رانا ثناءاللہ خان کی مہربانی سے
وہ کام بھی ہوگیا جس کی ہمیں کبھی امید ہی نہ تھی۔ ہم عمران خان کے زبردست
مداح رہے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ان سے کئی بار آٹو گراف بھی لیا۔ ان
کی بولنگ، بیٹنگ اور قائدانہ صلاحیت کے ہم بھی اتنے ہی دیوانے رہے ہیں جتنی
یہ پوری قوم رہی ہے۔ مگر خیر، یہ سب تو ان کے سیاست میں آنے سے پہلے کی
باتیں ہیں۔
بات ہو رہی تھی رانا ثناءاللہ کی۔ جب سے عمران خان نے سیاست کی دنیا میں
قدم رکھا ہے، پاکستان میں ”عمرانیات“ کے ماہرین کی تعداد کئی گنا ہوگئی ہے۔
اب عمران خان تک پہنچنے کے لیے ان ماہرین کے ذہن میں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے!
پنجاب کے وزیر قانون نے تمام قوانین اور اخلاقی ضابطوں کو یکسر نظر انداز
کرتے ہوئے ایک بار پھر ”عِمرانیات“ کا ماہر ہونے کا ثبوت ایسی عمدگی سے
فراہم کیا ہے کہ ہم تو انگشت بہ دنداں ہیں! رانا صاحب نے عمران خان کے بارے
میں ایسی روانی سے ”گوہر افشانی“ کی ہے کہ اُن پر بس فِدا ہونے کو جی چاہتا
ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم اگر عمران خان کے ایسے ہی مداح رہے ہیں تو اُن کی
”کھنچائی“ پر اِس قدر خوش کیوں ہو رہے ہیں! بات یہ ہے کہ رانا ثناءاللہ
جیسی شخصیات ہمارا کام آسان کردیتی ہیں۔ میڈیا سے اُن کی دو چار منٹ کی
گفتگو بھی ہمیں کالم کا موضوع ہی نہیں، مواد تک فراہم کردیتی ہے! رانا صاحب
کے اِس ”خلوص“ کو میڈیا والے کس طور نظر انداز کرسکتے ہیں کہ مائکروفونز
دیکھتے ہی وہ بولنے ”لگ پڑتے“ ہیں! کسی زمانے میں میڈیا والے جس طرح پیر
صاحب پگارا کی لب کشائی کے منتظر رہا کرتے تھے، اُسی طرح ہم ریموٹ کنٹرول
ہاتھ میں لیکر ٹی وی چینلز پر رانا صاحب کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں!
رانا صاحب نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران عمران خان کو مشورہ
دیا ہے کہ وہ سیاست کو بخش دیں اور بچوں کو کرکٹ سکھائیں یا مزید ہسپتال
کھول لیں۔ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عمران خان کی اوپر والی منزل
خالی ہے! یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ کوئی اوپر والی منزل کو خواہ
مخواہ کیوں خالی رکھے گا؟ ویسے رانا صاحب نے یہ بات کہہ کر ہمیں اور عمران
خان کو ایک صف میں کھڑا کردیا ہے، جو ہمارے لیے تو یقیناً فخر ہی کی بات
ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض احباب نے ہمارے کالم پڑھ کر زبانی تبصروں میں یہی بات
کہی ہے یعنی کہ ہماری اُوپر والی منزل خالی ہے! عمران خان سیاسی میدان سے
نکلے نہیں اور ہم بھی اب تک کالم پر کالم لکھے جارہے ہیں، پس ثابت ہوا کہ
احباب کے اِس تبصرے کا ہم نے بُرا مانا ہے نہ عمران خان نے! گویا ہم اِس
معاملے میں بھی، زہے نصیب، خان صاحب کی ہم سَری کے مرتکب ہوئے ہیں! یہ سوچ
کر کہ احباب نے کچھ کہا ہے تو خلوص ہی سے کہا ہوگا، ہم نے کبھی کسی نکتہ
داں سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ اوپر کی منزل خالی ہونے کا مطلب کیا
ہوتا ہے!
رانا صاحب نے عمران خان کو دوبارہ کرکٹ کی دنیا میں جانے کا مشورہ دیکر
اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی کوشش کی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ عمران خان
سیاست کو کھیل کا میدان سمجھ کر اِس طرف آ نکلے تھے۔ اُنہیں شاید اندازہ
نہیں تھا کہ سیاست کے بہترین داؤ پیچ سیکھنے کے لیے کھیلوں ہی کی دنیا کافی
تھی! اور کھیلوں میں بھی کرکٹ کا جواب نہیں جو اپنی طرف آنے والے ہر شخص کو
زبردست سیاست دان میں تبدیل کردیتا ہے! یقین نہ آئے تو آج کل کے کرکٹرز کو
دیکھیے جو میڈیا کی پچ پر زیادہ اچھا کھیلتے ہیں! اگر عمران خان نے رانا
صاحب کے مشورے پر عمل کیا تو بچوں کو کرکٹ سِکھانے کی آڑ میں ایسے سیاسی
داؤ پیچ سیکھ کر واپس آئیں گے کہ ہما شُما تو اُن کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ
بھی نہیں سکیں گے!
