ظریفانہ: ٹیلی پرامپٹر کی کہانی جمن کی زبانی

زعفرانی چائے خانے پر للن بھگت نے کلن خان سے پوچھا کیا تم نے پردھان جی کی نئی ویڈیو دیکھی ؟
کلن نے کہا یار تمہارے پردھان جی کے پاس کوئی اور کام تو ہے نہیں اس لیے ہر روز دوچار ویڈیوز چلی آتی ہیں ۔ اب کتنی دیکھیں ؟ کوئی کام نہیں ہے کیا؟
دیکھیے کلن بھیا ہمارا تو یہی کام ہے کہ ان کی ویڈیو دیکھیں ۔ اسے لائیک اور شیئر کریں ۔ اس لیے ساری ویڈیو ز دیکھنی پڑتی ہیں ۔
اچھا لیکن ویڈیو دیکھنے سے پیٹ بھی بھر تا ہے کیا؟
للن بولا دیکھنے سے تو نہیں لیکن دوسروں کو بھیجنے کے پیسے ملتے ہیں۔ آج کل کوئی روزی روزگار تو ہے نہیں اسی پر گزارہ ہورہا ہے۔
کلن نے کہابھئی بہت اچھا کاروبار ہے لیکن یہ بتاو کہ تم کس دلچسپ ویڈیو کا ذکر کررہے تھے ؟
للن نے کہا ارے بھائی کاہے کی دلچسپ وہ تو سارا کباڑاہو گیا ۔
کیسا کباڑا میں نہیں سمجھا ۔
وہی پہلے تو پردھان جی ہکلانے لگے میں نے خوش ہوکر ویڈیو بند کردیا بعد میں جب بھیجنے کے لیے کھولاتو میسیج تھا کہ اسے کسی کو نہ بھیجا جائے۔
ارے بھائی اچھا ہی ہوا جو تم دوسروں کو بھیجنے کی زحمت سے بچ گئےاور ان کو دیکھنے کی زحمت سے نجات ملی ۔
کیا خاک اچھا ہوا؟ نہ ویڈیو جائے نہ پیسہ آئے بیٹھے بٹھائے نقصان ہوگیا ۔
کلن نے پوچھا لیکن اس میں تمہاری کیا غلطی جو تمہارا خسارہ ہوگیا ۔
جی ہاں یہی تو میں کہتا ہوں کہ ہکلائیں پردھان جی اور نقصان اٹھائیں ہم ! یہ کہاں کا انصاف ہے؟
لیکن تمہارے پردھان تو بولیٹ ٹرین کی رفتارسے بولتے ہیں ۔ ان کی زبان پر کوئی لگام نہیں لگا سکتا ۔ ایسے میں ہکلانا کیا معنیٰ کسی سے ڈر گئے تھے کیا؟
کون جانے کیا ہوا؟ پردھان جی سامنے ہوں تو سسرا کیمرا کسی کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرتا ؟ اور وہ نہ دیکھے تو ہم کیسے دیکھیں کہ کون آیا کون گیا؟
یہ بات تو ہے لگتا ہے بابا جی سامنے آگئے ہوں گے اسی سے ڈر گئے تمہارے پردھان جی ۔ آج کل وہ ان سے بہت گھبراتے ہیں ۔
لیکن باباجی تو انہیں کے آدمی ہیں ۔ ان سے کیسا ڈر؟
ارے بھائی دوہرا خوف ستاتا ہے ۔ وہ ہار جائیں تو کرسی کو خطرہ اور جیت جائیں تو چیلنج کا ڈر۔
للن بولا ارے نہیں بھیا وہ اپنے اترپردیش کی چناوی سبھا تھوڑی نہ تھی ۔ وہ تو کوئی انٹرنیشنل میٹنگ تھی ۔
کلن نے کہا اچھا ! ابھی یاد آیا ۔ وہ ڈاووس کی بین الاقوامی سربرا ہ کانفرنس رہی ہوگی ۔ وہ اسی سے خطاب کرنے والے تھے ۔
ہاں ہاں ایسا ہی کچھ کہا جارہا تھا سوئزرلینڈ اورڈاووس وغیرہ وغیرہ ۔یاران کے ہکلانے سے ہم شرم سے پانی پانی ہوگئے ۔ بہت برا لگا قسم سے ۔
یارمیری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پنوتی ڈاووس کانفرنس میں پردھان جی کیوں جاتے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی وہاں بہت بڑی گڑ بڑ ہوچکی ہے ۔
للن نے سوال کیا اچھا تو کیا ہوا تھا وہاں ؟
انہوں نے کہہ دیا تھا ہندوستان کی تاریخ پہلی بار 600 کروڈ لوگوں نے انہیں انتخاب میں کامیاب کیا ہے۔
للن بولا 600 کروڈ؟ کہیں پردھان جی بھنگ پی کر تو نہیں بول رہے تھے ؟ ملک کی کل آبادی 138 کروڈ ہے ۔
جی ہاں اور اس میں نصف ووٹرس ہے ان میں 50 فیصد ووٹ دیتے ہیں جو کئی پارٹیوں میں بنٹ جاتے ہیں۔
جی ہاں اس کے باوجود انہیں 600کروڈ ووٹ مل گئے!یار غضب کی حماقت ہے۔
