#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 41 تا 44
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذکر عبدنا
ایوب اذناٰربهٗ
انی مسنی الشیطٰن
بنصب و عذاب 41 ارکض
برجلک ھٰذا مُغتسل بارد وشراب
42 ووھبنالهٗ اھلهٗ ومثلھم معھم رحمة
منا وذکرٰی لاولی الاباب 43 وخذ بیدک ضغثا
فاضرب بهٖ ولاتحنث اناوجدنٰه صابرا نعم العبد انهٗ
اواب 44
اے ھمارے رسُول ! آپ ھمارے اُس صابر و شاکر بندے اَیُوب کا وہ اَحوال بھی
تو بیان کریں کہ جب اپنے ایک سفر کے دوران وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر تنہا
و پیاسا اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکا تھا اور اسی دوران وہ کسی زہریلے جانور
کے کاٹنے یا کسی زہریلے درخت کی زہریلی شاخ سے زخمی ہو کر حال سے بے حال ہو
چکا تھا اور اُس وقت اُس نے انتہائی رَنج و اضطراب کے ساتھ اپنے رَب سے کہا
تھا کہ بارِ اِلٰہ ! شیطان نے مُجھے بھٹکا کر ایک تنہا و لاچار اور زخمی و
نادار مسافر بنا دیا ھے ، اَب تُو ہی میرا وہ خالق و مالک ھے جو مُجھے اِس
اذیت سے نجات دلا سکتا ھے اور ھم نے اُس کی یہ درخواست سُن کر اُس کو حُکم
دیا تھا کہ تُو یہاں سے چلتا ہوا کُچھ اور بھی آگے چلتا چلا جا جہاں پر
تیرے نہانے کے لیۓ ٹھنڈے اور تیرے پینے کے لیۓ میٹھے پانی کا ایک چشمہ
موجُود ھے جس کا پانی تُو نے پینا ھے اور اپنے جسم پر بھی بہانا ھے ، اسی
ٹھنڈے اور میٹھے چشمے کے پاس ہی وہ جڑی بُوٹی بھی موجُود ھے جس کے پتوں کی
ایک مُٹھی کو تُو نے اپنی مُٹھی میں لے کر مسلنا ھے اور مَسل کر اپنے زخم
پر لگانا ھے ، جب اُس نے ھمارے اِس حُکم کی تعمیل و تکمیل کردی تو ھم نے
اپنی رحمت سے اُس کے بچھڑے ہوۓ ساتھی بھی اُس کے پاس پُہنچا دیۓ تھے اور
اُس کے اُن بچھڑے ہوۓ ساتھیوں کے اُس قافلہِ سفر کے ساتھ جو نئے شرکاۓ سفر
شامل ہو کر آۓ تھے وہ بھی اَیُوب کے صبر و استقامت کو دیکھ کر اُس پر ایمان
لے آۓ تھے ، اَیُوب و صبرِ اَیُوب کا یہ واقعہ اہلِ عقل کے لیۓ ھماری یہ
یاد دھانی ھے کہ ھم نے اپنے اِس بندے کو اُس کی اِس کڑی آزمائش میں بیحد
صابر و شاکر پایا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے سُورَةُالنساء کی اٰیت 163 میں پہلی بار جہاں پر اللہ
تعالٰی کے 12 اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کا ذکر کیا ھے وہاں پر اُس نے ذکرِ
یُونس سے پہلے اور ذکرِ عیسٰی مسیح کے بعد اللہ تعالٰی کے ساتویں نبی کے
طور پر اَیُوب علیہ السلام کا ذکر کیا ھے اور قُرآنِ کریم نے
سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 84 و 85 میں دُوسری بار جہاں پر اللہ تعالٰی کے18
اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کا ذکر کیا ھے تو وہاں پر بھی اُس نے اَیُوب
علیہ السلام کا ذکرِ یُوسف سے پہلے اور ذکرِ سلیمان کے بعد اللہ تعالٰی کے
ساتویں نبی کے طور پر کیا ھے ، اِن دو مقامات کے بعد ذکرِ اَیُوب کا تیسرا
