سستا بازار بھنڈر پر ناکامی کے سائے منڈلانے لگے

واضح سرکاری پالیسی نہ ہونے کے باعث دکاندار مایوس ہو گئے
حکومت کا ایک اچھا اقدام ناکامی کی راہ پر گامزن
صحافی حضرات بازار کا دورہ کریں

2021 ء کی آخری سہ ماہی میں اسلام آباد کی ضلعی حکومت کے نام پر بھنڈر، ایکسپریس وے پر کسان منڈی قائم کی گئی تھی۔ بظاہر منڈی کا مقصد کسان اور صارف کے مابین فاصلے کم کر کے چیزوں کے نرخ گرانا قرار دیا گیا تھا۔ ابتداء ً چند دکانداروں سے اس منڈی کا آغاز ہوا۔ دکانداروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ تین ماہ کے لیے دکانوں کا کوئی کرایہ نہیں ہو گا صرف بجلی، پانی ، صفائی اور سیکورٹی کی مد میں 80 روپے روزانہ وصول کیے جائیں گے ( جو بعد میں 90 روپے کر دیے گئے) دکانداروں نے جان جوکھون سے کام کر کے منڈی کو کامیابی کی طرف آگے بڑھایا لیکن اب یہ المیہ سامنے آیا آیا ہے کہ اس بازار پر ناکامی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ جس فرد نے خود کو حکومت کی طرف سے نمائندہ قرار دے کر اس منڈی کا انتظام و انصرام کیاتھا، اس نے دکانداروں کو کسی طرح کے بھی سرکاری تحریری احکامات دکھائے بغیر ان سے پچاس ہزار روپے فی دکان طلب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس ایک فرد کی گومگو کی پالیسی اور کسی سرکاری پالیسی سے آگاہ نہ ہونے کے باعث دکاندار مایوس ہو کر اپنا کاروبار ختم کرنا شروع کر چکے ہیں۔ ابہام اور غیر یقینی صورتحال دکانداروں میں مایوسی کے بیچ بو رہے ہیں۔ ٹھیکدار کی جانب سے 50 ہزار روپے فی دکان کے علاوہ پندرہ ہزار روپے الاٹمنٹ کی مد میں اور پانچ ہزار روپے تک فی دکان کرایہ بھی لینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ روزانہ کی وصولی الگ ہے۔

کسان منڈی – سستا بازار ایک چھوٹا سا بازار ہے۔ اس میں دکانوں کی اکثریت چھتوں سے محروم ہیں اور بارشوں کے باعث لوگوں کا سامان ضائع ہو جاتا ہے۔

حکومت کا ایک اچھا اقدام واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث ناکام ہو رہا ہے ۔ بستی بسانا مشکل جبکہ اجاڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ضلعی حکومت اور سی ڈی اے کو فوراً چاہیے ہ اپنی پالیسی سے دکانداروں کو ّگاہ کرے۔ یعنی سرکاری بازار کے پچاس ہزار روپے کیوں طلب کیے جا رہے ہیں ؟ الاٹمنٹ کے اصل چارجز سے کانداروں کو آگاہ کیوں نہیں کیا جا رہا اور ماہانہ کرایہ کے بارے میں کھل کر کیوں نہیں بتایا جا رہا ہے۔ اگر ضلعی حکومت اور سی ڈی اے واضح طور پر پالیسی سے آگاہ نہیں کرتے تو حلقہ کے رکن قومی اسمبلی جناب راجہ خرم نوازآگے آئیں اور اس بازار کو ناکامی سے بچائیں۔ انہیں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ اس بازار کا دورہ کرنا چاہیے اور دکانداروں کی کسمپرسی کی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ٹھیکدار کو لگام ڈالنی چاہیے۔ ٹھیکیدار شتر بے مہار نہیں ہو سکتا۔ اسے بھی قواعد و ضوابط کی رسی سے کسا جانا چاہیے۔ اور بفرض محال 50 ہزار روپے ، پندرہ ہزار روپے اور پانچ ہزار روپے کے مطالبات درست ہیں تو راجہ خرم نواز صاحب کو ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے ہمراہ اس بازار کی فاتحہ پڑھ کر واپس جانا چاہیے۔

اس پورے مضمون کا مقصد کسی فرد کو معتوب کرنا نہیں ، اسی لیے ٹھیکدارکا نام دانستہ طور پر لکھنے سے احتراز کیا جا رہا ہے۔ اصل مقصد حکومت کے ایک اچھے اقدام کو ناکامی سے بچانا ہے۔

اسلام آباد اور رالپنڈی کے ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے التماس ہے کہ وہ بنفس نفیس حالات کا جائزہ لینے کے لیے کسان منڈی --- سستا بازار بھنڈر کا دورہ کریں تاکہ بازار کو تباہی سے بچایا جا سکے۔
 

Mehmood Akhtar
About the Author: Mehmood Akhtar Read More Articles by Mehmood Akhtar: 3 Articles with 2234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.