نئی سیکورٹی پالیسی اور قومی مفادات
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
پاکستان کی موجودہ انتظامیہ کی طرف سے '' نیشنل سیکورٹی پالیسی2022-26''کے نام سے ایک دستاویز کا اعلان کیا گیا ہے جس پر عملدرآمد ،طریقہ کار کے امور مخفی رکھے گئے ہیں۔پاکستان کی تقدیر کے فیصلوں سے متعلق 110صفحات پر مبنی اس دستاویز کے تقریبا50ایسے صفحات شائع کئے گئے ہیں جو پالیسی کے موضوعات اور اس سے متعلق بلند و بانگ دعوے پیش کرتے ہیں ۔سیکیورٹی پالیسی پانچ سال کی مدت (2022-26) کے لیے ہے لیکن اس کا ہر سال کے آخر میں جائزہ لیا جائے گا۔ اس نئی پالیسی پر عملدآمد اور اس متعلق حکمت عملی کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا ہے۔ملکی تقدیر کی اس پالیسی کی منظوری قومی سلامتی کمیٹی کی منظوری کے ایک دن بعد 28 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے دی تھی۔اس دستاویز میں قومی ہم آہنگی، معیشت، دفاع، داخلی سلامتی، خارجہ پالیسی اور انسانی سلامتی کے موضوعات شامل ہیں۔
اس دستاویز کا اعلان14جنوری2022کو کیا گیا جبکہ اس سے تین دن پہلے11جنوری کو صحافیوں کو ایک اعلی سطحی اہلکار نے اس حوالے سے بریفنگ دی۔انگریزی اخبارات میں شائع اس بریفنگ میں سرکاری اہلکار کا نام یا عہدہ ظاہر کئے بغیر اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ''ہم بھارت کے ساتھ اگلے 100 سال تک دشمنی نہیں چاہتے۔ نئی پالیسی فوری طور پر پڑوسیوں کے ساتھ امن کی کوشش کرتی ہے،اہلکار نے کہا، اگر اس میں بات چیت اور پیش رفت ہوتی ہے، تو بھارت کے ساتھ تجارتی اور تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا امکان ہوگا ۔اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے سال فروری میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی)پہ جنگ بندی کی مفاہمت کو بحال کرنے پر اتفاق کیا تو اس میں پیش رفت کی کچھ امیدیں تھیں لیکن یہ عمل مزید آگے نہیں بڑھ سکا۔سرکاری اہلکار نے کہا کہ اقتصادی سفارت کاری اور قریبی پڑوسیوں کے ساتھ امن ملک کی خارجہ پالیسی کا مرکزی موضوع ہوگا۔لیکن جیو اکنامکس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے جیو اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل مفادات کو نظر انداز کریں،اہلکار نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے ساتھ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو پاکستان کے لیے 'اہم قومی پالیسی' کے مسئلے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں مودی کی زیرقیادت موجودہ حکومت کے تحت ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
جب اس اہلکار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو بورڈ پر نہیں لیا گیا کیونکہ پالیسی سازی ایگزیکٹو کا کام ہے۔ اس کے باوجود، اہلکار نے اعتراف کیا کہ ایسی دستاویز کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔اس مقصد کے لیے، ہم اس پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، اہلکار نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے چند ہفتے قبل پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بریفنگ دی تو اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔جب پالیسی کے نفاذ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اہلکار نے کہا کہ خفیہ دستاویز میں عمل درآمد کا مکمل طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور وزیر اعظم ماہانہ بنیادوں پر پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ اہلکار کے مطابق، پالیسی کا ہر سال اور حکومت کی تبدیلی کے وقت جائزہ لیا جائے گا۔ عہدیدار نے کہا کہ نئی قومی سلامتی پالیسی میں سیاسی استحکام کے معاملے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی ہے کہ کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔نئی پالیسی عسکریت پسند اور اختلافی گروپوں کے معاملے سے بھی نمٹتی ہے اور مصالحتی عناصر کے ساتھ مکالمے کی وکالت کرتی ہے۔اس پالیسی کے نفاذ کے لئے اصل کام اب شروع ہونا ہے۔پالیسی اس سمت کا تعین کرتی ہے کہ آنے والے سالوں میں ملک کو کیا رخ اختیار کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بنانے والوں نے قومی سلامتی کے لیے شہری پر مبنی نقطہ نظر اختیار کیا اور اقتصادی سلامتی پر خصوصی زور دیا۔یہ بھی بتایا گیا کہ احتساب، نصاب کا جائزہ، گورننس کے چیلنجز، بشمول اٹھارویں آئینی ترمیم کا جائزہ اور گلگت بلتستان کی مستقبل کی حیثیت جیسے کانٹے دار موضوعات کلاسیفائیڈ حصے کا حصہ ہوں گے۔