مقام سُورَةُالاَنبیاء کی وہ اٰیت 84 ھے جہاں پر قُرآن نے تیسری بار اَیُوب
علیہ السلام کا انفرادی طور پر اُن کی اِس دُعاۓ مُنفرد { رب انی مسنی الضر
و انت ارحم الرٰحمین } کے ساتھ ذکر کیا ھے اور اِس سُورت میں ذکرِ اَیُوب
کا یہ چوتھا مقام قُرآنِ کریم کا وہ آخری مقام ھے جہاں پر اَیُوب علیہ
السلام کے مرض و علاجِ مرض اور شفاۓ مرض کا انفرادی طور پر ذکر کیا گیا ھے
اور اُس ذکر کی غرض و غایت اُن کا وہ مثالی صبر ھے جس کو ایک مُفرد و
مُنفرد مثال کے طور پر بیان کیا گیا ھے ، قُرآنِ کریم نے جس طرح اَیُوب
علیہ السلام کے جبرِ حالات کا اور جس انداز میں اُن جبرِ حالات پر اُن کے
صبر و ثبات کا ذکر کیا ھے اُس سے صاف ظاہر ھے اُن پر آنے والے اُن جبرِ
حالات کا دورانیہ چند گھنٹوں یا چند دنوں پر محیط نہیں تھا بلکہ چند ہفتوں
یا چند مہینوں سے زیادہ تھا لیکن قُرآنِ کریم نے اُس مُدت کا ذکر نہیں کیا
ھے کیونکہ قُرآنِ کریم کے اِس واقعاتی تسلسل میں وہ مُدت اہم نہیں ھے بلکہ
جس ہستی پر وہ مُدت گزری ھے اُس ہستی کی ذات اور اُس ہستی کا وہ صبر و ثبات
اہم ھے جس کا قُرآن نے ذکر کیا ھے ، دُنیا کے کُچھ غیر ترقی یافتہ مُلکوں
اور علاقوں میں آج بھی پیدل سفر کیا جاتا ھے اور حفاظتی نقطہِ نظر سے آج
بھی وہ سفر چھوٹے بڑے قافلوں کی اُسی معروف صورت میں کیا جاتا ھے جس معروف
صورت میں پہلے زمانے میں کیا جاتا تھا لیکن اَیُوب علیہ السلام کا زمانہِ
نبوت جو 1000 تا 700 قبل مسیح یا 1520 قبل مسیح کا زمانہ بتایا جاتا ھے اُس
زمانے کے سارے لوگ ہی پیدل سفر کیا کرتے تھے اور بڑے بڑے قافلوں کی صورت
میں سفر کیا کرتے تھے اور جو لوگ قافلے سے بچھڑ کر بھٹک جاتے تھے وہ کبھی
کبھی عُمر بھر کے لیۓ ایک دُوسرے سے بچھڑ جاتے تھے اور جو بچھڑے ہوۓ لوگ
کبھی باہم مل بھی جاتے تھے تو وہ ایک طویل عرصے کے بعد جا کر ہی کہیں مل
پاتے تھے ، قُرآن کریم نے اَیُوب علیہ السلام کے جس سفر کا واقعہ بیان کیا
ھے وہ بھی کوئی ایسا ہی طویل دورانیۓ کا سفر تھا جس کے ایک حصے میں اُن کی
ذات پر وہ حالات گزرے تھے جن حالات میں اُنہوں نے صبر و ثبات کا وہ عظیم
الشان مظاہرہ کیا تھا جس کو قُرآنِ کریم نے اپنا موضوعِ سُخن بنایا ھے ،
اہل روایت کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے نبی اُیُوب علیہ السلام پر جلد کے
کسی ایسے موذی مرض نے حملہ کر دیا تھا کہ اُس مرض کے دوران اُن کی ایک بیوی
کے سوا اُن کے تمام عزیز و اقارب بلکہ اُن کے اپنے بچے بھی اُن کو تنہا
چھوڑ گۓ تھے اور بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد نہ صرف اُن کے وہ سارے بچے
ہی اُن کے پاس واپس آگۓ تھے بلکہ اُن کے ہاں اور بھی بہت سے بچے پیدا ہوۓ
تھے لیکن اِس دوران اُنہوں نے اپنی بیوی کی کسی بات پر بر افروختہ ہو کر دل
ہی دل میں اُس کو کُچھ تازیانے لگانے کی قسم کھالی تھی جس کا اللہ تعالٰی
