اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ حیات ِ انسانی کو ایک جملہ میں
بیان کرو تو میرا جواب ہو گا پوری بنی نوعِ انساں سے محبت۔انسان صنفِ نازک
سے محبت کی ابتدا کرتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کی پوری حیاتی بدل جاتی
ہے ۔ایک فرد صرف ایک فرد اسے اپنی جان سے عزیز تر ہو جاتا ہے جس کیلئے وہ
اپنی قیمتی ترین متاع کو قربان کرنا اپنے کیلئے سعادت تصور کرتا ہے۔ جان
ایلیا کا انداز دیکھئے ۔ (مجھے چین کیوں نہیں پڑتا۔، ۔ایک ہی شخص تھا جہاں
میں کیا)۔واقعی ایک ہی شخص ہوتا ہے جو قلب و نگاہ کو بدل کر رکھ دیتا ہے
۔غالبؔ نے اسی لئے کہا تھا ۔ (پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں ۔، ۔
سرزیر بار منتِ درباں کئے ہوئے) مقصود جعفری ؔ کے بقول (تم میرے پاس جو آئے
ہو تو یوں لگتا ہے ۔،۔ مدتوں بعد نگاہوں نے عبادت کی ہے ) نوجوان سرابؔ کی
للکار (آگ کا دریا بھی تیر کر گزر جاتے ۔،۔ کوئی کہہ دیتا کنارے پہ کھڑا تو
ہے ) عبد الحمید عدم ؔنے ( کون ہے جس نے مہ نہیں چکھی۔،۔ کون جھوٹی قسم
اٹھا تا ہے) کہہ کر دریا کو کوزہ میں بند کر دیا لیکن جب بات اقبال تک
پہنچی تو اس نے یہ کہہ کر کے کہ ( تیرے بھی صنم فانی میرے بھی صنم فانی)
۔،۔(موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات ) حسن کو فریاد پر مجبور کردیا
(خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا ۔،۔ جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لا
زوال کیا)۔حسن لا زوال تو نہ ہوا لیکن بے مثل ضرور ٹھہر اور انسان کا حسن
کے جلووں کو پا لینا ہی اس کا مدعا اور مقصد ٹھہرا۔سچ تو یہ ہے کہ محبوب کے
جلوے ، اس کی کشش ،اس کا حسن ،اس کی رعنائی اور اس کی دلکشی ہی وہ مقناطیسی
قوت ہے جس سے نظامِ کائنات رواں دواں ہے ۔بقولِ شاعر (سو بار چمن مہکا سو
بار بہار آئی۔،۔ دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی ) در اصل انسانیت سے
محبت کا پہلا قرینہ اور زینہ یہی محبت ہوتی ہے۔انسان اسے کبھی چاند اور
کنول سے تشبیہ دیتا ہے اور کبھی اس کی خاطر جنت کی حوروں کو فدا کرنے کا
اعلان کرتا ہے۔ اسی لئے محبوب کی گلی عاشق کی کل کائنات قرار پاتی ہے بقولِ
غالب۔ (ہر اک مکاں کو ہے مکیں سے شرف اسد۔،۔مجنوں جو مر گیا تو جنگل اداس
ہے ؔ)۔لیکن جب سینہِ انسان میں دھڑکتادل دھیرے دھیرے آفاقی روپ دھارنے لگتا
ہے تومحبوب کی گلی عاشق کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے ۔ اب محبوب کے جلوے کسی
گلی،کسی مقام اور جگہ کے مرہونِ منت نہیں رہتے بلکہ انسانی روح کے اندر سما
کر دنیا کی ساری ظا ہری دیواروں کو مسمار کر دیتے ہیں(رانجھا رانجھا کردی
نیں ،میں آپے رانجھا ہوئی) والی کیفیت جب انسانی روح پر غالب آ جاتی ہے تو