کلن بولا دیکھو تم ہی لوگ تو کہتے تھے کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ جب سب کچھ ممکن ہے تو یہ کیوں نہیں؟
دیکھو بھائی کلن ہم دوسروں کو تو بیوقوف بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن خود کوکیسے بنائیں؟
کلن بولا وہ دیکھو سامنے سے جمن شیخ آرہے ہیں ان سے پوچھو کیا قصہ ہے؟
جمن ان دونوں کے سامنے بیٹھ گیا اور تین چائے کا آرڈر دے کر پوچھا کیوں بھائی کیا کھسر پھسر چل رہی ہے؟
للن نے کہا تم بھی بہت خوش دکھائی دے رہے ہو بنا تقاضہ چائے بول دی کیا بات ہے ؟
جمن بولا بھائی آج تو ہمارے راہل نے ایسی چٹکی لی کہ دل خوش ہوگیا۔ اسی لیے چائے پلارہا ہوں ۔
کلن نے پوچھا ارے بھائی ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ کون سی چٹکی لی اور کسے؟
جمن بولا وہی تمہارے پردھان کے لی ہے اور کسے؟ تبھی تو مزاآتا ہے ؟؟
یار دیکھو وہ پورے دیش کے پردھان ہیں ان کی تضحیک دیش کی توہین ہے؟
کلن بول پڑا یار یہ بات تو تم انہیں سمجھاو کہ وہ دیش کے پردھان ہیں۔ وہ کبھی تو ممتا سے بھڑ جاتے ہیں اور کبھی اکھلیش سے پنجہ لڑانےلگتے ہیں۔
جمن بولا یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ جس انسان کو خود اپنے وقار کا خیال نہ ہو اس کا احترام کوئی اور کیسے کرسکتا ہے؟
للن نے وکالت کرتے ہوئے کہا کیا کریں انتخابی مجبوری کے تحت کرنا پڑتا ہے۔
جمن بولا میں نہیں مانتا۔ تمہاری پارٹی باباجی کو ملک بھر میں الیکشن جیتنے کے لیے بھیجتی تھی تو کیا اب وہ اپنے بل پر یوپی میں نہیں جیت سکتے ؟
للن پھنس گیا تو بات بناتے ہوئے بولا اچھا ہمارے بابا اور دادا کو چھوڑو اپنے پپو کی چٹکی بتاو۔
جمن نے کہا ارے ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا۔ راہل نے کہا اتنا جھوٹ کہ انسان تو دور ٹیلی پرامپٹر بھی برداشت نہیں کرسکا۔
للن نے پوچھا یہ ٹیلی پرامپٹر کیا ہوتا ہے؟
وہی جس پر لکھی تحریر دیکھ کر تمہارے پردھان تقریر پڑھتے ہیں؟
کلن نے حیرت سے پوچھا پردھان جی تقریر پڑھتے ہیں؟ وہ فی البدیہہ خطاب نہیں فرماتے ؟ یہ تو حیرت انگیز انکشاف ہے۔
للن بولا یہ ان لوگوں کا پروپگنڈا ہے ۔ پردھان جی تو 56؍ انچ کا سینہ تان کر راجدھانی کی رفتار سے بولتے ہیں۔
جمن نے کہا اچھا تو تم نے ڈاووس کے اجلاس میں نہیں دیکھا جیسے ہی ٹیلی پرامپٹر بند ہوا، پردھان جی کی ہکلانے لگے سٹی پٹی گم ہوگئی اور خطاب بند کردیا ۔
کلن نے کہا لو سنو للن مل گیا تمہارے سوال کا جواب ؟ اب تو سمجھ میں آگیا کہ کیا ہواتھا ؟
للن بولا ہاں کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے لیکن اپنے اناو میں تو فر فر بول رہے تھے اور ان کے سامنے کچھ نہیں تھا ۔
ارے بھائی اناو میں تم جیسے بھگت آنکھ موند کر سن رہے تھے اور گودی میڈیا کان بند کرکے نشر کررہا تھا اس لیے پردھان جی خوب پھینک رہے تھے۔
للن نے پوچھا اور ڈاووس میں کیا ہوگیا ؟
وہاں دنیا بھر کے لوگ اور عالمی میڈیا تھا ۔ اس لیے جو لکھ کردیا گیا تھا وہی پڑھ رہے تھے کہ بیچ میں مشین بند ہوگئی اور سارا کھیل بگڑ گیا ۔
کلن بولا اچھا تو اب سمجھا جب پھینکنا ہوتو دل کھول کر پھینکو اور سچ بولنا ہو تو پرامپٹر کھول کر پڑھو ۔ یہ ہے فنڈا؟
