#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 41 تا 44
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واٰیة
لھم انا حملنا
ذریتہم فی الفلک
المشحون 41 وخلقنا
لھم من مثلهٖ مایرکبون 42
وان نشانغرقھم فلا صریخ لھم و
لا ھم ینقذون 43 الّا رحمة منا ومتاعا
الٰی حین 44
ھم نے انسان پر اپنے تعارف کے جو سراغ ظاہر کیۓ ہیں اُن میں ایک سراغ یہ ھے
کہ ھم نے انسانی نسل کو ایک بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ھے اور ایک بھری
ہوئی کشتی میں سفر کرایا ھے اور پھر ھم نے زمین میں انسانی نسل چلانے والے
انسانوں کے لیۓ بھی اسی طرح کی کشتیاں پیدا کی ہیں جن میں سوار ہو کر وہ
سفر کرتے ہیں ، اگر ھم انسانی سفر کی اِس کشتی کو اِس سفر کے اِس مرحلے میں
ڈبو دیتے تو اِس کی فریاد رسی کرنے والا کوئی بھی نہ ہوتا لیکن یہ ھماری
مہربانی ھے کہ ھم اِس کو ایک ایک منزل سے ایک ایک منزل تک پُہنچاتے ہیں اور
ایک مُدت سے ایک مُدت تک زندگی سے زندگی کی لذتیں کشید کرنے کا موقع دیتے
ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں جو مضمون بیان ہوا ھے وہ ایک موضوع کے دو جُدا جُدا مضامین
پر مشتمل ھے اور اُن دو الگ الگ مضامین میں سے پہلا مضمون پہلی اٰیت میں
اور دُوسرا مضمون دُوسری اٰیت میں بیان ہوا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِن دو
مضامین کے جو دو مفاہیم اخذ کیۓ ہیں اُن میں سے پہلے مضمون کا پہلا مفہوم
مولانا مودودی مرحوم نے اِس طرح بیان کیا ھے کہ { بھری ہوئی کشتی سے مُراد
حضرت نُوح کی کشتی اور نسل انسانی کو اس پر سوار کردینے کا مطلب یہ ھے کہ
اُس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوح کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوۓ تھے مگر درحقیقت
قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اُس پر سوار تھے کیونکہ طوفان نوح میں
ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی
نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی ھے } اور دُوسرے مضمون کا دُوسرا مفہوم
مولانا مودودی نے اِس طرح واضح کیا ھے کہ { اس سے یہ اشارہ نکلتا ھے کہ
تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوح والی کشتی تھی ، اس سے پہلے انسان
کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طرہقہ معلوم نہ تھا ، اس طریقے
کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے حضرت نوح کو دی اور ان کی بنائی ہوئی
کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل
نے بحری سفر کے لیۓ کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا } لیکن عُلماۓ روایت
نے اٰیات کا جو یہ مفہوم بیان کیا ھے وہ قُرآنِ کریم کی بیان کی ہوئی جن
بہت سی حقیقتوں کے خلاف ھے اُن میں پہلی حقیقت یہ ھے کہ قُرآن کریم میں ایک
موضوع کے جو بھی مضامیں بیان ہوتے ہیں وہ اپنے اُس سیاق و سباق کے ساتھ
بیان ہوتے ہیں جن پر قُرآن کا ایک قاری ایک نظر ڈالتے ہی جان جاتا ھے کہ
اِس مضمون کا پس منظر کیا ھے ، قُرآنِ کریم میں نوح علیہ السلام کا 43
مقامات پر جو ذکر آیا ھے اُس ذکر میں اِس { بھری ہوئی } کشتی کا کہیں پر
بھی ذکر نہیں آیا ھے جس کا اٰیاتِ بالا میں ذکر آیا ھے ، اگر اٰیاتِ بالا
