پاکستان کے معروف صحافی، کالم نگار، ایڈیٹر، کہانی کار،
مصنف، ڈرامہ نویس محترم محمد شعیب مرزا صاحب کے نام سے کون ہے جوواقف نہیں
؟
ہر ادیب کی یہ ہر دل عزیز شخصیت ہیں.ماشاءاللہ سے 18 سال سے ماہنامہ © ©”
پھول “کے ساتھ وابستہ ہیں اوربچوں کے لیے ادبی، دینی اور اخلاقی تربیت کے
لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی اچھی خوبی یہ ہے کہ
ہے یہ بہت ہی زیادہ ملنسار اور اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ہرسال ادیبوں کی
حوصلہ افزائی کے لیے ایک بھرپور تقریب منعقد کرواتے ہیں جس میں ملک بھر سے
تمام ادبی شخصیات اور ادب دوست اس میں شرکت کرتے ہیں۔ان کی اسی ادب دوستی
کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی اس محفل میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا۔یہ میری
درینہ حسرت تھی کہ جن کو میں پڑھتی یا ان کے نام سے بخوبی واقف ہوں ان سے
شرف ملاقات ضرور کروں۔میری خوش قسمتی ہے کہ محض چھ ماہ کے مختصر عرصے میں
میری تین تحاریر ماہنامہ ”پھول“ کی زینت بنی اور سال کے آخر میں مجھے ایک
دن اچانک سے پاکستان پوسٹ کے ذریعے ایک غیر متوقع خط ملا جس نے میری خوشی
دوبالا کردی۔میری دلی تمنا پوری ہونے جارہی تھی ایسے میں اپنی آمد اور
پروگرام کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے ہم اپنی ہم شہر مصنفہ ”ہما مختار احمد“
کے ساتھ پروگرام ترتیب دیا۔بروز اتوار 26دسمبر 2021ءکی صبح ہم نے 8بجے رخت
سفر باندھا اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔میرے لیے یہ پہلی ادبی تقریب تھی
جس میں شرکت کرنے جارہی تھی تاہم لاکھ کوشش اور خواہش کے باوجود بھی ہم دیر
سے پہنچے جس کا مجھے شدت سے افسوس ہے۔
”چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس‘ جس کا موضوع ” بچوں کے حقوق کے تحفظ اور امن
کے فروغ میں اہل قلم کا کردار“ یہ تقریب "ماہنامہ پھول" محکمہ بلدیات پنجاب
اوراکادمی ادبیات اطفال کے تعاون سے ہوئی جس کے روح رواں شعیب مرزا صاحب
تھے جبکہ مہمانان خصوصی بھی نامور ادبی وسماجی شخصیات تھیں۔یہ تقریب آرٹس
کونسل (الحمرا) کے تعاون سے مورخہ 26 دسمبر 2021 الحمرا ہال نمبر 2 لاہور
پاکستان میں منعقد کی گئی۔جس میں "تسنیم جعفری ایوارڈ," ”ڈاکٹر عبدالقدیر
خان ایوارڈ“ سمیت دیگر ایوارڈز دیئے گئے۔
معاون خصوصی حکومت پنجاب حسان خاور،ڈی جی لوکل گورنمنٹ پنجاب کوثر
خان،چائلڈ پروٹیکشن آفیسر پنجاب ازلان بٹ اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر
سے اہل قلم تشریف لائے تھے۔اس کانفرنس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا
پہلے سیشن کے مہمان خصوصی وزیر اعلی کے معاون خصوصی حسان خاور صاحب تھے
جنہوں نے ایوارڈز دیئے۔ دوسرے سیشن کے مہمان خصوصی نوائے وقت کے ڈائریکٹر
جنرل آپریشن سید احمد ندیم قادری صاحب تھے، تیسرے سیشن کی مہمان خصوصی بشری
رحمن صاحبہ تھیں جو بیماری کے باوجود تشریف لائیں اور تقریب کے اختتام تک
ادیبوں میں شیلڈز تقسیم کرتی رہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی خاص شخصیات نے
تقریب میں شرکت کر کے چار چاند لگائے۔جن میںسرفہرست فاروق دانش (حیدر
آبادی)،نذیر انبالوی ،تسنیم جعفری، ڈاکٹر فضیلت بانو ،عادل گلزار، سید بدر
سعید ، مسرت کلانچوی،طاہر حفیظ،ڈاکٹر عمران مرتضی،شمیم عارف،عطرت
بتول،ذوالفقار علی بخاری، حسن اختر،امان اللہ نیر شوکت،غلام زادہ نعمان
صابری،سید آصف علی بخاری ، حسیب پاشا، حفیظ طاہر،ڈاکٹر عمران مرتضیٰ و دیگر
احباب شامل تھے۔ لاہور کے الحمرا ہال میں منعقدہ قومی اہل قلم کانفرنس میں