موقع کا فائدہ اٹھا کر للن بولا دیکھا بھائی کلن پچھلی بار لکھنے والوں نے 600 کروڈ لکھ کر دے دیا ہوگا تو اس میں ہمارے پردھان جی کا کیا قصور؟
کلن نے کہا کیوں پردھان جی نے اپنی عقل چائے کے ساتھ بیچ دی ہےکیا؟ وہ خود بھی تو سوچ سکتے ہیں کہ 600 کروڈ ووٹ ان کو کیسے مل سکتا ہے؟
جمن بولا چھوڑو بھیا یہ تو ان کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہانگ کانگ کے انٹرویو میں بھی اسی طرح کا تماشاہوگیا ۔
للن نے پوچھا اچھا وہ کیا چکر تھا مجھے تو ٹیلی ویژن پر اس کی بھنک بھی نہیں ملی ؟
جمن بولا ارے بھائی گودی میڈیا اسے بتانے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟ ان کی روزی روٹی کا سوال ہے۔
کلن نے کہا بھائی آج کل تو وہی لوگ ملائی کھارہے ہیں لیکن ہوا کیا تھا یہ تو بتاو؟
وہ ایسا ہے کہ ان سے ایشیا کی ترقی کے بارے میں سوال کیا گیا جواب سے پہلے ٹیلی پرامپٹر نے صفحہ پلٹ دیا اور پردھان جی نے ادھورا جواب سنا دیا۔
للن بولا پردھان کی مرضی وہ پورا جواب دیں یا آدھا؟ وہ آزاد ملک کے آزاد پردھان ہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں سے چھوٹی موٹی غلطی ہوجاتی ہے۔
جمن نے کہا جی ہاں لیکن ان کے غلام مترجم نے پورا جواب پڑھ کر سنا دیا جس سے بڑی فضیحت ہوگئی۔
کلن بولا تو کیا وہ بھی اکشے کمار کے انٹرویو کی طرح ملی جلی نورا کشتی تھی؟
جمن بولا اور نہیں تو کیا ؟پردھان جی ریہرسل کے بغیر کچھ بول نہیں سکتے اور اس میں بھی گھپلا ہوجاتا ہے ۔ وہ سکندر اعظم کو بہار پہنچا دیتے ہیں۔
کلن نے تائید کی سو تو ہے لیکن ان کی غلطیوں کا خمیازہ اپنے للن کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس بیچارے کا نقصان ہوجاتا ہے۔
جمن نے مسکرا کر کہا میں سمجھ گیا لیکن اس للن کا حال بھی ناکام عاشق کا سا ہے ۔
للن چونک کر بولا ناکام عاشق ! اچھا تو ہمارا معشوق کون ہے؟
وہی تمہارے پردھان جی اور کون ؟
للن نے سوال کیا لیکن اس کا ٹیلی پرامپٹر کی خرابی اور ہمارے نقصان سے کیا تعلق؟
جمن بولا تم نہیں سمجھوگے۔ اس کے لیے ارد و شاعری سے شغف ضروری ہے۔
کلن نے کہا مجھے شاعری کا بہت شوق ہے۔ تم مجھے بتاو میں اس کو آسان زبان میں سمجھا دوں گا ۔
جمن بولااچھا تو یوں سمجھ کہ پردھان جی کے حسن بیان کی تاب نہ لاکر ٹیلی پرامپٹر اسی طرح بگڑ گیا جیسے معشوق کی انگڑائی سے آئینہ ٹوٹ جاتاہے۔
کلن نے سوال کیا اچھا لیکن جب مودی جی کے خطاب میں رکاوٹ آئی تو یہ احمق خوش ہوگیا ۔
جمن بولا اس میں حیرت کی کیا بات ہے کیونکہ ابتداء میں عاشق بھی اپنے معشوق کی خوبصورتی سے مسرور ہوکر جھوم اٹھتا ہے ۔
کلن نے پھر پوچھا لیکن اب یہ اپنے آپ کوس رہا ہے؟
جمن نے جواب دیا جی ہاں عاشق کو جب شیشے کی کرچیں چبھتی ہیں اور اسے نیا آئینہ خریدنا پڑتا ہے تو وہ غمگین نہیں تو کیا خوش ہوگا؟
للن جھنجھلا کر بولا اب یہ ٹیلی پرنٹر کی بحث تم لوگ بند بھی کروگے یا نہیں ؟ آخر میرے زخموں پر کتنی نمک پاشی ہوگی ؟کیا میں چلا جاوں ؟
جمن بولا بھائی دلآزاری کے لیے معافی چاہتا ہوں لیکن دوستی یاری میں یہ چلتا ہے۔
کلن بولا جمن کی اس بات پر چائے کا ایک اور دور ہوجائے۔ یہ میری طرف سے ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223066 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.