قریباً دس برس قبل گرما کی ایک شام تھی ۔ میں اپنے
گھر کے عقبی صحن کی ہری بھری گھاس کے فرش پر کرسی دالے ، ہاتھ میں خوشبودار
چائے کا مگ تھامے سبزہ وگُل سے محذوذ ہو رہا تھا کہ میرا موبائل گُنگنا
اُٹھا۔ میں نے اسکرین پر دیکھا تو یہ نمبر میرے احباب کی فہرست میں شامل
نہیں تھا ۔یہ پروفیسر ڈاکٹر علی محمد خان تھے جو بتا رہے تھے کہ کسی دوست
کے توسط سے انہیں میرا نمبر ملا ہے اور ان کا تعلق علم و ادب سے ہے ۔ وہ
سڈنی کے اربابِ ادب سے ملنے کے خواہاں تھے ۔ وہ ان دنوں اپنی صاحبزادی اور
داماد سے ملنے لاہور سے سڈنی آئے ہوئے تھے ۔یہ ہمارا ابتدائی رابطہ تھا ۔
وہ دن اور آج کا دن ہماری بے شمار ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔کبھی سڈنی اور کبھی
لاہور میں،کبھی اُن کے گھر اور کبھی میرے غریب خانے پر، کبھی کسی ریستوران
میں اور اکثر ادبی محافل میں ۔ ایک بے نام کال سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ
آج دوستی اور محبت کے مضبوط رشتے میں ڈھل چکا ہے ۔
ڈاکٹر علی محمد خان نے نصف صدی سے زائد تدریسی فرائض انجام دیے ہیں اور سبک
دوش ہونے کے باوجود اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے کیونکہ وہ
جہدِمسلسل اور حرکت و عمل کے قائل ہیں ۔ یہی وجہ کہ تدریسی فرائض میں مصروف
ہونے کے باوجود تدریسی، علمی اور ادبی تصنیف و تالیف کا کام بھی سر انجام
دیتے رہے ۔ درسی کتب ، لُغات، ترجمے، تحقیقی مقالے، سوانح عمریاں او رخاکوں
پر مشتمل بے شمار کتابیں منصہ شہود پر لاچکے ہیں ۔علمی اداروں کے ساتھ ساتھ
ادبی حلقوں میں بھی ان کی کاوشوں کو بے حدپذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔
ڈاکٹر علی محمد خان ان محدودے چند افراد میں سے ہیں جنھوں نے ساری زندگی
اُردو زبان و ادب اور تعلیم و تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ اس
دائرے سے باہر کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ تدریس جیسا مقدس پیشہ بھی
عصرِ حاضر میں ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ وہ ان گنے چنے اساتذہ میں
سے ہیں جو مقدس مشن سمجھ کر یہ فریضہ انجام دیتے رہے اور اس امانت میں رتی
بھی خیانت نہیں کی ۔اردو ادب سے ان کا لگاؤاس حد تک ہے کہ وہ آسٹریلیا جا
کر اس کے دلفریب اداروں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ادیبوں اور شاعروں کی
محفل میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کا میں عینی شاہد ہوں ۔
ڈاکٹر علی محمد خان کو نہ صرف علم و ادب سے اُنس ہے بلکہ علمی اور ادبی
شخصیات سے بھی محبت اور عقیدت ہے۔ محبت،دوستی، وضع داری اور ادب نوازی ان
کی شخصیت کا جزوہے ۔انہی خصوصیات نے انہیں سوانح عمریاں اور شخصی خاکے
لکھنے پر اُکسایا ۔ خاکے کیا ہیں یہ ڈاکٹر صاحب کے قلب و ذہن میں بسی محبت
اور عقیدت کے رنگین پھول ہیں جن کی رنگت و نکہت قاری کو بھی اپنی لپیٹ میں
لے لیتی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ ایسے ہی خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ’’ چراغِ رُخِ
