نبی کریم ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں کی پہلی جنگ یعنی غزوۂ
بدر کی قرآن حکیم میں منظر نگاری اس طرح کی گئی ہے کہ :’’ یاد کرو وہ وقت
جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور
قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے
درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر
جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا
تھا اسے ظہُور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک
ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے
والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ اس تمہید دو باتیں خاص ہیں اول تو یہ کہ عین وقت
پر دونوں فوجوں کا آمنے سامنے آجانا محض اتفاق نہیں تھا بلکہ رب کارساز
کی منصوبہ بندی کے مطابق تھا نیز اس معرکہ آرائی کا مقصد مستقبل میں قوموں
کی ہلاکت و حیات یا غلبہ وپسپائی کی کھلی دلیل فراہم کرنا تھا۔
آگے فرمایا :’’ اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمہارے خواب
میں تھوڑا دکھا رہا تھا، اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا
تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے،
لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا
ہے‘‘۔ اس آیت میں دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے نتیجے میں
حوصلوں کی پستی اور اختلاف و انتشارے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہےلیکن
دشمنانِ اسلام پر اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ اور یاد کرو
جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا
اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اُسے
اللہ ظہُور میں لے آئے، اور آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے
ہیں ‘‘ ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ میدانِ جنگ میں کس طرح ایک ہی شئے(صورتحال)
متصادم گروہوں پر متضاد اثرات مرتب کرتی ہے۔
معرکۂ جنگ کی طبعی اور نفسیاتی منظر نگاری کے بعد اہل ایمان کو کامیابی کی
اس شاہِ کلید سے نوازہ گیا کہ :’’ اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے
تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ
تمہیں کامیابی نصیب ہو گی‘‘۔ صبرو ثبات اور ذکر و فکر تو گویا کرنے کے کام
ہیں لیکن رکنے کی بابت یہ ہدایت فرمائی گئی کہ :’’ اور اللہ اور اس کے
رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا
ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر
کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس آیت آپسی تنازع سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے
اور اس کا اثر بے وزن ہوجانا بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ باہمی انتشار بچنے
کا واحد طریقہ یعنی اللہ اور رسولؐ کی برضا و رغبت اطاعت نہایت مختصر اور
جامع انداز میں بیان کردی گئی ہے۔ آخر اہل ایمان کو اس خوش کن بشارت سے
نوازہ گیا ہے کہ اگر سارا جہا ں دشمن ہوجائے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ
ہے۔
اہل ایمان کی طرح دشمنان اسلام کے اندر دوران جنگ پھوٹ پڑ جانے سے ان کی
بھی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ اترپردیش کے انتخابات میں اس کا خوش کن مظاہرہ ہورہا
ہے۔ اس موقع پر غیروں کے عادات و اطواراپنانے سے اجتناب کا حکم دیا گیا
ہے:’’ اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے
اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ
اللہ کے راستے سے روکتے ہیں جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر
نہیں ہے‘‘ یعنی معرکۂ حق و باطل میں اہل ایمان کی شانِ امتیاز قائم و دائم
رہنی چاہیے۔ جنگ اور انتخاب یقیناً دو مختلف چیزیں ہیں اس لیے ان کا من و
عن موازنہ غلط ہے لیکن دونوں میں تصادم اور اقتدار کو لاحق خطرات مشترک ہیں
۔ اس لیے دور ان انتخاب مذکورہ آیات میں اہل ایمان کے لیے صبرو ثبات سے
اپنے موقف پر جمے رہنے اور افتراق و انتشار سے بچنے کی ہدایت کے ساتھ اللہ
پرتوکل و اعتماد کی تلقین ہے بقول شاعر؎
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا تو قدرت کے حوالے کر
|