#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 50 تا 74
{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فاقبل
بعضھم علٰی
بعض یتسائلون 50
قال قائل منھم انی کان لی قرین
51 یقول ءانک لمن الصدقین 52 ءاذامتنا
وکنا ترابا وعظاما ءانالمدینون 53 قال ھل انتم مطلعون
54 فاطلع فراٰه فی سواءالجحیم 55 قال تاللہ ان کدت لتردین 56
ولولانعمة ربی لکنت من المحضرین 57 افمانحن بمیتین 58 الّا موتتناالاولٰی
ومانحن بمعذبین 59 ان ھٰذالھوالفوزالعظیم 60 لمثل ھٰذافلیعمل العٰملون 61
اذالک خیر
ام شجرةالزقوم 64 اناجعلنٰہا فتنة للظٰلمین 62 انھا شجرة تخترج فی اصل
الجحیم 64 طلعھا
کانه رءوس الشیٰطین 65 فانہم لاٰکلون منہافمالئون منہا البطون 66 ثم ان لھم
علیھالشوبامن حمیم 67
ثم ان مرجعھم لالی الجحیم 68 انھم الفوااٰباءھم ضالین 69 فھم علٰی اٰثٰرھم
یھرعون 70 ولقد ضل قبلھم
اکثرالاولین 71 ولقد ارسلنا فیھم منذرین 72 فانظر کیف کان عاقبةالمنذرین 73
الّاعباداللہ المخلصین 74
پھر ایک روز جب مسندوں پر بیٹھے ہوۓ وہ بہت سے اہلِ جنت ایک دُوسرے کے ساتھ
بات چیت کر رھے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا دُنیا میں میرا ایک دوست تھا
جو مُجھ سے یہ سوال پُوچھا کرتا تھا کہ کہیں تُم بھی تو اِس بات کی تصدیق
نہیں کرتے ہو کہ جب ھم مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور ھماری ہڈیوں کے جوڑ
الگ ہو کر بکھر جائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ کیا جاۓ گا اور ہمیں ھمارے
کیۓ کی جزا و سزا دی جاۓ گی ، یہ سُن کر اُن میں سے ایک دُوسرے جنتی ہمنشیں
نے پُوچھا ، کیا تُم اِس وقت اپنے اُس دوست کو دیکھنا چاہتے ہو کہ وہ کہاں
ھے اور پھر یہ کہنے کے بعد اُس نے جیسے ہی آگے کو جُھک کر دیکھا تو جہنم و
اہلِ جہنم اُن سب کو نظر آنے لگے اور اِس جنتی دوست کو اپنا وہ دوست بھی
اُسی جہنم میں جلتا ہوا نظر آیا جس پر وہ جنتی انسان بولا کہ اگر میرے رب
کا فضل میرے شاملِ حال نہ ہوتا تو آج میں بھی اِن لوگوں کے ساتھ ہوتا جو
سزا کے لیۓ پکڑ کر یہاں لاۓ گۓ ہیں ، پھر اُس نے حیران ہوکر خود کلامی کرتے
ہوۓ کہا کہ اِس کا مطلب تو یہ ھے کہ ھم پر جو موت آنی تھی وہ آچکی اور اِس
کے بعد ھم پر دوسری موت کبھی نہیں آۓ گی اور ہمیں اِس جزا کے بعد کوئی سزا
نہیں دی جاۓ گی ، اگر ایسا ہی ھے تو یہ ھماری بڑی کامیابی ھے اور اہلِ عمل
کو اسی کامیابی کے لیۓ عمل کرتے رہنا چاہیۓ ، خُدا لگتی کہو کہ ھماری یہ
خاطر داری بہتر ھے یا اہلِ جہنم کی وہ مہمان داری جس میں کھانے کے لیۓ اُن
کو اُس شجرِ اُس زقوم کے بد ذائقہ پھل ملتے ہیں جو شجرِ زقوم جہنم کی تہ سے