پھر دل کے آئینے میں محبوب کا سراپا ہی محوِ رقص ہوتا ہے اور وہ حالتِ بے
خودی میں ( تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا) کی مجسم تصویر بن جاتاہے۔اب
اسے اپنے محبوب کو دیکھنے کیلئے ظاہری آنکھوں کی صفتِ بصارت کی حاجت باقی
نہیں رہتی کیونکہ ا ب وہ چشمِ ِ تصور سے اپنے محبو ب کا نظارہ ہر جگہ ،ہر
مقام،ہر نگری،ہر بستی اور ہر قریہ سے کر لینے کے جوہر سے متصف ہو جا تا ہے۔
جب عاشق محسوسات کی قید سے نکل جاتاہے تو اس کے عشق میں آفاقیت جلوہ گر ہو
جاتی ہے اور یوں یار کے جلوے ہر سو رنگ و نور کی دنیا سجا نے لگتے ہیں۔اب
اس کیلئے ساری کائنات محبوب کی گلی قرار پاتی ہے اور یوں اس کی آواز کائنات
کی آواز بن جاتی ہے۔ بقولِ شاعر۔،۔ (یار کو ہم نے جا بجا دیکھا۔،۔ کہیں
ظاہر کہیں چھپا دیکھا)۔،۔(کہیں وہ بادشا ئے تخت نشیں۔،۔کہیں کاسہ لئے گدا
دیکھا )۔)
یہی ہے وہ مقام جہاں پر انسان کا دل آفاقی محبت کا علمبردار بن جاتا ہے اور
اس کیلئے پوری انسانیت اس کی محبوبہ۔ قرار پاتی ہے۔ عوام الناس کی خوشیاں
اور ان کا درد اس کا کل اثاثثہ بن جاتی ہیں۔کسی بھی اعلی انسان کی حقیقی
پہچان اس کی وہ محبت ہے جو وہ انسانیت سے روا رکھتا ہے۔آج کاانسان جو سدا
سے خود ستائی اور خود نمائی کے روگ کا شکار ہے اسے اپنی برتری کی کہانیاں
سنانے سے فرصت نہیں ملتی لیکن کمال ہیں وہ لوگ جو دوسروں کی خوبیوں کا چرچا
کرتے اور ان کی عظمت کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ ایسے انسان شائد اس کرہِ ارض
پر ناپید ہو تے جا رہے ہیں ۔احسان و ایثار کے حامل انسان کا اعزاز یہی ہے
کہ وہ پوری نوعِ انسان سے محبت کرتا ہے اوریہ اعزاز خونِ دل دئے بغیر نہیں
ملتا،عظمت کا دیا ایسے نہیں جلتا ؟ خونِ صد ہزار انجم کے بعد کہیں سحر ہوتی
ہے ۔ایک صاحبِ شعور،صاحبِ ذوق اورصا حبِ دل انسان جس کا خاندان بڑا ہو ، جس
کا ریاستی عہدہ بڑا ہو،جس کا سماجی رتبہ بڑا ہو ، جس کا علمی افق بلند ہوجس
کا قبیلہ نامی گرامی ہو اور جس کا ادبی ذوق حدِ کمال کو چھوتا ہوبنفسِ نفیس
اپنے دوستوں کی عظمتیں بیان کرنے میں فخر محسوس کرے اور انھیں عزت و وقارکی
سب سے بڑی مسند پرجلوہ افروز کر دے توپھر دوستو ں کی حالت کا اندازہ خود ہی
کر لیجئے ۔ کیا دوستوں کا سینہ فخر و انسباط سے پھول نہیں جائیگا ؟پھل دار
درخت کی پہچان یہی ہے کہ وہ جھک جایا کرتا ہے ۔ مولاناروم نے اسی لئے کہا
تھا (ثنائے خود بخود کردن نہ زیبدمردِ عاقل را۔،۔ زن پستان ِ خود مالد
حظوظِ نفس کہ یابد) مصورِ پاکستان کی پیرو کاری ، تصورِ خودی کے خالق کی
مریدی ، شہرِقلندر کی خوشبوؤں میں رچے بسے ماحول اور اصغر سودائی جیسے عظیم
شاعر کی صحبت سے فیضیابی کاکمال یہی ہوتا ہے کہ انسان ذاتی عظمت و بڑائی
اور تفاخر کی نعرہ زنی کی بجائے باصفا ، با وفا اور اہل بصیرت کی تعریف و
