اردو کا وسیع دائرہ حق اطلاعات کے سامنے تنگ

ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے ، ان زبانوں میں سے اردو بھی نہایت صاف شستہ اورشگفتہ زبان ہے، جو کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے ۔ اس زبان کی دلکشی ، شگفتگی اوررعنائی کا قائل توہر ایک ہے ، مگر حکومتی سطح پر یہ ہمیشہ جانبداری اورتنگ نظری کاشکار رہی ہے ۔ لسانی فرقہ پرست عناصر لسانیت کی کند چھری سے اسے قتل کرنے پر آمادہ نظرآتے ہیں ۔ لسانی فرقہ پرستوں نے ماضی میں بھی اردو دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور آج بھی وہ اس کا گلہ ریتنے کے درپہ ہیں ۔مگر تمام تر جانبداری ، بے اعتنائی ، دشمنی اورتنگ نظری کے باوجود لسانی افق پر سخت جان ارد و ماہ ِ کامل کی طرح درخشندہ ہے ۔

یوں تو آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی اردو دشمنی کا کھیل شروع ہوگیا تھا۔ حکومتوں کو اپنے جال میں پھانس کر فرقہ پرستوں نے اس شیریں زبان کو سرکاری محکموں اوردفتروں سے نکال باہر کرنا شروع کردیا تھا ۔ سب سے بڑی ستم ظریفی کہ اس پر ”مسلمانیت “کا نمایاں لیبل چسپاں کر دیا گیا ۔ مگر 1969میں غالب صدی کے موقع پر آنجہانی اندراگاندھی نے اسے یوپی بہار میں سرکاری دوسری زبان کا درجہ دے کر ایک حد تک لسانی تعصب پرستوں کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔ اس کی ترویج اشاعت کے لئے اردو اکادمیوں کا قیام عمل میں آیا۔ مخالف بادِ تند میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے شیدائیان اردو نے اس کے چراغ کو سدا روشن رکھا ۔ یہی وجہ ہے آج ہندوستان کی 28ریاستوں میں سے 6ریاستوں میں یہ زبان سرکاری دوسری زبان کے طور پر تسلیم کی گئی ہے ۔ جہانتک اس زبان کے بولنے والوں کا تعلق ہے تو صرف ہندوستان ہی نہیں بیرون ممالک میں بھی ان کی خاصی تعداد ہے ۔ وہ اردو کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 14کڑور 30لاکھ ہے اوربیرون ممالک مثلاً پاکستان ، بنگلہ دیش ، سعودی عرب ، برطانیہ ، متحدہ عرب امارات ، قطر ، بحرین وغیرہ میں تقریباً16لاکھ نفوس اردو بولتے ہیں ۔ بشمول ہندوستان پوری دنیا میں تقریباً100اردو نیوز چینل بھی ہیں ۔

جہانتک ہندوستان میں اردو کی خدمات کا تعلق ہے تو وہ دودوچار کی عیاں ہیں ، جنگ آزادی میں اس زبا ن کا بڑا اہم کردار رہا ہے ، مگر یہی اردو اپنے ہی دیا ر میں اجنبیت کی شکار ہے ، ذیل کے تین تازہ ترین واقعات سے اندازہ کیجئے کہ سرکاری اعلٰی محکمے کا اردو کے تئیں کیا رویہ ہے ؟ وہاں اردو سے کیسے اجنبیت کا اظہار کیا جارہا ہے ؟۔

کوئی دوماہ قبل راقم کے کسی شناشا نے (حق اطلاعات قانون 2005)کا استعمال کرتے ہوئے چند معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخواست مرکزی الیکشن کمیشن کو بھیجی تھی ۔ کئی ایک نامور کالم نگار کے ایما ءپر در خواست اردو میں تحریر کی گئی تھی ۔کوئی دس دنوں بعد اس درخواست کے جواب میں بجائے معلومات کے ایک خط موصول ہوا جسمیں معلومات فراہم نہ کرنے کے دو اسباب کا ذکر تھا ۔ اول یہ کہ درخواست اردو میں تحریر ہے ، ہمارے یہاں اردو سے آشنا کوئی نہیں ، ہندی یا انگلش میں درخواست روانہ کرکے معلومات حاصل کریں ۔ دوم ، صرف دس روپیہ کا پوسٹل آرڈر چاہئے مگر سو روپیے کا موصول ہوا ہے ۔ الیکشن کمیشن کاوہ خط، جو انہیں موصول ہوا ہے ، اس مضمون کے ساتھ منسلک ہے ۔
 