نکلتا ھے اور اُس کے بیج اور پھل اہلِ جہنم کے حلق سے اُترنے کے قابل نہیں
ہوتے لیکن اللہ نے اُس درخت کی کھال اور چھال کو اہل جہنم کی آزمائش و
ابتلا بنایا ہوا ھے ، زقوم کا یہ وہ درخت ھے جس کے شگوفے شیطان کے سر کے
مشابہ ہوتے ہیں اور اہل جہنم جب اس کو کھالیتے ہیں تو اُن کو پینے کے لیۓ
کھولتا ہوا پانی دیا جاتا ھے ، زمین کے جو نادان لوگ اپنے باپ دادا کی
جہالت کی تقلید کرتے ہیں وہ آگ کی اسی بستی میں لاۓ اور بساۓ جاتے ہیں
حالانکہ اِن اہلِ جہنم کو اِن سے پہلے اہلِ جہنم کی تقلید سے بچانے کے لیۓ
اِن کے پاس اللہ کے رسول بھی پُہنچے تھے لیکن اِن لوگوں نے اُن سے سُنی ہر
بات اَن سنی کردی تھی جس کا نتیجہ اِن پر اِس جہنم کی صورت میں ظاہر ہوا ھے
اور اِن میں سے اللہ کے چند مُخلص بندے ہی اِس سزا سے بچے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اٰیت 1 سے لے کر اٰیت 21 تک توحید کے اُس لازوال ایمانی و
اعتقادی نظریئے کا بے مثال بیان ہوا ھے جس پر انسانی حیات و نجات کا دار و
مدار ھے اور اِس سُورت کی اٰیت 22 سے لے کر اٰیت اٰیت 39 تک توحید کی اُن
مُنکر و مُشرک قوموں اور ملّتوں کا ذکر کیا گیا ھے جن قوموں اور ملّتوں تک
مُختلف زمان و مکان میں اللہ تعالٰی کے مُختلف انبیاء و رُسل نے اللہ
تعالٰی کے حُکم سے توحید کا یہ پیغامِ نجات پُہنچایاھے لیکن اُن قوموں اور
ملّتوں نے اِس پیغامِ نجات کا انکار کیا ھے اور اَنجامِ کار کے طور پر وہ
تمام قومیں اور تمام ملّتیں جہنم میں جا پُہنچی ہیں ، قُرآنِ کریم نے اہلِ
جہنم کے اِس ذکرِ عبرت و موعظت کے بعد اِس سُورت کی اٰیت 40 سے لے کر اٰیت
74 تک اُن سعادت مند قوموں اور ملّتوں کا ذکر کیا ھے جن قوموں نے اپنے اپنے
زمان و مکان میں اللہ تعالٰی کے مامور کیۓ ہوۓ انبیاء و رُسل کی دعوتِ
توحید کو سن سمجھ کر قبول کیا ھے اور وہ قومیں اپنی اپنی جنتوں میں پُہنچ
گئی ہیں اور پُہنچ رہی ہیں ، اہلِ جنت کے اِس مضمون کی پہلی 9 اٰیات میں
اہلِ جنت کے اُس لازوال انعام و اکرام اور عزت و احترام کا ذکر ہوا ھے جو
اُن کو اپنی اُن جنتوں میں ملا ہوا ھے اور مل رہا ھے ، جہاں تک اہلِ جنت کے
اِس مضمون کی موجُودہ 44 اٰیات کا تعلق ھے تو اِن اٰیات کا نفسِ مضمون بھی
اہلِ جنت کی اُن ہی سہولتوں اور آسائشوں کا وہی مضمون ھے جو پہلے اُن پہلی
اٰیات میں آیا ھے اور اُس کے بعد اِن دُوسری اٰیات میں بھی آیا ھے لیکن اِس
موضوع کے اِس دُوسرے مضمون میں اللہ تعالٰی نے اہلِ جنت کی اُس جنت میں پیش
آنے والے جس خاص واقعے کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ھے وہ یہ واقعہ ھے کہ