میں بیان کی ہوئی کشتی نوح علیہ السلام کی وہی معروف کشتی ہوتی تو اِس کا
اُن 43 مقامات میں سے کسی ایک مقام پر نوح علیہ السلام کے حوالے سے ضرور
ذکر کیا جاتا ، نوح علیہ السلام کے اِس حوالے کے بغیر اِس کا اِس طرح ذکر
نہ کیا جاتا جس طرح اِس سُورت کی اِن اٰیات میں کیا گیا ھے ، عُلماۓ روایت
کے اخذ کردہ مفہوم کے خلاف دُوسری قُرآنی حقیقت یہ ھے کہ نوح علیہ السلام
کی کشتی ایک خالی کشتی تھی جس پر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سوار ہوۓ تھے
جبکہ اِس مقام پر جس کشتی کا ذکر کیا گیا ھے وہ نۓ سوار ہونے والوں سے پہلے
بھی اَفراد یا اُن کے سامان سے بھری ہوئی ایک کشتی ھے ، اہلِ روایت کی یہ
بات یقینا درست ھے کہ کشتیِ نوح میں سوار ہونے والے اُن چند انسانوں کی
پشتوں میں پُوری انسانی نسل موجود تھی لیکن وہ انسانی نسل اُن کی پُشتوں سے
نکل کر پہلے ہی تو اِس کشتی میں نہیں بیٹھ گئی تھی کہ جس کی وجہ سے اُس
کشتی کو بھری ہوئی کشتی قرار دیا گیا ھے اور اگر یہ اُن کی نسل میں پیدا
ہونے والے اَخلاف کی بات ھے تو وہ اَخلاف اپنے مرے ہوۓ اَسلاف کے لیۓ ایک
نشان کس طرح بن گۓ تھے ، عُلماۓ روایت کے اخذ کردہ مفہوم کے خلاف تیسری
قُرآنی حقیقت یہ ھے کہ سُورَہِ ھُود کی اٰیت 37 { اصنع الفلک باعیینا
ووحینا } میں بیان کیۓ گۓ ارشاد کے مطابق نوح علیہ السلام نے وہ کشتی اللہ
تعالٰی کی وحی کے مطابق ایک صنعت کے طور پر تیار تھی جس کے وہ صرف ایک صانع
تھے لیکن اُس کے خالق نہیں تھے اور اٰیاتِ بالا میں جس کشتی کا ذکر کیا گیا
ھے اُس کے لیۓ اللہ تعالٰی نے { خلقنا } کا لفظ استعمال کرکے اپنی ذات کو
اِس کا خالق قرار دیا ھے ، قُرآنِ کریم نے لفظِ { فُلک } کو چونکہ اسم واحد
اور اسمِ جمع دونوں کے لیۓ استعمال کیا ھے اِس لیۓ عُلماۓ روایت نے اٰیاتِ
بالا کی دُوسری اٰیت کے دُوسرے مضمون میں اِس فُلک سے وہ کشتیاں مُراد لی
ہیں جو نوح علیہ السلام کے بعد انسانی نسل نے بنائی اور چلائی ہیں اور
انہوں نے لفظِ ذُریت کی یہ تشریح کی ھے کہ عام طور پر لوگ چونکہ اپنے بچوں
کے ساتھ سیر و تفریح کے لیۓ نکلتے ہیں اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اُن کے ساتھ
اُن کی ذُریت یا نسل کا بھی ذکر بھی کردیا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ قُرآنِ
کریم کے اِس لفظِ { فُلک } سے مُراد وہ کشتیاں بھی نہیں ہیں جو طوفانِ نوح
کے بعد انسان نے بنائی ہیں کیونکہ قُرآنِ کریم نے 23 مقامات پر { فُلک } کا
جو استعمال کیا ھے اُن 23 مقامات میں اِس سُورت کی اِس ایک اٰیت کے اِس
آخری مقام کے سوا دیگر 22 مقامات میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالٰی
نے اِس { فُلک } کو { خلقنا } کے دعوے کے ساتھ اپنی تخلیق نہیں کہا ھے بلکہ
اِس ایک مقام پر ہی اُس کو اپنی تخلیق کہا ھے جو خُدا کی بنائی ہوئی اِس
کشتی کو اُن تمام کی تمام کشتیوں سے الگ کردیتا ھے جو انسان نے بنائی ہیں ،
عُلماۓ روایت نے اِس سلسلہِ کلام میں ایک اور گُلفشانی یہ کی ھے کہ اِس
فُلک سے مُراد وہ موٹر ٹرین ، گاڑیاں اور ہوائی جہاز وغیرہ لیۓ ہیں جو بعد
کے زمانوں میں بننے تھے لیکن اُن کی یہ دلیل بھی اِس لیۓ باطل ھے کہ قُرآنِ
