انسانی تخلیق اور انسانی تعلیم و تربیت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 45 تا 50......اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واذا
قیل لھم اتقوا
مابین ایدیکم وما
خلفکم لعلکم ترحمون
45 وما تاتیھم من اٰیة من
اٰیٰت ربھم الّا کانوا عنہا معرضین
46 واذا قیل لھم انفقوا مما رزقکم اللہ
قال الذین کفروا للذین اٰمنوا انطعم نم لو یشاء
اللہ اطعمهٗ ان انتم الّا فی ضلٰل مبین 47 ویقولون
متٰی ھٰذاالوعد ان کنتم صٰدقین 48 ان کانت الّا صیحة
واحدة تاخذھم وھم یخصمون 49 فلا یستطیعون توصیة
ولاالٰی اھلھم یرجعون 50
اے ھمارے رسُول ! اِس وقت مُنکرینِ قُرآن کی عقلی و فکری خرابی کا حال یہ ھے کہ جب بھی آپ اُن کو گزشتہ زندگی میں اَنجام دیۓ ہوۓ جرائم سے رجوع کی تعلیم دیتے اور آئندہ زندگی میں اِن جرائم سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں تو وہ اِس تعلیم و تلقین پر کان ہی نہیں دھرتے اور پھر جب آپ اُن کو انسانی معاشرے کے نادار اَفراد کی کفالت کی ترغیب دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ بَھلا ھم اِن کی کفالت کیوں کرنے لگے ، اگر اللہ کو اِن کی روزی رسانی مطلوب ہوگی تو وہ خود ہی اِن کو کھلا پلا دے گا اور یہ لوگ اپنے بدترین اعمال کے بدترین اَنجام سے اِس قدر لاتعلق ہیں کہ جب اِن کو آنے والے یومِ حساب کے احتساب سے ڈرایا جاتا ھے تو کہتے ہیں اگر تُم ھمارے اعمال و سزاۓ اعمال کے دعوے میں سچے ہو تو بتاؤ کہ وہ دن کب آۓ گا جب ہمیں وہ سزا ملے گی ، آپ اِن لوگوں کو یہی ایک بات بتا دیں کہ وہ اِن کی بیخبری میں آنے والی ایک ہلاکت خیز آواز ھے جو اِن پر اُس وقت آۓ گی جب وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیۓ ایک دُوسرے کے ساتھ گُتھم گُتھا ہو رھے ہوں گے اور جس وقت اچانک ہی وہ تباہ کُن آواز آۓ گی تو اُس وقت وہ اپنی جمع پونجی اپنے وارثوں تک مُنتقل کرنے کی وصیت تک نہیں کر سکیں گے اور اپنے گھروں میں بھی واپس نہیں جا سکیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مضمونِ بالا بھی پہلی اٰیات کے اُس پہلے مضمون ہی کا ایک حصہ ھے جس پہلے مضمون میں انسان کے اُس اِرتقائی سفر کی ایک رُو داد بیان کی گئی تھی جس اِرتقائی سفر کے دوران انسان ایک ذَرّے کی صورت میں ہوتا ھے اور وہ ایک ذَرہِ خاک و قطرہِ آب کی ایک طوفانی کشتی میں سوار ہو کر ہزاروں زمانوں ، ہزاروں مکانوں ، ہزاروں گلشنوں اور ہزاروں بیابانوں کا سفر کرتا ہوا رحمِ مادر کی اُس پہلی جنت میں آتا ھے جس پہلی جنت میں اُس ایک ذَرہِ وجُود کی اِس طرح تشکیل ہوتی ھے کہ رحمِ مادر کی اُس جنت میں اُس ایک زندہ ذرے سے اربوں اور کھربوں زندہ ذرے بنتے ہیں اور اُن ذَروں میں سے ہر ایک ذرے کی اِس طرح تشکیل و تجسیم ہوتی ھے کہ اُس کے جسم کے ایک ایک زندہ ذرے کو رحم مادر کے اُس سمندر میں 9 ماہ تک اس طرح دھو دھو کر اس طرح پاکیزہ بنایا جاتا ھے کہ رحمِ مادر کے اُس سمندر میں وہ جسم دُھل کر اتنا ہی پاکیزہ ہوجاتا ھے جتنا وہ رحم مادر کے اِس سمندر سے پہلے سمندر میں ایک پاکیزہ ذرہِ و جُود تھا ، رحمِ مادر میں پاکیزہ ذروں سے بننے والا یہ انسانی جسم جب ایک پاکیزہ جسم بن جاتا ھے تو اُس کو رحمِ مادر سے اُس نُورانی رُوح کا تحفہ دے کر زمین پر بھیج دیا جاتا ھے جس نُورانی روح کے ساتھ اُس نے ایک عرصے تک زمین کے اِس تربیتی نظام میں تربیت پا کر اُس دُوسری جنت میں جانا ہوتا ھے جس دُوسری جنت کی طلب اُس کے فاطر نے اُس کی فطرت میں رکھی ہوئی ھے تاکہ وہ اُس کی