ماں کے قدموں تلے جنت ہے یہ محاورہ ہرایک نے کہا ہوگا اور
ہر ایک کا سنا ہوا بھی ہے مگرجنت ایسے تو نہیں مل جاتی پیدا ہوتے باپ سے
مقابلہ کرکے بھائیوں اور پورے دادکااورنانکا خاندان چاچا چاچی ماما مامی
وغیرہ سے جنگ کرنے کے بعد جب شادی کرتی ہیتو ایک مرد سے بار بار اور ہرروز
ہار جاتی ہے اسی ہار کی وجہ سے وہ جنت کی حقدار ٹھہرتی ہے کچھ کھانے کو ملے
نہ ملے خاوند مارتا ہو چاہے کتنے ہ ظلم و ستم کیوں نہ ہوں آخرکار وہ سب
مسائل کا ڈٹ کے مقابلہ کرتی ہے اور اﷲ پاک جب اولاد دیتا ہے توایسے لگتاہے
اس کے سارے دکھوں پرمرہم لگ گیا۔ رگوں سے قطرہ قطرہ نچوڑتی ہوئی زندگی،
حرارت بھرے جسم میں پھیلتی ٹھنڈک، چہرے پہ موت کی زردی، اکھڑتی سانس،
آنکھوں کی بجھتی ہوئی جوت اور ڈوبتی ہوئی دھڑکن، جیسے تھکا ہوا سورج آہستہ
آہستہ غروب ہو رہا ہو!ایک ننھی سی جان دنیا ماں کے سینے سے چپکی، چسر چسر
دودھ پینے میں مگن، اور موت کی اندھیری گھاٹیوں میں دھیرے دھیرے اترتی وہ
عورت سوچتی ہے اور اﷲ پاک سے دعا کرتی ہے کہ اﷲ پاک مجھے میرے بچے کی خاطر
مجھے جینا ہے اوراس کی خاطر مجھے میری زندگی لوٹا دے۔ شعور کی عمر سے بہت
دور کیسے جئیں گے اپنی ماں کو کھو کر۔دھندلائے ہوئے ذہن میں ایک اور تصویر
ابھر آتی جو ہم سفر تو تھا لیکن سفر کی کٹھنائیوں سے ناآشنا مگرکئی وقت سے
اس کے باریمیں لوگ کہہ رہے ہیں اس کا افیئرچل رہاہے۔آج بھی یاد ہے کیسے منہ
موڑ لیا تھا میری منت سماجت سے کہ 12 برس میں چھ بچے پیدا کرنے والا جسم اب
ساتویں بچے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا کہ عورت بنائی
ہی اسی مقصد کے لئے گئی ہے اور پسندیدہ عورت بھی وہی ہے جس کی اولاد کثرت
میں ہو ( بھیڑ بکریوں پہ بھی یہی کلیہ صادق آتا ہے )۔میری آنکھیں مجھے
ڈھونڈ رہی ہیں کہ وہ کہاں ہو گا؟اسے چیخ چیخ کے بتانا چاہتی ہوں کہ موت کا
درندہ کسی ڈریکولا کی طرح میری رگوں سے خون نچوڑ کر مجھے ساتھ لیے جا رہا
ہے۔میں زندہ رہنا چاہتی ہوں، ان سات معصوم جانوں کی خاطر! چار وہ جو صبح
میرے گلے لگ کر سکول رخصت ہوئے، ایک بیٹا جو پاس بیٹھا کھیل رہاہے، اور سب
سے چھوٹی کچھ لمحوں کی جو میرے پستانوں سے چپکی ہوئی ہے۔ یہ دونوں بے خبر
ہیں کہ ان کی ماں کیسے ان کے چہروں کی بلائیں لیتی زندگی کی آخری سانسیں گن
رہی ہے۔یہ وہ کہانی ہے جو ہماری بڑی بھابی کی آنکھیں بولتی ہیں۔ہماری بھابی
جو ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ زندہ دل، بذلہ سنج اور زندگی سے
بھرپور ہیں۔ خوبصورت نین نقش، پہننے اوڑھنے کی شوقین، جب قہقہے لگاتی تو ہر
کوئی بلائیں لیتا مگرسادہ کیونکہ اولاد اتنی زیادہ ہوجائے یو دل کرے یا نہ
کرے وقت نہیں ملتا۔شادی جلد ہوئی اور بچوں کی بھی جیسے قطار ہی بندھ گئی۔
اکثر جھنجھلاہٹ میں شوہر کو کوستی جو کسی احتیاط کا قائل ہی نہیں تھا جب
پوچھو یہی کہتا ہے پتا نہیں چلا۔ کہتی، باجی، دیکھو نا آٹھ برس میں سات
بچے، کیا میں بچے پیدا کرنے کی مشین ہوں؟ مرد اپنی عیاشی میں عورت کی تکلیف
اور ذمہ داریوں کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔کبھی کہتی، باجی تمہارے بچوں کی طرح
میں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہتی ہوں مگرنہیں ہوپاتا گھر کی
ذمہ داری جو مجھ پر ہے۔چھٹا بچہ ابھی کچھ ہی مہینوں کا تھا کہ دوبارہ سے
