یہ تیرے ”پُر اِصرار“ بندے

”آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔“
”ذرا سی بریانی یا قورمہ اور لیجیے نا!“
”یہ فیرنی بھی تو آپ ہی کے لیے ہے۔“
”جہاں تک مجھے یاد ہے، میٹھے سے آپ کا پرہیز تو ہے نہیں۔ پھر ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟“

کسی بھی دعوت میں اِس قسم کے جملے اکثر سُنائی دیتے ہیں۔ آپ شاید ایسے جملوں کو عزت افزائی کا ذریعہ سمجھتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات یہ میزبان کی طرف سے طنز یا تبرّے کی شکل میں ہوتے ہیں! جو پہلے ہی بریانی کی دو فل پلیٹیں ٹھونس کر بیٹھا ہو اُس سے مزید کچھ لینے کی فرمائش کرنا سر بہ سر طنز نہیں تو اور کیا ہے؟

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس کی فضاءمیں آکسیجن سے زیادہ فرمائشیں، التجائیں، التماس اور اِصرار پایا جاتا ہے! بیویاں شاپنگ کے لیے پہلے تو اِصرار کرتی ہیں۔ اور پھر؟ جس طرح انڈے سے چوزا نکلتا ہے بالکل اُسی طرح بیگمات کے اِصرار کا خول توڑ کر حکم برآمد ہوتا ہے! اور ظاہر ہے کہ
پھر اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کے مصداق بے چارے شوہروں کو حکم کی تعمیل کرتے ہی بنتی ہے! عقل مند وہی ہے جو اہلیہ کے حکم کی تعمیل کے خول میں بند رہے ورنہ اُس کے چراغوں میں بھی روشنی نہ رہے گی!

اِصرار کچھ بیگمات تک محدود نہیں، یہ صفت ہمارے معاشرے میں ہر طرف اور ہر کس و ناکس میں پائی جاتی ہے۔ ایک چوھدری صاحب کے بہت سے خُدّام تھے مگر جمال دین خاص الخاص تھا۔ جمال دین کے بیٹے نے ایک دن باپ کو بتایا کہ اُسے چودھری صاحب کی بیٹی سے پیار ہوگیا ہے لہٰذا رشتے کی بات چلائیں! یہ سن کر باپ کے تو پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ بیٹے پر لعن طعن کی کہ ہوش میں تو ہے، یہ کہاں آنکھ لڑا بیٹھا ہے! مگر جب بیٹے نے بہت اصرار کیا تو جمال دین ہمت کرکے چودھری صاحب سے بات کرنے پہنچا۔ چودھری صاحب چوپال میں محفل جمائے بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے خادم خاص کو دیکھتے ہی کہا ”آؤ آؤ جمال دین! بہت دن بعد آئے، کہاں تھے؟ خیریت تو ہے؟“ جمال دین نے کہا ”چودھری صاحب! آپ سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔“ چودھری صاحب بولے ”جمال دین! تم ہمارے خاص آدمی ہو، جو کہنا ہے سب کے سامنے کہو۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔“ چودھری صاحب سے اجازت پاکر جمال دین نے بیٹے کے رشتے کی بات کی۔ یہ بات سن کر چودھری صاحب سکتے میں آگئے! اُن کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جمال دین ایسی کوئی بات کہے گا! چند لمحات کے بعد حواس بحال ہوئے تو اُنہوں نے جمال دین کے حواس ”بحال“ کرنے کی کوشش کی یعنی ٹھکائی کا آغاز کیا! ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی اِس ٹھکائی میں خوب حصہ ڈالا۔ جب جمال دین ادھ مُوا ہوگیا تو کسی نے کہا چودھری صاحب! لعنت بھیجیں، اِسے معاف کردیں۔ چودھری صاحب نے فائنل لات رسید کرتے ہوئے کہا جا، دفع ہو جا۔ جمال دین اُٹھا اور کپڑے جھاڑ کر بولا ”تو پھر چودھری صاحب! میں آپ کی طرف سے اِنکار سمجھوں؟“ بعض پیشوں کی بنیاد بھی کچھ اِسی نوعیت کی ”اِستقامت“ اور اِصرار پر ہے۔

