آجکل جیسے ہر چیز کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ( بیشک کوئی
ادارہ اٹھا کے دیکھ لیجیے یا کسی نظام پر نظر ڈال لیجیے،ابتری اور تنزلی ہی
نظرآئے گی )۔ بالکل ویسے ہی ہمارا اپنا بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اس
بگاڑ کی وجہ کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا
ہے کہ :-
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
شاعر مشرق علامہ اقبال نے تو یہ مصرعہ غلامی میں جکڑے مسلمانوں کے لیے کہا
تھا لیکن یہ آج کے آزاد مسلمانوں پر بھی بالکل صادق آتا ہے۔ کیونکہہماری
خودی ایک دفعہ پھر قریب المرگ ہو چکی ہے۔ ہماری 'میں'، جسے اقبال نے خودی
کہا، انا کے بھنور میں اس قدر پھنس چکی ہے کہ اسنے صحیح اور غلط کے سارے
فرق مٹا دئیے ہیں۔یہ میں ہمیں کہتی ہے کہہمیشہ میں ہی ٹھیک ہوں اور دوسرے
غلط۔یہ میں کہتی ہے کہ سب کچھ میرے پاس ہونا چاہئے چاہے اس کے لیے کوئی بھی
حد کیوں نہ پار کرنی پڑے۔یہ میں کہتی ہے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے
دوسروں کے آرام و سکون کا خیال رکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ میں کہتی ہے
کہ مجھے ہر میدان میں سب سے آگے ہونا ہے چاہے اس کے لیے دوسرے کو روند کے
کیوں نہ جانا پڑے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ سوچیں! صبح دفتر کے
لیے دیر ہو رہی ہے، آپ جلدی سے تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ وقت پر پہنچنے کی
کوشش میں آپ ٹریفک قوانین کو بلائےطاقرکھتے ہوئے انتہائی تیزی سے منزل کی
جانب رواں ہیں کہ اچانک ایکغلط ٹرن لیتے ہوئے آپ کی گاڑی دوسریگاڑی سے ٹکرا
جاتی ہے. بس یہیں سے انا کا اصلکام شروع ہوتا ہے۔ آپ غصے میں گاڑی سے نکلتے
ہیں۔غلطی آپکی ہے لیکن آپ اپنی غلطی کو نظرانداز کرتے ہوئے الٹا چور کوتوال
کو ڈانٹے کے مصداق طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں اور بات گالم گلوچ سے
ہوتے ہوئے مار کٹائی تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ کی 'انا' آپ کو اس بات کی اجازت
نہیں دے رہی کہ آپ اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لیں۔ ہم میں سے اکثر و
بیشتر کا یہی المیہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطی ماننا اور پھر مقابل سے معافی
مانگنا سوہان روح لگتا ہے۔ اس کے برعکس اپنی غلطی کو مختلف توجیہات دے کر
دوسروں کے حصے میں ڈال دینا نہایت آسان۔ اسی رویے نے ہمارے اندر برداشت کے
مادے کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ ہم سے چاہے جتنی بڑی غلطی سرزد ہو جائے ہم
اول تو مانیں گے نہیں لیکن اگر اپنی غلطی کا ادراک ہو جائے تو معافی مانگنے
کے بجائے دوسرے کو بھی ساتھ مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ لیکن کیا ہمارے
اکابرین، ہمارےصحابہ کا بھی یہی رویہ رہا ہے؟ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کی سیرت طیبہ نے بھی اسی روش کا درس دیا؟خلیفہ دوم امیرالمومنین
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کون واقف نہیں۔ ایک رات آپ رضی
اللہ عنہ مدینہ کی گھاٹیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے کسی کی بیہودہ
الفاظ کے ساتھ گانے کی آواز آئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فورا گھر کی دیوار
پھلانگی اور فرمایا: اے خدا کے دشمن! تیرا کیا خیال ہے کیا تیرا گناہ خدا
تعالٰی سے چھپ سکتا ہے؟ اس آدمی نے کہا: امیرالمومنین جلدی نہ کیجئے! اگر
میں نے اللہ تعالٰی کی ایک نافرمانی کی ہے تو آپ نے تین نافرمانیاں کی ہیں۔
ایک تو آپ نے ٹوہ لگائی جبکہ ارشاد باری ہے " ٹوہ مت لگاؤ(الحجرات :١٢) "
دوسرا آپ دیوار پھلانگ کے آئے جبکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا "گھروں میں ان کے
دروازوں سے آؤ(البقرة :١٨٩) " اور تیسری نافرمانی آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کی
کہ آپ بلااجازت گھر میں داخل ہوئے جبکہ ارشاد ربانی ہے"کسی کے گھر طلب
اجازت کے بغیر داخل نہ ہو اور ان کو سلام کرو( النور : ٣٩) " ۔ آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا کیا میرے ساتھ نیکی کرو گے اگر تم مجھے معاف کر دو؟ اس آدمی
