ہم اکثر زندگی میں آگے بڑھ جاتے ھیں۔۔۔جو کے بظاھر صرف
ایک دکھاوا ھوتا ہے۔۔۔ھم زندگی کی حقیقت جان کر آنکھیں بند کر دیتے ھیں کچھ
رشتے نبھانے کے لیے۔۔۔اور اسی دوران ان رشتوں کؤ مجبوری کا نام دے کر وہی
چھوڑ جاتے ھیں۔۔۔اللہ حافظ کہیے بنا کیسے روح سے جڑے رشتے کو ھم زندگی بھر
کے لیے چھوڑ سکتے ھیں۔۔۔۔روح سے جڑے رشتوں کو بھولنا شاید اتنا بھی مشکل
نہیں اگر اس رشتے کا اختتام ہو ۔۔۔۔چاہیے نفرت کے جملوں سے ھو یا محبت کے۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے عشق کے رشتے جن کو اختتامیہ جملے بولے بغیر ہم رائیں جدا کر دیتے ھیں
ایسے رشتے ہمیشہ کے لیے ازیت کا باعث بنتے ہیں ۔۔جو ھمیں خوشی سے جینے نہیں
دیتے۔۔۔۔ہر وقت اک خوف دل میں ھوتا ھ شروعات کا۔۔۔کیونکہ اختتام کے بنا
رشتے چھوڑے نہیں جاسکتے ۔اختتامیہ کی بجائے سوالیہ نشان لگا رہتا ھے۔۔۔۔۔ایسے
میں دل ھمیشہ اسی خوف کی گردش کرتا ھ,خون سے زیادہ اس خلل کی گردش۔۔۔۔۔جو
عقل کو بھی مات دے دیتا ھے۔۔ہم جیتے ان کے بغیر ھیں مگر جیتے انہی میں ہیں۔۔۔۔اور
پھر آخر کار بہت سوچنے کے بعد جب خوف کم نہیں ہوتا,کرب کم نہیں ہوتا ,وقت
کے ساتھ ساتھ وہ اختتامیہ جملہ جو کہ ایک سپیس چھوڑے ہوتا ھ ہماری ادھوری
زندگی میں ۔۔۔۔۔اس کی شدت بڑتی جاتی ھے۔۔۔اس سپیس کے مکمل ہونے کے خواب لیے
جو کہ ناممکن ہیں اس دنیا میں مکمل ہونے کے ٹوٹے خواب آنکھوں پہ سجائے
سوجاتے ھیں۔۔۔۔۔زندگی میں ایسی کمی ایسی خلا جو کہ جینا بھلا دیتی ھے۔۔۔۔۔زندگی
کرب ھے میں نے جانا زندگی کرب ھے |