نے اُن کو کوئی حل بتانے کے بجاۓ یہ حیلہ بتا دیا تھا کہ تُم نے اپنی بیوی
کے جسم پر جتنے تازیانے لگانے کی قسم کھائی تھی تو اَب تُم جھاڑو کے اتنے
ہی تنکوں کا ایک مُٹھا بنا کر ایک ہی بار اُس کے جسم پر مار دو جس سے
تُمہاری وہ قسم پُوری ہو جاۓ گی اور اہلِ روایت کی اِن باطل روایات کے
مطابق اَیُوب علیہ السلام نے اسی طرح اپنی وہ قسم پُوری کی تھی ، اٰیاتِ
بالا کے الفاظ و ربطِ الفاظ اور اُن کے مفہوم و ربطِ مفہوم سے جو علمی و
عقلی مضمون انسانی سمجھ میں آتا ھے وہ اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ھم
نے درج کر دیا ھے لیکن اٰیاتِ بالا کے اُس معقول مفہوم کے برعکس اہلِ روایت
نے جو کہانی وضع کی ھے اُس کہانی کو تو اگرچہ بو جوہ نظر انداز کیا جا سکتا
ھے لیکن اُن کی طبیعتِ حیلہ جُو نے جو یہ حیلہ نکالا ھے کہ جس آدمی کو جتنے
تازیانے لگانے کی قسم کھائی گئی ہو اُس کو اتنے ہی جھاڑو کے تنکے جوڑ کر
ماردینا ہی کافی ھے تو اُن کا یہ حیلہ کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا
جا سکتا کیونکہ عدالت کا فیصلہ بھی ایک قسمیہ حُکم ہی ہوتا ھے اور اُس
عدالتی حُکم کو جھاڑو کے تنکوں سے ٹالنا ایک قانونی جرم ہوتا ھے اور اُس
جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد بھی قانون کے مجرم ہوتے ہیں لیکن اہلِ روایت
نے اِس اٰیت کی تفسیر کرتے ہوۓ مزید ستم یہ کیا ھے کہ بوڑھے زانی اور بوڑھی
زانیہ کو بھی اسی حیلے سے مُستفید ہونے کا یہی حق دے دیا ھے ، چناچہ مولانا
مودودی مرحوم لکھتے ہیں کہ { متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ھے کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ایسے زانی پر حد جاری کرنے کے معاملے میں بھی اِس اٰیت
کا بتایا ہوا طریقہ استعمال فرمایا ھے جو [ آدمی ] اتنا بیمار یا اتنا ضعیف
ہو کہ سو دُروں کی مار برداشت نہ کر سکے ، علّامہ ابو بکر جصاص نے حضرت
سعید بن سعد بن عبادہ سے روایت نقل کی ھے کہ قبیلہ بنی ساعد میں ایک شخص سے
زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ ایسا مریض تھا کہ بَس ہڈی اور چمڑہ ہی رہ گیا تھا
، اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ( خذوا عثکالا فیه مأة
شمراخ فاضربوه بھا ضربة واحدة) کھجور کا ایک ٹہنا لو جس میں سو شاخیں ہوں
اور اس سے بیک وقت اُس شخص کو مارو } یعنی اہلِ روایت کے نزدیک جرمِ زنا کا
یہ سنگین معاملہ اَب اتنا آسان ہو گیا ھے کہ کسی قانون اور عدالت کی ضرورت
ہی نہیں رہی ھے ، بس زانی اور زانیہ زنا سے پہلے اپنے پاس سو تنکوں کا ایک
ایک گٹھا خود ہی رکھ لیا کریں اور زنا کرنے کے بعد اُلٹے ہاتھ کی انگلیوں
کو بلند کر کے چومتے ہوۓ دُوسرے ہاتھ میں پکڑے ہوۓ سو تنکوں کے اُس گٹھے کو
ایک بار ایک دُوسرے کے جسم پر مار لیا کریں تو اُن کی قانونی سزا پر عمل در
آمد ہو جاۓ گا ، ھم حیران ہیں کہ؏
زمینِ چمن گُل کھلاتی ھے کیا کیا
بدلتا ھے رنگ آسماں کیسے کیسے
|