اپنے والد (محمد دلشاد خان لودھی ) کی یاد میں

 جنوری کے مہینے میں جب سردی سے میرا جسم کانپنے لگتا ہے تو اس لمحے مجھے والد کی یاد ستانے لگتی ہے ۔ میں اسے اﷲ کا کرم ہی کہوں گاکہ اس نے زندگی میں مجھے اس قدر آسانیاں عطا فرمائی ہیں جن کا عشر عشیر بھی والد مرحوم کی زندگی میں موجود نہ تھا ،پھر بھی انہوں نے جس بہادری اور دلیری سے اپنی زندگی گزاری بلکہ ہمیں بھی ہر لمحے ممکن حد تک تحفظ فراہم کیے رکھاجس پر میں انکو خراج تحسین پیش کیے بغیرنہیں رہ سکتا۔ میں جن دنوں کی بات کررہا ہوں اس زمانے میں پینے اور نہانے کا پانی بھی گھر وں سے دور کنوؤں سے اٹھا کر لانا پڑتا تھا جوسرد موسم میں اس قدر ٹھنڈا ہوتا کہ اسے دیکھ کر بھی دانت بجنے لگتے ۔ یہی وجہ تھی کہ سردیوں میں نہانے کے لئے ہمیں ریلوے کے اسٹیم انجن کی آمد کا انتظار کرنا پڑتا ،جب اسٹیم انجن سے گرم پانی ملتاتوہم اس گرم پانی کو بالٹیوں میں بھر کر خوشی خوشی گھر لے آتے اور گھر کے سبھی افراد اس سے غسل کرتے۔اس زمانے میں سردی اتنی پڑتی کہ گھاس پر جما ہوا کورا بھی صاف دکھائی دیتا تھا بلکہ والدہ کی آنکھ بچا کر جب ہم گھاس پر جمی ہوئی برف کو اٹھا کر ایک دوسرے کو مارتے تو دل خوش ہو جاتا ۔ والدہ کو جب ہماری اس حرکت کا علم ہوتا تو وہ بھاگی بھاگی اس مقام پر پہنچتیں جہاں ہم برف سے کھیل رہے ہوتے۔وہ ہمیں زبردستی پکڑ کر گھر لے آتیں اور جلتے ہوئے چولہے کے پاس بٹھا دیتیں۔اس وقت شاید لنڈے کی جرسیوں اور جیکٹوں تک ہماری رسائی نہ تھی ۔ہم لاہور سے 90کلومیٹر کے فاصلے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر قیام پذیرتھے جہاں میرے والد کیبن مین کی ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے ۔ریلوے اسٹیشن واں رادھا رام ( جو آجکل حبیب آباد ) کے نام سے مشہور ہے ، ریلوے ٹریک کے دونوں جانب اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر اجاڑ بیابان میں دو بلند و بالا کیبن ہوا کرتی تھیں ، جس میں لوھے کے لیوروں کے ساتھ کانٹے اور سگنل منسلک ہوا کرتے تھے ،جیسے ہی کسی ٹرین کی آمد کا سلاٹر بجتا تو کیبن مین کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ وہ کانٹے سیٹ کرے سگنل ڈاؤن کردیں ۔ گرمیوں میں تو پھر گزارا ہوجاتا تھا لیکن سردیوں میں لوھے کی تاریں اور کانٹے بھی انسانوں کی طرح سکڑ جاتے تھے جنہیں سیٹ کرنے اور سگنل ڈاؤن کرنے کے لیے ڈبل طاقت لگانا پڑتی تھی ۔چاروں طرف اندھیروں میں ڈوبی ہوئی کیبن پر رات کے بارہ بجے جب میرے والدکئی مرتبہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے ۔ وہاں پہنچ کرمجھے لکڑی کے پھٹوں پر لیٹا دیتے ۔ پھٹوں کے نیچے سے بھی یخ بستہ ہوا آتی اور کیبن کی کھڑکیوں کے اکثر شیشے ٹوٹے ہونے کی وجہ سے شاں شاں کرتی ہوئی سردیوں کی ٹھنڈی ہوا جب گزرتی تو انسان کو برف میں تبدیل کردیتی ۔والد صاحب مجھے اس لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے کہ جب صبح کے چار بجتے تو میرے جسم پر تیل کی مالش کرکے مجھے ڈنڈ بیٹھکیں نکالنے کے لیے کہتے ۔درحقیقت وہ مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے ۔ان دنوں پہلوانوں کا ہرطرف چرچا ہوا کرتا تھا۔ رات کے پچھلے پہر کھیتوں میں گیڈروں کی ہوکیں اور جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں جب فضا میں بلند ہوتیں تو خوف میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا لیکن قدرت نے میرے والد کو شیر کا دل عطا کررکھا تھا نہ وہ جنگلی جانوروں سے ڈرتے تھے اور نہ کسی بھوت پریت سے انہیں خوف آتا تھا ، کئی مرتبہ ان سے سامنا بھی ہوا تو پسپائی کا سفر مخالف فریق کو ہی طے کرنا پڑتا۔ میرے والد شیروں کی طرح ہر خطرے کا مقابلے کرنے کے لیے ہر لمحے تیار نظر آتے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ والدہ سے بھی زیادہ مجھے والد سے پیار تھا، میں اس وقت زیادہ خوش ہوتا جب والد میرے ساتھ ہوتے ، مجھے نیند بھی والد کے بغیر نہیں آتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ لاہور آئے تو یہاں انہیں دو تین دن رکنا پڑا ۔ میں نے ساری راتیں جاگ کر گزاریں۔ نہ خود سویا اور نہ کسی کو سونے دیا ۔والدہ میری اس کیفیت سے واقف تھیں ۔ایک مرتبہ والدصاحب مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر بذریعہ ٹرین لاہور آئے ۔ زندگی میں پہلی بار لاہور شہر مجھے اتنا خوبصورت دکھائی دیا جیسے یہ کسی جنت ارضی کا حصہ ہو ۔والد صاحب نے لنڈے اور نولکھا بازار کی بھی مجھے سیر کرائی اورمجھے پانچ روپے کی ایک پتلون بھی دلوائی جسے میں اعزاز کے ساتھ پہناکرتا تھا ۔اس وقت مجھے لاہور سونے کا شہر دکھائی دیتا تھا جہاں کی سڑکیں صاف او شفاف شیشے کی طرح تھیں ۔اب مستقل طور پریہاں رہنے سے وہ تصور تبدیل ہوچکا ہے زندگی نے اس وقت کروٹ لی جب والد صاحب نے اپنا تبادلہ لاہور کینٹ کروالیا۔یہ 1964 کی بات ہے۔ لاہور میں آئے ہوئے ہمیں56سال ہوچکے ہیں لیکن والد صاحب ہمیں شعور کی دنیا میں لاکر خود 19جنوری 1994ء کواس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والد اور والدہ کی تربیت ، ایثار اور دعاؤں کی وجہ سے ہوں۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 667583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.