طلب کے ساتھ آگے بڑھے اور ارتقاۓ حیات کی اُس اگلی منزل میں داخل ہو جاۓ جو اُس کی طلب کی ایک اور مطلوبہ جنت ھے ، رحمِ مادر سے انسان جو مادی جسم اور جو نُورانی رُوح لے کر زمین پر آتا ھے اُس جسم کو زمین پر زندہ رہنے کے لیۓ جس حیات بخش پرہیزی غذا کی ضرورت ہوتی ھے اُس پرہیزی غذا میں پہلا پرہیز اُس غذا کا پاکیزہ غذا ہونا ھے جس سے مُراد وہ صاف سُتھری غذا ھے جس کے صاف اور سُتھری غذا ہونے کا فیصلہ انسان کو اپنی عقل اور اپنے تجربے سے کرنا ہوتا ھے کہ زمین کی اِن ساری غذاؤں میں سے اُس کے کھانے کے لیۓ کون سی غذا پاکیزہ و نظیف ھے اور کون کون سی غذا غلیظ اور کثیف ھے ، انسان کی دُوسری پرہیزی غذا اُس کی وہ حیات بخش غذا ھے جس کو قُرآنِ کریم نے رزقِ حلال کے نام سے متعارف کرایا ھے اور اِس حلال غذا کا دائرہ بھی پاکیزہ غذا کے وسیع دائرے کی طرح ایک ایسا وسیع دائرہ ھے جس وسیع دائرے میں وہ چند گنی چنی چیزیں ہی آتی ہیں جن کو قُرآنِ کریم نے نام زد کر دیا ھے اور اگر بعض ناگزیر حالات میں انسانی زندگی کے موت سے دوچار ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاۓ تو اُس وقتی مجبوری کے تحت وقتی طور پر اُن حرام چیزوں کے استعمال کی بھی قُرآنِ کریم نے خود ہی انسان کو وہ رُخصت دی ہوئی ھے جس رُخصت سے یہ دائمی قانُون بن گیا ھے کہ زمین پر پیدا ہونے والی زمین کی وہی چیز کھانے کے لیۓ حرام ھے جس کو قُرآن نے حرام کیا ھے اور اِس حلال و حرام کی عقلی وجہ یہ ھے کہ جس طرح مریض انسان کے جسم پر ایک درست و غیر درست دوا اپنے کُچھ مُثبت و مَنفی اثرات ڈالتی ھے اسی طرح پاکیزہ و غیر پاکیزہ یا حلال و حرام غذا بھی اُس کے جسم پر اپنے وہ مُثبت و مَنفی اثرات ڈالتی ھے جن کو اگر اختصار کے ساتھ بیان کیا جاۓ تو وہ یہ ھے کہ پاکیزہ و حلال غذا انسان کے مادی جسم میں وہ مادی و نُورانی صلاحیت پیدا کرتی ھے جو مادی صلاحیت انسانی جسم کو زندہ رکھتی اور جو نُورانی صلاحیت انسانی رُوح کو فعال بناتی ھے بخلاف اِس کے کہ ناپاک اور حرام غذا انسانی جسم کو بھی ناکارہ اور انسانی رُوح کو بھی غیر فعال بنادیتی ھے اِس لیۓ کوئی وجہ نہیں ھے کہ جو انسان ایک ڈاکٹر اور ایک حکیم کے انسانی نُسخے پر یقین رکھتا ھے وہ قُرآنِ کریم کے اِس آسمانی نُسخے پر یقین نہ رکھے اور کوئی وجہ نہیں ھے کہ جو مُسلمان اپنے کھانے میں حلال و حرام کا فرق قائم کرتا ھے وہ اپنے کمانے میں حلال و حرام کی تمیز قائم نہ کرے ، حلال و حرام کا یہ فرق قائم نہ کرنے سے انسانی زندگی میں جو اَنگنت خرابیں پیدا ہوتی ہیں قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اُن اَنگنت خرابیوں میں سے جن تین بڑی خرابیوں کا مُشتے از خروارے کے طور پر ذکر کیا ھے اُن تین بڑی خرابیوں میں سے پہلی بڑی خرابی یہ ھے کہ جو انسان حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا وہ اعمالِ خیر و اعمالِ شر کی پہچان سے محروم ہو جاتا ھے ، دُوسری خرابی یہ ھے کہ جو انسان اعمالِ خیر و شر سے محروم ہوجاتا ھے وہ انسان و انسانیت کو نفع پُہنچانے کے فطری جذبے سے بھی عاری ہو کر انسان و انسانیت کو نقصان پُہنچانے کے ارادوں میں جری ہو جاتا ھے اور جو انسان اِنسانیت کے اِن فطری جذبوں سے محروم ہو جاتا ھے وہ اپنے اعمال کی جواب دہی کے فطری احساس سے بھی محروم ہو جاتا ھے اور اُس کا انکارِ آخرت بھی اُس کی اسی محرومی کا ایک منطقی نتیجہ ہوتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460846 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More