جنوبی پنجاب کی نمائندہ اورسابق رکن قومی اسمبلی معروف لکھاری ور نامور
ناول نگار فخر بہاولپوربشری رحمان اور شعیب مرزا سے مجھ ناچیز کو بھی غیر
متوقع طور پر نمایاں ادبی و سماجی خدمات پرادب اطفال ایوارڈ 2021 ءسے وصول
کرنے کا اعزاز ملا جو کہ ناقابل بیان اور یادگار لمحات میں سے ایک تھا۔میرا
پہلا تجربہ وہ بھی قومی سطح پر معروف مصنفین سے پہلی ملاقات کا نہایت ہی
خوشگوار تھا۔کانفرنس کے دوران بہت سے قلمی ساتھی جن کے محض نام سے میں واقف
تھی ان سے ملنے کا موقع ملا۔دوران تقریب سب سے بذریعہ سوشل میڈیا کے رابطے
میں تھے اور ایک دوسرے کی نشست کا پوچھ رہے تھے اورفراغت ملتے ہی ملنے کے
عہد و پیماں جاری تھے۔ان میں فلک زاہد،توقیر ساجد کھرل،نبیلہ اکبر،محمد
معاویہ،محمد فرحان اشرف،محمد شاہد اقبال،اکبر علی،ستارہ امین کومل،نوید
مرزا،ملک احسن،محمد برحان الحق،ذوالفقار علی بخاری،شمیم عارف،عطرت بتول،آپی
تسنیم جعفری،غلام زہرہ و دیگر شامل تھے۔سب سے مسرت بخش وہ لمحہ تھا جب میں
پہلی بار اپنے ادبی استاد ذوالفقار علی بخاری صاحب سے ملی اور جس قدرجوش و
جذبے کے ساتھ انہوں نے والہانہ استقبال کیا اس سے میرا سیروں خون بڑھ گیا۔
انہوں نے اپنی لاڈلی شاگرد کو جب تمام سینئرز سے متعارف کروایا اور جس قدر
ان کی جانب سے والہانہ پن اور بے ساختگی کا مظاہرہ ہوا اس نے دل موہ
لیا۔سینئر لکھاری محمد نوید مرزا صاحب کو جب معلوم ہوا کہ میں فاکہہ قمر
ہوں تو ان کی مسکراہٹ اور خوشی قابل دید تھی۔ادیب نگر گروپ کی کا رکن
(موڈییٹر)کے طور پر جب میرا تعارف تسنیم جعفری آپی سے کروایا گیا تو ان کی
آنکھوں کی چمک اور پیار بھری جھپی مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ تسنیم آپی آپ
سے ملاقات اس تقریب کا سب سے خاص لمحہ ہے جس نے بے حد مسرور کیا تھا کہ آپ
کے ادیب نگر نے ہی تو وہ حوصلہ دیا ہے جس کی بدولت آج کچھ کر رہی ہوں، اس
کے بعد دھیرے دھیرے سب کی محبت و رہنمائی ملی ہے جس میں ذوالفقار علی بخاری
،نوشاد عادل اور محبوب الہی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔کتابوں کے سٹال پر
اچانک پیچھے سے کوئی آپ کا نام پکار کر پوچھے کہ آپ فاکہہ قمر ہو تو وہ
لمحہ بہت ہی حسین ہوتا ہے،جب شمیم عارف صاحبہ نے گرم جوشی کے ساتھ مجھے
اپنے ساتھ لپٹا کر پیار کیا اور میری چھوٹی موٹی ادبی کاوشوں کو خوب بڑھا
چڑھا کرعطرت بتول صاحبہ کے سامنے ذکر کیا جس سے میرا سر فخر سے تن گیا اور
دونوں اخلاق سے چور ملکاﺅں نے مجھے اپنی اپنی کتاب بطور تحفہ پیش کی اور
ساتھ یادگار لمحات کو ہمیشہ کے لیے امر کرنے کے لیے خوبصورت تصاویر اور
آٹوگراف کے ساتھ رخصت کیا۔ اسی دوران وقفہ میں ایک خوبصورت سی لڑکی مجھ سے
ملی اور اس قدر جوش و محبت کے ساتھ ملی کہ مارے مروت کے میں یہ تک نہ پوچھ
سکی کہ آپ کون ہیں؟ آپ کا اسم شریف کیا ہے؟وہ تو بعد میں بمعہ ثبوت تصویر
کی شکل میں جب مسیج آیا تو پتا چلا کہ یہ تو ہم سب کی ہر دلعزیز ستارہ امین
کومل ہیں۔مجھے افسوس ہے آپ سے بعد میں ملنے کا اتفاق ممکن نہیں ہوا۔اس کے
بعد کھانے کے وقفے میں جب اچانک آپ کا کسی ایسے شخص سے تعارف ہو جس سے آپ
نام کی حد تک واقف ہوں اور سوشل میڈیا کے طفیل رابطے میں ہوں،جی ہاں بالکل
کھانے کے دوران مشہور مصنفہ،شاعرہ،جرنلسٹ اور ایڈیٹر فیملی میگزین کی نامور
شخصیت غلام زہرہ سے اتفاقاََ ملاقات ہوئی جو کہ یادگار ثابت ہوئی۔غیر متوقع
ایوارڈ کے لیے جب میرا نام بولا گیا تو اپنی سماعت پر پہلے تو یقین ہی نہیں
آیا تھا اس وقت کیا احساسات تھے وہ میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر
ہوں،صرف میری پیاری دوست اور کانفرنس کی ساتھی ہما مختار احمد جانتی ہے کہ
