قدرتی آفات یا حکمرانوں کی نااہلی؟ خیبرپختونخواہ کا المیہ


یہ مسئلہ نہ صرف ایک قدرتی آفت ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں اور سماجی رویوں کا بھی عکاس ہے۔ خیبرپختونخواہ اس وقت شدید بارشوں اور سیلابوں کی لپیٹ میں ہے۔ درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور بستیاں اجڑ رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت اور اس کے نمائندوں کے رویے نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

ایک طرف صوبائی ترجمان اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تصویریں کھنچواتے دکھائی دیتے ہیں، دوسری طرف صوبائی حکومت کے اہم عہدیدار کوہستان میں جلسے کرتے ہیں۔ اور حیرت انگیز طور پر ان جلسوں کو سوشل میڈیا پر ”کامیاب“ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام کی جان و مال حکمرانوں کے نزدیک کتنی بے وقعت ہے۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنے گھرانے برباد ہوئے، ان کے نزدیک جلسے کی کامیابی اور رقص و موسیقی کی محفل زیادہ اہم ہے۔

جب عوام اس بدحالی پر سوال اٹھاتے ہیں تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب خدا کا عذاب ہے۔ بے شک ہم مانتے ہیں کہ یہ عذاب ہی ہے، لیکن ہر عذاب کی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس عذاب کو بلانے والے کون ہیں؟ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ڈانس اور فحاشی کی طرف کون مائل کرتا ہے؟ دین اور علما کی تضحیک کرنے والے کون ہیں؟ اور وہ کون ہیں جو احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کرکے عوام کی زندگی اجیرن بناتے ہیں؟ یہ سب رویے معاشرتی زوال اور اجتماعی بگاڑ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ جب نااہل لوگ حکمران بنتے ہیں تو پھر قدرتی آفات بھی عذاب کا روپ دھار لیتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کا پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام آدمی تو اتنے جنگلات نہیں کاٹتا جتنے حکمرانوں اور ان کے پشت پناہ مافیاز نے کاٹے ہیں۔ پہاڑوں کو اجاڑا گیا، دریاو?ں کے کنارے قبضے کیے گئے، اور تعمیرات کے نام پر زمین کو تباہ کیا گیا۔ جب زمین کی سانس بند کی جاتی ہے تو وہ اسی طرح سیلابوں اور بارشوں کی صورت میں اپنا انتقام لیتی ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بڑے واقعات ہمیشہ پہلے تنبیہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مولانا بجلی گھر نے 2012 میں کہا تھا کہ اگر تم سنبھل نہ سکے تو برباد ہو جاو? گے۔ اس وقت شاید کسی نے ان کی بات پر کان نہ دھرے، لیکن آج ان کے الفاظ حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر اصلاح نہ کی گئی تو نوجوان بیٹے بیٹیاں ڈانسر ہوں گے اور داڑھی والے لوگ بھی دنیاوی مفادات کے پیچھے بھاگیں گے۔ آج کا منظر نامہ اس پیش گوئی کی تصدیق کررہا ہے۔

یہ اجتماعی غفلت اور بے حسی ہمیں ایک خطرناک راستے پر لے جا رہی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو ہمارا انجام بھی انہی قوموں جیسا ہوگا جو اپنے اعمال کی سزا دنیا میں ہی بھگتیں۔ فرق یہ ہوگا کہ ہم پر اجتماعی عذاب ایک ہی وقت میں نہیں آئے گا بلکہ ہم آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر برباد ہوں گے۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی روش بدلیں۔ حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی ہوں گی، عوام کو اپنے اعمال پر غور کرنا ہوگا، اور سب کو مل کر اس زمین کے حق ادا کرنے ہوں گے۔ ورنہ یہ سیلاب، یہ لاشیں اور یہ آفات بار بار ہمیں یاد دلاتی رہیں گی کہ خدا کے عذاب کو روکنے کا واحد راستہ توبہ اور اصلاح ہے۔

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 739 Articles with 615260 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More