ٹیکنالوجی کا جائزہ لیاجائے تو آج ٹیکنالوجی میں تھری جی
،فورجی کی ٹیکنالوجی بھی کمزور ہوتی جارہی ہے اور نئی ٹیکنالوجی فائی جی
میں قدم رکھ چکی ہے،جس طرح سے ٹیکنالوجی سوپر فاسٹ ہورہی ہے،اسی طرح سے
انسانوں کا رہن سہن،سوچنے کا طریقہ،تہذیب وتمدن بھی بدلتی جارہی ہے۔ایسے
میں نوجوانوں کی نسل سب سے زیادہ متاثرہوکر تیز نکلنے کی دوڑ میں صحیح اور
غلط کے فیصلے کرنے میں ناکام ہورہی ہے،اس لئے نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ
گمراہی اور نشہ کے لت میں گھرتاجارہاہے۔اس دائرے سے نکالنے کیلئے ملت کے ہر
فردکی ذمہ داری ہیا ورہر فرد ذمہ دار بن کر اس سمت میں کام کرتاہے تو تب
جاکر اچھی نسلیں سامنے آسکتی ہیں۔مسلمانوں کیلئے جمعہ کا دن نہایت معنی
خیزدن ہے،اس دن کو جہاں عیدالمومنین کا درجہ حاصل وہیں مسلمانوں کیلئے
اصلاح وتربیت کیلئے بھی بہترین دن ہے،جمعہ کے دن چالیس سے پچاس منٹ کے
دوران جو خطبے دئیے جاتے ہیں ،اْن خطبوں سے مسلمانوں کی فکر کو
بدلاجاسکتاہے۔اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺنے حجۃ الوادع کے موقع پر جو
خطبہ دیاتھا وہ ساری انسانیت کیلئے رول ماڈل ہے،خصوصاً اہلِ علم کیلئے
نمونہ ہے کہ کس طرح سے اپنی تقریر کے ذریعے سے قوموں میں انقلاب
لایاجاسکتاہے،حجۃ الوادع کے خطبے میں مسلمانوں کو حال اور مستقبل کے تعلق
سے سبق دیاگیااور دْنیا میں کس طرح سے رہناہے اور کس طرح کا طرزِ عمل
اپناناہے اس پر توجہ دلائی گئی تھی،ا?پ?نے حقوق اْﷲ سے زیادہ حقوق
العباداور اصلاح کی طرف اشارہ کیاتھا جس کا اثریہ رہا کہ اہل مکہ نے آپﷺکے
پیغام کو بنیاد بنا کر دنیا میں اسلام کو پھیلانیکا کام کیاہے۔آج مسلمانوں
کے حالات دیکھیں کہ کس طرح سے مسلم قوم بے راہ روی کا شکار ہورہی
ہے،نوجوانوں کو دیکھیں کہ کیسے اْن کے چہرے،بات کرنے کاطریقہ،اْن کا رہن
سہن،کھاناپینا سب کاسب مغربی طرز پر جارہاہے۔نوجوان جو بھائی کو بھائی کہتے
تھے وہ اب برو،باجی،استاد جیسے الفاظ کے ذریعے سے مخاطب ہونے لگے ہیں۔مسلم
نوجوان جنہیں پاکیزہ اور پرہیز گار ماناجاتاتھا،اب وہ گانجہ افیم اور شراب
کے عادی مانے جارہے ہیں۔بیکار اور غیر ضروری طور پر نوجوان رات رات بھر
سڑکوں پرگھومتے ہوئے یا نکڑوں پر بیٹھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں،کیا والدین
کو اس بات کااحساس بھی نہیں ہورہاہے کہ وہ اپنے بچوں سے یہ تک سوال نہیں
کرتے ہیں کہ وہ رات بھر کہاں جارہے ہیں،دیر رات تک ان کی کیا مصروفیت
ہے؟۔چھوٹے بچے چھوڑئیے،جو بہو اور داماد لانے کی عمر میں پہنچے ہیں وہ
افراد بھی وقت گذاری کیلئے رات رات بھر کیرم کھیلتے ہوئے فضول باتیں کرتے
ہوئے ،دوسروں کے گھروں میں ٹھکانے جمائے ہوئے ،ویرانوں میں بیٹھ کر ایک
دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔اندازہ لگائیے کہ قوم کس
قدر تباہی کی طرف چل رہی ہے۔جس قوم کو جلد سونے اور جلد اْٹھنے کاحکم دیاہے
وہ قوم صبح فجر کی اذان کے وقت سورہی ہے اور ظہرمیں اْٹھ رہی ہے تو کہاں سے
ان کے گھروں میں برکتیں رہیں گی؟کہاں سے بیوی بچے محفوظ رہیں گی؟۔کیوں نہیں
شیطان فتنے برپا کریگا؟۔کتنے ہی ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کومل رہے ہیں
جس میں غیر اخلاقی رشتے پروان چڑھ رہے ہیں ،افیئرس کی بوچھاڑہے،ایسے میں
مسلمانوں کو ضروری ہوگیاہے کہ وہ اپنے آ پ کا جائزہ لیں اور مسلم اہلِ علم
حضرات اپنی تقریروں میں حالتِ حاضرہ پر روشنی ڈالیں اور اْمت کی رہنمائی
کیلئے دین کی بنیادوں کو سمجھائیں،زندگی کے ا?داب سمجھائیں،تقریروں کو اب
ڈیٹ کریں اور وقت کے تناظرمیں ڈھال کر لوگوں کی نصیحت کریں۔یقیناً اس کیا
ثرات بہتر رہیں گے۔
|