کرونا اور ہم ، کیا ساری ذمہداری حکومت کی ہے، کچھ نظر اپنے گریبان پربھی

کرونا کے حوالے عوام کو انکی ذمہ داری کا احساس دلانا۔ہر بات پر حکومت کو موردالزام ٹہرانا غلط ہے۔ ہماری قوم کو ایک عظیم قوم بننے کے لیے اپنی اصلاح کرنی ہو گی اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔

بدقسمتی سے ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے جو بھی غلط ہورہا ہے اسکی ذمہ دار حکومت ہے- لاک ڈاوَن میں ضرورت ہو نہ ہومیرا باہر نکلنا ضروری ہے کیونکہ میں ایک آزاد شہری ہوں اور قانون توڑنا میری خود ساختہ محرومیوں کا بدلہ اور میرا حق ہے چاھے اسکا انجام کچھ بھی ہو- اگر میرے بلاوجہ لاک ڈاوَن توڑنے سے بیماری بڑھے گی تو اسکی ذمہ دار حکومت ہو گی – اگر سختی کی گَی تو کہا جاتا ہے بنیادی حقوق سلب کئے جارہے ہیں-

آخرعام آدمی کو کب اپنی غلطیوں کا احساس ہو گا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کب تک اپنی ہر محرومی کا الزام حکومت پر رکھ کر اپنی مظلومیت کا ماتم کرتا رہوں گا-

بد قسمتی سے ہم باحییثیت قوم سماجی اور معاشرتی برائیوں میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ ہمیں برائ برائ نظر نہیں آتی- ہم میں ہر شخص اپنی اپنی سطح پر بےایمانی،رشوت ستانی، دھوکہ دھی، دوسرون کا حق مارنا،قانون توڑنا اپنا حق سمجھتا ہےاور برآئ کو برائ نہیں سمجھتا-

اگر جنم میں کرم حکومت کی طرف سے غریب کی بہتری کے لیے کوئ سکیم آ بھی جاےَ تو غریب آدمی تک تو اسکا فائدہ کم ہی پہچتا ہے اور دوسرے خون آشام درندے اپنی عاقبت خراب کرنے پہلے پہنچ جاتے ہیں- اگر کسی علاقے میں کوئ سڑک تعمیر ہو بھی جائے تو جلد ہی کسی احتیجاج میں اپنے ہی علاقے کے لوگوں کے ٹائر جلانے کے باعث تباہ ہو جاتی ہے- سرکاری کھمبوں میں لگے بلب بھی کسی دکھیارے احتیجاج پسندوں کی نشانہ بازی کی نظر ہوجاتے ہیں اور محلہ سرے شام سے ہی اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے-
بحیثیت مجموئ ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ روزبروزبڑھتا جاتا ہے- حال کچھ اور برا ہوا جاتا ہے اور حسبِ مامول کسی پرانے ہوٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے وہی صدیوں پرانا ریکارڈ بج رہا ہوتا ؛

برے نصیب میرے بیری ہویا پیار مرا

آخرعام آدمی کو کب عقل آئے گی- ساری قومیں آہستہ آہستہ ترقی کرتی جا رہی ہیں کاش ہم بھی سوچ لیں کہ؛

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اب سوچنے کی باری ہماری ہے- ہم میں سے ہر فرد کو انفرادی طور پر سوچنا ہو گا کہ فی زمانہ میری ذمہ داری کیا ہے- میں اپنے محلے کی، گلی کی، شہر کی اور ملک کی بہتری کے لیے کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں- ووٹ دینے کے لیے ہم کو ہر سیاسی پارٹی کا منشور پڑھنا ہو گا اور الیکشن مین حصہ لینے والے ہر سیاستدان کا حال وماضی جاننا ہو گا – منتخب ارکان کو انکے وعدے یاد دلانا ہونگے- ملکی تعمیر میں سب کو حصہ لینا پڑے گا-
اللہ تعالی نے دنیا کا سارا نظام توازن کی بنیاد پر قائم کیا ہے- ہر چیز میں توازن ہی کامیابی اور ترقی کا واحد راستہ ہے-
حکومت میں توازن،اپوزیشن میں توازن، تمام محکموں کے اختیارات میں توازن اور عام آدمی کے رویے میں توازن وقت کی اہم ضرورت ہے- انتہا پسندی کسی شکل میں بھی ہو تباہی کا باعث بنتی ہے-

خدارا اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی اس عظیم قوم کی تعمیر میں اپنا ابنا حصہ ڈالیں – دنیا میں اسی قوم کی عزت ہوتی ہے جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی – جسکا دفاع مضبوط ہوتا ہے-جسکی کھتیاں لہلہاتی ہیں-جہاں سب ایک قوم بن کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہیں- یاد رکھیں بقول عللامہ اقبال
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اگر ہم نے اس کورونا کے عذاب سے بھی بدقسمتی سے سبق نہ سیکھا اورمزید کسی بڑے عذاب کا انتظار کرتے رہے تو ہم سے زیادہ بدقسمت کوئ نہیں ہو گا- بقول شاعر؛

سب تماشائے کن ختم شد
ایک دفعہ اس نے کہ دیا بس تو بس

Pasha Najam Ahmed
About the Author: Pasha Najam Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.