رانا صاحب مزید فرماتے ہیں کہ عمران خان رات کو خواب میں جو کچھ دیکھتے ہیں
اُسے صبح بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ کسی کے خواب
دیکھنے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ اب کیا عمران خان
خواب بھی نہ دیکھیں؟ لے دے کر یہی تو وہ میدان ہے جس میں وہ اپنی مرضی کا
میچ صرف کھیل ہی نہیں، جیت بھی سکتے ہیں!
خواب بہت کام کی چیز ہیں۔ یہ انسان کی تمام خواہشات پوری کردیتے ہیں، اور
وہ بھی اضافی خرچ کے بغیر! حزب اختلاف کے لوگ اقتدار میں آنے کے خواب
دیکھتے رہتے ہیں اور جنہیں اقتدار مل جاتا ہے اُنہیں جب سیاسی آٹے دال کا
بھاؤ معلوم ہوتا ہے تو عوام کے مسائل خوابوں کی دنیا میں جاکر حل کرتے ہیں!
بعض وزراءتو اتحادی جماعتوں کی ناراضی دور ہونے کا پہلے خواب دیکھتے ہیں
اور پھر تعبیر کا اہتمام بھی کرتے ہیں تاکہ سند رہے! ویسے آج کی سیاست میں
ہم خیال جماعتوں کا روٹھنا اور من جانا کسی خواب یا اس کی تعبیر کا محتاج
نہیں رہا! جہاں مفاداتی غنودگی ہو وہاں ایسے ہی خواب اور ایسی ہی تعبیریں
ہوا کرتی ہیں! اگر عمران خان خواب دیکھ کر بولتے ہیں تو اِس میں حیرت کی
کیا بات ہے؟ رانا صاحب نے خود ہی اُوپر کی منزل کے خالی ہونے کی بات کہی
ہے۔ جب اُوپر کی منزل خالی ہو تو انسان ذرا اور اُوپر کی منزل یعنی خوابوں
کی دنیا ہی سے کام کی باتیں تلاش کرکے لائے گا اور دُنیا کے سامنے بیان کرے
گا!
رانا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چند ناکام اور نام نہاد
رہنما ہر شب عمران خان کو وزیر اعظم ہاؤس میں چھوڑ کر آتے ہیں اور خود کو
ایک فرضی کابینہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں اِس اعتراض پر شدید اعتراض ہے۔
ہمارے ہاں کون ہے جو خود کو وزیر اعظم سمجھنے کے لیے ہر وقت تیار نہیں؟ اگر
عمران خان کو اُن کے اندرونی حلقے کے لوگ باتوں ہی باتوں میں وزیر اعظم
ہاؤس چھوڑ آتے ہیں تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟ یہ تو ہمارے ہر اُس سیاست دان
کا معمول ہے جسے محض تین چار ہم نوا میسر ہوں!
رانا صاحب کو شاید ”اعتراضو فوبیا“ ہوگیا ہے! وہ اِس امر پر بھی معترض ہیں
کہ عمران خان جہاں بھی دو تین درجن افراد کو دیکھتے ہیں، جلسہ سمجھ کر
تقریر کرنے لگتے ہیں! اِس میں عمران خان کا کیا قصور؟ ہمارے ہاں لوگ تقریر
پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ کوئی سوچے سمجھے بغیر دل کا حال بیان کرنا
چاہے تو گوش ہائے نصیحت نیوش کی کوئی کمی نہیں! اب اِتنی سی بات پر رانا
صاحب نے عمران خان کے دماغی معائنے کا مشورہ دے ڈالا ہے۔ اگر دس بیس افراد
کو مجمع سمجھ کر تقریر جھاڑنا ذہن یا دماغ کا خلل ہے تو پھر اِس ملک میں
شاید کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ملے جسے ذہنی مریض قرار نہ دیا جائے! یہ تو
عمران خان کا خلوص اور وضع داری ہے کہ دو تین درجن افراد دیکھنے کے بعد
اسٹارٹ ہوتے ہیں، ورنہ یہاں تو ایسے بھی ہیں جو صرف ”چشم تصور کی آنکھ“ سے
اپنے سامنے مجمع دیکھتے ہیں اور ٹی وی پر اینکر سے گفتگو کو بھی جلسے سے
خطاب کا رنگ دے بیٹھتے ہیں!
رانا صاحب سے عرض ہے کہ پوری قوم کی اُوپر کی منزل خالی دکھائی دے رہی ہے۔
ایسے میں صرف عمران خان کو موردِ الزام ٹھہراکر اُنہیں مزید انفرادیت بخشنے
کی کوشش نہ کریں۔ دماغی معائنے کا مشورہ بھی سوچ سمجھ کر ہی دیا جاتا ہے۔
اگر کسی نے مشورے پر عمل کرلیا اور علاج کے بعد ڈھنگ سے بولنا شروع کردیا
تو ہم کیا اور کیسے لکھا کریں گے! |