تہذیبی یلغار اور اس میں ڈراموں کا کردار

آج باطل مکمل طور پر انٹرٹینمنٹ پر قابض ہے۔ اس کا نشانہ نوجوان نسل ہے۔بے راہ روی، فحش گوئی، عریانیت سے لبریز مواد آج ہر پلیٹ فارم پر دستیاب ہے۔ ایسے میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں موجود ذمے دار اشخاص اس چیلینج کا ادراک کرتے ہوئے نسل نو کو محفوظ کریں۔


قارئین ! کہا جاتا ہے باطل جہاں پہنچتا ہے وہاں کے مال اور ابلاغ کے ذرائع کو اپنی مٹھی میں کرلیتا ہے پھر اگلے مرحلے میں اپنے وجود کو مقامی سطح پر عوام میں مقبول کرواتا ہے تاکہ مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور آخر میں وہاں قابض ہوجاتا ہے اور اسکی جنگ صرف ان چند مزاحمت کاروں سے ہوتی ہے کو جو ان کی سازش کو سمجھ جاتے ہیں اور ان سے حق و باطل کے پیمانے پر مزاحمت کرتے ہیں۔

یہ اصول دنیا میں ہر جگہ باطل نے اپنایا اور وہ کامیاب رہا سوال یہ ہے کہ اسکی کامیابی کی وجہ کیا ہے ؟

موجودہ دور میں جنگوں کا مزاج مختلف ہے۔جہاں زمینی جنگ نہیں لڑی جاسکتی وہاں تہذیبی و ثقافتی یلغار کے ذریعے اقوام کو زیر کرنا اب باطل کا ہدف ہے۔اس مقصد کیلئے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کو اس نے بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز کی ڈرامہ انڈسٹری ایک زمانے سے باطل کے نشانے پر ہے اور وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر صاحب کہتے ہیں "میری قوم اپنے ڈراموں سے سیکھتی ہے"

ایک زمانہ تھا انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا،بانو قدسیہ،اشفاق احمد جیسے مایہ ناز ڈرامہ نگار جب اپنا قلم صفحات کے حوالے کرتے تو نتیجہ ان ڈراموں کا قوم کی تربیت میں واضح کردار ادا کرتا ہو نظر آتا تھا۔ ایک طویل فہرست ان شاہکار ڈراموں کی ہے کہ جن کو پی ٹی وی کا "بہترین دور"میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسکے برعکس نجی چینلز نے ایک ایجنڈے کے تحت معاشرتی مسائل کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کیا گو کہ ایک حد تک یہ مسائل موجود ہیں مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صرف انکو ہی دکھایا جاتا رہے۔بدقسمتی سے ریاست کے دیگر اداروں کی طرح انٹرٹینمنٹ کو بھی نجی اداروں کے حوالے کردیا گیا یہ ڈراموں سے محبت کرنے والی ایک قوم سے بڑی خیانت ہے۔اس قوم سے تفریح کا سامان چھینا گیا کہ جس نے دنیا کو ایسے فنکار اور اداکار دیے کہ جنہوں نے انتہائ کم وسائل میں اداکاری کے وہ پیمانے ترتیب دیئے ہیں کہ ان کے جانے بعد اب شاید آنکھیں ان پیمانوں پر ادکاری کرتے ہوئے شاید نہ دیکھ سکیں گی۔ انکے خیالات کو سرمایے کی پوجا کرنے والے اس نجی شعبے نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

آج 90 فیصد ڈراموں کا مرکز صرف معاشرے میں موجود برائ پر ہے۔ ڈرامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں صرف جرم ہی پنپتا ہے اور یہ روایات اور اقدار سے عاری معاشرہ ہے اس بات کا اندازہ انور مقصود کی اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔بقول انور مقصود کہ "جمعرات کی رات 8:30 بجے ، 'تم میرے پاس ہو جمعرات کی رات گیارہ بجے 'مجھے بیٹا چاہیئے' جمعرات کی رات بارہ بجے 'ناممکن' … رات ساڑھے بارہ بجے 'چیخ'… اب پروگراموں کے ایسے ناموں کے بعد میں ڈرامہ کیسے لکھ سکتا ہوں؟"بقول شاہنواز فاروقی "آج ہماری تفریح مغرب کے ہاتھوں یرغمال ہے آج ڈراموں میں وہی چیز دکھائ جاتی ہے جو انکی(مغرب) کی منظور نظر ہے"