image

آئیے ! پہلے بات کرتے ہیں 10یا 100کے پوسٹل آرڈر کے بارے میں ، لکھنو کے نیو حیدرآباد کے ڈاکخانہ میں دس روپیہ دے کر پوسٹل آرڈر طلب کیا گیا، اندربراجمان محترمہ نے کہاکہ 10والا گیارہ کا آتاہے ، چنانچہ گیارہ دئے جانے کے بعد جو پوسٹل آرڈر ملا اس پر 100کا پرنٹ تھا ۔ 100کی بابت جب ان سے دریافت کیاگیا تو ان کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ 10کے پوسٹل آرڈر پر 100ہی رقم ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی 10کے پوسٹل آرڈر پر 100کا پرنٹ ہوتا ہے توالیکشن کمیشن کو اطلاع کیوں نہیں ؟ اگر 10پر دس ہی ہو تو توجہ مبذول کرائے جانے کے بعد بھی ان کی توجہ اس طرف کیوں نہیں ہوئی ؟ کیوں 100کی مالیت (معاف کیجئے ! ان کے حساب سے 111کی مالیت )10روپئے میں ہی داؤ پر لگا کر قانو ن شکنی کی گئی ؟۔

چند دنوں قبل ادبی ولسانی اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن الہ آبادکے آنریری جنرل سکریڑی نے بھی ایک درخواست الیکشن کمیشن کو حق اطلاعات کے پیش نظر بھیجی تھی ۔ درخواست اردو میں تھی ، جو معلومات وہ حاصل کرناچاہتے تھے ،وہ آئیں مگر انگلش میں ۔

اردو سے بے اعتنائی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ لکھیم پور کھیری کے ڈپٹی ڈائرکٹر انفارمیشن اقبال احمد مسعودی کو ہندوستان کے معروف روزنامہ کے بارے میں معلوم نہیں ۔ گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ کسی پریس رپورٹر نے ان کے پاس سہارا اردو اخبار کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بڑے حیرت و استعجاب سے کہا ”کیا سہار ا اب اردو میں بھی آنے لگا ہے ؟“ذرااندازہ کیجئے کہ ضلع اطلاعات افسر کو اردو کے مایہ ناز اخبار کے بارے میں علم نہ ہونا کس قدر مضحکہ خیز ہے ؟ ایک طرف مسلمانوں کا اردو سے تہذینی لگاؤ ہے تو دوسری طرف دینی لگاؤ بھی ، کیونکہ اردومیں ہمارادینی سرمایہ دیگر زبانوں سے زیادہ ہے ،اسی تناظر میں ایک ایسے اخبار کے متعلق علم نہ ہونا جس کے متعدد ایڈیشن نکلتے ہوں ، کس قدر حیرت و استعجاب بلکہ شرم کی بات ہے۔یہ تورہی اردو یا اردو اخبار سے سماجی ، تہذیبی اورملی لگاؤ کی باتیں ، مگر محکمہ اطلاعات کا اردو سے ایک قا نونی لگاؤ بھی ہے ، جو کہ آئین کی نگاہ میں تقریباً سب سے اہم ہے ۔ بربنائے لسانی قوانین ایسے موقر محکمے میں ہندی انگلش روزناموں کی طرح اردو اخبارات بھی منگوائے جانے چاہئے ،ان کے لئے بجٹ مختص ہونا چاہئے مگر ہائے افسوس !!!

