یوم جمہوریہ: جھانکی کی سیاست اور چینی رقابت

ہندوستان ایک کثیر تہذیبی ملک ہے جہاں بے شمار تہوار منائے جاتے ہیں ۔ ان میں صرف دو قومی تہوار یعنی یوم آزادی اور یوم جمہوریہ ایسے ہیں جنہیں سارا ملک مناتا ہے ۔ اس موقع پر دارالخلافہ دہلی میں اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا جسے ملک بھرکے لوگ ٹیلیویژن کے پردے پر دیکھتے ہیں ۔ ان تقریبات کی نوعیت میں ایک واضح فرق ہے۔ یوم آزادی چونکہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی کا دن ہے اس لیے وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب فرماتے ہیں مگر یوم جمہوریہ کو ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ دراصل ملک کے وفاقی نظام کی علامت ہے اور اس دن مختلف صوبوں کی جھانکیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ 2022چونکہ ملک کی آزادی کا 75 واں سال ہے اس لیے ان دونوں قومی تہواروں کو اس بار غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یوم جمہوریہ کی اس طلائی جشن میں موجودہ حکومت کے دہلی سمیت کچھ غیربی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی جھانکیوں کو قومی پریڈ میں شامل نہیں کرنے سے ایک تنازع پیداہوگیا کیونکہ وہاں کےمتعلقہ وزرائے اعلیٰ اور دیگر رہنماوں نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ان میں نہ صرف ممتا بنرجی ، ایم کے اسٹالن بلکہ کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری اور بی جے پی کے معمر رہنما تھتاگت رائےکے ساتھ کیرالہ کے کچھ لیڈر شامل ہیں۔

وزیر اعلیٰ اسٹالن نے مرکزی حکومت کو لکھا کہ جھانکی کی عدم شمولیت سے تمل عوام کے جذبات اور حب الوطنی کو ٹھیس پہنچے گی۔ اسےاپنے صوبے کی کے عوام کی خاطرگہری تشویش کا معاملہ قرار دیتے ہوئےانہوں نے تمل ناڈو کی جھانکی کو پریڈ میں شامل کروانے کی خاطر وزیر اعظم سے مداخلت کی درخواست کردی۔ اس سے پہلے مغربی بنگال کی جھانکی کو شامل نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے ان کی ریاست میں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو یاد دلایا کہ یہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی 125 ویں سالگرہ کا سال ہے اور اس تناظر میں ان کی آزاد ہند فوج کےساتھ کی جانے والی جدوجہد آزادی کا مظہر جھانکی پر یڈ میں شرکت کے لیے بنائی گئی تھی۔ممتا بنرجی نے بھی ایک خط لکھ کر وزیر اعظم نریندر مودی کو فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ۔خیر یہ تو مخالف لوگ ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے شعلہ بیان رہنماتتھاگت رائے بھی اس معاملے میں ممتا کے ہمنوا نظر آئے اور انہوں نے ازخود وزیر اعظم مودی سے مغربی بنگال کی جھانکی کو یوم جمہوریہ تقریبات میں شامل کرنے کی استدعا کی ۔ اس تنازع نے گویا اب خود بی جے پی کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔

ایک طرف ملک کے اندر جھانکا جھانکی کا سیاسی کھیل چل رہا ہے اور دوسری جانب اروناچل پردیش سے بی جے پی کے رکن پارلیمان تاپر گاؤ نے دعویٰ کردیا کہ چین کی فوج نے ریاست کے ہندوستانی علاقے میں گھس کر اپر سیانگ ضلع سے 17 سالہ میرام ترون کا اغوا کرلیا۔ آج تک چینل کے مطابق ایک اور نوجوان جو اس کے ساتھ تھا جان بچا کر لوٹ آیااور اسی کی اطلاع پر یہ معاملہ منظر عام پر آگیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ اس سے قبل ستمبر 2020 میں چینی فوج اروناچل پردیش کے ضلع اپر سبانسری سے پانچ نوجوانوں کو اٹھا کرلے گئی تھی ان کوہندوستانی فوج کی مدد رہا کروانے میں تقریباً ایک ہفتے کا وقت لگا تھا ۔ حالیہ سانحہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے راہل گاندھی نےٹویٹ میں لکھا کہ "یوم جمہوریہ سے کچھ دن پہلے، ہندوستان کے ایک بھاگیہ ودھاتا کا چین نے اغوا کیا ہے۔ ہم میرام تارون کے خاندان کے ساتھ ہیں اور امید نہیں چھوڑیں گے، ہمت نہیں ہاریں گے۔ وزیر اعظم کی بزدل خاموشی ہی ان کا بیان ہے- انہیں فرق نہیں پڑتا۔" راہل گاندھی کی یہ چیخ نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر ڈوب گئی۔

اس سے قبل کانگریس پارٹی کے ترجمان سرجے والا نے کہا تھا کہ "محترم مودی جی، چینی فوج کو ہماری سرزمین پر دوبارہ دراندازی کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ چین کی یہ ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ایک شہری کو اغوا کرکے لے گئے؟ ہماری حکومت خاموش کیوں ہے؟ آپ اپنے ایم پی کی اپیل کیوں نہیں سن رہے ہیں؟ اب یہ مت کہیے گا کہ نہ کوئی آیا، نہ کسی کو اٹھایا‘‘۔ سرجے والا کا اشارہ گلوان وادی میں مودی جی کے شتر مرغ والے بیان کی طرف تھا جس نےساری دنیا کوحیرت کا شکارکردیا تھا ۔ لداخ کی گلوان وادی میں جاری کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس کے ترجمان شکتی سنگھ گوہل نےایک فوجی افسر کےحوالہ سے کہا کہ چین کی سرحد پر پی کے 17 پوائنٹ، گلوان اور کیلاش سرحد پر پہلے چین اور ہندوستان کے فوجی آمنے سامنے تک پٹرولنگ کرکے اپنے اپنے کیمپوں میں لوٹ جاتے تھے لیکن اب سرکار کا وہاں تک ہندوستانی فوج کی پٹرولنگ بند کروادینا انتہائی تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی معلومات غلط بھی ہو سکتی ہیں، اس لیے پی ایم مودی کو چاہیے کہ وہ تمام پارٹیوں کے ارکان پارلیمان کا وفد لے کر سرحد کے ان مقامات پر جائیں اور ملک کو سچ بتائیں نیز فوری طور پر اروناچل پردیش کے مسئلہ پر اپنی خاموشی توڑیں ۔