کئ عوامل اس میں کارفرما ہیں۔ یہ بات محسوس ہی نہیں کی جاتی کہ جو ملک جس نظریے کیساتھ موجود ہے وہ نظریہ اسکے تمام اداروں پر اثر انداز ہوتا ہے اسکی مثال یوں لیں کہ آج ہماری تفریح پر "بالی ووڈ" مکمل غالب ہے۔ ہماری فلم کا معیار آج مکمل طور پر بھارتی فلم انڈسٹری سے لیا جارہا ہے۔ بالی ووڈ اداکاروں کے خیالات کا اندازہ اس طرح لگایا جائے کہ بالی ووڈ کی معروف اداکارہ نے ایک بیان میں کہا"اگر مجھےبالی ووڈ میں چانس نہ ملتا تو میں فحش فلموں کی اداکارہ ہوتی"معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کا کہنا ہے کہ "آج کی بالی ووڈ فلمز میں موجود موسیقی سننے کے قابل نہیں" چونکہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے سیکولرازم اپنی اصل میں ایک خدا بیزار نظریہ ہے اسی وجہ سے وہاں کی تفریح بھی اسی کی ترجمان ہے۔ Asur، sacred games اور اس جیسی ویب سیریزس کا جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف آپ پر ہوتا ہے کہ ان کا پلاٹ بنیادی طور پر مذہب بیزاری اور خدا بیزاری کو فروغ دیتا ہے۔ تصورات کو تباہ کرنے،اقدار کو پامال کرنا انکا مقصد بن گیا ہے۔ یہاں ایک امر قابل غور ہے 2018 کے اوائل میں اسرائیلی وزیراعظم نے بھارت کا ایک ہفتے پر محیط دورہ کیا جس میں انھوں نے بالی ووڈ کی ممتاز شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔اس دورہ کے بعد مسلم دشمنی،اسلام کی مخالفت پر مبنی مواد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ایک خاص مقصد کے تحت نئ نسل کو دینی و دنیاوی مقاصد سے دور کیا جارہا ہے وہ اپنے مقاصد سے بے خبر ہیں ۔ آج انکی زندگی کا محور "محبت" "محبت میں ناکامی"اسی کے گرد رہ گیا ہے۔ مسلم نوجوان کا تصور جو اقبال رح کی نظر میں تھا آج کا مسلم نوجوان اس سے کوسوں دور ہے۔اس تناظر میں اگر ہم اس نظم پر ایک نطر ڈالیں تو یہ بات اور واضح ہوجائیگی:

دیکھا جائے تو اس بدحالی کا ذمےدار جہاں پاکستان میں موجود خدا بیزار طبقہ ہے وہیں اس جرم میں حکمران طبقہ بھی برابر کا شریک ہے۔ تہذیبی ،مذہبی ،فکری بحران کو سمجھنا تو درکنار انکو بحران تک نہیں سمجھا جاتا۔ انھوں نے اجتماعی تفریح کے ذریعہ تربیت کے راستے کو ترک کیا اس کے جواب میں دشمن نے ان ذرائع کو اپنے استعمال میں لاکر اپنے نظریات کی ترویج کیلئے کام کیا۔نتیجہ اسکا ہمارے سامنے ہے ۔ ہماری تفریح آج ہمارے معاشرتی بحران کی بنیاد بنی ہوئ یے۔

