دیکھئے یہ تو طے ہے کہ ہم مسلم ایک اجتماعیت ہیں لیکن اگر
اس کے باوجود ہماری ترقی نہیں ہورہی ہے تو کہیں نہ کہیں اجتماعیت کے کچھ
عوامل ہیں جن کو یا تو سرے سے ہم نے چھوڑ رکھا ہے یا پھر اس پر عمل کرنے
میں ہم سہولت پسند واقع ہوئے ہیں، آئیے ہم اجتماعیت کے عوامل اور اپنے
نقائص کا تجزیہ کرتے ہیں
ہم میں اجتماعیت نہیں ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
کیا ہمارے معاشرے کے نوجوان کو یہ یقین ہے کہ اگر میں آگے پڑھائی کرنا
چاہتا ہوں اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو میرا معاشرہ میرا گاؤں میری مدد
کرے گا؟
کیا ہمارے غریب کو یہ یقین ہے کہ اگر فاقے کی نوبت آئی تو میرے معاشرے کا
امیر میری کفالت کرے گا؟
کیا ہمارے نوجوان کو یہ یقین ہے کہ اگر میں غلط کیس میں پھنسا دیا گیا تو
میرے پیچھے میرا گاوں اٹھ کر میری مدد کو آئے گا؟
کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلم اجتماعیت کی دینی، مالی، اخلاقی، معاشرتی و
تہذیبی فلاح و بہبود کی خاطر ہم ایک چھت کے نیچے سر جوڑ کر بیٹھتے، سوچتے
اور پلاننگ کرتے ہوں؟
کیا ہم میں سے ہر ایک فرد کو یہ پتہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے پاس پانچ سالہ
ترقی کی کیا پلاننگ ہے؟
کیا ہمارے معاشرے کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد سے اس سوال پر کہ
اس کے اس شعبے میں کام کرنے کا مقصد کیا ہے، ایک ہی جواب آتا ہے؟ اگر ہاں
تو ہمارے اندر حقیقی اجتماعیت ہے اگر ناں تو ہمارے اندر اجتماعیت نہیں یا
پھر بس نام کی اجتماعیت ہے کام کی نہیں۔
ایک مضبوط اجتماعیت کیسے وجود میں آتی ہے؟
1 جب اجتماعیت کے تمام افراد تبدیلی لانے کے لیے ہم خیال ہوں
2 جہاں کسی عظیم مقصد کا خواب سب ایک ساتھ دیکھیں
3 جہاں ہر فرد اپنی استطاعت کے حساب سے اس مقصد کو پورا کرنے میں اپنا مال
یا توانائی صرف کررہا ہو
4 اس اجتماعیت کے نفع اور نقصان میں سب شریک ہوں
5 جہاں ہم کو تم پر یعنی انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی جاتی ہو
6 جہاں ہر فرد کو اس اجتماعیت سے کامیابی اور نفع کا وعدہ اور موقع ملے
7 جہاں ہر ضروری شعبے کے افراد موجود ہوں
8 جہاں افراد ایک دوسرے کو جانتے، ملتے اور بات کرتے ہوں
9 آپسی اعتماد قائم ہو
10 جہاں ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے
11 جس اجتماعیت میں رہ کر انسان اپنی جان، مال، اپنے خاندان کو محفوظ محسوس
کرے
12 جہاں انسان اس اجتماعیت سے مربوط ہوکر خود کو اسپیشل اور خوش قسمت محسوس
کرے
13 افرادی قوت میں اضافہ ہوتا رہتا ہو
14 جہاں ان کے سامانِ تفریح ایک جیسے ہوں
15 جن کے بچوں کو سنائی جانے والی کہانیاں اور افسانے ایک ہوں
16 جن کے نشان، فلیگ اور مذہبی یا تہذیبی رسومات مثلاً تیوہار میلے وغیرہ
ایک ہوں
17 جن کا ایک کرشماتی اور قابل لیڈر ہو
18 مذکورہ چیزوں میں استقلال و تسلسل ہو
اور بھی دیگر عوامل ہوسکتے ہیں ہم ان مذکورہ عوامل اور دیگر مزید عوامل کو