بتایا گیا ہے کہ ملک کے بنیادی اہمیت کے امور سے متعلق اس پالیسی کی تیاری میں وفاقی وزرائ، وزرائے اعلی ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں، دیگر تمام سویلین اور فوجی اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، تھنک ٹینک کے ماہرین ، آزاد تجرئیہ کار ،علماء اور یونیورسٹی طلبہ بھی شامل کئے گئے۔اور یہ کہ احتساب، نصاب کا جائزہ، گورننس کے چیلنجز، بشمول اٹھارویں آئینی ترمیم کا جائزہ اور گلگت بلتستان کی مستقبل کی حیثیت جیسے کانٹے دار موضوعات کلاسیفائیڈ حصے کا حصہ ہیں۔پالیسی کے مقاصد کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ڈھانچے کی وفاقی نوعیت کو مضبوط بناناجمہوری اصولوں کی پاسداری وفاق کی اکائیوںکے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانا اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقے سمیت تمام سطحوں پر عمل درآمد۔
پالیسی دستاویز کے اعلان کردہ حصے میں کشمیر اور انڈیا سے متعلق بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحدی تنازعات جو سلامتی کو خطرات لاحق ہیں، خاص طور پر لائن کے ساتھ کنٹرول اور ورکنگ بانڈری جہاں بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں تعطل پیدا ہو گیا ہے اور ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم ہیں۔ پاکستان تعلقات معمول پر لانے کے لیے پرعزم ہے۔اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات باہمی احترام، خود مختاری برابری، اور مشترکہ عقیدے کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے راستے تلاش کرنے کی اجتماعی کوشش معاشی مواقع پاکستان میں خوشحالی کے حصول کے لیے سنگ بنیاد ہیں۔ پاکستان تمام اہم ممالک کے ساتھ باہمی طور پر مفید تعلقات بھی برقرار رکھتا ہے۔ جموں و کشمیرجموں و کشمیر کے تنازعہ کا منصفانہ اور پرامن حل ضروری ہے۔پاکستان کے لیے قومی سلامتی کا مفاد۔ اگست کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات2019 کو بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں کے لوگوں نے مسترد کر دیا ہے۔ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میںجنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، اور نسل کشی کے ذریعے بدسلوکی اور جبرجاری ہے۔ اس کے علاوہ کشمیریوں کی مزاحمت اپنے غیر قانونی اقدامات کو چھپانے کے لیے بھارت کا جھوٹا پروپیگنڈا بھی جاری ہے۔پاکستان اپنی اخلاقیات پر ثابت قدم ہے،کشمیری عوام کی سفارتی، سیاسی اور قانونی حمایت جاری رہے گی ،جب تک کشمیریوں خو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت حاصل نہیں ہو جاتا جس کی ضمانت بین الاقوامی برادری نے دی ہے۔
انڈیا کے ساتھ تعلقات میںپاکستان اپنی اندرون و بیرون ملک امن کی پالیسی کے تحت بہتری کا خواہاں ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات تنازعہ جموں و کشمیر کا منصفانہ اور پرامن حل ہمارے دوطرفہ تعلقات کا مرکز ہے۔ ہندوستان میں ہندوتوا سے چلنے والی سیاست پرگہری تشویش اور پاکستان پر اثر انداز ہے۔فوری سیکورٹی،جنگجویانہ پالیسی کا سیاسی استحصال بھارت کی قیادت کی طرف سے پاکستان کو فوجی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے ہتھیاروں کی تیاری، جدید ٹیکنالوجی اور مستثنیات تک رسائی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ہندوستان کی طرف سے علاقائی مسائل سے متعلق یک طرفہ حل مسلط کرنے کی کوششیں علاقائی استحکام کے لیے دور رس منفی نتائج کی حامل ہیں۔ ہندوستان پاکستان کو نشانہ بنا کر غلط معلومات پھیلانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔پاکستان مذاکرات کے ذریعے تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل پر یقین رکھتا ہے تاہم، حالیہ بھارتی اقدامات اس میں اہم رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کی موجودہ انتظامیہ کی طرف سے نئی '' قومی سلامتی پالیسی'' کا اعلان کیا گیا ہے۔سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے اپنی پالیسیوں کو '' سب سے پہلے پاکستان'' کے لبادے میں پیش کیا تھا جبکہ اب دفاع، خارجہ پالیسی، معیشت،تجارت،ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات، ملکی پالیسیوں کو عوام کے مفاد کے لبادے میں پیش کیا جا رہا ہے۔