کریم نے انسان کے اُس حال میں موجُود ہونے اور مُستقبل میں وجُود میں آنے
والی اُن تمام سواریوں کا سُورَہِ نحل کی اٰیت 8 میں ایک مُستقل بالذات
موضوع کے طور پہلے ہی ذکر کریا ھے اور اُس مفصل مضمون کے بعد اِس مقام پر
اُس مضمون کا مُجمل انداز میں ذکرنا مُجمل کو مُفصل پر ترجیح دینے کے
مترادف ھے جو اللہ تعالٰی کی حکمت و شان سے بعید بات ھے ، اَب رہا یہ سوال
کہ اگر اِس { فلک } سے نُوح علیہ السلام کی پہلی کشتی بھی مُراد نہیں ھے
اور اِس { فُلک } سے نوح علیہ السلام کے بعد انسان کی بنائی وہ بیشمار
کشتیاں بھی مُراد نہیں ہیں تو پھر سے اور کیا مُراد ھے لیکن اِس سوال کا
ہمیں جواب دینے کی اِس لیۓ زیادہ ضرورت نہیں ھے کہ قُرآنِ کریم نے سُورَہِ
نُوح کی اٰیت 17 اور 18 میں اِس سوال کا بذاتِ خود ہی یہ جواب دے دیا ھے کہ
{ واللہ انبتکم من الارض نباتا 17 ثم یعیدکم فیھا و یخرجکم اخراجا 18 }
یعنی اللہ تُم کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ زمین سے نکلنے والے نباتا کی طرح
زمین سے نکالتا رہتا ھے ، پھر ایک خاص اہتمام کے ساتھ تُمہارے جسموں کو اُس
زمین میں واپس بھی ڈالتا رہتا ھے اور پھر ایک خاص اہتمام کے ساتھ تمہیں اُس
زمین سے باہر بھی نکالتا رہتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس طریقِ تخلیق کا یہی
حیرت انگیز مضمون سُورَةُالبقرة کی اٰیت 61 ، 261 ، سُورَہِ اٰلِ عمران کی
اٰیت 37 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 99 ، سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 58 ،
سُورَہِ یُونس کی اٰیت 24 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 11 ، سُورَةُالحجر کی
اٰیت 19 ، سُورَةُالکف کی اٰیت 45 ، سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 53 ، سُورَةُ
الاَنبیاء کی اٰیت 15 ، سُورَةُالحج کی اٰیت 5 سُورَةُالشعراء کی اٰیت 7 ،
سُورَہِ نمل کی اٰیت 60 ، سُورَہِ لُقمٰن کی اٰیت 10 ، سُورَہِ یٰسٓ کی
اٰیت 36 ، سُورةُ الصٰفٰت کی اٰیت 146 ، سُورَہِ قٓ کی اٰیت 7 ، 9 ،
سُورَةُالحدید کی اٰیت 20 ، سُورَہِ نوح کی اٰیت 17 اور سُورَہِ عبس کی
اٰیت 27 میں بھی بیان کیا ھے ، اِن 22 اٰیات کے اِن 22 مضامین کا مرکزی
نُکتہ یہ ھے کہ ذَرہِ خاک اور قطرہِ آب کے حُسنِ امتزاج سے بنی ہوئی یہی وہ
عظیم کشتیاں ہیں جن کے اندر اور باہر جو آبِ حیات ہوتا ھے وہی آبِ حیات اِن
نباتات کی جڑوں ، شاخوں اور شگوفوں کو وہ حیات دیتا ھے جو حیات مُختلف
سبزیوں ، مُختلف بیجوں ، مُختلف پُھولوں اور مُختلف پھلوں کی بھری ہوئی
کشتیوں میں سفر کرکے انسانی جسم کے اُن آبِ سُرخ و آبِ سفید کی کشتیوں میں
آتا ھے اور پھر اُن کشتیوں سے گزر کر رحمِ مادر کی خون سے بھری ہوئی کشتی
میں چلاجاتا اور وہاں سے پرورش پاکر ایک زندہ انسان کی صورت میں سینہِ زمین
پر آجاتا ھے اور خالق اِس کی اسی آخری صورت کے بارے میں کہتا ھے { ثم
انشانه خلقا اٰخر } یعنی ارتقاۓ حیات کے اِس مقام پر آنے کے بعد ھم اِس کو
ایک بالکُل ہی الگ طرح کی مخلوق بنا دیتے ہیں اور اٰیاتِ بالا میں انسانی
ارتقاۓ حیات کا جو اَحوال بیان کیا گیا ھے وہ انسان کے اُسی عھدِ ماضی و
حال اور مُستقبل کا اَحوال ھے جس کے ہر زمان و مکان میں حضرتِ انسان زیرِ
کفِ سیلاب ہو تا ھے !!
|