حمل ٹھہر گیا۔ اوپر تلے کے بچوں نے پہلے سے مت مار رکھی تھی ایسے میں چھٹے
حمل نے اس کے ہوش اڑا دیے۔ نہیں، میں مزید بچے نہیں چاہتی، وہ بڑبڑاتے ہوئے
کچھ سوچ رہی تھی، ابھی تو پچھلے حمل سے ہونے والی کمزوری باقی ہے۔ڈاکٹر
صاحبہ سے پوچھتی ہوں کیا وہ میری مدد کر سکتی ہے، ابھی تو کچھ ہی دن اوپر
ہوئے ہیں۔ اگر کوئی دوائی میری بچے دانی میں رکھ دے تو ماہواری آ جائے گی۔
اس دفعہ فارغ ہونے کے بعد میں نے انہیں پاس نہیں پھٹکنے دینا۔ یا تو بچے
بند کروانے کی مجھے اجازت دے یا پھر دور رہے مجھ سے۔ میں اور کسی کو بتا
بھی نہیں سکتی، ہر کوئی مجھے ہی درس دے گا کہ ایسا کرنا مذہبی عقائد کے
خلاف ہے۔ بھلا مردوں کو یہ درس کیوں نہیں دیا جاتا کہ عورت کو بچے جننے کی
فیکٹری مت سمجھیں۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر حمل زندگی اور موت کا دوراہا
ہوتا ہے، بالکل پل صراط جیسا۔باقی سب کچھ تو ویسا ہی ہوا جیسا انہوں نے
سوچا تھا لیکن کچھ اور بھی ایسا ہوا جس کا اندازہ انہیں نہیں تھا۔ ہمیں یہ
داستان یاد آئی ہے ریاست ٹیکساس میں عدالتی فیصلہ سن کر جس میں حمل گرانے
پہ پابندی لگائی گئی ہے، چاہے وہ کچھ دنوں کا ہی کیوں نہ ہو۔اب چاہے یہ حمل
ریپ کے نتیجے میں ہوا ہو، خونی رشتوں کا تحفہ ہو یا کسی ایسے شوہر کی
کارکردگی جو عورت کو بچہ جننے کی مشین سمجھتا ہو اور مانع حمل طریقوں سے
اجتناب برتنے کا شائق ہو۔دنیا کے ایک ترقی یافتہ اور آزاد ملک میں عورت پہ
نہ صرف ہسپتال کے دروازے بند کیے گئے ہیں بلکہ اس کے گردونواح میں ہر شخص
کے ہاتھ میں سرزنش کی چھڑی پکڑا دی گئی ہے۔ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر
عورت اس چھڑی کے باوجود قابو میں نہ آئے تو ہمسائے، مالک مکان، محلے کے
دکاندار، اخبار فروش، غرض کہ ہر ایرے غیرے کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ عورت
کو جیل بھجوا سکے۔ دیکھ لیجیے عورت کے جسم پہ کس کس کا حق ہے، سوائے اس کی
اپنی ذات کے!یہ ہے پدرسری نظام کی طاقت!حمل ریپ کا نتیجہ ہو یا محبت کا،
مذہبی یقین ہو یا پدرسری معاشرے کی ہٹ دھرمی، قصور وار ہمیشہ عورت ٹھہرتی
ہے اور اپنی زندگی دان کر کے تاوان بھی وہی بھرتی ہے، آخر کیوں؟ کیا ہر
قصور کی ذمہ دار عورت ہوتی ہے مرد کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا؟ اگر اﷲ
پاک نے عورت کے دس بچے پیدس کرنے کے مقابلے میں مرد کو ایک بچہ پیدا کرنے
کا حکم دیتے تو وہ عورتوں سے ایک بھی نہ لیتے۔ ایک جیتی جاگتی عورت کی
زندگی ایک ان دیکھی انجان ہستی کے لئے کیوں داؤ پہ لگائی جائے؟ تمام اقدار،
ضابطے، رسوم اور رواج زندگی کے پھیر میں آئی ہوئی عورت کو بچانے کے لئے
کیوں نہ ترتیب دیے جائے؟ ہماری بھابی نے جیسے کیسے زندگی گزار دی مگر آخری
بچے کی پیدائش کے بعد جس کا وزن 120 کلو تھا جسے سب موٹی اماں کہتے تھے اب
اس کا وزن صرف 40 کلو باقی بچا ہے آخری بچے کی پیدائش کے بعد بھابی جو موٹی
اماں تھی ہمارے ساتھ کھڑی ہو تو ہماری بچی لگتی ہے ہم تو کئی بار ڈر گئے
تھے کہ کہیں بھابی کو کوئی بڑی تکلیف تو نہیں ہوگئی مگراﷲ کا کرم ہے کہ کئی
جگہ سے چیک اپ کرانے کے بعد پتہ چلا مسلسل اتنابچے پیدا کرنے کے بعد ان کی
صحت بگڑ گئی ہے آکر میں ان تمام مر حضرات سے اپیل ہے خدارا اولاد کے حصول
کیلئے قاتل نہ بنیں بلکہ ایسے کام کریں کہ کسی کے چہرے پر مسکان آئے۔
|