ایک کالم بہنوں کے نام

ان کالہجہ دیکھیں اوربات کرنے کی تمیز،یہ ہروقت موبائل سے کھیلتی رہتی ہیں،انہیں مریضوں کی کوئی فکرہے اورنہ کوئی پرواہ،یہ ہزاروں کی تنخواہیں لے رہی ہیں لیکن کام ایک ٹکے کابھی نہیں کرتیں۔یہ اوراس طرح کی دیگرباتیں ان کے بارے میں ہم نے نہ صر ف دوسروں سے بار بارسنی بلکہ کئی بارخودبھی ارشادفرمائی اورہزاربارفرمائی ۔بہت سے لوگ تو آج بھی ان کے بارے میں اسی طرح کے نظریات وخیالات رکھتے ہیں۔ہم مانتے ہیں کہ ان کے ہاں بھی نکمے،کام چور اوربرے لوگ ہوں گے۔جس طرح ہرگھراوردرپرنیک،پرہیزگاراوراچھے لوگوں کے ساتھ بداخلاق،بدتمیز،برے اورگناہ گارپائے جاتے ہیں اسی طرح ان میں بھی اچھے ،نیک اورخدائی خدمتگاروں کے ساتھ بداخلاق اوربرے لوگ ہوں گے لیکن شمارکے ان چندبرے اورگناہ گاروں کی وجہ سے جس طرح کسی پورے خاندان،گھر،محکمے،ادارے اورمعاشرے کوبداوربرے کانام نہیں دیاجاسکتااسی طرح ان چندکی وجہ سے ان خدائی خدمتگاروں کوبھی مجرم اورگناہ گارقرارنہیں دیاجاسکتا۔پھران کاشعبہ اورپیشہ توایساہے کہ جس کے بارے میں ہمیشہ کہاجاتاہے کہ خدمت سے خدابھی ملتاہے۔جن کوخدامل جائے ان کوپھراورکیاچاہئیے۔؟کمی پیشی ہرانسان سے ہوتی ہے۔یہ بھی انسان ہیں کوئی روبوٹ نہیں کہ ان سے کوئی غلطی سرزدنہ ہو۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم انسانوں کی خامیوں،کوتاہیوں اورگناہوں کوتوگھورگھورکردیکھتے ہیں لیکن ان کی اچھائیوں اوربھلائیوں پرہماری نظرنہیں پڑتی۔کراچی سے گلگت ،لاہورسے کشمیراورکاغان سے چترال تک سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت پرماموران نرسزکی غلطیاں اورکوتاہیاں توہم سب دیکھ اورگن رہے ہیں لیکن جن مشکل حالات میں جس تکلیف اورپریشانی میں یہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اس کاہمیں کوئی احساس ہے اورنہ ہی کوئی خیال۔ہمارے ہاں عام طورپرڈاکٹرزکوہی مسیحاکانام دیاجاتاہے اوردینابھی چاہئیے ۔ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں ۔بلاکسی شک وشبہ کے ڈاکٹرزمسیحابلکہ کچھ ڈاکٹرتومسیحاسے بھی بڑھ کرہوتے ہیں لیکن ڈاکٹرزکے ساتھ یہ بے چاری نرسیں بھی توکسی مسیحاسے کم نہیں ہوتیں۔اگردیکھاجائے توزخموں پراصل مرہم ہی تو یہ نرسزرکھتی ہیں۔ڈاکٹرزتومریضوں کامعائنہ اورراؤنڈکرکے چلے جاتے ہیں پیچھے پھریہی نرسیں ہی ہوتی ہیں جوصبح سے شام اورپھرشام سے صبح تک مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں۔ہم نے کروناوباء کے دوران ان نرسزکوبہت قریب سے موت سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ایک ایسے وقت میں جب کروناکے مریضوں سے بیگانے کیا۔؟اپنے بھی دوربھاگ رہے تھے ،غیرکیا۔؟اپنے خونی رشتہ داربھی ان سے ہاتھ لگانے کے لئے تیارنہیں تھے ۔اس مشکل اورکڑے وقت میں بھی یہی وہ نرسیں تھیں جوجان کوہتھیلی پررکھ کرکرونامریضوں کی دیکھ بھال اورخدمت کافریضہ ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے رہی تھیں۔موبائل،کام چوری،بداخلاقی اوردیگرحوالوں سے ہمارے گلے اورشکوے توان نرسزسے شائدازل سے ہیں جوغالباًابدتک جاری رہیں گے لیکن ان نرسزکے بھی ہم اورہمارے اس معاشرے سے ایک دونہیں بہت سارے گلے اورشکوے ہیں ۔کراچی سے گلگت تک ملک کی ساری نرسزعالم خاموشی میں آج بھی یہ کہتی جا رہی ہیں کہ تم نے توہمیشہ ہمارے بارے میں کہااورسنالیکن ،،کاش کہ تم نے ہم سے بھی کچھ سناہوتا،،۔