زیبا‘‘ کا میں نے حال ہی مطالعہ کیا ہے ۔ یہ نام شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ
کے اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے ۔:
آئے عُشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب اُنہیں ڈُھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
اسی شعر بلکہ اسی مصرعے کے پہلے تین الفاظ یعنی ’’ اب اُنہیں ڈُھونڈ‘‘ ان
کے خاکوں کی پہلی کتاب کا نام ہے ۔گویا اقبالؒ کے شعر کے ایک مصرعے سے
انہوں دو کتابوں کے نام اخذ کر لیے ۔ یہاں اس عظیم شاعر کو بھی خراج تحسین
پیش کرنا چائیے کہ جس کے کلام میں اتنی معنویت ہے کہ اس کا ایک ایک مصرعہ
نت نئے موضوعات کا آئینہ دار بن جاتا ہے ۔اس شاعرِ بے بدل کی عظمت کو سلام
ہے ۔
’’چراغِ رُخِ زیبا‘‘ میں دس شخصیات کے خاکے ہیں ۔ اُن تمام شخصیات سے مصنف
کا قریبی اور قلبی تعلق ہے ۔ ان میں سے ایک مصنف کے بڑے بھائی جمال الدین
پانی پتی ہیں جن کے حالاتِ زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہونے کی وجہ سے ان
کا شخصی خاکہ نہایت دلچسپ ہے ۔دوسرا خاکہ مصنف کی خواہر نسبتی بیگم شمیم
اجمل کا ہے جنہوں نے بیوگی کے کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کر کے
مثال قائم کی ۔ تیسرا خاکہ عبدالستار ایدھی صاحب کا ہے جن کے نام اور خدمات
سے زمانہ واقف ہے ۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے عبدالستار ایدھی صاحب کے بارے میں
مختلف انداز میں لکھ کر اس نامور شخصیت کے خاکے میں افسانے کی سی دلچسپی
پید اکردی ۔اس کے ساتھ اس عظیم سماجی کارکن سے ان کی گہری عقیدت بھی مترشح
ہے جو حقیقتاً ہم سب کے جذبات کی ترجمانی ہے ۔ایک خاکہ چودھری احمد سعید کا
ہے جو سروسز انڈسٹریز کے مالک تھے ۔ جنھوں نے نہ صرف کاروباری دنیا میں
پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ بقول مصنف ’’ فیاضی ، سخاوت اور داد و دہش کے
معاملے میں ایک بے نظیر و بے مثال شخص تھے اور اس ضمن میں بلا تفریق مذہب و
ملت سب کی اس قدر مدد کرتے تھے کہ بعض اوقات مدد پانے ولا شخص خود بھی دنگ
رہ جاتا تھا کہ سب کیسے ممکن ہو گیا ‘‘ ( صفحہ ۹)
اس گلدستے کے بقیہ تما م گل ہائے خوش رنگ کا تعلق علم و ادب کے شعبے سے ہے
۔ ان کے اسمائے گرامی قاضی برکت علی ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر مظہر محمود
شیرانی، سید اظہار الحسن رضوی، قاضی سرفراز حسین فاروقی اور محمد جنید اکرم
ہیں ۔ یوں تو یہ تمام شخصیات اپنی نمایاں کارکردگی کی وجہ سے اپنے حلقے میں
مقبول اور داد و تحسین کے لائق تھے لیکن ڈاکٹر علی محمد خان نے ان کا خاکہ
لکھ کر انہیں امر کر دیا ہے ۔جب تک اُردو ادب کے قارئین موجود ہیں یہ
شخصیات بھی زندہ و تابندہ رہیں گی ۔کیونکہ ڈاکٹر علی محمد خان نے ان شخصیات
کی مثبت، تعمیری پہلوؤں اورا ن کی انسانی خوبیوں کو یوں اُجاگر کیا ہے کہ
ان شخصیات کا ایک جیتا جاگتا تصور قاری کے ذہن و دل میں نقش ہو جاتا ہے
