’’پب جی ‘‘کی ہلاکت خیزیاں

انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور جدید میں آئے دن نئے سے ویڈیو گیم اور مخرب اخلاق ایپلیکیشن لانچ ہوتے رہتے ہیں جن کے ذریعہ نو جوان اور بچے اپنے وقت عزیز کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے تاریک کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ ’’پب جی ‘‘ایسا ہی ایک گیم ہے پب جی جو اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے بچے ہوں کہ بڑے سبھی اس کے جنون میں مبتلا نظر آرہے ہیں جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن ہو کہ رات بس بپ جی ہی کی دنیا میں مست و مگن رہتا ہے اور اسی کو اپنی دنیا سمجھتا ہے۔اس سے پہلے سپر ماریو اور بلیو وہیل جیسے گیمز بھی اپنے جادو کا اثر دکھا چکے ہیں۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہوگی اور یہ جنگ ایسی ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی ایسی جنگ دنیا میں ہوئی ہوگی نہ اس کے بعد کبھی ہوگی۔ ملک شام اس کا میدان بنے گا۔ حضور ؐ نے اس جنگ کے اوصاف بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنگ اتنی خطرناک ہوگی کہ ہر 100 میں سے 99مریں گے اور ایک بچے گا۔ اس میں شریک ہونے والوں اور جہاد کرنے والوں کی فضیلت ہے۔ لیکن اس کے علاوہ خوف میں مبتلا ہونے والوں کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ جس جنگ کی ہمارے پیارے نبیؐ رحمۃاللعالمین نے حدیث مبارکہ میں فرمایا تھا یقینا پب جی گیم کی اس جنگ کا حصہ ہے ۔

لاہور میں پچھلے دنوں ایک دلخراش واقعہ نے دل ہلا کر رکھ دیا ہے کہ کس طرح ایک 18 سالہ نوجوان نے مہلک گیم پب جی میں ناکامی کا غصہ اپنے گھر والوں پر اتار دیا اوراپنی والدہ سمیت دو بہنوں اور ایک بھائی کو موت کے گھا ٹ اتار دیا ۔ پولیس کے مطابق پب جی گیم کھیلنے والا زین وقوعہ کے روز رات بھر نہیں سویا، زین نے پب جی گیم کھیلنے کے بعد ماں ،بھائی اوربہنوں کو قتل کیا۔ پولیس کی تفتیشں کے دوران یہ انکشافات بھی سامنے آئے ہیں کہ ملزم’جب بھی یہ گیم ہارتا تھا تو یہ اچانک خاموش ہوجاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا اور حقیقت سے بھی زیادہ یہ پب جی گیم کو سنجیدگی سے لیتا تھا۔‘پولیس کے مطابق قتل کرنے کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔’اس کو پتا تھا کہ پستول کی آواز آئے گی اور لوگ آجائیں گے۔ اس نے تکیے کے اندر سے پستول کا فائر کیا جس سے کافی حد تک آواز کم نکلی۔ گھر کے اندر کے لیے تو پھر بھی یہ کافی تھی لیکن محلے والوں کے جاگنے کے لیے ناکافی تھی۔لاہور پولیس نے اس واقعے کے بعد آئی جی پنجاب کو ایک خط لکھ کر سفارش کی ہے کہ پی ٹی اے کے ذریعے پب جی گیم پر پاکستان میں مکمل پابندی عائد کی جائے۔ گذشتہ دو برسوں میں پورے پنجاب میں لگ بھگ ایک درجن اس سے ملتے جلتے واقعات سامنے آچکے ہیں۔اچھرہ میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کی۔ پنجاب سوسائٹی میں 28 سالہ نوجوان شہر یاربھی پب جی کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ شہر یار نے پب جی گیم میں شکست کے بعد زندگی کا خاتمہ کیا۔ تھانہ شمالی چھاؤنی کے علاقے میں پب جی گیم پرشرط ہارنے پر 16سالہ غلام عباس نے خودکشی کی۔ 2020 ء میں جان لیوا ویڈیو کھیل کی بدولت قتل کا افسوسناک واقعہ پیش آنے پر اس وقت کے پولیس آفیسر نے اس قاتل گیم پر پابندی کی سفارش کی تھی ۔اگرچہ ابھی تک کسی پولیس کی تفتیشی رپورٹ میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ لڑکے کے پاس ہتھیار کیسے ، کہاں سے آئے مگر قتل کا محرک ’پب جی‘ گیم کی ’لت ‘ہی ہے۔ اس سے پہلے واقعے میں بلال نامی شخص نے اپنی ماں، بھابھی، پڑوسی کو فائرنگ کر کے مار ڈالا جبکہ بھائی اور بہن شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد پب جی گیم کے نوجوان نسل پر خونی اثرات کی بندش کے متعلق قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔بھارت میں تو پچھلے ہفتہ پانچ ملزمان نے اپنے ہی ایک 23سالہ ساتھی کو اغوا کیا اور اس کے والد سے 10ہزار روپے لیے۔ یہ تمام یعنی گرفتار و اغوا ہونے والا 20-25سال کی عمر کے لوگ تھے۔بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں مسلسل 6 گھنٹے پب جی کھیلنے کی وجہ سے فرقان قریشی نامی لڑکے کی موت ہوگئی دوران گیم ہلاک ہونے والے لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا فرقان قریشی مسلسل 6 گھنٹے سے پب جی گیم کھیل رہا تھاکہ اس دوران اسے مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہو گیا۔

