پیازوں کے بہانے

"پیازوں کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ان کے بغیر بھی تو بہت کچھ بن جاتا ہے۔آپ بھی نا آنکھیں سرخ کر کہ بیٹھ جاتی ہیں۔مت کاٹا کریں پیاز"وہ اکثر اپنی ماں کی آنکھوں میں سرخی اور پانی دیکھ کر غصے میں کہہ جاتی۔اور فردوس بیگم اس کی اس ادا پر صرف مسکرا دیتیں اور پیازوں کی گردن پر چلتی چھری کی رفتار ایک بار پھر سے تیز ہو جاتی۔
آج سکول میں اینول رزلٹ اناؤنسمنٹ اور پرائز ڈسٹریبیوشن تھی۔وہ اس بار بھی پوری کلاس میں پہلے نمبر پر آئی تھی۔پرائز ریسیو کرنے والے بچے جب فخر سے اپنے ماں باپ کے گلے لگتے تو اس کے دل میں عجیب سی کسک پنپنے لگتی۔ان کے والدین جب سٹیج پر ان کی تصویریں اتارتے اور تالیاں بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے تو اس کی آنکھوں کی چمک اچانک ماند پڑ جاتی۔سٹیج پر ٹرافی ریسیو کرتے ہوئے اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد آئے۔وہ ایسے موقعوں پر اکثر کہا کرتی تھیں۔"امید! تمہیں پتہ ہے نا کہ بابا تمہیں دیکھ رہے ہیں۔وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں اور شہید کبھی مرتے نہیں ہیں۔وہ زندہ ہیں۔اگر وہ تمہاری آنکھوں میں پانی دیکھیں گے تو انہیں دکھ ہو گا"ان الفاظ کو کانوں میں گونجتا محسوس کر کے اس نےسامنے بیٹھی دادی کو دیکھ کر مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔
فردوس بیگم جب دفتر سے واپس لوٹیں تو خلاف معمول اسے کچن میں دیکھ کر حیران ہوئیں۔انکی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب انھوں نے اس کے ہاتھوں میں پیازوں کو کتر کتر کر ٹوکری میں گرتے دیکھا۔اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور گالوں سے پانی کے قطرے لڑھک رہے تھے۔"امید!میری بچی کیا ہوا؟تم یہاں"ماں نے حیرت سے پوچھا
امید:بھوک لگ رہی تھی تو سوچا آملیٹ بنا لوں۔دادی کو پسند ہے نا
فردوس بیگم :مگر میں نے بتایا تھا کے پیزہ لیتی آؤں گی۔
امید: مجھے یاد نہیں رہا۔ ہم پیزا کھا لیتے ہیں۔(وہ گال رگڑتے ہوئے مسکرا ئی۔)
فردوس بیگم: آئی ایم سو پراؤڈ آف یو میرے بچے۔۔۔اس بار پھر تم نے کلاس میں لیڈ کیا ہے۔اور آج کا پیزہ اسی لیے ہے۔
امید:تھینک یو ماں۔۔۔ آپ فریش ہو جائیں میں دادو کو بلاتی ہوں
وہ گیلی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے چلی جاتی ہے۔
وہ دادی اور ماں کے ساتھ پیزا کھانے میں مصروف تھی جب دادی کی نظریں بار بار اس کی آنکھوں میں چھپی کسی حسرت کو کھوج رہی تھیں۔دادی نے بلآخر پوچھ ہی ڈالا۔بٹو تیری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں روئی ہو کیا؟۔اس نے بڑی مہارت سے پیاز کاٹنے کا بتایا۔جب وہ کمرے میں چلی گئی تو دادی نے فردوس بیگم سے جو اس کے رویے پر حیران تھیں کہا
"فردوس بیٹا! مبارک ہو! تیری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے"فردوس نے حیرت سے اپنی ماں جیسی ساس کو دیکھا تو انھوں نے آنکھوں میں تیرتی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا
"اسے پیازوں کا فائدہ پتہ چل گیا ہے"
فردوس بیگم نے شیلف پر پڑی پیازوں کی ٹوکری کو دیکھا اور پھر کچن کے دروازے کی طرف دیکھنے لگیں جہاں سے ان کی امید گزر کر اپنے کمرے میں گئی تھی۔ان کی آنکھوں سے موتیوں کے دو معصوم قطرے ٹپکے اور ملائم گالوں سے چھلک گئے
" اپنے بابا کو یاد کر رہی ہو گی۔۔۔ہے نا اما"
انھوں سر جھکا دیا
 

Umeed
About the Author: Umeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.