توصیف میں اپنی ذات کی نشو نما کرتا ہے ۔ اگر کسی کو عزت و احترام کی
انتہائی بلندیوں پر روشن ستارا بن کر چمکنا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ
دوسرے انسانوں سے اسی طرح محبت کرے جیسے وہ اپنی ذات سے کرتا ہے۔مقامِ بلند
مالک ِ ارض و سماء کی کرم گستری ہے اور عزت و وقار سب اسی کی نظرِ کرم کا
صدقہ ہے۔ کبھی کبھی انسان کو خود بھی خبرنہیں ہوتی کہ اسے اتنا بڑا تحفہ
انسانیت سے بے غر ض محبت کی بدولت عطا ہوا ہے ۔ یہی تو میرے مولا کی کرم
گستری ہے کہ کمزوروں اور محروموں کی جھولیاں ایسے گوہر ِ نایاب سے بھر دیتا
ہے جو خود انسان کے وہم و گماں بھی نہیں ہوتا۔اسی لئے تو فیض احمد فیض نے
کہا تھا۔،۔
( جب ارضِ خدا کے کعبہ سے سب بت اٹھوائے جائیں گے۔جب تاج اچھا لے جائیں گے
،جب تخت گرائے جائیں گے۔ ۔ہم اہل ِ صفا مر دودِ حرم مسند پر بٹھا ئے جائیں
گے )
خوشی میں ستارے آنکھوں میں جلملاتے ہیں جبکہ حالتِ غم میں چاند تاروں کی
روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور انسان تاریکیوں میں کھو جاتا ہے ۔ خوابیدہ نغموں
کو جب بھی مضراب سے جگایا جاتا ہے تو رنگِ بہار نکھر جاتا ہے ۔بقولِ رشید
اسجد ؔ (تم پہاڑو ں میں جا کر کبھی صدا مت دینا۔،۔ان کو آواز پلٹنے کا ہنر
آتا ہے)۔کاش ایسا ہو جائے تو میں بھی کھو ئی ہوئی آوازوں کی باز گشت سن لوں
۔ سیانوں کا قول ہے کہ محبت اس شبنم کی مانند ہوتی ہے جو رخِ گل کو اور بھی
نکھار دیتی ہے اور یہی کام آنسو کرتے ہیں۔یادوں کی تسبیح اسی کا نام ہے ۔
یہ الگ بات کہ رخِ گل کو نکھار بخشنے والے دوستوں کی عدم موجودگی انسانیت
کو تہی دامن کر دیتی ہے ۔ یار بچھڑ جائیں تو جینے کا مزہ باقی نہیں رہتا
لیکن چونکہ زندہ رہنا فرض ہے لہذا انسانی محبت اظہار کیلئے اپنا رنگ اور
روپ بدل لیتی ہے لیکن اس کی روح قدیم اور دائمی رہتی ہے۔ روح جو انسان کی
بلند پروازی کی بنیاد ہے ، روح جو انسان کی عظمت کی علامت ہے ،روح جو سچائی
کی نوا ہے،روح جو انسان کی بڑھائی کی داستان ہے،روح جو محبتوں کا
گہواراہے،روح جو انسان کی اجلتا کی کہانی ہے ،روح جو انسان کی لطافت کا
پرتو ہے،روح جو خودی کی آماجگاہ ہے،ر وح جو وجدان ہے،روح جو امانت و دیانت
کا مسکن ہے، رو ح جو خدا ئی پہچان کا زینہ ہے اور روح جو سارے عالم کی
محبتوں کی امین ہے لہذا مجھے ببانگ دہل اعلان کرنے دیجئے کہ (زندہ باد اے
محبت زندہ باد )۔ہر وہ انسان جو اپنی روح کی کی آواز پر لبیک کہتا ہے
،دوستوں کو احترام سے نوازتا ہے وہ ہمیشہ اعلی و ارفع مقامِ پر فائزہوجاتا
ہے کیونکہ روح کی سننے والے سدا سرِ افلاک کو ہی چھوتے ہیں ۔ ،۔ بقولِ شاعر
۔ ،۔ ( وہ طائر جس کے سینے میں دلِ آزاد ہوتا ہے ۔،۔ وہاں قصدا چہکتا ہے
جہاں صیاد ہو تا ہے)۔،۔
|