولنے،ٹافیاں،پاپڑ بیچنے لگا۔اس کے ایک دور کے رشتے دار رفیق نے اسے پناہ دی تھی۔اس نے بھی رفاقت کا حق اداد کر دیا۔صرف پندرہ دن بعد ہی اس نے الگ مکان کا بندوبست کر دیا تھا۔تاکہ ان کے یہاں ہونے کی خبر کسی کو نہ ہو۔وقت گزرتا رہا۔وقت کا کام گزر ہی جانا ہے۔اللہ سے ہر وقت عافیت اور رہنمائی مانگتے رہنا لازم ہے,کیونکہ بسا اوقات پھانسی کے پھندے پر بھی پھول لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
٭٭٭
کاشف لڑکی کو بھگا کر لاہور لے آیا تھا۔وہاں اس کے دوست تھے ان کے پاس قیام کیا۔چند دن میں کورٹ میں شادی کی,ایک کوارٹر کرایہ پر لیا,دوستوں کی مدد سے کام بھی مل گیا۔لکڑ منڈی میں ایک آرے کی دکان میں کام کرتے ہوئے اسے کافی وقت گزر گیا۔اس نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔خاموشی سے کام کرتا رہا۔لیکن رانی اب اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگی۔وہ بے چین سی رہتی اسے محسوس ہوتا کہ اس نے غلط کیا ہے۔سارا سارا دن اس کے خیالات اسے ناگوں کی طرح ڈستے۔اسے گزرے ایام یاد آتے۔اپنے ماں ماپ بہن بھائی،محلہ سہیلیاں۔وہ سوچتی اگر ماں باپ کی رضا مندی سے شادی کی ہوتی تو آج سب سے مل سکتی تھی۔اب وہ ماں بننے والی تھی۔لیکن اس کا اپنا اس کے پاس نہیں تھا۔ایسی سوچوں نے, تنہائی نے اسے چڑ چڑا بنا دیا تھا۔
"کاشف سے جو محبت تھی وہ اپنی جگہ لیکن اس محبت کے حصول کے لیے اس نے سب کچھ کھو دیا تھا۔واپسی کا راستہ نہیں تھا۔کبھی عدم برداشت کی دہلیز پار کرتی اور وہ کاشف سے الجھ جاتی۔کاشف سارا دن کا تھکا ہارا شام کو واپس گھر آتاتھا۔وہ رانی کو سمجھتا تھا کہ اس نے بھی اپنوں کو چھوڑا ہے۔اس نے بھی اتنی ہی قربانی دی ہے۔لیکن اب رانی کے طعنے سن کر اس کے اندر آگ لگ جاتی۔وہ دونوں اکثر پیار کی باتیں کم اور طعنے زیادہ دینے لگے۔ایسے ہی لڑتے جھگڑتے ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔بیٹی اللہ کی رحمت تھی لیکن رانی کو جیسے کوئی خوشی نہ تھی,بہت سارے وہم جنم لے چکے تھے اس کے من میں,رانی ناشکری نہ کرو اللہ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے,یہ ہماری قسمت میں لکھا تھا جو سب ہوا ہے, اب ماضی کو بھول جاؤ اور بیٹی کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کرو, ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے,کاشف نے اپنے بیٹی دعا کو گود لیتے ہوۓ رانی سے کہا!
محلے میں انہوں نے واقفت بنائی نہیں تھی,اپنے کام اور گھر سے غرض تھی, لیکن اس اہم موقع میں محلے کی کئی ایک خواتین نے ساتھ دیا۔کاشف نے بھی کام سے چھٹیاں کیں۔بچی کی پیدائش پر چند دن سکون سے گزرے اس کے بعد وہی دن رات لوٹ آئے۔۔۔بیٹی کا نام انہوں نے دعا رکھا۔وقت کا ایک ایک لمحہ گزرتا رہا اور رانی کا پچھتاوا جوان ہوتا چلا گیا۔
اگر کسی دن یہ دعا بڑی ہو کر ہماری طرح گھر سے بھاگ گئ ؟رانی نے ایک صبح کام پر جاتے ہوۓ کاشف سے کہا!