چین کے ارادے کس قدر ناپاک ہیں اس کا اندازہ گزشتہ سال یکم اکتوبر کے ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی صوبائی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ میں اس کی فوج کے تقریباﹰ سو گھڑسوار ایل اے سی سے تقریباﹰ پانچ کلو میٹر اندر تک داخل ہو گئے لیکن نئی دہلی نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ چند گھنٹوں بعد وہ ازخودلوٹ گئے تھے۔ گودی میڈیا میں تو اس پر خاموشی رہی مگر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں چینی فوجیوں کے اتنا اندر تک آجانے کے باوجود حکومت چپ کیوں ہے؟ چین نہ صرف خود دراندازی کررہا ہے بلکہ نیپال کے ذریعہ بھی ہندوستان پر اعتراض کرواتا رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع میں واقع کالاپانی کا علاقہ ہے جہاں سے ہندوستان کے لیے چینی نقل و حرکت پر نظر رکھنا بہت آسان ہے۔

1962 میں پہلی بار ہندوستان نے یہاں اپنی فوج تعینات کی تھی ۔ کیلاش مانسرور جانے والے زائرین بھی اسی علاقہ میں لیپولیکھ کے درے ّسے گزرتے ہیں ۔1962 سےیہ درہّ بندتھا مگر پھر تجارت و سیاحت کے لیے اسے2015میں کھول دیا گیا۔ 2020 میں حکومتِ ہند نے پتھوڑا گڑھ سے لیکھوپل تک 80 کلومیٹرطویل سڑک بنانے کا کام شروع کیا تو اس پر نیپال نے ناراضی جتائی۔ ویسے تو یہ مخالفت 1990 سے ہورہی ہے لیکن فی الحال چین کی اکساہٹ کے سبب اس میں شدت آگئی ہے۔ نیپال کے اندر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرکے چین اس کو ہندوستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے سڑک پر اعتراض کے بعد کہا تھا کہ اس بابت نیپال کو گمراہ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال بری فوج کے سربراہ ایم ایم نرونے چین کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا کہ نیپال کسی کے بہکاوے میں آکراعتراض کررہا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ چین کی زیادتی میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے جنرل نرونے نےاپنے ایک حالیہ خطاب میں چین کے بجائےپاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہوئے آنجہانی بپن راوت کی یاد تازہ کردی ۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار تربیتی کیمپوں میں تقریباً 300-400 دہشت گرد جموں و کشمیر میں دراندازی کے منتظر ہیں لیکن کنٹرول لائن پر فوجی مہمات اور فوج کے مضبوط ’انسداد دراندازی گرڈ‘ نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون کے ذریعہ ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لئے بھی سرحد پار سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کے بیانات نے آنجہانی جنرل راوت کو حکومتِ وقت کا منظورِ نظر بنادیا تھا اور موجودہ انتخابی موسم میں یہ خطاب کورونا زدہ سرکار کے لیے آکسیجن سلنڈر کا کام کرسکتا ہے۔ ویسے انہوں چین کی بابت بھی اظہار خیال کیا مگر لب و لہجہ مختلف تھا ۔انہوں نے کوئی سخت موقف اختیار کرنے کے بجائےاس اعتراف پر اکتفاء کیاکہ گزشتہ سال ہمارے لئے بہت چیلنجنگ رہا۔

جنرل نرونے کے مطابق شمالی سرحدوں پر چین کوقابو میں رکھنے کے لئے 14ویں سینئر آرمی کمانڈر سطح کی بات چیت ہوچکی جو اپنے آپ میں مثبت پیش رفت ہے۔ موجودہ صورتحال کو باہمی اور مساوی سلامتی کے اصول کی بنیاد پر حل کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔اس کے برعکس بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی اس گفت و شنید کو بے سود قرار دیتے ہیں ۔ ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس سروس آنجہانی جنرل بپن راوت کی حادثاتی موت کو پورے ڈیڑھ ماہ کا طویل عرصہ گزرچکاہے لیکن ابھی تک ان کے جانشین کا اعلان نہیں ہوا۔ اس تاخیر سے بری افواج کے سربراہ جنرل ایم ایم نرونے کو تشویش فطری ہے کیونکہ ہر پہلو سے وہی اس عہدے کے حقدار ہیں۔ توقع ہے کہ اپریل میں سبکدوشی کے بعد وہ اس عہدے پر فائز ہوجائیں گے کیونکہ ان کاجانشین بھی تقریباً طے ہوچکا ہے۔ ویسے لداخ میں تعمیر ہونے والے پُل اور اروناچل کے اغواء پر وزیر اعظم نہ سہی تو کم ازکم جنرل نرونے کو اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔ یوم جمہوریہ سے پہلے شام میں صدر مملکت قوم سے خطاب کرتے ہیں جو حکومت کا عندیہ ہوتا ہے۔ موصوف اگراس میں چینی دراندازی پر سختی کے ساتھ گرفت فرمائیں تو وہ 75ویں یوم جمہوریہ کے شایانِ شان بیان ہوگا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.