پاکستان انتظامیہ کی تیار کردہ اس '' نیشنل سیکورٹی پالیسی'' کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ عمران خان کے کنٹینر دھرنے،اس وقت کے وزیر اعظم کو ہٹانے، آئندہ کے لئے نااہل قرار دینے،عام انتخابات میں دشمن کو ووٹ سے شکست دینے کے اہتمام اور عمران خان حکومت کی تشکیل کے بعد ملک سنگین ترین اقتصادی و معاشی بحران کا شکار ہوتے ہوئے اس حوالے سے اپنی خود مختاری سے بھی محروم ہوتے معلوم ہو رہا ہے۔عام آدمی کو معاشی مشکلات میں مبتلا کرتے ہوئے ملک و عوام کو ''آئی ایف ایم ''کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے تا کہ عوام کی توجہ پاکستان کے مفادات کے خلاف اختیار کی جانے والی ایسی پالیسیوں؛ کی طرف نہ جا سکے۔عمران خان کو حکومت میں لانے اور چلانے والوں نے اسی حکومت کے ذریعے تمام ملکی پالیسیاں بناتے ہوئے نامعلوم فیصلوں کو ملک کی تقدیر قرار دینے کے طور پر اپنا منصوبہ لایا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں باوجوہ اس سیکورٹی پالیسی کو وقتی اور غیر اہم کہتے ہوئے اس پر زیادہ بات نہیں کر رہیں۔ ملک میں حاکمیت کی کشمکش جاری ہے، پارلیمنٹ کو ایک ربڑ سٹیمپ کے طورپہ استعمال کیا جا رہا ہے ، ایسے میں آئین و قانون کی بالادستی اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو آئین کے مطابق یقینی بنانے کے بات ایک سنگین مذاق ہی معلوم ہوتی ہے۔یوں اس منصوبے کو موجودہ حکومت ، انتظامیہ کا پروگرام ہی کہا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کئے بغیر یہ منصوبہ صرف ایک وقتی حکمت عملی کے طورپرہی دیکھا جا سکتا ہے۔ایک سیاسی شخصیت کا کہنا ہے کہ جمہور کی اس سے بڑی اور کیا بے توقیری ہو سکتی ہے کہ آئین ، قانون ، رولز اور پالیسی کی منظوری پارلیمنٹ نے دینا ہوتی ہے جبکہ یہ ادارہ اب عضو معطل ہے اور ملک کی قومی سیکورٹی پالیسی کی تخلیق کہیں اور سے ہوئی ہے، جس ملک کے آئینی اور معاشی ادارے گروی ہوں وہ کیسے خود مختارہو سکتا ہے ۔
عوام کے لئے پیش کردہ قومی سلامتی پالیسی میں خوش کن اور بلند و بانگ دعوے ہی زیادہ نظر ّآتے ہیں، ان کے حصول کے لئے کیا راہ اختیار کی جائے گی، اس طرح کی باتیں ان صفحات میں درج ہو سکتی ہیں جنہیں سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ساتھ ہی ملک میں صدارتی نظام اور شریعت کا پروپیگنڈہ ایک بار پھر شروع کیا گیا ہے۔ملک میںصدارتی نظام کے لئے لابنگ کی جار ہی ہے ۔ ماضی میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند سوچ کے پیدا ہونے ہونے کی بنیادی وجہ ایوب کا صدارتی نظام ہی ثابت ہواتھا۔
اس پالیسی سے اعلان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف کے آئندہ مدت کے لئے بھی اس عہدے پہ قائم رہنے کے امکانات ہیں۔نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی سیکورٹی پالیسی ملک کے ہر شعبے پہ محیط بتائی جار ہی ہے جو کہ اس کا مینڈیٹ نہیں ، یہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے۔اس سیکورٹی پالیسی سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کو پارلیمنٹ کے متوازی اور پارلیمنٹ سے بالاتر بنایا جا رہا ہے کہ ہر محکمہ اس کو ماہوار اپنی رپورٹس بھیجے گا۔یہ پالیسی جو دراصل پاکستان کے ہر شعبے کو چلانے کے لئے بنائی گئی ہے، اس کے کئی حصے خفیہ رکھے گئے ہیں یعنی پاکستان کی تقدیر کے فیصلوں کو عوام سے خفیہ رکھے جانے کو'' قومی مفاد'' کے طور زیر کار لایا جا رہا ہے۔
ملک میں جاری فاشزم کو مستقل شکل دینے اور ان کی ہی بنائی ملکی پالیسیوں کی ناکامی کو نیا لبادہ پہناتے ہوئے نئی بوتل میں پرانی شراب پیش کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ملک کو بہتری کے راستے پہ ڈالنے کے نا م سے پیش کردہ اس خفیہ'' سیکورٹی پالیسی'' میں،ملک میں جاری حاکمیت کے کشمکش کے بنیادی اور سنگین مسئلے کے حل کا کوئی عندیہ نہیں ملتا۔موجودہ آرمی چیف کا معیاد عہدہ اسی سال نومبر میں مکمل ہو رہا ہے۔اگلے سال جولائی میںعام انتخابات ہوں گے اور اس سے چھ ماہ پہلے ملک میں مرکزی اور صوبائی سطح پر عبوری حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔یعنی موجودہ وزیر اعظم اس سال دسمبر یا زیادہ سے زیادہ اگلے سال جنوری تک ہی اپنے عہدے پہ رہیں گے۔یوں اس نئی سیکورٹی پالیسی کا انحصار ملک میں عوامی منتخب پارلیمنٹ اور ایک ماتحت محکمے کی آمریت کے درمیان جاری حاکمیت اور اختیارات کی کشمکش پہ بھی ہے کہ کون بالا دست رہتا ہے۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|