بہت سے لوگوں نے علامہ اقبالؒ کایہ شعرضرورسناہوگا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی ،جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ،نہ ناری
یہ شعر ایک عالمگیر سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن بیشتر اس پریقین نہیں
رکھتے حالانکہ خدائے واحدنے آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں واضح کہاہے کہ
میں اس قوم کی حالت اس وقت نہیں بدلتا جب تک وہ خود کوشش نہیں کرتی یہ عملی
جدوجہد کی اتنی بڑی مثال ہے کہ اس کے آگے تمام باتیں ہیچ ہیں لیکن ایک فیشن
بن گیاہے کہ ہم لوگ اکثر یوروپی معاشرہ کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں کام کے
نہ کاج کے دشمن ناج کے حالانکہ دنیامیں تمام ترایجادات کاسہرا ان کے سرہے
اس معاشرے میں رہ کر ہی اس کے حسن کا ادراک ہوتاہے۔ بدقسمتی سے ہمارا
پرکھنے کا میعار صرف اور صرف مذہب ہے اور ہم پیدائشی طور پر خود کو سب سے
پاک تصور کرتے ہیں۔مغربی معاشرے میں ایمانداری،انسان دوستی،قانون کی حاکمیت
اور سادگی کی جو مثالیں ہیں وہ ہم سب کے لئے قابل ِ تقلیدہیں حالانکہ اس سے
بڑھ کر روشن مثالیں اسلامی تاریخ میں موجودہیں ہم ان پر عمل پیرا نہیں ہے
کچھ لوگ انہیں ماضی کے قصے قرار دیتے ہیں لیکن آج بھی مغربی دنیا میں قانون
کی حاکمیت مسلمہ ہے جس کا اسلامی ممالک میں شائبہ تک نہیں 1989ء کی بات ہے
لندن کے paddington پولیس اسٹیشن میں آدھی رات کے وقت کوئی اسکیورٹی الرٹ
ہوا۔ اسوقت عام پولیس افسر ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ چناچہ ایک کانسٹیبل نے اپنے
اسٹیشن کے انچارج کو فون پر اطلاع دی جو کہ ہمارے ڈی آئی جی لیول کا افسر
تھا۔ وہ اسی وقت آگیا اور بیٹھ کر معاملہ نبٹا کر اپنی گاڑی میں گھر روانہ
ہوگیا۔ ابھی وہ چند سو گز ہی دور گیا تھاکہ اسی پولیس کانسٹیبل نے آکر اس
کی گاڑی روکی اور اس باہر نکلنے کا کہہ کر اس کا breath test لیا جوکہ لیول
سے اونچا تھا۔ چناچہ اس کا چالان کیا اس کی گاڑی ضبط کی اور اسے ٹیکسی پر
گھر بھیجا اور اسے بتایا کہ جب تم باتیں کررہے تھے تو تمہارے منہ سے شراب
کی بو آئی اسلئے تمہیں آکر پکڑا ہے۔ اگلے دن پولیس آفیسر کو نوکری سے
استعفٰی دینا پڑا۔
یہ بھی تاریخ ہے کہ جب ٹونی بلیر برطانیہ کے وزیراعظم تھے تو ایک رات ان کا
بیٹا Leon لندن میں دوستوں کے ساتھ نشہ میں دھت کسی کو تنگ کر رہا تھا۔
پولیس اسی وقت آئی اور اسے گرفتار کرکے لے گئی۔ جب اس نے بتایا کہ میں وزیر
اعظم کا بیٹا ہوں تو انہوں نے رات دو بجے وزیراعظم کو فون کرکے تصدیق کی
اور کہا کہ چونکہ آپ کا بیٹا نابالغ ہے اس لئے کل صبح نو بجے آپ دونوں میاں
بیوی تھانے میں حاضر ہوں اور آپ کو بھی caution دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے
کہا کہ میں ابھی آجاتا ہوں لیکن پولیس افسر نے کہا کہ نہیں صبح نو بجے حاضر
ہوں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اگلی صبح وزیراعظم نے اپنے پروٹوکال افسر
کو کہا کہ پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے صبح نو بجے ذرا پولیس اسٹیشن جانا ہے
ڈرائیور کو بتا دو۔ پروٹوکال افسر نے کہا میرے پاس پروٹوکال کتاب کے مطابق
آپ صرف سرکاری کام کیلئے گاڑی استعمال کرسکتے ہیں اس کام کیلئے نہیں۔ چناچہ
ٹونی بلئیر اور انکی بیوی صبح بلیک کیب لیکر تھانہ گئے اور بیٹے کو گھر