اہلِ جنت کو اللہ تعالٰی نے اپنی اُس جنت میں وہ سمعی و بصری اور وہ
رُوحانی و زبانی قُوتیں دی ہوئی ہیں کہ ایک جنتی جب چاہتا ھے برقی آلات و
برقی ٹیلی وژن سکرین کے بغیر بھی ہزاروں میل دُور تک کے مناظر و افراد کو
دیکھ سکتا ھے اور خود کو بھی اُن پر ظاہر کر سکتا ھے اور وہ مصنوعی آلاتِ
مواصلات کے بغیر بھی ہزارو میل دُور کی کسی جنت میں پلنے والے اور ہزاروں
میل دُور کی کسی جہنم میں جلنے والے افراد کے ساتھ سوال و جواب بھی کرسکتا
ھے لیکن وہ اپنی اِس دُنیا اور افرادِ دُنیا کے ساتھ کوئی راہ و رسم پیدا
نہیں کر سکتا جس دُنیا سے نکل کر وہ اُس دُنیا میں گیا ھے کیونکہ جو انسان
جس وقت اِس آزمائش کی دُنیا میں مرجاتا ھے تو اُسی وقت آسائش کی اُس دُنیا
میں داخل ہوجاتا ھے اور جو انسان آزمائش کی اِس دُنیا سے نکل کر آسائش کی
اُس دُنیا چلا جاتا ھے تو اہلِ زمین کے ساتھ اُس کا ہر وصالی و خیالی رابطہ
ختم کر دیا جاتا ھے ، اگر اہلِ جنت اہلِ دُنیا کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتے
تو اِس مقام پر اُس کا بھی ذکر کر دیاجاتا جس مقام پر اہلِ جہنم کے ساتھ
اُن کے اُس رابطے کا ذکر کیا گیا ھے اور قُرآنِ کریم کے بیان کیۓ ہوۓ اسی
واقعے سے قُدرت کا یہ اصولِ قُدرت بھی سامنے آگیا ھے کہ اِس دُنیا سے اُس
دُنیا میں جانے کے بعد کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اِس دُنیا کے کسی انسان
کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا نفع اور چھوٹے سے چھوٹا کوئی ضرر بھی نہیں پُہنچا
سکتا ، قُرآنِ کریم نے اہلِ جہنم کے جس بُرے اَنجام کا ذکر کیا ھے وہ اُن
کی آبائی جہالت و تقلیدِ جہالت کا انجام ھے اور اہلِ جنت کے جس انعام کا
ذکر کیا ھے وہ اُن کی تقلیدِ ھدایت اور عدمِ تقلیدِ جہالت کا انعام ھے ،
قُرآنِ کریم نے اہلِ جہنم کو خوراک کے طور پر کھلاۓ جانے والے جس شجرِ
زقُوم کا ذکر کیا ھے اُس کے بارے میں یہ تصریح بھی کردی ھے کہ اُس کی اَصل
جہنم ھے ، یعنی جس طرح روایتی طور پر سمَندر نام کا ایک جاندار آگ میں پیدا
ہوتا ھے اسی طرح زقوم نام کا وہ درخت بھی جہنم کی آگ میں پیدا ہوتا ھے اِس
لیۓ جن اہلِ روایت نے شجرِ زقوم کو تہامہ کے علاقے میں پیدا ہونے والا شجرِ
قطرب یا جنہوں نے زمین کے دُوسرے خطوں میں پیدا ہونے والا شجرِ تھوہر قرار
دیا ھے اُنہوں نے اندھیرے میں تیر چلایا ھے کیونکہ جو درخت پیدا ہی جہنم
میں ہوتا ھے تو اُس کو زمین میں تلاش کرنا ایک بے عقلی کی بات ھے اور اگر
زقوم کو تلاش کیۓ بغیر اُن کی تسلّی نہیں ہوتی تو اُن کو اپنی تسلّی کرنے
کے لیۓ وادی جہنم میں جانا ہوگا !!
|