حال ہی میں ترکی کے ڈرامے "دیریلس ارطغرل" اندھیری رات کے بعد ایک امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔اس ڈرامے نے مسلم امت میں ایک تہلکہ مچادیا ہے۔ بات خلیج کی کی جائے تو قطر کویت میں اس کو بھرپور پذیرائی ملی ہے۔جبکہ متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور مصر نے اسکی کھل کر مخالفت کی ہے جو کہ انکی منافقانہ اور مغرب پسند سوچ کا عکاس ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے اسکو ترکی کا "سوفٹ ایٹم بم" قرار دیا۔اس کا جواب اردگان کچھ یوں دیا کہ "جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے"
آج یہ ڈرامہ کشمیر میں بہت مقبول ہے جبکہ پاکستان بنگلہ دیش میں اسکی مقبولیت میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کی مقبولیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ Netflix جو کہ ایک امریکی نشریاتی ادارہ ہے یہ اس پلیٹ فارم پر بھی ٹرینڈنگ میں نمبر 1 پر ہے۔

"تخلیق ایسی جو لاکھوں نفوس کا تخیل بن جائے
بلاشبہ ڈرامے نے لوگوں کو وہ بنیاد دی ہے سوچنے کی کہ دین جب عملا نافذ ہوجاتا ہے تو اس کی برکت قوم دین و دنیا کے ہر معاملے میں محسوس کرتی ہے۔ وہ اپنے امیر کی اطاعت کرتی ہے اور ہر مشکل موڑ پر اسکا سہارا بھی بن جاتی ہے۔ دنیاوی فوائد کو حقیر جان کر اس دنیا کو اپنی آخرت کا سامان بنانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔آج امت پھر منتظر ہے ایمان سے لبریز کسی "ارطغرل" کی جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکو للکارے جبکہ اپنوں کیلئے اسکا لہجہ محبت سے بھرا ہو۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب آخرت میں قوم اور اسکے امیر کے دل میں پوچھ گچھ کا ڈر ہو۔ یہ ڈر ہی ہے آخرت کا جو انسان کو اپنے عہدے سے بد دیانتی کرنے سے روکتا ہے اور دین کے بنیادی عقائد میں یہی ہے انسان ہر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ وہ اسکا جوابدہ ہے"
۔ (درج بالا سطور میں ڈرامے کا ایک سرسری نقشہ کھینچا گیا ہے)۔

اس ڈرامے میں دینی اقدار شعائر اور دین کے بنیادی تصورات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں پیدائش سے لے کر قبر تک کی جتنی منازل انسان طے کرتا ہے ان کو دینی تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈرامے میں حق و باطل کے بنیادی فرق کو بھی مکمل طور پر واضح کیا گیا ہے۔ خلافت عثمانیہ ترک و مسلم تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور اس تاریخ سے وہ اپنی نسل کو روشناس بھی کروارہے ہیں اسکے برعکس پاکستانی شائقین صرف"ساس بہو کے جھگڑے،عشق مجازی کے فلسفوں،معاشرتی برائیوں" کو دیکھنے کیلیئے رہ گئے ہیں۔

لکھنے والوں سے سوال ہے۔

کیا برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کے ابواب موجود نہیں ؟ نواب سراج الدولہ ٹیپو سلطان جیسے مسلم امہ کے پیروز اس قابل نہیں کہ انکے حوالے سے بھی قوم کو ڈرامے کے ذریعے آگاہ کیا جائے ؟

کیا برصغیر کی غیور مسلمان قوم اپنی تاریخی حیثیت میں بانجھ ہے ؟ ان ہیروز کی آپکے نزدیک اتنی وقعت بھی نہیں کہ انکے حوالے سے کچھ ترتیب دیا جاسکے ؟

ان شخصیات کے کردار کو اجاگر کرنا آج وقت کی اشد ضرورت ہے۔اگر ہم نے آج اپنے نوجوان کو نہیں سنبھالا اور اسکو اپنی روشن تاریخ سے آگاہ نہ کیا تو کل یہ نوجوان اپنی پستی کا ذمےدار ہم کو سمجھے گا اور یہ اس میں حق بجانب ہوگا۔
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.