پاکستان میں ہرشے مہنگی کرکے بھی حکمران پٹرول کی قیمتوں
میں اضافہ کررہے ہیں۔مہنگائی میں اضافے نے پوری قوم کو دردناک عذاب میں
مبتلا کردیا اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر فوری
طور پر ہرشے مہنگی ہوجاتی ہے،سرکاری سطح پر ہر بار پٹرول کے نرخوں میں
اضافے کے اثرات سے عام آدمی کو بچانے کے دعوے کئے جاتے ہیں،کیش سبسڈی پر
غریبوں کو سستا پٹرول دینے کے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں مگر عملی طور پر
اسکے برعکس سرکاری طور پر بجلی وگیس کے نرخ بھی فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر
بڑھادیئے جاتے ہیں۔یوں مہنگائی کا ایک سیل بیکراں زیادہ تر غریبوں کو ہی
متاثر کرتا ہے،بڑے صنعتکار،تاجر،اور سرمایہ کار بھی اپنی پروڈکٹ کے نرخوں
کو مہنگائی کے تناسب سے بڑھا کر مہنگائی کا زیادہ تر بوجھ غریبوں کو آسانی
سے منتقل کردیتے ہیں۔حکمرانوں اور اشرافیہ کے مہنگائی سے متاثر نہ ہونے کے
سبب عام آدمی کو ہی یہ دکھ جھیلنا پڑتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بھی
تبدیلی کے جو خواب دکھائے تھے اس میں سب سے بڑا معرکہ وہ پٹرول کی قیمتیں
آدھی سے بھی آدھی کرنے کے اعلانات کرکے مارتے رہے۔اس وقت جب وزراء انکے
اعلانات پر تنقید کرتے کہ حکومت انکو اگر مل بھی گئی تو بھی عمران خان کے
لئے پٹرول مہنگا کئے بغیر اقتدار بچانا مشکل ہوگا۔اعلانات تو بجلی اور گیس
کے نرخ بھی ریکارڈ سطح پر کم کرنے کے وعدوں سے مزین کئے گئے تھے مگر ایسا
کچھ بھی نہ ہوسکا۔ مہنگائی میں اضافے کا اہم ترین محرک پٹرول مہنگا کرنا ہے
جس پر اپوزیشن نے بھی احتجاج شروع کیا تھا پٹرول کی قیمتیں اعتدال پر نہ
لاسکنے کی کوئی واضح دلیل بھی حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آئی۔مافیاز کے
سامنے بھی گھٹنے ٹیکنے کا چلن بدستور عمران حکومت کا خاصا ہے۔اپنے ہی کئی
اہم فیصلوں پر نظرثانی کی روایت کو بھی بڑے تسلسل سے نبھایاہے،اگر کہیں
کوئی عوامی بہبود کا فیصلہ سرزدہو بھی جائے تو اسکے خلاف پی ٹی آئی کے اندر
یا اتحادیوں کی خوشنودی پر اس فیصلے کو بدلنے میں تاخیر نہیں کی جاتی،دوسرے
لفظوں میں حکومت تاحال فیصلہ سازی میں عجیب طرح کے کنفیوژن کا شکار ہے کچھ
بھی واضح نہیں،معاملات وضاحت طلب ہیں اور بولڈ فیصلے کرنے کا فقدان بھی ہے
تاہم اب پٹرول جب دنیا میں سستا ہورہا تھا بھارت کی کئی ریاستیں خودمختاری
کا اعلان ہی پٹرول سستا کرکے کررہی ہیں تو پاکستان نے کیوں اپنی مالیاتی
خود مختاری عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھدی،وہی عمران خان جو غیر
ملکی قرض کے حصول سے خودکشی کو بہتر سمجھتے تھے اب تک غیر ملکی قرض کے حصول
کی دوڑ میں تمام سابق حکومتوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ریکارڈ قرضے لے کر اب
سارا مالیاتی نظام آئی ایم ایف کی منشا کے مطابق بنادیا ہے جس کے سبب عوام
پر مہنگائی کا عذاب نازل کیا جاچکا ہے،بجلی،گیس،پانی اور پٹرول کے نرخ
بڑھانے کے پیچھے بلاشبہ آئی ایم ایف کے مطالبے ہیں جن کو پورا کرنے کے سوا
اب عمران حکومت کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں،مالیاتی خود مختاری کھو دینے والی
ریاستیں پھر آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے اچھی نہیں لگتیں مگر ہم ہیں کہ ایک
طرف سرمایہ داری کے ظالمانہ کہنہ نظام کا حصہ بن گئے ہیں تو دوسری طرف ہم
خود مختار ہونے کا جعلی دعویٰ بھی کررہے ہیں،اب ہماری معیشت کو بیرونی دباؤ
سے نکالنا وقت کا تقاضہ ہے ورنہ ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے گا۔استاد شاعر
میر تقی میر نے بھی اپنی غربت کو ایسے سرمایہ داروں کی دولت کا ہی شاخسانہ
قرار دیا تھا۔ع
امیر زادوں سے دلی کے مت ملاکر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انہی کی دولت سے
پاکستان کی معاشی بربادی کا سامان بھی عالمی مالیاتی اداروں کے قرض نے پیدا
کیا ہے،ہرشے مہنگی کروانے کا مقصد انکے سود کی قسطوں کی بروقت ادائیگی پر
منتج ہے۔ان حالات میں پھر عوامی انقلاب ہی برپا ہواکرتے ہیں اس لئے حالات
تاحال بہتر بنانے کی کچھ گنجائش ہے ورنہ ان سب معاشی حماقتوں سینجات کی
صورت پیدا نہ کی گئی تو پھر پاکستان کے حالات بھی قازقستان سے مختلف نہ ہوں
گے۔واضح رہے کہ پچھلے دنوں قازقستان میں پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے خلاف
جاری شدید اور پرتشدد عوامی احتجاج کے بعد صدر نے حکومت کو برطرف کردیا
ہے۔قازق حکومت کی برطرفی کے باوجود ملک کے حالات بدستور دگرگوں ہیں۔ ہنگامے
جاری ہیں،گھیراؤ جلاؤ سے ملک کے قیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچایا گیاہے۔اب
قازقستان کی نئی کابینہ پٹرول سستا کرنے کا فیصلہ کرکے بھی ہنگامے نہیں روک
سکی اور اب تک 13پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں کی بازی ہارچکے ہیں
جبکہ معاشی نقصان کا تو تخمینہ ہی نہیں لگایاجاسکا،اسی طرح پاکستان کے عوام
کو بھی اس مقام تک نہ لایا جائے جہاں سے انکو واپس لانے کی کوئی گنجائش
باقی نہ رہے۔ بپھرے عوام کے پرتشدد مظاہرے روکنا حکومت کے بس کی بات نہ
ہوگی یہی بات اگر سمجھ میں آجائے تو عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط پر
ہوشرباء مہنگائی کے پھیلنے کے عمل کو روکنے کی موثر معاشی حکمت عملی
حکمرانوں کا اقتدار اور قوم کو غربت کی ذلت سے بچاسکتی ہے۔
|