اس پروجیکٹ کے تحت ان شاءاللہ زیر بحث لاتے رہیں گے
حقیقی اجتماعیت پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلا کام کیا کریں؟
سب سے پہلا کام جو ہمیں کرنا ہوگا وہ یہ کہ گاؤں کو ایک مشن پر جمع کریں
اگر ہم صحابہ کی زندگی پر غور کریں تو سب سے زیادہ ان کے اندر چستی پھرتی
اور جوش و جذبہ غزوات کے وقت نظر آتا تھا کیوں کہ ان کو جہاد کی شکل میں
ایک مشن ملتا تھا جو کہ ایکسائٹمنٹ، مادی وسائل کا حصول، کرنے مرنے کا
جذبہ، اپنوں کا فائدہ، نہ جیتنے پر اپنا نقصان، اسلام کی سربلندی، دشمنوں
کو زیر کرنے، اپنے قوم کی حفاظت کرنے، ایمان میں اضافہ، توکل علی اللہ میں
زیادتی جیسی کئی مادی، دینی، اخلاقی و نفسیاتی جہات لئے ہوئے ہوتا تھا اس
لیے صحابہ سب سے زیادہ ایکٹو جہاد کے وقت ہوتے تھے اسی طرح ہمارے نوجوانوں
کو بھی مشن چاہئے جس میں یہ ساری خصوصیات پائی جاتی ہوں اب چوں کہ فی الوقت
جہاد اپنی تمام شکل و صورت کے ساتھ ممکن نہیں تو اب کوئی اور ایسا مشن
ڈھونڈنا ہوگا جس پر معاشرے کا ہر فرد جمع ہوسکے۔
پوری اجتماعیت کا مشترکہ نقطۂ نظر کیا ہو؟
دیکھئے یہ ضروری ہے کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں
ایک جگہ جاکر ملتے ہوں تاکہ ہم سب مل کر اپنا مجموعی احتساب کرسکیں جس سے
ہمیں ترقی کا مشاہدہ بھی ہوسکے گا اور ہمارے اندر خود اعتمادی بھی پیدا
ہوگی
اس سلسلے میں غور کرتے وقت میری نگاہ پڑی کتاب بدء الوحی کی زملونی والی
حدیث پر جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نبوت اور پہلی آیت نازل ہونے کے
بعد اپنی جان کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں
كلا والله ما يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم،
وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق
اب آئیے اس حدیث کو ڈیکوڈ کرتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں:
1 نبوت و رسالت ملنے اور اسلام کے قیام کے بعد سب سے پہلی سچویشن یہی ہے اس
لیے اس پر فوکس کرنا بہت ضروری ہے
2 یہ حدیث ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گزشتہ چالیس سالہ زندگی
کا نچوڑ پیش کرتی ہے
3 یہ حدیث بتاتی ہے کہ نبوت ملنے سے پہلے مقبولیت و عزت کے حصول کے لیے
اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سانچے میں ڈھالا تھا
4 اب اس کے بعد قرآن کی اس آیت کو پڑھئے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ
حسنہ یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور
بہترین نمونہ ہے جس کی ہمیں اتباع کرنی ہے اور رسالت ملنے کے بعد حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کی معرفت رسول کا جو سب سے پہلا اسوہ ملتا ہے وہ یہ ہے
کہ آپ صلہ رحمی کا معاملہ کرتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مسکینوں
کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور آسمانی آفات کے نزول پر لوگوں