میری اس وقت کیا حالت تھی۔تقریب کے اختتام پر ہال کے دروازے سے نکلتے ہی
پیچھے سے ایک نسوانی اور سریلی آواز والی خاتون نے بآواز بلند پوچھا کہ آپ
میں سے فاکہہ قمر کون ہیں؟
آواز سنتے ہی پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہی ایک انجانی سے خوشی محسوس ہوئی۔
کون کہتا ہے کہ آج کل خون سفید ہوگیا ہے ،میرا ماننا ہے کہ بعض دفعہ کچھ
ساتھی جن سے سوشل میڈیا یا کام کی حد تک تعلق ہوتا ہے وہ اس قدر مضبوط
ہوجاتا ہے کہ خون کے رشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔سریلی آواز والی کوئی
اور نہیں بلکہ ہماری بہت ہی پیاری نبیلہ آپی تھی جو کہ اپنے خوبرو حافظ
قرآن بیٹے محمد معاویہ کے ساتھ موجود تھی۔ان کی محبت و شفقت پر میں نثار
جاﺅں اس قدر ملنسار اور مہمان نواز کہ میرے پاس الفاظ ہی نہیں۔نبیلہ آپی آپ
سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے انشاءاللہ تفصیلی ملاقات ہوگی۔
لاہور کے لوگ اور ان کی مہمان نوازی قابل قدر ہے،دوران تقریب پیاری بہن
خدیجہ محسن کو جب معلوم ہوا کہ میں لاہور میں ہوں تو پرزور اسرار پر وعوت
سے ڈالی جس کو مجبوراََ مجھے رد کرنا پڑا تو ادھر ہی عثمان خان کی فرمائش
تھی کہ وہ مجھ سے ملنے کے خواہشمد ہیں اور آٹوگراف لینا چاہتے ہیں۔ان
محبتوں کی مقروض ہوں میں۔آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
اتنی ساری محبتوں ،دعاﺅں کے ساتھ جب میں نے واپسی کی راہ لی تو الحمرا کے
گیٹ پر اپنے بھائی کو پایا جو کہ لاہور میں مقیم ہیں اور میرے ایوارڈ ملنے
کی خوشی میں بطور خاص تحائف کے ساتھ مجھے مبارکباد دینے کے لیے موجود
تھے۔اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہوگی؟
یہ میرا پہلا تجربہ تھا کسی بھی ادبی کانفرنس میں شرکت کا،ادبی کانفرنس میں
شرکت کرنا اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو اورسمجھنے
کو ملتا ہے اگرآپ کوکسی کارکردگی پر ایوارڈ ملتا ہے تو وہ مزید آپ کا جوش
بڑھاتا ہے لیکن اس سے زیادہ اہم آپ کو چہرہ شناسی اوردوسروں کے اندر کے اصل
انسان کو جاننے کا بھی موقعہ ملتا ہے اس طرح کی تقریبات آپ میں خوداعتمادی
بھی پیدا کرنے میں معاون کردار اداکرتی ہیں اورآپ کو بہادر بناتی ہیں۔میرا
تو یہی مشورہ ہے کہ اگر آپ ادب سے وابستہ ہیں اور آپ کے لیے ممکن ہے تو
ضرور اپنی شرکت کو یقینی بنائیں کیونکہ ایسے موقعے بار بار نہیں ملتے۔
میراسارا دن بے حد مصروف لیکن مسرت بخش گزرایہ سب قیمتی لمحات جو مجھے میسر
آئے توصرف اور صرف شعیب مرزا صاحب کی بدولت۔
مختصر وقفے اور رش کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات نہیں ہوسکی،کچھ سے بعد
میں تفصیلی ملاقات کا ارادہ تھا لیکن وہ بعد نہ آسکی اور کچھ رش میں ہی گم
ہوگئے۔جن سے نہیں مل سکی ان کا بہت دکھ ہے لیکن امید ہے انشاءاللہ دوبارہ
ملاقات ہوگی۔جن سے تھوڑے وقت کے لیے ہی ملی وہ بھی غنیمت ہے میرے لیے ۔
آخر میں شعیب مرزا صاحب کا بہت بہت شکریہ جنہوں نے مجھ نوآموز قلم کار کی
ٹوٹی پھوٹی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے مجھے اس تقریب کا دعوت نامہ بھیج کر
مدعو کیا اور صاحب ایوارڈ ہونے کا شرف بخشا۔سب قلمی ساتھی اور خصوصاََ
سینئرز مصنفین کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اس قدر محبت اور عزت افزائی
بخشی۔اللہ آپ سب کو صحت و عافیت والی لمبی حیاتی نصیب کرے اور ہمارے سروں
پر سلامت رکھے ۔آپ لوگ ہمارا سرمایہ ہیں ،ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔میری دلی
دعاہے کہ اللہ آپ سب کو دنیا اور آخرت کے ہر میدان میں سرخرو کرے۔آمین ثم
آمین۔
ختم شد۔
|