کچھ دن پہلے ہزارہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد میں نرسزایسوسی ایشن کی عہدیدارمحترمہ فرحت نازسے ملاقات کے دوران اس کی ساتھی نرسزنے عوامی برتاؤ،رویے اورسلوک پر جوگلے اورشکوے کئے اس پرکم ازکم میرے پاس افسوس کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔سوچتاہوں ہماری یہ مائیں ،بہنیں اوربیٹیاں برسوں سے دن رات ایک کرکے انسانیت کی بلاتفریق خدمت کررہی ہیں لیکن اس کے بدلے میں ہم نے بدتمیزی،لڑائی،جھگڑوں اورگالیوں کے ان کوکیادیا۔؟اﷲ نہ کرے کسی ہسپتال میں نرس سے کوئی چھوٹی سی غلطی سرزدہوجائے توہم پورے ہسپتال کوسرپراٹھالیتے ہیں۔کیاہمارے گھروں میں ہماری مائیں ،بہنیں اوربیٹیاں نہیں۔؟کیاہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں سے کبھی غلطیاں نہیں ہوتیں۔؟ کیاہم نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی سوچاکہ سرکاری ہسپتالوں میں دن رات خدمات سرانجام دینے والی یہ نرسیں بھی آخرکسی کی ماں،کسی کی بہن اورکسی کی بیٹیاں ہونگی۔بوڑھے ماں باپ اورچھوٹے بہن ،بھائیوں اوربچوں کوگھروں میں چھوڑکرہماری یہ بہنیں اوربیٹیاں صرف اس لئے سرکاری ہسپتالوں میں آتی ہیں کہ یہ مریضوں کی کوئی خدمت اوردیکھ بھال کرسکیں۔انہیں اپنوں کی شادی بیاہ کاکوئی پتہ چلتاہے اورنہ ہی اپنوں کے جنازوں کی ان کوکوئی خبرہوتی ہے۔ان کااکثروقت ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ہی گزرجاتاہے ۔سردی ہویاگرمی،روزے ہوں یاعید،آزادی کاجشن ہوں یااپنوں کاکوئی ماتم،ان کے لئے ہرحال میں ہسپتال پہنچنااورمریضوں کی دیکھ بھال کرنالازمی اورضروری ہوتاہے۔کروناجیسی وباء کے دوران بھی جہاں ایک وقت میں سرکارکی جانب سے ہرفردکاگھرتک محدودرہنافرض کردیاگیاتھااس وقت بھی ہسپتال پہنچنااورڈیوٹی سرانجام دیناان کے لئے فرض عین قراردیاگیاتھا۔یہ نرسیں ہمارے کل کے لئے اپناآج قربان کررہی ہیں۔ہمیں نئی زندگی دینے کے لئے یہ اپنی زندگیاں تک داؤپرلگارہی ہیں لیکن اس کے مقابلے یابدلے میں ہم نے ان کوگالم گلوچ کے سواکیادیا۔؟تم کوئی مفت میں کام نہیں کررہی ہو،حکومت آپ کوہزاروں کی تنخواہ دے رہی ہے۔یہ جملہ توگویاایجادہی ان بے چاریوں کے لئے ہواہے۔کیانرسزکے علاوہ اورلوگ سرکارسے بھاری تنخواہیں نہیں لے رہے۔؟کیاکبھی کسی نے کسی ایس ایچ اوسے کہاکہ تم کوئی مفت میں کام نہیں کررہے ہو،سرکارآپ کوبھاری تنخواہ دے رہی ہے۔ یہاں توجن کوگھرمیں بھی کوئی نہیں پوچھتاوہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں جاکران نرسزپرپھراپناحکم جھاڑنے لگتے ہیں۔واﷲ ان نرسزسے اپنے رویے اورسلوک کودیکھیں توافسوس بہت ہی افسوس ہوتاہے ہماری نظروں اورکتابوں میں تو اب اورآج بھی ان سے زیادہ بداخلاق ،بدتمیزاورکام چوراورکوئی نہیں۔جوبداخلاق،جوبدتمیزاورجوکام چورہیں آپ ایک نہیں ہزاربارانہیں برابھلاکہیں،انہیں روکیں اورٹوکیں لیکن خدارااقلیت کے نام پراکثریت کواپنی منافقت کانشانہ نہ بنائیں۔ہسپتالوں میں اگرسہولیات نہیں ،اگرادویات نہیں تواس میں ان نرسوں کاکیاقصور۔؟آپ یقین کریں جس طرح معاشرے میں آپ کی عزت ہے اس سے کہیں زیادہ عزت اس ملک اورمعاشرے میں ہماری ان ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی بھی ہے۔آپ ہسپتالوں میں خدمات سرنجام دینے والی اپنی ان ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کی غلطیوں کی اصلاح ضرورکریں لیکن ہرمعاملہ اورہرذمہ داری ان کے سرنہ تھونپیں۔یہ بھی آخرہماری مائیں ،بہنیں اوربیٹیاں ہیں۔جس طرح کی عزت آپ اپنی سگی ماں،بہن اوربیٹیوں کودیتے ہیں اسی طرح کی عزت عوام کی خدمت کرنے والی قوم کی ان ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کوبھی دیں کیونکہ ہم جس اسلام کے نام لیواہیں اس اسلام کایہی حکم ہے۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.