26جنوری آسٹریلیا کا قومی دن ہے ۔ آسٹریلیا میں ہر
سال یہ دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن آسٹریلیا بھر میں تعطیل
ہوتی ہے ا س دن کی تاریخی اہمیت اور اس کے اثرات کے حوالے سے سیمینار اور
مذاکرے ہوتے ہیں ۔ سال بھر میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے
آسٹریلین کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔ ملک بھر میں سب سے نمایاں کارکردگی
کرنے والے شہری کو آسٹریلین آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ آسٹریلین اس
دن کو بڑے شوق ، ولولے اور فخر سے مناتے ہیں۔گھروں اور گاڑیوں پر قومی پرچم
لہراتے ہیں ۔ وہ ایک آزاد خودمختار قوم اور خود کو حاصل تمام بنیادی
سہولتوں ، انسانی حقوق کی پاس داری اور جمہوریت پسند ہونے پر بجا طور پر
فخر کرتے ہیں ۔ آسٹریلین اس جذبہ تفاخر کے بجا طور پر مستحق ہیں کیونکہ
آسٹریلیا اپنے عوام کو دی گئی سہولتوں کے لحاظ سے دنیا کے چند گنے چنے
ممالک میں سے ایک ہے۔ دوسری جانب قدرت نے بھی اس ملک اور اس کے باشندوں کو
ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے۔ایک وسیع و عریض ملک جس میں قدرت کی عطا
کردہ ہر نعمت موجود ہے ۔ جس کا فائدہ ہر شہری کو یکساں حاصل ہے ۔
یوم آسٹریلیا 26 جنوری 1788 ء کے تاریخی دن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس
دن کیپٹن آرتھر فلپ کی قیادت میں برطانوی بحری جہازوں کا پہلا بیڑا
آسٹریلیا کے ساحلوں پر پہنچا تھا اور یہاں یونین جیک لہرایا تھا ۔ سڈنی کی
پورٹ بوٹنی پر اُترنے والے یہ انگریز اور ان کے بعد آ کر بسنے والے جدید
آسٹریلیا کی بنیاد بنے۔ اس کے بعد برطانوی شہری مسلسل آسٹریلیا آکر بستے
رہے ۔ کچھ معاشی، کچھ موسمیاتی او رکچھ قانونی وجوہات کی بن پر اس جزیرہ
نما براّعظم کے مکین بنے ۔قانونی وجوہات کی بنا پر آنے والے زیادہ تر سزا
یافتہ مجرم تھے جنھیں سزا کے طور پر یہاں بسایا گیا ۔لیکن انہوں نے نئی
مملکت کی بنیاد رکھ دی ۔انہوں نے قدرتی وسائل سے مالا مال اس سرزمین کو بنا
اور سنوار کر ایک جنت نظیر ملک بنا دیا جس میں آج لاکھوں لوگ آزادی، مسرت
اور فخر کا سانس لے رہے ہیں۔
انگریز جنہوں نے اپنے ہی شہریوں کو بظاہر ایک ویران سرزمین پر دھکیل کر
بزعم خود انہیں سزا دینے کی کوشش کی تھی آج اس ملک کو رشک بھری نظروں سے
دیکھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر یہاں آکر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ شروع میں آنے والے سفید فام انگریزوں نے
مقامی ایب اوریجنل لوگوں سے خاصا ظالمانہ سلوک کیا بلکہ ان کی نسل کشی کرنے
کی کوشش کی۔ اس لیے ایب او ریجنل اس دن کو Invasion day یعنی حملے کا دن
قرار دیتے ہیں۔ 1992 ء میں انہوں نے یہ دن یوم سوگ کے طور پر منایا ۔
آسٹریلیا کے ان قدیم باشندوں کو اپنی ایک نسل اور اپنی تہذیب کے گم ہو جانے
کا غم ہے۔
آسٹریلیا کی موجودہ نسل ایب ریجنل کے اس دکھ میں شریک ہے۔ انہیں اپنے آباؤ
اجداد کی غلطیوں کا احساس ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم کیون رڈ کی حکومت نے پوری
قوم کی جانب سے ان سے باقاعدہ معافی مانگی ہے۔ اس سے ان قدیم باشندوں کے
زخم کسی حد تک مندمل ہوئے ہیں۔ اُمید ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زخم مٹ
جائیں گے اور آسٹریلیا کے قدیم اور جدید باشندے باہم شیر و شکر ہو کر
آسٹریلیا کی تعمیر و ترقی میں برابر کا کردار ادا کر سکیں گے۔
1788 ء میں پہلے بحری بیڑے کی آمد کے تیس برس بعد 26 جنوری 1818 کو پہلی
مرتبہ اس دن کی یاد میں کیپٹن آرتھر فلپ نے سڈنی کے ایک ساحلی علاقے ڈیوس
پوائنٹ میں شہنشاہ برطانیہ جارج سوئم کا پرچم بلند کیا اور تیس گنوں کی
سلامی دی ۔ گورنر نے اس دن تمام کارکنوں کو کام سے چھٹی دی۔ اس طرح یہ دن
منانے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز یعنی ۱۹۰۱ء میں ا ٓسٹریلیا
کی مختلف برطانوی کالونیاں ایک فیڈریشن میں ضم ہو گئیں جو موجودہ آسٹریلیا
کی شکل میں سامنے آیا۔
