انسان کا قلم سے تعلق تو ازل سے ہے اور ابد تک تاحیات رہے
گا۔ایسے میں انسانی جبلت کے تحت ہماری دیرینہ خواہش ہے کہ ہم روزمرہ اپنے
پڑھنے اور لکھنے والے نامور ادیبوں کی لکھائی دیکھیں۔اسی تجسس اور سوچ کے
پیش نظر ہمارے لکھاری بھائی ©”محمد عثمان ذوالفقار“ نے ایک انوکھی تجویز
پیش کی جس کا حاصل یہ تھا کہ آئے روز مختلف موضوعات پر کتابیں شائع ہوتی
ہیں کیوں نہ ماضی و حال کے تمام نامور ادیبوں اور لکھاریوں کی ہاتھ کی
لکھائی پر مبنی کتاب مرتب کی جائے۔ خیال بہت ہی اچھوتا اور منفردتھا۔
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کے حصے میں خاص کام لکھ دیے جاتے ہیں۔ان میں ہی ایک
نامور ادیب ہیں جن کی خاصیت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ
بن جاتاہے ۔ابھی حالیہ ہی انہوں نے اردو ادب کے تیس نامور ادیبوں کی احوال
زندگی پرمبنی کتاب ”آپ بیتیاں“ شائع کی ہے جس کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ
غیر ملکی سطح پر بھی بے حد پزیرائی ملی ہے۔جی ہاں بالکل!ٓپ سہی سمجھے
میںبات کررہی ہوں نامور ادیب نوشاد عادل کی۔جن کا کہنا ہے کہ:
”جب میں کم عمر تھا تو بڑا تجسّس ہوتا تھا کہ فلاں مصنف کی ہاتھ کی لکھائی
کیسی ہے؟اشتیاق احمد کی ناولز پر ان کے اردو والے دستخط اکثر دیکھا کرتا
تھا، کبھی کسی کے پاس ہمدرد نونہال کے بانی حکیم محمد سعید شہید کے دستخط
اور ان کی لکھائی دیکھتا تو بڑا حیران ہوتا کہ اچھا، ایسی لکھائی ہے ان کی۔
میرا یہ تجسّس کبھی ختم نہ ہوا، اب تک یہی حال ہے۔ جب جاسوسی ڈائجسٹ اور
سرگزشت ڈائجسٹ کا اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوا تو ان تمام بڑے ادیبوں کی اصل لکھائی
دیکھنے کا موقع ملا، جن کی کہانیاں ناولز پڑھا کرتا تھا۔ ان میں محی الدین
نواب، ایم اے راحت، جبّار توقیر، اقلیم علیم، الیاس سیتا پوری، منظر امام،
احمد اقبال، طاہر جاوید مغل، علی سفیان آفاقی، ڈاکٹر ساجد امجد، حسّام بٹ،
کاشف زبیر، سید احتشام، احمد صغیر صدیقی، ایچ اقبال، محمود احمد مودی،ڈاکٹر
عبدالرب بھٹی، یعقوب جمیل، ش صغیر ادیب کے علاوہ اور بھی کئی بڑے ادیب شامل
ہیں۔ سب کا اپنا اپنا انداز تھا۔ اتفاق سے میرا انداز احمد اقبال سے کافی
ملتاجلتا تھا۔منظر امام کی لکھائی ٹیڑھی تھی، شاید ٹیڑھا ہوکر لکھتے تھے
اور پڑھنے کے لیے بھی گردن ٹیڑھی کرنی پڑتی تھی۔ ایم اے راحت تو لگتا تھا
کہ قلم ایک بار کاغذ پر رکھنے کے بعد اٹھاتے ہی نہیں تھے، قلم اٹھائے بغیر
لکھتے چلے جاتے تھے۔ کاشف زبیر اور ڈاکٹر عبدالرب بھٹی کی لکھائی چکرا دینے
والی تھی، دونوں بد خط تھے۔ نواب صاحب، احمد اقبال، الیاس سیتاپوری چھوٹا
چھوٹا لکھتے تھے“۔
اس منفرد کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیشہ کی طرح اب بھی معروف ادیب
”نوشاد عادل“ نے میدان میں قدم رکھا اور ان کا ساتھ دیتے ہوئے ماہنامہ
انوکھی کہانیاں کراچی کے مدیر اعلی جناب”محبوب الہی مخمور“ نے اس کو پبلش
کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔چونکہ یہ خیال بہت ہی منفرد ہے اس لیے اس کتاب کا
نام بہت عزیز نامور ادیب اور مزاح نگار ”عارف مجید عارف “نے”قلم کتاب“
تجویز کیا ہے۔
اس آئیڈیے میں معروف ادیب نوشاد عادل نے مزے دار اضافہ یہ کیا ہے کہ یہ
بچوں کے ادب کی ایسی واحد اور پہلی حیرت انگیز کتاب ہو گی جس میں ایک لفظ
بھی کمپوزنگ کا نہیں ہوگا، یعنی سرورق بھی خود بنائیں گے یا ڈیزائن دیں گے،
اس پر کتاب کا نام، اس کی ٹیگ لائن اور مرتب کرنے والوں کے نام بھی ہاتھ سے
لکھے جائیں گے۔ پیش لفظ، آرائ ، فہرست، ایڈیٹوریل پیج، انٹرو اور یہاں تک
کہ صفحہ نمبر سے لے کر آخری صفحہ تک ہینڈ رائٹنگ میں شائع ہوگا۔یہ اردو ادب
کی تاریخ میں پہلی بار ایک منفرد کام ہونے جارہا ہے جو کہ اپنی انفرادیت کی
بناءپر تاریخ ساز کام کہلایا جائے گا۔
اب ایک صفحے پر کیا لکھا جائے تو طے یہ پایا کہ ایک صفحے (A4سائز)پر دل چسپ
کہانی، چاہے نئی یا پرانی، ہینڈ رائٹنگ میں منگوا کر شائع کی جائے۔ اگر کسی
کے پاس اردو ادب کے بڑے قلم کار وں کی ہینڈ رائٹنگ کسی بھی صورت میں محفوظ
ہے تو وہ اسکین، یا صاف فوٹو لے کر بھیج سکتا ہے جو کہ مدتوں کتاب میں
محفوظ رہی گی۔
آخری صفحہ تک ہینڈ رائٹنگ میں شائع ہوگا۔
اگر آپ لکھاری ہیں اور خواہش مند ہیں کہ آپ کی اپنی لکھائی(Hand Writing)
میں لکھی گئی تحریر تاریخ ساز کتاب ”قلم کتاب“ کا حصہ بنے تو آج ہی بہترین
اسکین کردہ یا واضح فوٹو درج ذیل ای میلز یا پھرواٹس ایپ نمبر پر ارسال
کیجئے۔ یاد رہے جس قدر یہ صاف اورواضح ہوگی اتنی ہی شاندار انداز میں یہ
کتاب میں شائع ہو سکے گی۔
اگرآپ بذریعہ ڈاک اپنی تحریروں کو ارسال کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل پتے پر
ارسال کر سکتے ہیں۔
محبوب الہی مخمور
الہٰی پبلی کیشنز
واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372
95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان
ای میل: [email protected]
ختم شد۔
|