جیسے ایک حسین و جمیل تصویر قلب و ذہن میں جگہ بنا لیتی ہے ۔اس کتاب کے
عوامل میں متذکرہ شخصیات کی خوبیاں اور کارہائے نمایاں اپنی جگہ مگر ڈاکٹر
صاحب کے دل میں اپنے ان احباب کے لیے جذبہ محبت واضح کارفرماہے۔ ڈاکٹر علی
محمد خان کی یہ محبت، علم دوستی اور یہ انسانیت نوازی اگرچہ ہر انسان کے
لیے ہے مگر موصوف و مذکور شخصیات سے ان کا قریبی اور خصوصی تعلق تھا۔کٹھن
اور آسان،خوشگوار اور اُداس دونوں قسم کے لمحات میں ساتھ رہا ۔ان کی دوستی
اور تعلق آزمائش کی چھلنی سے بھی چھنتا رہا جو ظاہر ہے مزید نکھر کر سامنے
آیا اور پھر اس کتاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔اگر یہ شخصیات پھر سے زندہ ہو
جائیں اور اپنا خاکہ پڑھیں توڈاکٹر صاحب کی بے پایاں محبت او رعقیدت محسوس
کر کے ان کا سر فخر سے بلند ہو جائے۔مجھے اُمید ہے کہ ان شخصیات کے لواحقین
کے جذبات بھی یہی ہوں گے ۔
کتاب پڑھ کرمیں نے نوٹ کیا ہے کہ مذکور ہ شخصیات کے درمیان ڈاکٹر صاحب سے
تعلق اور روابط داری کے علاوہ ایک اور قدرِ مشترک تھی اور وہ تھی حرکت و
عمل، خود داری اور جہدِ مسلسل ۔ ان تمام شخصیات کی زندگی اقبال ؒ کے فلسفہ
ِ خودی کی آئینہ دارتھی ۔اُنہوں نے عام گھروں میں آنکھ کھولی ، عام سے
ماحول میں پرورش پائی اور پھر اپنی بلند نظری، خودی، واضح نصب العین
اورجہدِ مسلسل سے کامیابی وکامرانی کی منزل تک رسائی حاصل کی اور اس شعر کی
تعبیر بنے ۔:
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرّ آدم ہے ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
ڈاکٹر علی محمد خان کی اپنی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ وہ بھی
نامساعد حالات کی چکی میں پسنے کے باوجودمعاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے
میں کامیاب ہوئے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں متذکرہ شخصیات اور ان کا سفرِ
حیات پسند آیا ۔
جہاں تک ’’ چراغِ رُخِ زیبا‘‘ کی زبان و بیان کا تعلق ہے اس کے بارے میں
کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹر علی محمد خان کو زبان و
بیان پر ایسا عبور حاصل ہے کہ ان کے قلم سے نکلی تحریر ایسی، نکھری، سُدھری
اور سلجھی ہوتی ہے جیسے پہاڑی چشموں میں بہنے والے پانی کا ایک ایک قطرہ
شفاف اور پاکیزہ ہوتا ہے ۔عُمدہ اور بر محل محاوروں اور معنویت سے بھرپور
معیاری اشعار سے مزین تحریر قاری کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے ۔اسے یہ سمجھ
نہیں آتا کہ نفسِ مضمون پر توجہ دے یا تحریر کی چاشنی میں کھو جائے ۔دونوں
انداز میں یہ تحریریں قاری کی توجہ جذب کر لیتی ہیں ۔ ڈاکٹر علی محمد خان
کی تحریر قاری کا ہاتھ تھام کر اُسے ایک انوکھی دنیا میں پہنچا دیتی ہے ۔
حتیٰ کہ کتاب ختم ہونے پر یوں لگتا ہے کہ طلسمِ ہوش ربا کی دُنیا سے نکل کر
آئے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ چراغِ رُخِ زیبا‘‘ اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ
ہے اور مصنف داد و تحسین کا مستحق ہے ۔ |