الیکشن کمیشن ملک کا ایک اہم ادارہ ہے ، اس کا دائرہ اختیار بھی وسیع ترہے ، چنانچہ وہاں قانون شکنی کی واردات کا ہونا بڑی حیرت کی بات ہے ،وہاں اردو سے بے اعتنائی اس قدرکہ اردو مترجمین پینل نہیں بڑے افسوس کی بات ہے ۔ اگر یہ کہاجائے کہ معلومات فراہم نہ کرنے کی وجہ ’اردو ‘ہی نہیں بلکہ 10کے بجائے 100کا پوسٹل آرڈر ہے تو درخواست کے جواب میں ایک ہی وجہ”IPO“کا ہی تذکرہ ہونا چاہئے تھا ،ورنہ تو ملکی سطح کے موقر ادارے کااردو کے تعلق سے یہ رقم کرنا ہمارے یہاں اردو نہیںپڑھی جاسکتی ہے ،بہت ہی افسوس ناک سانحہ ہے ۔ ملکی آئین کو چیلنج ہے ، زغفرانی تنگ نظرذہنیت کی غمازی ہے ۔ پھر یہ سوال بھی ہوسکتاہے کہ الٰہ آباد کے ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی درخواست (جو اردو میں تھی) کا جواب انگلش میں کیوں آیا ، اردو میں کیوںنہیں؟ کیا اس درخواست کے ساتھ بھی مطلوبہ پوسٹل آرڈر کمیشن کو موصول نہیں ہوا تھا ؟ چنانچہ یہ سوال ہوتا ہے کہ ایسے ادارے میں جب اردو دشمنی کا ڈرامہ ہوتو شیدائیان اردو کو خاموش رہنا چاہئے؟ کیا اس قانون شکنی پر عدلیہ اورمقننہ کو حسب دستور سرد مہری کا مظاہرہ کرنا چاہئے ؟ کیا محب اردو کو اس بے اعتنائی کے باوجود قانون کا سہارا نہیںلینا چاہئے ؟ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر محب اردو ہیں ، اردو سے انہیں غایت درجہ محبت ہے ، باوجود اس کے وہاں اردو کے ساتھ یہ ستم ظریفی ، ہائے ہائے !! ایک اردو داں کی ماتحتی میں ہونے والے کاموں میں اردو سے کی گئی چشم پوشی متعدد سوالات کھڑی کرتی ہیں ۔وہ اردوداں کس قدر اردو کے تئیں مخلص ہے کہ اس کی نگرانی میں اردو قابل اعتنا نہیں ؟اگر وہ اس کالے کارنامہ سے واقف نہیں تو یہ کہا جائے گا وہ اپنے ادائے فرض منصبی میں سرگرم نہیں ۔ اگر وہ اس دشمنی سے واقف ہوں تو ان کی بے حسی کی کوئی انتہائی نہیں ۔چنانچہ یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ اردو والے ہی اردو کے دشمن ، حق کیلئے روتے ہیں مگر سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر اورضلع انفارمیشن ڈائرکٹر ہوکر بھی اگر کوئی اردو کے ساتھ یہ رویہ کرے تو فی الحقیقت یہ اردو کے انحطاط میں درپردہ معاونت ہے ۔ کوئی اردو داں اتنے اعلٰی عہد ہ پر فائز ہوکر بھی اردو کے لئے کچھ نہ کرے تو کس عہد ے پر پہونچ کرے گا ؟۔

بات سے بات چلی کہ اردو والے ہی اردو کے انحطاط کے ذمہ دار تو سردست اردو اخبارات کے مدیران سے چند باتیں کرلینا مناسب سمجھتاہوں ، دل تویہ چاہتا ہے کہ صاف لفظو ں میں یہ مشورہ دوں کہ انہیں ہندی یا انگلش میں اب پریس ریلیز لینا بند کردینا چاہئے ، تاکہ اردو اخبا ردفتر میں ہندی خبر لانے والوں کو اردو کی اہمیت کا پتہ چلے ، مگر چند اسبا ب و علل کی بنیاد پر ان سے صرف یہ التجا ہے کہ ہندی خبر لانے والوں سے یہ ضرور کہیں کہ آئندہ خبر اردو میں ضرور لائیں ۔ آج تو یہ بھی دیکھا جارہاہے کہ اردو کے قانونی حق کے لئے لڑنے والے مجاہد بھی بڑی آن بان سے اردو روزناموں کو ہندی میں خبر بھیجتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہی کہاجاسکتا ہے کہ اردو کی حلاوت وچاشنی سے نا آشنا کیسے قانونی محاذ پر اردو کے تئیں کامیاب ہوسکتاہے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100876 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More