بکواس بند کرو رانی, تیری زبان کاٹ دوں گا اگر آج کے بعد دوبارہ پھر کبھی تیری زبان پر یہ بات آئی, سنا تم نے, کاشف غصے میں پاگل یہ کہتے ہوۓ گھر سے باہر نکل گیا-
"کاشف کے ذہن میں رانی کی بات بار بار گردش کر رہی تھی, اپنے ہوش کھوتا جا رہا تھا, کہ یہ کیا کہا رانی نے؟اے میرے خدا مجھے محفوظ فرمانا اس ذلت سے, آج بے شک رانی کی بات سن کر کاشف کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا!کہ اس نے ایک باپ کی پگڑی,ماں حیا,بھائی کی عزت کو پامال کیا ہے-وہ روتا جا رہا تھا اور اپنے کام کی طرف چلا جا رہا تھا,اسی عالم تصورات میں اسے خبر ہی نہ ہوئی اور بغیر دیکھے یوٹرن لیتے ہوۓ دوسری جانب سے آتی ہوئی کار نے ٹکر مار دی!اس کا سر سڑک کنارے پڑے پتھر سے لگا اور خون کا فوراہ نکلتے ہی وہ بےہوش ہو گیا,
ہجوم نے اسے ہسپتال تو پہنچایا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور کاشف اس دنیا سے رخصت ہو گیا!
کاشف کے موبائل فون سے اس کی بیوی کو اطلاع دی,رانی کا ماتم دیکھ کر محلے دار اکھٹے ہوۓ, کاشف کے دوست اور محلے داروں نے کاشف کی آخری رسوم ادا کی,اب رانی اکیلی رہ گئ, گود بیٹی کو لیے اپنی اس دن کی صبح کی بات پر خود کو کوسنے لگی, لیکن اس کوسنے کا کیا فاہدہ, رانی اپنی بیٹی دعا کو لیے آج لاوارث و بے کس ہو چکی تھی,زندگی اس موڑ پر کھڑی تھی کہ نا آگے کچھ نظر آتا تھااور نہ پیچھے کچھ باقی تھا!
"بہادر علی ہر ہفتے چودھری ذکاءاللہ کے پاس جاتا،آنسو بہا کر آ جاتا۔چودھری ذکاءاللہ کے اندر لاوا پکتا رہتا۔اس نے اپنے تمام تعلقات استعمال کر لیے لیکن وہ نواز یا کاشف میں سے کسی کو بھی تلاش کرنے میں ناکام رہا۔اپنی بے بسی پر اسے بہت دکھ ہوتا۔دو سال گزر گۓ۔اس کی دادی وفات پا گی۔اب اسے کوئی مشورہ دینے والا حوصلہ دینے والا بھی نہ رہا۔پھر دو سال مزید گزر گئے۔اب بہادر علی نے بھی صبر کر لیا۔لیکن رانی کی ماں دن رات دعائیں مانگتی رہتی۔اس کی نظریں دروازے پر لگی رہتی۔دروازہ تکتے تکتے دن گزرتا تھا۔
---------------

”مالک مالک ایک عورت دو سال کی بچی کے ساتھ آئی ہے۔وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔“
ایک دن چودھری ذکاءاللہ ابھی سو رہا تھا کہ اس کے ملازم نے اسے جگایا۔
”کون عورت،اتنی صبح“اس نے چپل پہنے۔
دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے وہ دروازے پر آیا۔
ذکاءاللہ کی بیوی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ایک عورت کے ساتھ دو سال کا بچہ تھا۔وہ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔
”بیٹی کیا بات ہے۔ایسے نہ کرو۔۔آو میرے ساتھ۔‘‘ ذکاءاللہ نے درواز مکمل کھول دیا۔
”تم۔۔۔تم رانی ہو۔۔“ ذکاءاللہ کی بیوی نے چلا کر کہا۔
”جی میں بد بخت رانی ہوں۔“ اس کے بعد رانی نے روتے ہوئے اپنی ساری کہانی سنا دی۔
چودھری ذکاءاللہ نے بہادر علی کو بلایا اور بیٹی اس کے حوالے کر دی۔
واپسی کی خبر ایسی نہیں تھی کہ چھپائی جا سکتی,یہ خبر نواز تک بھی پہنچی اس نے رب کا شکر ادا کیا۔لیکن واپس پلٹنے کی بجائے اس نے وہاں ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔لیکن پہلے جو چھپ چھپ کر گزرا رہے تھے اب وہ ڈر ختم ہو گیا تھا۔‏وقت کی ایک عادت بہت اچھی ہے جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462525 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More