پب جی(Player Unknown Battle ,s Ground ) اس وقت دنیا کی دوسری سب سے زیادہ کھیلی جانے والی گیم ہے۔ اسے جنوبی کوریا کی بلیو ہول نامی کمپنی نے 2017ء میں لانچ کیا تھا۔ یہ گیم پہلے تین ماہ میں ہی اتنی مشہور ہوئی کہ اسے تین کروڑ لوگ اپنا چکے تھے۔ فی الوقت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کما رہی ہے اور اسے دنیا میں پچاس کروڑ لوگ ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔دنیا میں ایک وقت میں کم از کم چار کروڑ لوگ ہر وقت آن لائن ہو کر یہ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں۔اس گیم نے ہر قسم کے معروف ایوارڈ بھی جیتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ‘ فائرنگ ‘ تشدد اور قتلِ عام پر مبنی گیم ہے‘ جس میں دو سے لے کر ایک سو تک لوگ پیراشوٹ سے جنگ کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر ایک گھنٹے تک ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر میں جو شخص زندہ بچ جاتا ہے‘ وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ یہ آن لائن نیٹ ورکنگ گیمنگ کی جدید شکل ہے‘ جس میں پلیئرز ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ گیم کی وجہ شہرت اس کے اعلیٰ گرافکس‘ ساؤنڈ اور گیمنگ سٹوری ہے۔ گیم میں ہر قسم کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے نئے سے نئے فیچر شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ گیم بنیادی طور پر سولہ برس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لئے بنائی گئی ہے‘ لیکن انٹرنیٹ پر چونکہ کسی قسم کی روک نہیں لگائی جا سکتی ‘اس لئے ا?ٹھ برس کا بچہ بھی اسے کھیل رہا ہوتا ہے۔ اگرچہ پب جی ایک مزیدار گیم ہے لیکن اس کے عادی ہونے والوں کے ذہنی وجسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے کھیلنے والوں میں انتہائی جذباتی اور جارحانہ خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ مسلسل گھنٹوں بیٹھ کر ’پب جی‘ اور اس نوعیت کی دوسرے نقصان دہ گیمز کھیلنے سے بچوں کے ذہنی وجسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ پب جی گیم ایک ایسی گیم جس میں کھلاڑی بناکسی ہتھیار کے اترتے ہیں اور گیم کے اندر ہتھیار شیلڈ گاڑیاں اور دیگر چیزیں حاصل کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ آخری بچ جانے والا کھلاڑی فاتح قرار پاتا ہے۔ دسمبر2017 ء میں آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر یرینڈہ گرین نے یہ گیم متعارف کرائی۔ 2018 ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی۔ اس گیم میں دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور ایک کھلاڑی سے لے کر سو کھلاڑیوں تک کی ٹیم ہوتی ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑتی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی پر فائرنگ کرکے مارتے ہیں۔صحتِ انسانی کے لیے مضرت رساں:پب جی گیم ہر کس و ناکس کے لئے انتہائی مقبول گیم بن گئی ہے۔ بچے اور جوان رات دن اس گیم میں مصروف ہیں۔ لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ گیم صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل جانب سے بتایاگیا ہے کہ اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہے، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ نیز ہر طرح کے ویڈیو گیم کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض لاحق ہوجاتا ہے ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائیل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔پب جی گیم کھیلنے والوں کو نفسیاتی مریض بنادیتا ہے، چونکہ اس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل اور ان کی املاک پر قبضہ کرکے نیز دوسروں کو بے انتہاء زد و کوب کرکے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ مکمل اختتام تک گیم کھیلنے والے بچوں کو جرائم کے نت نئے طریقے سوجتے ہیں۔ بچوں کا سادہ ذہن جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یہ گیم خون خرابہ کا باعث بنتی ہے۔ گیم کھیلنے والے بچوں کو ہر طرح کے ہتھیار بندوق اور گن کے نام از بر ہوجاتے ہیں۔ نیز اس گیم میں منشیات کا استعمال، گروپوں کے درمیان لڑائی ،تشدد اور ناشائستہ الفاظ کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ یہ گیم منشیات کی لت سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔تشدد اس کی رگ رگ میں بھر جاتا ہے جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح یہ ذہنی و نفسیاتی مرض کا سبب بن جاتے ہیں، اس لیے کہ اس گیم میں گروپ کی شکل میں دوسروں پر حملہ کیا جاتا ہے مار دھاڑ اور جرائم کے نئے سے نئے طریقے معلوم ہوتے ہیں ۔قتل و غارت گری سکھائی جاتی ہے ،ہتھیار و بندوق کے نام گیم کھیلنے والے کو اچھی طرح زبانی یاد ہو جاتے ہیں تشدد اس کی رگ رگ میں بھر جاتا ہے جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح یہ ذہنی و نفسیاتی مرض کا سبب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ سطور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پب جی ویڈیو گیمزکس قدر نقصان رساں اور ہلاکت خیز ہے۔لیکن ہمارے بچے اور نوجوانوں کو اس کی ذرا بھی فکر نہیں اور نہ ہی والدین کو احساس ذمہ داری ہے والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ پب جی گیم بچوں کی جسمانی اور اخلاقی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے نیز ان کی تعلیم و تربیت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تشدد کا رجحان ان کے اندر اسی قسم کے گیمز کے سبب بڑھتا جا رہا ہے۔لہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں ہر گز موبائل فون نہ دیں اور ان کے اندر زیادہ سے زیادہ دینی و دنیوی تعلیم کا شوق پیدا کریں اور وہ اس قسم کے فضول اور مضر صحت گیمز میں اپنی زندگی تباہ وبرباد نہ کریں۔



 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 194 Articles with 162747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.