کی مدد کرتے ہیں جن کی اگر ہم ایک لفظ میں کوڈنگ کریں تو وہ ہے خدمتِ خلق
5 اور خدمت خلق کی یہ پانچ مثالیں حضرت خدیجہ نے معلول و مسبب عدم اخزاء کے
اسباب کے طور پر بیان کی ہیں اور اخزاء کا مادہ ہے خزی جس کے معنی ہیں ذلت
و رسوائی گویا ان پانچ نمونوں یعنی خدمتِ خلق پر عمل کے نتیجے میں ہم
رسوائی سے بچ سکتے ہیں
6 اور اللہ تعالٰی نے رسوائی کو دنیاوی و اخروی عذاب کہا ہے ابھی ہم دنیوی
عذاب پر فوکس کرتے ہیں، اللہ جل جلالہ عم نوالہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
1 فارسلنا علیھم ریحا صرصرا فی ایام نحسات لنذیقھم عذاب الخزی فی الحیوۃ
الدنیا، 2 فأذاقھم اللہ الخزی فی الحیوۃ الدنیا، 2 ثانی عطفہ لیضل عن سبیل
اللہ لہ فی الدنیا خزی، 3 لما آمنوا کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیوۃ
الدنیا، 4 اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم لھم فی الدنیا خزی، 5
انما جزاء الذین یحاربون اللہ و رسولہ......أو ینفوا من الارض ذلک لھم خزی
فی الدنیا، 6 فما جزاء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیوۃ الدنیا، یہ چھ
آیتیں ہیں جہاں اللہ خزی اور دنیوی ذلت کو بطورِ عذاب پیش کررہے ہیں کہیں
پر صراحتاً تو کہیں پر دلالۃً
اور ہم آج اسی دنیوی ذلت و رسوائی کے عذاب اور دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں
جہاں سے نکلنے کے لئے ہمیں ایک رسی کی ضرورت ہے اور وہ رسی اللہ کے نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم کا رسالت سے پہلے اور بعد کا اسوہ یعنی خدمتِ خلق ہے۔
تو اب ہمیں خدمتِ خلق کی شکل میں ہمارا نقطۂ مشترکہ اور مشن مل گیا جس کے
ذریعے اللہ نہ صرف یہ کہ ہمیں ایک مضبوط اجتماعیت میں تبدیل فرماکر عزت و
سربلندی نصیب فرمائیں گے ان شاءاللہ بل کہ غیر مسلموں یعنی امتِ دعوت میں
بھی ہمیں مقبولیت نصیب فرمائیں گے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ کو قبل از
رسالت حاصل تھی جو کہ ان کے اسلام پر منتج ہوگی، و أما ما ینفع الناس فیمکث
فی الارض۔
تو ہر مسلم کو خدمتِ خلق میں حصہ لینا ہے چاہے وہ اسٹوڈینٹ ہو یا مدرس،
بزنس مین ہو یا ریڑھی چلانے والا یا مزدور، غریب ہو یا امیر، چاہے وہ اپنے
مال کے ذریعے حصہ لے یا اپنی صلاحیتوں کے ذریعے
لیکن دھیان رہے کہ یہ خدمتِ خلق ہمارا مشن اس لیے ہے کہ یہ ہمارے مقصد دینی
و دنیوی منافع کے حصول اور دینی و دنیوی مفاسد کے دفعیے کے لیے سب سے کارگر
ہتھیار ہے۔
اب تین کام ہیں ایک تو ذہنی طور پر ہماری نسلوں میں خدمتِ خلق کی اہمیت کو
اجاگر کرنا اور جوانوں کی ذہنیت بنانا، دوسرا ہے سروے کرکے خدمتِ خلق کے
مواقع تلاش کرنا اور تیسرا کام ہے عملی طور اپنی اپنی استطاعت کے حساب سے
اجتماعی طور پر پوری پلاننگ کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا، ان پر اگلے
مضامین میں ہم چند معروضات پیش کرنے کی کوشش کریں گے ان شاءاللہ۔
یہ معاشرےاور 'مشن تقویتِ امت' پرلکھےگئےمضامین کی ساتویں قسط ہے
|