کسی جگہ چند افراد مل کر ایک بندے کی پٹائی کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر دو ایک کیمرا مین یہ واقعہ ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔ ایک صاحب حیران ہوئے کہ کسی کی پٹائی ہو رہی ہے اور ٹی وی چینل والے صرف فلم بنانے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ اکیلے بندے کو پٹائی سے بچانے کے لیے کوئی آگے کیوں نہیں بڑھتا؟ یہ سوچ کر وہ ابھی دو قدم بڑھے تھے کہ ٹھٹھک کر رک گئے۔ اچھی خاصی پٹائی سے سرفراز ہونے والا ہنستا ہوا اٹھا اور کچھ کہا۔ پھر پٹائی شروع ہوگئی۔ چند لمحات گزرے ہوں گے کہ وہ پھر ہنستا ہوا اٹھا۔ مار کھانے والے کا درد اپنے سینے میں محسوس کرنے والے صاحب نے پوچھا آخر بات کیا ہے کہ یہ شخص مار کھاکر ہنستا ہوا اٹھتا ہے۔ اُنہیں بتایا گیا کہ یہ شخص انشورنس ایجنٹ ہے اور اِس وقت فائنل ٹریننگ سیشن چل رہا ہے! مستقل مزاجی ہو تو ایسی ہو۔ حقیقی اور سچّا انشورنس ایجنٹ وہی ہے جس کے لیے مرزا غالب کہہ گئے ہیں۔
گالیاں کھاکے بے مزا نہ ہوا!

اگر فائنل ٹریننگ سیشن میں اپنائے جانے والے معیار یعنی ہنستے ہوئے مار کھانے کو ذہن نشین رکھا جائے تو بیشتر آزمودہ کار شوہر انشورنس ایجنٹ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں! حالات کے تھپڑ اور لاتیں کھاکر اٹھنا اور ہنستے ہوئے مزید پٹائی کے لیے تیار ہونا ہر تجربہ کاری اور پختہ شوہر کا طُرّہ امتیاز ہوا کرتا ہے!

میر تقی میر سے غلطی یہ ہوئی کہ اُنہوں نے فقیرانہ انداز سے صدا کرنے کو توقیر بخشی اور اپنے ایک مطلع کا حصہ بنایا۔
فقیرانہ آئے، صدا کرچلے
میاں خوش رہو، ہم دعا کرچلے

یاروں نے اِس بات کو پَلّے باندھ لیا۔ آرام سے سونا تو بہت دور کی بات ہے، آپ گھر میں سُکون سے بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ ہر پانچ منٹ بعد کوئی صدا لگاتا ہوا گزرتا ہے اور آپ کا سارا سُکون غارت کردیتا ہے۔ گلی گلی پھیرا لگاکر مال بیچنے والوں کا تعلق ”اِصراری“ قبیلے سے ہے۔ جس طرح انڈین چینلز پر قسطیں بڑھتی جاتی ہیں اور سیریل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اُسی طرح جب پھیری لگانے والے گزرتے ہیں تو گویا قافلہ سا چل پڑتا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کے لیے بستر پر دراز ہوئے مگر ابھی آنکھیں موندی ہی تھیں کہ کسی کی صدائے دل خراش سے اُٹھ بیٹھے۔ دروازہ کھول کر گلی میں دیکھنے پر پتہ چلا کہ گلی کے ایک کونے پر کوئی ٹھیلے پر سُپر اسٹور سجائے کھڑا ہے اور دوسرے کونے پر کسی نے ٹھیلے کو بُھوسی ٹکڑوں سے آراستہ کر رکھا ہے! بہت سی صدائیں سنگ دِل محبوب کی طرح اچھا خاصا دھوکہ دیتی ہیں۔ ایک بار شدید گرمی میں کسی ٹھیلے والے کی ”صدائے دل نشیں“ نے ہمیں گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ ہم نے سوچا جب ٹھیلا گھر تک آ ہی گیا ہے تو کیوں نہ پاؤ ڈیڑھ پاؤ فالسے خرید کر شربت بنوالیں۔ اِس نیت کے ساتھ گھر سے نکلے تو معلوم ہوا کہ موصوف اُبلے ہوئے سِنگھاڑے فروخت فرما رہے ہیں! ہم نے شِکوہ کیا کہ بھائی! سِنگھاڑے بیچنے کے لیے ایسی آواز کیوں لگاتے ہو کہ لوگ فالسے سمجھ کر گھر سے نکل آئیں۔ ہنس کر فرمانے لگے ”کیا کروں بابو جی؟ اللہ نے جُبان میں مِٹھاس (!) ہی اِتنی رکھی ہے۔“ اُن کی یہ بات سُن کر ہم سُنّ ہوگئے، ایسا لگا جیسے کسی نے کان میں اُبلے ہوئے سنگھاڑے رکھ دیئے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486096 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More