1938 ء میں برطانوی آمد کے ایک سو پچاس سال اور 1988 ء میں دو سو سال مکمل
ہونے پر بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہوئیں اور کئی دن تک یہ سلسلہ جاری
رہا۔ 1994 ء سے یوم آسٹریلیا پر قومی تعطیل کا سلسلہ شروع ہوا ۔
ہر قوم اور ہر ملک میں کچھ خاص دن ہوتے ہیں جو اس قوم اور اس ملک اور اس کے
باشندوں کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔آسٹریلین کے لیے 26 جنوری سب سے اہم
اور تاریخی قومی دن ہے۔ زندہ قوموں کے لیے قومی دن، قومی مشاہیر، قومی ہیرو
اور ان کے کارنامے قابل فخر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ہیروز پر فخر کرتے
ہیں بلکہ پورے جوش اور ولولے سے یہ دن مناتے ہیں۔ اپنے مشاہیر اور ہیروز کے
نام اور اس کے کارنامے یاد کرتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے
ہیں۔ایسے قومی دن نہ صرف ان ہیروز کو یاد کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ پوری
قوم میں جذبہ تفاخر اور جذبہ حب الوطنی بیدار کرنے میں معاون ثابت ہوتے
ہیں۔
ہم آسٹریلین اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ خدا نے ہمیں دنیاوی نعمت سے نواز
رکھا ہے۔ اگر اقوام عالم پر نظر دوڑائی جائے تو آسٹریلیا جیسے ملک گنے چنے
ہی نظر آئیں گے جہاں قدرت نے اس طرح دل کھول کر اپنے وسائل عطا کیے ہیں۔
پہاڑ دریا ، سمندر، سرسبز میدان، معدنی ذخائر، صحرا ،ہرے بھرے گلشن ، بے
شمار اقسام کے درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ، ہزاروں قسم کے پودے اور رنگ
برنگے پھول، ہر قسم کی اجناس، طرح طرح کے پھل ، وافر بارشیں، معتدل اور
آرام دہ موسم، صحت مند مویشی ، گوشت، دودھ ، دہی، مکھن، پنیر کی بہتات،
سبزیوں اور خشک میوہ جات کی افراط، کھلی اور صاف شفاف آب و ہوا ، دلکش ساحل
سمندر ، سمندری خوراک ، محفوظ محل وقوع، غرضیکہ ایسی کون سی نعمت ہے جو
قدرت نے اس سر زمین کو عطا نہیں کی۔
ان سب پر مستزاد یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون ہر رنگ و نسل ، امیر و
غریب اور چھوٹے بڑے کی بلاتفریق حفاظت کا ضامن ہے۔ آسٹریلیا میں صحیح معنوں
میں جمہوریت رائج ہے۔ اس جمہوریت کا فیض ہر شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر،
عورت ہو یا مرد ، عیسائی ہو یا مسلمان ،پرانا آسٹریلین ہو یا نیا، سب کو
پہنچ رہا ہے۔
آسٹریلیا میں تعلیم عام بلکہ لازمی ہے اور اسکول کی حد تک مفت ہے۔ اعلیٰ
سطح پر بھی بغیر کسی معاشی دباؤ کے ہر شخص تعلیم حاصل کر سکتا ہے تاہم ڈگری
لینے اور جاب حاصل کرنے کے بعد آہستہ آہستہ کرکے ان اخراجات کو واپس کرنا
پڑتا ہے۔ اس طرح چاہے غریب ہو یا امیر ہر شخص اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلا
سکتا ہے۔ ایسی مثال دُنیا میں بہت کم ملتی ہے۔اسی طرح عمومی علاج معالجہ
مُفت ہے ۔اسی طرح شہریوں کو دیگر بہت سی خدمات بلا معاوضہ حاصل ہیں خاص طور
پر کمزور، نادار اور ضعیف افراد کے لیے ۔
آسٹریلیا میں مذہبی آزادی ہے۔ ذرائع ابلاغ آزاد ہیں۔ پارلیمنٹ خودمختار اور
عوام کو جواب دہ ہے۔ عدالتیں انصاف کرتی ہیں۔ پولیس عوام کی خدمت کرتی ہے۔
اور بیورو کریسی اپنی حدود کے اندر رہ کر آسٹریلیا کی ترقی اور عوام کی
خدمت پر کمربستہ رہتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ فراخ دل ہیں۔
قانون کی نظر میں نئے اور پرانے آسٹریلین میں کوئی فرق نہیں ۔ اس طرح نیا
شہری یہاں خود کو اجنبی یا غیر محفوظ تصور نہیں کرتا۔
آسٹریلیا کثیر الثقافت ملک ہے۔ ہم اپنے آبائی ملک کی زبان ، لباس، خوراک،
کلچر اور مذہب کو اپنا کر بھی یہاں عزت اور وقار کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
کیونکہ آسٹریلیا کا قانون ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے ۔بس دوسروں کے کلچر
، ان کی زبان ، اس کے لباس اور اس کی روایات کا احترام کریں۔ اس طرح رنگا
رنگ تہذیبوں کے ساتھ آسٹریلیا آگے بڑھتا رہے گا۔ اس سے آسٹریلیا کا حسن
مزید نمایاں ہوگا۔ |