واپس لیکر آئے۔ ایک مرتبہ ٹونی بلیر کی بیوی شیری بلئیر اپنی سہیلی کے ساتھ
ہالیڈے پر گئیں۔ واپسی لیوٹن ائیرپورٹ پر ہوئی اور وہاں سے لندن کی ٹرین پر
سوار ہوگئیں چونکہ ٹرین روانہ ہورہی تھی اس لئے وہ بغیر ٹکٹ کے سوار
ہوگئیں۔ برطانوی قانون کے مطابق اگر کوئی روانگی سے پہلے ٹکٹ نہ لے سکے تو
وہ گاڑی میں یا اتر کر دس پاؤنڈ جرمانہ ادا کرکے ٹکٹ خرید سکتاہے۔ ٹکٹ چیکر
آیا اور شیری نے دس پاؤنڈ جرمانہ ادا کرکے ٹکٹ لے لیا۔ اگلے دن تیسری دنیا
کے میڈیا میں طنزیہ لکھاہوا تھا کہ وزیر اعظم کی بیوی بغیر ٹکٹ پکڑی گئی
لیکن کسی کی نظر اس طرف نہ گئی کہ وزیر اعظم کی بیوی کو لینے کیلئے کوئی
پولیس یا گاڑی نہ تھی اور وہ اکیلی ٹرین پر واپس آئیں
1996 میں بکنگھم پیلس کے باہر ایک شخص برگر کا سٹال لگاتا تھا۔ ملکہ نے
شکایت کی کہ جب وہ پیاز تلتا ہے تو ان کی بدبو کھڑکیوں کے ذریعے ان کے بیڈ
روم میں آجاتی ہے اس لئے اس کو یہاں سے ہٹایا جائے۔ برگر والے نے انکار
کردیا۔ چنانچہ ملکہ کو اس کے خلاف عدالت میں جانا پڑا اور چھ سات ماہ کی
کاروائی کے بعد اس شخص کا ہٹانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان باتوں کا مقابلہ
ہمارے حکمرانوں سے کریں اور دیکھیں کہ ہماری ترقی کی راہ میں کون سی مشکلات
حائل ہیں پاکستان میں درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول لے کر سفر کرنے والے جب
امریکہ،برطانیہ،جرمنی و غیرہ کے نجی دوروں پر جاتے ہیں تو ان پر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
کا شعر صادق آتاہے اپنے ملک میں ان کا فرعونی مزاج اور رعونت دیکھنے کے
لائق ہوتی ہیں جب دنیا کے ایک عظیم فاتح خلیفہ ٔ دوئم حضرت عمرِ فاروق بیت
المقدس کی چابیاں لینے کے لئے گئے تو ان کے لباس میں22پیوند لگے ہوئے تھے
اور اس سے بھی عجیب کہ اوٹنی پر غلام سوار تھا جس کی مہار خلیفہ ٔ وقت نے
تھامی ہوئی تھی۔پاکستان ہویابھارت،بنگلہ دیش یا کوئی اور ترقی پذیرملک
ہرجگہ ایک جیسا مائنڈ سیٹ رکھنے والے حکمران مسلط ہیں پاکستان عوام کی محبت
کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں جن کے پاس لاہور کے علاوہ
میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سوایکڑوں پر مشتمل محلات ہیں میاں
نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹاؤن ،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ،
جاتی عمرہ میں تو مربعوں پرمحیط فارم، اوروسیع و عریض گھر۔۔ اسی طرح سابقہ
صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی ،لاہور،دئبی اور فرانس میں عالیشان محلات
ہیں چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ
ممالک میں گھرموجود ہیںMQMکے قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس
اور شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے سب
قومی رہنماؤں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا لیکن اس
کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں سب میں کوئی فرق نہیں ہے؟
بھارت،بنگلہ دیش کے حکمران بھی ایسے ہی ہیں ایک جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے
ایک جیسا اندازِ حکمرانی ۔ مگرمزے کی بات یہ ہے کہ ہرکوئی باتیں کرکے من
موہ لینے کا ہنرجانتاہے عمل کوئی کرتا فیصلہ تو ہوچکا کہ عمل سے زندگی بنے
گی خواہ جنت بنالویاجہنم دوسرا آپشن نہیں ہے اب یہ غریبوں پر منحصرہے کہ وہ
کیا چاہتے ہیں ۔
|