نے کہا کہ ہاں میں معاف کرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو چھوڑ دیا
اور وہاں سے چلے گئے (بحوالہ کتاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ١٠٠ قصے،
مؤلف شیخ محمد صدیق منشاوی، مترجم مولانا خالد محمود صاحب )۔
سوچ کے دائرے کو تھوڑا اور وسیع کیجئے اور سوچیں! کیا کوئی ایسا ہے جس نے
آپ کے ساتھ کبھی کچھ برا کیا ہو۔ لازمی ہو گا، اگر کبھی وہ آپ کے سامنے آ
جائے اور آپ کے پاس پورا اختیار اور طاقت ہو اس سے انتقام لینے کا تو آپ
کیا کریں گے؟وہ آپ سے اظہار ندامت کر رہا ہے تو کیا آپ اسے معاف کریں گے؟
ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو معاف کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ بلکہ
ہمارا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ ہم نے معافی کو بزدلی کا نام دے دیا ہے۔ معاف
کرنا تو صفت الہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے فرمایا " (مظلوم ہونے
کی صورت میں اگرچہ تم کو بدگوئی کا حق ہے )لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں
بھلائی ہی اختیار کئے جاؤ ہا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ کی صفت
بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت
رکھتا ہے (سورة النساء :١٤٩) "۔ اللہ تعالٰی نے اس ایک آیت میں ہمیں زندگی
گزارنے کا بہترین طریقہ بتا دیا لیکن! ہم کیا کر رہے ہیں؟ فتح مکہ کی مثال
تو ہم سب کے سامنے ہے۔اس کے لیے تو کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔ کیسے کیسے لوگ
اس دن معاف کئے گئے۔ کیا اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا بدلہ لینے پر
قادر نہیں تھے؟ کیا اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو اس
لیے معاف کیا کیونکہ وہ نعوذ باللہ بزدل تھے؟ نہیں! ان ستم گروں کو پورے
طاقت اور اختیار کے باوجود معاف کیا گیا. تو ہم جو ان کے قدموں کی خاک بھی
نہیں کیوں نہیں معاف کرتے۔ ہر وقت بدلہ اور انتقام کی آگ میں جلتے موقع کی
تاک میں کیوں رہتے ہیں۔اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ برائی کو
بھلائی سے رفع کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن ہماری انا نے چھوٹی چھوٹی باتوں
کو سبب بنا کے ہمیں اپنے پیاروں سے بھی اس قدر دور کر دیا ہے کہ ہم ان کی
شکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ سوچیں! ہماری کتنی رنجشیں، تلخیاں اور ناراضگی
صرف ہماری ایکپہل سے ختم ہو سکتی ہیں ۔ لیکن ہم ' آج کل تو بھلائی کا زمانہ
ہی نہیں 'کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
یہ توہماری انا کے بگاڑ کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ مگر یہی چھوٹی چھوٹی
باتیں بڑے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ کوئی پھی پیدائشی مجرم نہیں ہوتا۔ یہ انا
کے بھڑکتے شعلے ہی ہیں جو اسے سب جھلسا دینے پر ابھارتے ہیں۔ سوچیں!اگر ہم
معاف کرنا سیکھ لیں تو انتقام کی آگ میں پنپتے کتنےجذبے دم توڑ جائیں
گے۔اگر ہم اپنی غلطی ماننا سیکھ لیں تو بہت سی غلطیوں کے قدم تو ہم خود روک
دیں گے کیونکہ تب ہمیں پتہ ہو گا کہ ہم اپنی غلطی کے جواب دہ ہیں۔ اور جب
ہم اپنی غلطی کے جواب دہ ہونے لگ گئے تو رشوت، سفارش، غبن اور قتل جیسے
گناہ خودبخود دم توڑنے لگیں گے۔لیکن ہم اپنی انا کے دھاگوں میں اس قدر الجھ
کے رہ گئے ہیں کہ ہم صرف دوسروں کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔یہ انا ہمارے وجود
میں اسقدر سرائیت کر چکی ہے کہ ہماپنی اقدار، اپنی روایات بھولتے جا رہے
ہیں۔ ہمیں اپنی انا کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ہمیں دوسروں کا احتساب
کرنے کے بجائے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ہمیں عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود سے
آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی میں، اپنی خودی کو انا کے بھنور سے
نکالنے کی ضرورت ہے۔ یقین مانیں! اگر ہم سب اپنی غلطی ماننا، معافی مانگنا
اور معاف کرنا سیکھ لیں تو ہمارے بہت سے بگڑے کام سنور جائیں گے۔ ورنہ جس
بگاڑ کا شکار ہمارا یہ معاشرہ ہو چکا ہے انا کی یہ الجھنیں اسے ختم کرنے
میں دیر نہیں لگائیں گی۔
(مبینہ علی)
|